Quantcast
Channel: Health News and Tips in Urdu - صحت - ایکسپریس اردو
Viewing all 5215 articles
Browse latest View live

یہ تین موبائل گیمز آپ کی یادداشت اور فکری لچک بڑھا سکتے ہیں!

$
0
0

کیلیفورنیا: تین ڈجیٹل گیمز ایسے ہیں جو بچوں اور بڑوں کی یادداشت، سوچنے کی قوت اور کسی کام پر ارتکاز یعنی فوکس کو بڑھا سکتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ سائنس دانوں نے ان گیمز کی افادیت کے سائنسی ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔

یہ تمام گیم گوگل پلے اسٹور اور ایپل فون کے لیے بھی بالکل مفت میں دستیاب ہیں۔ گیم سازی میں دماغی ماہرین کو بطورِ خاص شامل کیا گیا ہے اور تینوں گیمز یادداشت بہتر کرسکتے ہیں، کام پر توجہ کو بہتر بناتے ہیں اور سوچنے کے عمل میں دماغی لچک کو جلا بخشتے ہیں۔

یہ تینوں گیمز کئی برس کی تحقیق کے بعد بنائے گئے ہیں جنہیں نیویارک یونیورسٹی میں ڈجیٹل میڈیا کے پروفیسر نے ڈیزائن کیا ہے۔

GWAKKAMOLÉ

سائنس دانوں کا تیار کردہ یہ گیم توجہ، رویے، خیالات یا جذبات کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ گیم میں ایواکیڈو پھل کو مختلف ٹوپیاں پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی نے سخت ہیٹ پہن رکھا ہے تو دوسرا کانٹے دار ہیلمٹ کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔

اس گیم میں فروٹ ننجا گیم کی طرح کچھ پھلوں کو توڑنا ہوتا ہے اور ٹوپی والے پھلوں کو چھوڑدینا ہوتا ہے۔ بعض پھل سخت، کانٹے دار یا پھر بجلی والے ہیٹ پہنے ہوتے ہیں، گیم آگے بڑھنے پر ایواکیڈو کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور انہیں مارنے کی رفتار بھی بڑھتی ہے۔

بغیر ہیٹ کے پھلوں کو مارنے کے پوائنٹس ملتے ہیں اور ہیٹ والے پھل کو توڑنے سے پوائنٹس کم ہوجاتے ہیں۔ اس گیم سے ردِ عمل اور فوکس میں مدد ملتی ہے۔

Crush Stations

کرش اسٹیشن بھی اوپر کی طرح کا ایک گیم ہے جس میں پھل کے بجائے سمندری جانور شامل کیے گئے ہیں۔ یہ گیم عملی (ورکنگ) یادداشت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور دماغی پروسیسنگ کے عمل کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس سے انسانوں میں روزمرہ کی معلومات جذب کرنے اور استعمال کرنے کے عمل کو جان کر اسے افزودہ کرکے اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

کرنچ اسٹیشن گیم کی اسکرین کے عین درمیان سمندر کی گہرائی میں نارنجی رنگ کی آکٹوپس ہے جس کے ساتھ مچلی، مونگے یا کورال اور اندر رکھا خزانہ بھی ہے۔

گیم میں بھوکے آکٹوپس سے بچانے کے لیے ہر جاندار کی قسم اور رنگ یاد رکھنا ہوتا ہے۔ اس طرح جانور کا رنگ اور قسم یاد رکھ کر آپ اسے آکٹوپس کے چنگل سے نکال سکتے ہیں۔ بصورت دیگر رنگ اور قسم بھول جانے پر آکٹوپس اسے نگل لیتی ہے۔

All you can ET

اس گیم کا نام ہے آل یو کین ای ٹی، یعنی خلائی مخلوق، اس گیم کا مقصد دماغی لچک کو بڑھانا ہے اور اس میں آپ کو دو مختلف صورتحال میں سے بار بار گزرنا ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں مختلف صورتوں پر غور کرنا ہوتا ہے جس سے دماغی وسعت اور لچک بڑھتی ہے۔

گیم میں پیلی اور سبز ایلین کو دیکھا جاسکتا ہے جو ٹاور پر رکھے کپ کیک اور ڈسپلے ٹاور پر منڈلاتی رہتی ہیں۔ گیم میں مخلوقات کو کھانا دے کر انہیں زندہ رکھنا ہوتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہر ایلین کھانے کے بارے میں اپنا موڈ بدل لیتی ہے اور اس کا انحصار ان کی آنکھوں کی تعداد اور جسمانی رنگت پر ہوتا ہے۔

مثلاً گول جسم اور دو آنکھوں والی ایلین صرف کپ کیک کھاتی ہے۔ ایک آنکھ والی سبز خلائی مخلوق صرف ملک شیک پیتی ہے۔ گیم کا مشکل مرحلہ بتدریج بڑھتا ہے اور ایلینز کھانے میں مزید نخرے دکھاتی ہیں۔

گیم پر تحقیق کا خلاصہ

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا باربرا کے سائنس دان پروفیسر رچرڈ مائر کہتے ہیں کہ دو گھنٹے یہ گیم کھیلنے سے دماغی صلاحیت بہترین ہوسکتی ہے۔ ٹیم کے مطابق سائنسی طور پر ان گیمز کی افادیت سامنے آچکی ہے۔ اگلے مرحلے میں ان کی افادیت پر ایک کتاب بھی لکھی جارہی ہے جسے ایم آئی ٹی پریس نے چھاپنے کا اعلان کیا ہے۔

The post یہ تین موبائل گیمز آپ کی یادداشت اور فکری لچک بڑھا سکتے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.


کم چکنائی والا دودھ بڑھاپے کو دور رکھنے میں مددگار

$
0
0

 نیویارک: کم چکنائی والا دودھ بڑھاپے کی رفتارکوکم کرسکتا ہے اورایک سروے سے انکشاف ہوا ہےکہ اس کے استعمال سے انسانی کروموسوم کے سرے پر موجود ٹیلومریز کے سکڑنے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلومریز کی لمبائی کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہم جیسے جیسے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں کروموسوم کے کناروں پر حفاظتی ٹیلومریز چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ اس کا براہِ راست تعلق عمررسیدگی سے ہوتا۔ اب ماہرین نے کم درجے کی چکنائی اور ٹیلومریز کے درمیان ایک تعلق دریافت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تحقیق کی بنا پر انسانی زندگی میں کئی برس کا اضافہ ممکن ہے۔

برگھم ینگ یونیورسٹی کے محققین نے 5834 ایسے افراد کو بھرتی کیا جو مختلف اقسام کے دودھ باقاعدگی سے پیتے تھے۔ ان میں سے لوگوں کی نصف تعداد روزانہ دودھ پیتی تھی اور 25 فیصد افراد نے کہا کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ دودھ پیتے ہیں۔ ایک تہائی شرکا نے کہا کہ وہ پوری چکنائی والا دودھ نوش کرنا پسند کرتے ہیں۔ 30 فیصد نے کہا کہ وہ دو فیصد چکنائی کا حامل دودھ پسند کرتے ہیں۔ 10 فیصد افراد نے کہا کہ وہ ایک فیصد چکنائی والا دودھ پیتے ہیں اور 13 فیصد نے کہا کہ وہ دودھ پینے کے شوقین نہیں۔

ماہرین نے مختلف گروہوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ زائد چکنائی والے دودھ پینے والوں میں ٹٰیلومریز چھوٹے دیکھے گئے اور جنہوں نے دو فیصد چکنائی والا دودھ پینے کا عمل جاری رکھا ان کے ٹیلومریز قدرے طویل تھے جو زندگی میں چار سال کے اضافے کے برابر ہوسکتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ زائد چکنائی والا دودھ ٹیلومریز کو بڑھاوا نہیں دیتا اور یوں اس قسم کے دودھ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تاہم دیگر ماہرین نے اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید جو لوگ دو فیصد چکنائی والا دودھ پیتے ہیں وہ ورزش، خوراک اور اپنی صحت کا بہتر خیال بھی رکھتے ہیں اور ان باتوں کو سروے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے اس پر معاملے میں مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔

The post کم چکنائی والا دودھ بڑھاپے کو دور رکھنے میں مددگار appeared first on ایکسپریس اردو.

دل کی بیماری اور فالج سے بچنا ہے تو چائے پیجیے

$
0
0

بیجنگ: چین میں کی گئی دس سالہ تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ لوگ جو ہفتے کے سات دنوں میں کم سے کم تین مرتبہ چائے پیتے ہیں، ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کے امکانات بھی چائے نہ پینے والوں کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ چائے کے فائدوں میں اہم ترین کردار ’’پولی فینولز‘‘ قسم کے مرکبات کا ہوتا ہے جو سیاہ اور سبز چائے کے علاوہ دوسری غذاؤں میں بھی وافر پائے جاتے ہیں۔

بیجنگ میں واقع ’’چائنیز اکیڈمی آف بایولاجیکل سائنسز‘‘ کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ صحت مند افراد پر 10 سال تک کی گئی اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ پورے ہفتے میں تین سے چار مرتبہ صرف ایک ایک کپ چائے پینے والوں میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ ایسے افراد کی نسبت نمایاں طور پر کم تھا جو چائے نہیں پیتے۔

اس تحقیق میں ایک طرف یہ بات سامنے آئی کہ چائے سے وابستہ فوائد کی سب سے بڑی وجہ اس میں شامل ’’پولی فینولز‘‘ مرکبات ہیں تو دوسری جانب یہ بھی پتا چلا کہ سیاہ چائے کے مقابلے میں سبز چائے پینے والوں کو زیادہ فائدہ پہنچا۔ اسی طرح وہ لوگ جو طویل مدت سے زیادہ چائے پینے کے عادی تھے، یعنی وہ روزانہ کم سے کم ایک یا دو کپ چائے پیتے تھے، ان میں امراضِ قلب اور فالج کی شرح بھی کم چائے پینے والوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھی۔

عادی چائے نوشوں میں دل کی بیماری یا فالج کے باعث مرنے کی شرح، چائے نہ پینے والوں کے مقابلے میں 22 فیصد تک کم نوٹ کی گئی جبکہ دیگر طبّی امراض سے ان کی اموات میں بھی 15 فیصد کمی دیکھی گئی۔

زیادہ مقدار میں اور زیادہ طویل مدت سے چائے پینے والے افراد کو اس عادت کا اضافی فائدہ یہ ہوا کہ ان میں دل کی ہلاکت خیز بیماریوں یا فالج کا خطرہ 56 فیصد تک کم ہوگیا۔

بعض ماہرین نے اس تحقیق پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں صرف چائے کے استعمال اور امراضِ قلب یا فالج سے اموات کے آپس میں تعلق کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ لہذا اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ چائے نوشی اور دل کی بیماریوں/ فالج کا آپس میں تعلق ہے لیکن یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سارا فائدہ چائے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

یہ جاننے کے لیے اس سے کہیں زیادہ منظم مطالعے کی ضرورت ہے جس میں پوری احتیاط سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔

The post دل کی بیماری اور فالج سے بچنا ہے تو چائے پیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانوں میں دریافت شدہ نئے خلیات سے مختلف کینسرکا قلع قمع ممکن

$
0
0

 لندن: انسانی جسم میں خاص طرح کے امنیاتی خلیات (ٹی سیلز) دریافت ہوئے ہیں جو کئی اقسام کے سرطان کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سائنس دانوں کے مطابق یہ کئی طرح کے کینسر کو نشانہ بناسکتا ہے۔

سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے مشترکہ طور پر نیا امنیاتی خلیہ دریافت کیا ہے۔ اس سے قبل سی اے آر ٹی امیونو تھراپی بھی ایک اہم کارنامہ تھا جس میں کسی بھی مریض کے مرض کو دیکھتے ہوئے ذاتی طور پر علاج تجویز کیا جاتا ہے۔ اس میں کینسر کے مریض کے جسم سے امنیاتی خلیات لے کر ان سے علاج کیا جاتا ہے جسے امیونو تھراپی کا نام دیا گیا ہے۔

لیکن سی اے آر ٹی امیونو تھراپی میں ایک خرابی یہ ہے کہ اس سے ہر طرح کے کینسرکا علاج ممکن نہیں، دوم یہ بہت وقت طلب اور مضر ضمنی اثرات والا علاج بھی ہے۔

برطانیہ میں کارڈف یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر اینڈریو سیویل اور ان بین الاقوامی ماہرین نے نیچر امیونولوجی میں اس دریافت کا احوال پیش کیا ہے۔ نودریافت ٹی سیل کینسر اور صحت مند خلیات میں تمیز کرسکتے ہیں اور ایک سالمے ایم آر ون سے عمل کرتے ہیں۔

یہ مالیکیول پورے جسم کے تمام حصوں میں پایا جاتا ہے لیکن کینسر کے مریضوں میں یہ سالمہ تبدیل ہوجاتا ہے جسے ٹی سیل پہچان کر اس پر حملہ کرکے اسے ختم کرسکتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ نیا ٹی سیل کئی اقسام کے پھوڑوں اور رسولیوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح ایک ہی سیل بہت سے کینسر کا علاج کرسکے گا اس سے قبل ایسا ممکن نہیں تھا۔ تجربہ گاہی ڈش اور چوہوں پر اس کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔ حوصلہ افزا تجربات کے بعد جلد انسانی آزمائش شروع ہوگی۔

پروفیسر اینڈریو کے مطابق چند برس کی بات ہے اگر انسانی تجربات میں کامیابی ملتی ہے تو یہ علاج ہزاروں لاکھوں افراد کو کینسر کے عفریت سے نجات دلاسکے گا۔ دوسری جانب اسی شعبے کے دیگر ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک انقلابی قدم ہے اور کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

The post انسانوں میں دریافت شدہ نئے خلیات سے مختلف کینسرکا قلع قمع ممکن appeared first on ایکسپریس اردو.

کولیسٹرول پر دھیان دینا کب شروع کریں؟

$
0
0

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو 20 کے پیٹے میں اپنا کولیسٹرول لیول چیک کرنا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ انھیں اپنے آپ کو لاحق دل کے مرض اور سٹروک کے خطرے کے بارے میں پتا چل سکے۔

’دی لینسیٹ‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی یہ سٹڈی کئی دہائیوں بعد اس حوالے سے سامنے آنے والی ایک جامع تحقیق ہے جس میں طویل المدتی بنیادوں پر ’مضر‘ کولیٹسرول کے صحت پر پڑنے والے اثرات کو دیکھا گیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پہلے لوگ خوراک میں تبدیلی اور دوا کے ذریعے اپنے کولیسٹرول کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ بہتر ہے۔

کولیٹسرول کیا ہے؟:کولیسٹرول ایک چکنا مادہ ہوتا ہے جو چند قسم کی خوراکوں میں موجود ہوتا ہے اور ہمارے جگر میں بھی بنتا ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہارمونز بنانے کے لیے پڑتی ہے، جیسا کہ ایسٹروجن اور ٹیسٹوسٹیرون۔ اس کے علاوہ یہ وٹامن ڈی اور دیگر مرکبات بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔

ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین یا ’ایچ ڈی ایل‘ ’گْڈ‘ کولیسٹرول کہلاتا ہے۔ ہمارے جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

لو ڈینسٹی لیپوپروٹین، ایل ڈی ایل ’مضر‘ کولیٹسرول کہلاتا ہے کیونکہ یہ رگوں میں چپک جاتا ہے۔

ماہرین کو کیا پتا چلا؟:ماہرین نے19 ممالک کے تقریباً چار لاکھ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، انھوں نے مضر صحت کولیٹسرول کے لیول اور بلوغت کے بعد کے چالیس یا اس سے زیادہ برسوں کے دوران دل کے مرض کے خطرے کے درمیان گہرا تعلق دیکھا۔ ماہرین اپنی تحقیق کے ذریعے یہ بتانے کے قابل ہوگئے کہ 35 سال اور اس سے اوپر کی عمر کے لوگوں میں ان کی جنس، مضر صحت کولیسٹرول کے لیول، عمر اور دیگر خطرات مثلاً سگریٹ نوشی، ذیابیطس، قد اور وزن اور ہائی بلڈ پریشر کی بنیاد پر ہارٹ اٹیک یا سٹروک کا کتنا امکان ہو سکتا ہے۔پروفیسر سٹیفن بلینکن برگ ان سائنسدانوں میں سے ہیں جنھوں نے اس تحقیق پر کام کیا۔ ان کا تعلق جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے یونیورسٹی ہارٹ سینٹر سے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی طبی سطح پر خطرے حوالے سے جانچ میں کہ کیا ایک شخص کو لِپڈ کم کرنے کے لیے علاج کرنا چاہیے فقط یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دل کا مرض آئندہ دس سال تک ہو سکتا ہے اور بہت سے معالج خاص طور پر نوجوان لوگوں میں اس کے زندگی بھر ہونے والے اثرات سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔برطانیہ میں 80 لاکھ سے زیادہ لوگ کولیسٹرول گھٹانے کی دوائیں لیتے ہیں جس سے ان کے خون میں موجود مضر کولیسٹرول کا لیول کم ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ 50 میں سے ایک شخص جو دوا لیتا ہے وہ پانچ سال کے لیے ہارٹ اٹیک یا سٹروک سے بچ جاتا ہے۔ صحت مند خوراک اور چاق و چوبند طرز زندگی اختیار کرنے سے بھی کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے۔

کیا لوگوں کو 30 کے پیٹے میں کولیسٹرول گھٹانے کی ادویات لینی چاہئیں؟: پروفیسر بلینکن برگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہ کہتا ہوں کہ ینگ لوگ اپنے کولیسٹرول لیول سے باخبر ہوں اور اس کے نتائج کے تحت فیصلہ لیں اور اس میں کولیسٹرول گھٹانے والی دوائیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔‘ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں خطرہ یہ ہے کہ لوگ اپنے طرز زندگی کو دیکھنے کے بعد ’سٹیٹن‘ یعنی کولیسٹرول گھٹانے والی دوا پر انحصار کریں گے اور اگرچہ وہ اسے عموماً بہت اچھی طرح اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ تحقیقات میں کئی دہائیوں تک اس کے استعمال سے ہونے والے ممکنہ اثرات کو نہیں دیکھا گیا۔

برٹس ہارٹ فاؤنڈیشن میں میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر نیلش سمانی کا کہنا ہے کہ ’بڑے پیمانے پر ہونے والی اس تحقیق میں ایک بار پھر کولیسٹرول کی ہارٹ اٹیک اور سٹروک کے خطرے میں اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔‘ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کچھ لوگ ابتدائی مراحل میں ہی کچھ لوگ کولیسٹرول کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپناتے ہیں مثال کے طور پر سٹیٹن جس کے ذریعے ان کو زندگی میں آگے امراض کے خطرے کو کم کرنے میں کافی حد تک فائدہ ہوتا ہے۔

The post کولیسٹرول پر دھیان دینا کب شروع کریں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

اچھی اور گہری نیند کیسے؟

$
0
0

ہم اکثر کم سونے پر فخر کرتے ہیں اور کم سونے کو اپنے زیادہ مصروف ہونے کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔

تھامس ایڈیسن، مارگریٹ تھیچر، مارتھا سٹیورٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ سب کا دعویٰ ہے کہ وہ رات کو صرف چار سے پانچ گھنٹے سوتے ہیں۔ انڈیا کے موجودہ وزیرِ اعظم کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ تقریباً 18 سے 20 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ماہرین کی عمومی رائے یہ ہے کہ بالغ افراد کو روزانہ سات سے نو گھنٹے سونا چاہیے لیکن ایک تہائی امریکی بالغ افراد کو باقاعدگی سے مناسب نیند نہیں آتی ہے۔

کم سونے کے صحت پر بہت مضر اثرات ہیں جن میں یادداشت کی کمی، فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمی، انفیکشن اور موٹاپے میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر لوگ ان خطرات کو جانتے ہیں لیکن انھیں نظر انداز کرتے ہیں۔ جب بھی ہمیں کسی کام کے لیے اضافی وقت درکار ہوتا ہے تو پہلی قربانی نیند کی ہوتی ہے۔

کیا ہو گا کہ اگر ہم کم وقت میں گہری نیند کے زیادہ فوائد حاصل کر سکیں؟

دنیا بھر کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ رات کو گہری نیند میں جانے اور دماغ کی استعداد دونوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

دھیمی لہریں، گہری نیند

عام راتوں میں دماغ نیند کے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ ہر مرحلے میں دماغ کی لہروں کا ایک خاص پیٹرن ہوتا ہے جس میں نیوران ایک ساتھ ایک لے پر متحرک ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ہجوم اکٹھے گانا گا رہا ہو یا ایک ساتھ ڈھول بجا رہا ہو۔آنکھوں کی تیز رفتار حرکت (آر ای ایم) کے دوران یہ لے کافی تیز ہوتی ہے۔ اس وقت خواب دیکھنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ایک موقع پر ہماری آنکھوں کی پتلیوں کی رفتار رک جاتی ہے، خواب غائب ہو جاتے ہیں اور دماغ کی لہروں کی لے ایک بیٹ فی سیکنڈ میں کم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہم گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ اس لاشعوری حالت کو ’سلوویوز‘ یا سست رفتار لہر والی نیند کہتے ہیں۔

یہ وہ مرحلہ ہے جس میں سائنس دان نیند کے بہترین استعمال کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔ سنہ 1980ء کی دہائی سے جاری تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی بحالی کے لیے سلوویو والی نیند آنا ضروری ہے۔ اسی وقت دماغ قلیل مدتی یادوں کو طویل المیعاد ذخائر میں بھیجتا ہے تاکہ ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اسے فراموش نہ کریں۔

جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی میں میڈیکل سائیکالوجی اینڈ بیہیورل نیوروبیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جان بورن کا کہنا ہے کہ ’معلومات کی ترسیل سست لہریں کرتی ہیں۔‘ یہ لہریں دماغ میں خون اور دماغی شریانوں کے بہاؤ کو متحرک کر سکتی ہیں اور اس سے اعصاب کے لیے نقصان دہ ملبے کو باہر کیا جاتا ہے۔ یہ لہریں تناؤ پیدا کرنے والے کورٹیسول ہارمون کو کم کرتی ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح کے نتائج نے سائنس دانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آیا ہم ان چھوٹی موٹی لہروں کی پیداوار میں اضافہ کر کے نیند کے فوائد میں اضافہ کر سکتے ہیں؟

ایسا کرنے کی سب سے معتبر تکنیک دماغ کی صحیح لے کو شمار کرنے والے میٹرنوم کی طرح کام کرتی ہے۔ تجربے کے شرکا ایک ہیڈ سیٹ پہنتے ہیں جو ان کے دماغ کی حرکت کو ریکارڈ کرتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ سست لہریں کب بننا شروع ہوئیں۔ پھر یہ آلہ دماغ کی قدرتی طور پر سست رفتار لہروں کے ساتھ وقفے وقفے سے اسی سے ملتے جلتے میٹھے سْر بجاتا ہے۔ یہ آوازیں اتنی آہستہ ہیں کہ ان سے نیند متاثر نہیں ہوتی لیکن یہ اتنی تیز ضرور ہوتی ہیں کہ دماغ انھیں لاشعوری حالت میں بھی ریکارڈ کر لیتا ہے۔

بورن نے اس طرح کے کئی تجربات کیے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ یہ میٹھی آوازیں دماغ کی لے کو تقویت دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ آوازیں سلوویو نیند کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ ہیڈ سیٹ پہننے والے شرکا نے میموری ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انھیں ایک دن پہلے سنی ہوئی باتیں بھی یاد رہیں۔ ان کے ہارمون کا توازن بھی بہتر ہوا، کورٹیسول کی سطح میں کمی آئی اور مدافعتی ردعمل میں بہتری آئی۔ ابھی تک ہونے والے تجربے میں شرکا نے کسی ناپسندیدہ ردعمل کی اطلاع نہیں دی ہے۔ بورن کا کہنا ہے کہ ’ہم پوری طرح مطمئن نہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح مضر اثرات نظر نہیں آئے۔‘

بہتر نیند لینے والی مشینیں

گہری نیند کو فروغ دینے والے زیادہ تر تجربات نوجوانوں اور صحت مند افراد کے ایک چھوٹے سے گروپ پر کیے گئے ہیں۔ اس کے فوائد کے بارے میں مستند رائے دیے جانے سے پہلے مختلف گروہوں پر بڑے پیمانے پر تجربے کی ضرورت ہے۔ موجودہ شواہد کی بنیاد پر اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے رات کو پہننے والے کچھ ہیڈ بینڈز بنائے گئے ہیں۔

فرانسیسی سٹارٹ اپ کمپنی ڈریم کے ہیڈ بینڈ کی قیمت تقریبا 330 پاؤنڈ ہے۔ اس میں آواز کے محرک استعمال سے گہری نیند میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہیڈ بینڈ ایک ایسی ایپ سے بھی جڑتا ہے جو نیند کے نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے اور اچھی نیند کے لیے عملی مشورے فراہم کرتا ہے۔اس میں توجہ اور سانس لینے کی مشقیں شامل ہیں تاکہ آپ رات کو جلد سو جائیں اور رات میں نیند کم متاثر ہو تاکہ پوری رات اچھی نیند آئے۔ فلپس کمپنی نے نیند کی کمی کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے سمارٹ نیند یا گہری نیند کا ہیڈ بینڈ تیار کیا ہے۔

فلپس کے چیف سائنٹفک افسر ڈیوڈ وائٹ کے مطابق ان کا ہیڈ بینڈ ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی بھی وجہ سے کافی نیند نہیں لے رہے ہیں۔ ڈریم کے ہیڈ بینڈ کی طرح فلپس نے بھی سنہ 2018 میں اپنا پہلا ہیڈ بینڈ لانچ کیا۔ یہ دماغ کی برقی حرکتوں کا احساس کرتا ہے اور باقاعدہ وقفوں سے کچھ میٹھی آوازوں کا اخراج کرتا ہے جو ایسی ہی لہریں پیدا کرتا ہے جو گہری نیند کی خصوصیت ہے۔ یہ ایک ایسے سمارٹ سافٹ ویئر پر مبنی ہے جو مختلف لوگوں کے لیے آواز کی شدت کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ہیڈ بینڈ امریکہ میں 399 ڈالر میں دستیاب ہے۔ وائٹ نے اعتراف کیا ہے کہ یہ آلات رات کی نیند کا مکمل متبادل نہیں، لیکن نیند سے محروم لوگوں کی مدد ضرور کر رہے ہیں۔

یادداشت کم ہونے کے خراب اثرات

نیند کی کمی کے شکار افراد میں یہ مشینیں یادداشت کی کمی جیسے ذیلی اثرات کو بھی کم کرتا ہے۔ مونٹریال کی کونکورڈیا یونیورسٹی کی آرور پیرالٹ نے ایک راکنگ بستر کا تجربہ کیا ہے جو ہر چار سیکنڈ میں آہستہ آہستہ آگے پیچھے جھولتا ہے۔ یہ تکنیک ان کے ایک ساتھی کے نومولود بچے کو سلانے سے لی گئی ہے۔ ان کی ٹیم سوچ رہی تھی کہ کیا بالغ افراد بھی جھولوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے پایا کہ شرکا جلد ہی گہری نیند میں چلے گئے اور زیادہ دیر اسی حالت میں رہے کیونکہ دماغ کی لہریں بیرونی رفتار کے ساتھ مطابقت پذیر تھیں۔

رات بھر سونے کے بعد وہ تناؤ سے پاک محسوس کر رہے تھے۔ اس سے ان کی یاد اور سیکھنے کی صلاحیت پر بھی اچھے اثرات پڑے۔ اگر اس قسم کی چارپائی مارکیٹ میں آ جاتی ہے تو پھر یہ آواز کو متحرک کرنے والے ہیڈ بینڈ جیسے مقصد کو پورا کرے گی۔ پیرالٹ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا یہ بوڑھے لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ گہری نیند کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے جو یادداشت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ پیرالٹ کو امید ہے کہ جھولنے والی چارپائی اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہو سکتی ہے۔

کچھ دیر تو سوئیں!

یہ شعبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان سٹڈیز سے پتا چلتا ہے کہ ہماری نیند کو بڑھانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ پیرالٹ اور بورن دونوں صوتی محرک کا استعمال کرتے ہوئے سست لہریں پیدا کرنے والی اشیا کے متعلق پر امید ہیں۔

پیرالٹ کا خیال ہے کہ تجربہ گاہ سے باہر کے حالات میں مزید جانچ کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ کیا ایسی نیند بھی طویل مدتی فوائد فراہم کر سکتی ہے؟

طویل عرصے تک نیند کی کمی سے ذیابیطس اور الزائمر جیسی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا نئی ٹیکنالوجی ان خطرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی یا نہیں۔

اب تک طویل مدتی اور قلیل مدتی یعنی ہر طرح کے فوائد حاصل کرنے کا صرف ایک ہی گارنٹی والا راستہ ہے اور وہ ہے پوری نیند لینا۔

چاہے آپ یہ ڈیوائسز خریدیں یا نہ خریدیں، آپ کو رات کے وقت جلدی سونے کی کوشش کرنی چاہیے، کیفین کی مقدار کم کرنا چاہیے اور سونے سے پہلے سکرین سے دور رہنا چاہیے۔

ہمارا دماغ بغیر آرام کے کام نہیں کر سکتا۔ خوشحال، صحت مند اور مفید زندگی گزارنے کے خواہشمند حضرات کو یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے۔

The post اچھی اور گہری نیند کیسے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

گھر کی آلودہ فضا کو خوشگوار کیسے بنائیں؟

$
0
0

دنیا میں آلودہ ہوا کے نتیجے میں ہر برس 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں اور اس صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

صحت مند فضا میں سانس لینے کے آسان طریقوں کی مدد سے دس میں سے نو افراد مختلف بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جن میں فالج،پھیپھڑوں کا کینسر اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

آلودگی کے خورد بینی ذرّات ہمارے اطراف ہمیشہ رہتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے رہتے ہیں خاص کر اگر آپ گھر کے اندر ہوں۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی ایجنسی کی ایک تحقیق کے مطابق اکثر اوقات گھروں کے اندر آلودگی باہر کے برعکس دو سے پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔

ایئر لیبز میں چیف سائنس آفیسر میتھیو ایس جونسن کے مطابق گھر کے اندر فضا میں اتنی کی آلودگی ہوتی ہے جتنی کے باہر لیکن اس کے ساتھ گھر کے اندر دیگر آلودہ عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں جس میں مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مواد، کھانا پکانا اور صفائی کے لیے استمعال ہونے والی اشیا شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے چند ایسی چیزیں ہیں جن کی مدد سے آپ گھر کے اندر کی فضا کو صحت مند بنا سکتے ہیں۔ آپ کو ایسی پانچ تراکیب بتاتے ہیں جن کی مدد سے آپ ایسا کر سکتے ہیں:

1۔ ہوا کی کی نکاسی کے راستے

گھر میں تازہ ہوا کے داخلے کے لیے نامناسب راستوں کے نتیجے میں آلودہ ہوا گھر کے اندر ہی ٹک جاتی ہے۔انڈیا کے انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ سے منسلک آر سوریش کا کہنا ہے کہ گھر میں تازہ ہوا کے لیے دن میں ایک بار تقریباً کھڑکیوں اور دروازوں کو دو سے تین بار کھولیں۔

اگر آپ کو کسی قسم کی الرجی نہیں اور باہر موسم زیادہ شدید نہیں ہے تو اس صورتحال میں گھر کے اندر ہوا کی نکاسی کے نظام کو استعمال کر سکتے ہیں جس میں فلٹر لگے ایئر کنڈیشنگ سسٹم شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اگر آپ کھانا پکا رہے ہیں یا نہا رہے ہیں تو اس صورت میں ہوا باہر نکالنے والے فین کا استعمال کریں تاکہ مضر صحت ذرّات اور ضرورت سے زیادہ نم ہوا کو باہر نکلا جا سکے۔

2۔گھر کے اندر پودے رکھیں

اگر آپ ہوا صاف کرنے والے مہنگے فلٹرز کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تو اس صورت میں آپ گھر کے اندر پودوں کو رکھ سکتے ہیں۔ آر سریش کے مطابق بعض پودے ہوا کے مضرصحت اجزا کو صاف کر سکتے ہیں اور یہ گھر کے اندر کی فضا میں آلودگی کے لیے ایک موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔

اگرچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نظریے کے کوئی تحقیقاتی شواہد نہیں ہیں تو چلیں کم از کم یہ آپ کے لیے خوشگوار احساس کا باعث تو بنتے ہیں تو اگر آپ گھر کے اندر پودے رکھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو درج ذیل میں دیے گئے چند پودوں سے آپ یہ شروع کر سکتے ہیں۔

منی پلانٹ: اس پودے کو اگانا اور دیکھ بھال کرنا آسان ہوتا ہے اور یہ قالین اور روغن سے نکلنے والے مضرِ صحت کیمیکلز کو فضا سے ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ڈریگن ٹری: یہ درخت مشرقی افریقہ میں پایا جاتا ہے اور اسے گھروں اور دفاتر میں آرائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ درخت بھی مضرِ صحت کیمیکلز کو فضا سے ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

سنیک پلانٹ: اس پودے کو زیادہ پانی دینے کی ضرورت خاص کر سردیوں کے موسم میں۔ یہ پودہ رات کے وقت کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتا ہے۔

آر سریش کے مطابق آپ جو کوئی بھی پودا گھر میں رکھیں اس میں سب اہم بات ذہن میں رکھنے والی یہ ہے کہ یہ پودے قدرتی طور پر فضا کو صاف کرتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں صحت مند رکھا جائے کیونکہ دوسری صورت میں ہوا میں بائیولوجیکل آلودگی پھیلانا شروع کر دیں گے۔

3۔ ماحول دوست طریقے سے بو کا خاتمہ

تعمیراتی سامان میں استعمال ہونے والے مواد کے بارے میں جاتنے ہیں اور مصنوعی خوشبو سے جب بھی اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مزید کیمیلز کا اخراج ہوتا ہے یعنی کے ہوا کے حساب سے اپنا ردعمل دیتے ہیں اور ممکنہ طور پر خطرناک کاٹ ٹیل بناتے ہیں۔مثال کے طور پر گھروں میں صفائی کے لیے استعمال ہونے والا ایسا سامان یا آلات جو ماحول دوست نہیں ہوتے اور ان کے استعمال سے فارمل ڈی ہائیڈ کیمیکل کا اخراج کر سکتے ہیں جس کا تعلق کینسر جیسے مرض سے ہوتا ہے۔

4۔آپ کیا کر سکتے ہیں؟

تو آپ کو کرنا یہ ہے کہ کپڑوں کی دھلائی کے لیے ایسی مصنوعات کا استعمال کریں جن میں خوشبو نہیں ہوتی ہے اور اس کے ساتھ پریشر سے نکلنے والے سپرے کا استعمال ترک کر دیں جس میں قالین کو صاف کرنے اور ہوا سے بو ختم کرنے کے لیے استعمال ہونے والے سپرے بھی شامل ہیں۔

اگر بات کچن کی جائے تو آر سریش کے خیال میں باس کو ختم کرنے کے لیے لیموں کے ٹکڑے اور بیکنگ سوڈے کا استعمال کیا جائے۔

گھر کے اندر سگریٹ نوشی سے اجتناب

سگریٹ نوشی بذاتِ خود نقصان دہ ہے اور گھر میں کی جائے تو بے حد نقصان ہوتی ہے۔

گھر میں اجتماعی سگریٹ نوشی کا اندر کی فضا پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں اور خاص کر اگر ہوا کی نکاسی کا انتظام غیر مناسب ہو۔سگریٹ کا دھواں قریب میں دوسروں کے لیے بے حد نقصان دے ہو ہوتا ہے اور یہ انھیں خطرناک بیماریوں سے دوچار کر سکتا ہے۔اگر گھر میں نوازئیدہ بچے ہوں تو سگریٹ نوشی کے نتیجے میں ان کی اچانک موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

5۔الرجی سے نجات حاصل کریں

پولن اور مٹی کے ذرّے کے نتیجے میں بیمار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور خاص کر اگر آپ کو سانس کی بیماری، پولن الرجی اور دیگر اقسام کی الرجی ہیں۔ ہوا میں نمی کے تناسب سے یہ ہوا میں یہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور ان لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں جن کو پیپھڑوں کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے تو اس صوتحال میں آپ کر سکتے ہیں؟ ماہرین کے مطابق آسان طریقوں سے اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں جن میں اپنے بستر کو باقاعدگی سے صاف کریں۔

اپنے قالین کو صاف کریں اور اس میں کوشش کریں کہ ماحول دوست ویکیوم کا استعمال کریں۔

اپنے کپڑوں کو کھڑکی کے قریب خشک کریں۔ داخلی دروازے پر میٹ ڈالیں تاکہ باہر سے آلودگی اندر نہ آئے اور ہوا سے اضافی نمی صاف کرنے والے آلے کا استعمال کریں۔

The post گھر کی آلودہ فضا کو خوشگوار کیسے بنائیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

شاندار صحت مند زندگی کے لئے روزانہ کیا کھانا چاہئے؟

$
0
0

ہما ری جسمانی نشو ونما کا دارو مدار ہماری خوراک پر ہوتا ہے۔ ہم جس قدرمتوازن اور غذائیت سے بھر پور غذا کا انتخاب کریں گے اسی قدر ہمارا جسم زیادہ توا نا،صحت مند اور مضبوط ہوگا۔

جسم کی توانائی اور صحت مندی کا تمام تر انحصار قوتِ مدافعت پر ہوتا ہے۔ قوتِ مدافعت کی مضبوطی اور توانائی کا دارومدار عمدہ اور متوازن غذا پر ہوتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک کا ذریعہ چند ایسے بنیادی غذائی اجزاء ہیں جو جسم کی تعمیر و تشکیل اورنشو ونما کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

ان اجزاء میں وٹامنز، اے، بی، سی، ڈی، ای اور پروٹینز، نشاستہ، چکنائیاں، زنک، فولاد، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس، پوٹاشیم،آیو ڈین، کلورین، گندھک ،آکسیجن اور سوڈیم وغیر ہ شامل ہیں۔ ان غذا ئی اجزاء کی موجودگی ہمارے بدن میں بیماریوں کے خلاف جنگ کرنے والی صلاحیت یعنی قوتِ مدافعت کو پروان چڑھاتی ہے۔ قوتِ مدافعت کی مضبوطی بدن کو صحت اور توانائی مہیا کرتی ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکمل غذا ہی ہمیں مکمل صحت فراہم کرسکتی ہے۔یہ اجزاء ہم اپنی کھائی جانے والی خوراک سے حاصل کرتے ہیں۔ جسمِ انسانی کے لیے ضروری غذائی اجزا کی تفصیل درج ذیل ہے:

وٹامن اے: ہمارے جسم کا بنیادی اور لازمی عنصر مانا جاتا ہے، یہ غذا کو جْزوِ بدن بنانے میں کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ یہ بدنِ انسانی کی قْوتِ مْدافعت کو بڑھاتا ،قبل از وقت بڑھاپے سے بچاتا اور چہرے کو جھریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ روزانہ خوراک میں اس کی مطلوبہ مقدار کا استعمال جسم کو تن ودرست و توانا، چہرے کو ترو تازہ اور آنکھوں کو بینا رکھتا ہے۔ بدن کی نشو ونما، قد کی بڑھوتری اور ہڈیوں کی مضبوطی میں بھی وٹامن اے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ بیماریوں کے خلاف بدنِ انسانی کی قوتِ مدافعت میں اضافے کا باعث بھی یہی غذائی عنصر بنتا ہے۔

وبائی اور چھوتی امراض کے حملوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روزانہ کی خوراک میں اس کی مطلوبہ مقدار میں کمی واقع ہونے سے بینائی کی کمزوری، ہڈیوں کی کجی اور امراض کے حملوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وٹامن اے کی موجودگی سے جلد نرم و ملائم، شفاف اور چمکیلی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہمیں انتڑیوں کے من جملہ امراض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یہ حیوانی غذاؤں جیسے دودھ، دہی، پنیر، مکھن،بالائی،دیسی گھی،مچھلی،انڈے کی زردی اور چربی والے گوشت کے علاوہ تمام غلوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ سبزیوں میں سے ٹماٹر، پالک، میتھی، سبز دھنیا، بند گوبھی اور آلو میں اس کی مخصوص مقدار ہوتی ہے۔ پھلوں میں سنگترہ ، مالٹا، لیموں، انناس اور آم میںکافی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔

وٹامن بی: بھی انسانی صحت و تن درستی کو قائم رکھنے اور بحال کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے اعصابی نظام کو متحرک رکھنے میں اس کا بڑا اہم کردار مانا جاتا ہے۔ دل و دماغ اور اعضاء کو مضبوطی فراہم کرنے میں بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ نظامِ انہضام کو برقرار رکھنے اور صحت و تازگی وبدنی نشو ونما میں بہترین مددگار ثابت ہوتا ہے۔جسمِ انسانی میں اس کی کمی رونما ہونے سے دل اور اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ذہنی تناؤ اور اعصابی دباؤ جیسے عوارض سر اْٹھا کر جینا دو بھرکردیتے ہیں۔ وٹامن بی کے فطری حصول کے لیے گندم، مکئی،دالیں،ان دھلے چاول، کلیجی، انڈے کی زردی،اور دودھ کی مصنوعات تواتر سے استعمال کی جانی چاہئیں۔ یہ تمام ترکاریوں، سبزیوں اور پھلوں میں بھی کافی مقدار میںپایا جاتا ہے۔

وٹامن سی: طبی ماہرین نے وٹامن سی کو انسانی جسم کے لیے بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہ آنکھوں، دانتوں ،مسوڑھوں اور جلدی امراض سے بدنِ انسانی کی قدرتی طور سے حفاظت کرتا ہے۔ خون کی کمی اور عام جسمانی کمزوری کو رفع کرنے میں بھی بہت اہم کردار کا حامل ہے۔ اس کی کمی یا خوراک میں عدم شمولیت ہڈیوں،دانتوں ،مسوڑھوں اور جلدی امراض کا باعث بنتی ہے۔

دھیان رہے کہ وٹامن سی کا سب سے بڑا ذریعہ پھل،سبزیاں اور ترکاریاں ہوتی ہیں لیکن یہ ازحد لطیف اور نر م ونازک ہو تے ہیں ،سبزیوں اور ترکاریوں کو رگڑ رگڑ کر دھونے ،پکانے اور بھوننے وغیرہ سے ان کے ضائع ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک پھل چھلکوں سمیت اور سبزیاں کچی کھائی جائیں ۔یہ سلاد، گاجر، مولی، شلجم، ٹماٹر،پیاز، کھیرا، پالک،بند گوبھی، چقندر، آملہ، سیب، پپیتا، انگور، لیموں،آم،سنگترہ اور انناس میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ وٹا من سی دودھ اور گوشت میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

وٹامن ڈی: انسانی جسم کی تعمیر میں بنیادی اہمیت کا حامل عنصر ہے۔ یہ ہڈیوں کی ساخت اور بڑھوتری کے لیے لازمی ہے۔ دانتوں کی مضبوطی اور حفاظت کے لیے بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی غذا میں کمی ہونے سے ہڈیوں اور دانتوں کے کئی ایک مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ دودھ، مکھن،گھی، پنیر اور انڈے کی زردی میں کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں گاجر، مولی، ٹماٹراور بکری کے دودھ میں بھی وٹامن ڈی کی بہتات ہوتی ہے۔ روغنِ زیتون، سرسوں کے تیل اور دیسی گھی کو دھوپ میں رکھ کر استعمال کیا جائے تو یہ بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی فراہم کرتے ہیں۔ موسمِ سرما کی دھوپ میں بیٹھنا اور مالش کروانا بھی اس غذائی جز کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ یاد رکھیے کہ مچھلی کا تیل وٹامن ڈی کا سب سے بڑا اور قدرتی ماخذ ہے۔

وٹا من ای: بھی ہماری غذا کا بنیادی اور لازمی جزو ہے ۔ یہ انسانی نسل کو بڑھانے کے لیے مرد و عورت دونوں کے لیے مفید اور ضروری ہے۔یہ جسم کی خوبصورتی اور مضبوطی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بڑھاپے کے اثراتِ بد سے بچانے اور جوانی بحال رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ گندم، باجرا، جو،چنا،دالوں(چھلکوں سمیت) انڈے کی کچی زردی، مچھلی، گوشت، گردے، دہی، پالک، گاجر، بنولہ، سویا بین، پستہ، بادام،چلغوزہ، روغنِ زیتون، مچھلی کے تیل اور تلوں کے تیل میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔

پرو ٹین عضلات اور جسم کی دوسری بافتوں کی بہتری کے لیے ایک لازمی جْز ہے۔ یہ بھی مذکورہ بالا غذاؤں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح نشاستہ بھی انسانی جسم کی توانائی اور حرارت کے لیے بنیادی اور ضروری عنصر ہے۔

اس کے ماخذ اور ذرائع بھی اوپر تحریر کی گئی غذاؤں میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔کیلشیم اور فاسفورس کو دماغی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیئے خاص نسبت دی جاتی ہے۔ انسانی جسم کی تعمیر میں کیلشیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔کیلشیم ہڈیوں اور دانتوںکی بناوٹ اور مضبوطی میں مدد کرتا ہے۔یہ اعصابی فعل،پٹھوں کی تعمیر اور خون کے انجماد میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔یہ انسانی دماغ میں قوتِ برداشت،مضبوط یاد داشت،کام کرنے کی ہمت اور طاقت پیدا کرتا ہے۔ پالک،شلجم،مٹر،باتھو، لال چولائی،سلاد،بند گوبھی،دودھ،بالائی،دہی مکھن،چھاچھ، انڈا،بادام،پستہ اور اخروٹ میں قدرتی طور پر کیلشیم کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔

فولاددماغی چستی کو قائم رکھنے اور اکتاہٹ دور کرنے میں اہمیت کا حامل ہے۔انسان کو چڑ چڑے پن سے نجات دلاتا ہے۔ خوف، بزدلی اور کاہلی کے احساس سے بچا تا ہے۔دالیں،سرخ مولی، ساگ، سبز پتوں والی سبزیاں،پالک،سویا بین، گاجر،کدو انڈے کی زردی،گوشت،کلیجی اسٹابری، خوبانی، کیلا، انجیر، بادام اور کھجور فولاد حاصل کرنے کے قدرتی ذرائع مانے جاتے ہیں۔ انسانی جسم کی تعمیر میں میگنیشیم کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ میگنیشیم پٹھوں کو طاقت دیتا ہے۔ دماغ اور اعصاب کی پر ورش کرتا ہے۔ فاسفورس اور کیلشیم کے ساتھ مل کر ہڈیوں، دانتوں اور کھوپڑی کو مضبوط کرتا ہے۔ مزاج سے تلخی اور تراوش کو ختم کرتا ہے۔انجیر، پالک،انگور،آلو بخارا سنگترہ،رس بھری،گھٹااور ٹماٹر میگنیشیم کے حصول کے فطری ماخذ ہیں۔

گندھک بھی انسانی جسم کے لیے لازمی عنصر ہے۔ یہ بالوں کی نشو ونما کے لیئے ضروری جْز وہے۔دماغی تھکان،اکساہٹ اور سستی کو دور کرتی ہے۔ فاسفورس کے اثرات کو تا دیر قائم رکھنے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر انسانی جسم میں گندھک کی کمی واقع ہونے لگے تو فاسفورس کے اثرات میں بھی کمی پیدا ہونے لگتی ہے۔ مولی لہسن، پیاز، بند گوبھی اور پھول گوبھی گندھک حا صل کرنے کے قدرتی ذرائع ہیں۔

آیو ڈین جسم کے سب سے بڑے غدود تھائیرائڈ کی کارکردگی کا لازمی جزو ہے تھائیرائڈ کی تمام تر کارکردگی کا انحصار آئیوڈین پر ہی ہوتا ہے۔ دماغی صلاحیتوں میں اضا فے، ذہانت اور حافظہ میں زیادتی اور نت نئے آئیڈیاز کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔انسانی قد کی بڑھوتری کا دارو مدار بھی آیوڈین پر ہو تا ہے۔بالوں کی نشو ونما اور سیاہ رنگت کو قائم رکھتی ہے۔سمندری مچھلی، چائنا گراس،انناس پتے والی گوبھی، لہسن، بکری کا دودھ آیو ڈین کے بہترین ذرائع ہیں۔

کلو رین کی کمی افسردگی اور چڑچڑاپن پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ٹماٹر، بکری کا دودھ اور گوشت،گاجر، پالک،پیاز،بند گوبھی اور مولی کلو رین کے حصول کے قدرتی ذرائع ہیں۔ سوڈیم انسانی جسم میں پائی جانے والی غیر ضروری ترشی کو ختم کرنے کے لیے لازمی جز وہے۔ بدنِ انسانی میں پائے جانے والے امرض میں سے50 فیصد تک تیزابی مادوں کی زیادتی سے پیدا ہوتے ہیں۔ سوڈیم اعصاب کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔اعضاء کو توانا اورطاقتور بناتا ہے۔جوڑوں کو مختلف بیماریوںکے حملوں سے بچاتا ہے۔ گاجر، کھیرا، سیب پالک،انجیر، میٹھا،آلو بخارا، چقندر، مولی اور اسٹابری وغیرہ سوڈیم کے قدرتی ذرائع ہیں۔

پوٹاشیم اعصاب اور کندھوں کو مضبوط اور توانا کرتا ہے۔آکسیجن کو جزوِ بدن بنا کر دماغ میں طاقت وتوانائی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کی کمی سے دماغی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوکر کئی ایک نفسیاتی و ذہنی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔پوٹاشیم کریلا،، سونف،سوئے،پالک،مولی،شلجم،گاجر ٹماٹر انار، آلو اور تربوز میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ فاسفورس ہمارے جسم میں پروٹین کے ساتھ مل کر جسمانی خلیات میں پائی جاتی ہے۔ دماغ اور اعصاب کی مخصوص رطوبات میں اس کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔خون میں نمکیات کی شکل میں شامل رہتی ہے۔ ہڈیوں اور دانتوں کی نشو ونما میں بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ بوڑھے افراد میں فاسفورس کی اور بھی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ چاول، باجرہ، دالیں،شکر، مربہ جات، ساگو دانہ،آم اور گاجر میں فاسفورس کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔

قارئین!اگر ہم اپنی غذا منتخب کرتے وقت اپنی بدنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر خوراک ترتیب دیں تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ خاطر خواہ حد تک امراض سے محفوظ اور تن درست وتوانا زندگی سے لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔

The post شاندار صحت مند زندگی کے لئے روزانہ کیا کھانا چاہئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


چھٹی والے دن دیر سے ناشتہ…وزن بڑھنے کی ایک اور وجہ

$
0
0

میکسیکو / بارسلونا: وزن بڑھنا اور موٹاپا آج عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اب میکسیکو اور اسپین کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ وزن بڑھنے کی ایک وجہ چھٹی کے روز دیر سے ناشتہ کرنا بھی ہے۔

یہ مطالعہ، جس کے نتائج ریسرچ جرنل ’’نیوٹریئنٹس‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں، اسپین اور میکسیکو میں یونیورسٹی کے 1106 طالب علموں پر کیا گیا جس میں ان کے ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے وقت کا جائزہ لیا گیا۔

اس پہلو پر خاص نظر رکھی گئی کہ وہ طالب علم کام کے دنوں میں اور ہفتہ وار چھٹی (ہفتہ اور اتوار) کے روز کتنے بجے ناشتہ، ظہرانہ اور عشائیہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، مطالعے میں یہ بھی جانچا گیا کہ وہ کتنے بجے سوتے ہیں، کتنے بجے جاگتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کتنی دیر تک کھاتے ہیں، عموماً کتنا پیدل چلتے ہیں، اور ورزش کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ مطالعے میں شریک تمام طلبہ کا وزن بھی احتیاط سے نوٹ کیا گیا۔

سروے فارمز کے ذریعے عام دنوں میں اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران طالب علموں کے غذائی معمولات اور اوقات کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں۔

ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو چھٹی والے روز، عام دنوں کی نسبت زیادہ دیر سے ناشتہ کرتے ہیں ان کا وزن جلدی ناشتہ کرنے والے طالب علموں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جو طالب علم چھٹی والے دن (دوسرے دنوں کی نسبت) تین گھنٹے تاخیر سے ناشتہ کرتے تھے، یعنی ’’بریک فاسٹ اور لنچ‘‘ کو ملا کر ’’برنچ‘‘ کرنے کے عادی تھے، ان کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) وقت پر ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں 1.3 یونٹ زیادہ تھا۔

اسے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی کا قد 5 فٹ 7 انچ ہو جبکہ وہ 70 کلوگرام وزنی ہو، اور وہ اپنا وزن تقریباً 3.75 کلوگرام (پونے چار کلوگرام) کم کرلے تو اس کا بی ایم آئی 1.3 یونٹ کم تصور کیا جائے گا۔

یہ بات واضح طور پر مشاہدے میں آئی کہ چھٹی والے دن ہر کھانا ہی معمول کے مقابلے میں کچھ دیر سے کھایا جاتا ہے لیکن صبح کا ناشتہ سب سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوتا ہے۔

مطلب یہ کہ ہفتے میں صرف ایک سے دو دن ہونے والی یہ تاخیر اگر ’’ہفتہ وار عادت‘‘ بن جائے تو ہمارے وزن میں اضافے کی وجہ بن جاتی ہے، چاہے ہم کتنا ہی صحت بخش کھانا کھائیں، اور خوب پیدل چلنے والے یا باقاعدگی سے ورزش کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔

اگرچہ بدلتی شفٹوں میں کام کرنے والے ملازمین کے مطالعے میں یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ جن لوگوں کو بار بار کھانے کے اوقات میں تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ دوسروں کے مقابلے میں موٹے ہونے لگتے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے جب غذائی معمولات میں تھوڑے سے ردّ و بدل کے بھی نمایاں اثرات سامنے آئے ہیں۔

The post چھٹی والے دن دیر سے ناشتہ… وزن بڑھنے کی ایک اور وجہ appeared first on ایکسپریس اردو.

کم خرچ اور طویل عرصے تک محفوظ رہنے والی ویکسین بنانے کا نیا طریقہ

$
0
0

میکسیکو سٹی: میکسیکو سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے ویکسین بنانے کی ایک ایسی نئی تکنیک ایجاد کرلی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کم خرچ ویکسین تیار کی جاسکے گی جو عام درجہ حرارت پر لمبے عرصے تک محفوظ بھی رہ سکے گی۔

اس وقت ویکسینز کے ساتھ دوسرے گوناگوں مسائل کے علاوہ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں بہت ہی سرد ماحول میں محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ان کی ٹھنڈک کم ہوجائے یا ان میں اضافی گرمی داخل ہوجائے تو ویکسین بھی چند دن سے لے کر صرف چند مہینوں ہی میں اپنی افادیت سے محروم ہوجاتی ہے جس کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان کی وجہ بن سکتا ہے۔ ویکسین کا مہنگا ہونا اپنی جگہ ایک اور حل طلب معاملہ ہے۔

ایک اندازے کےمطابق، ویکسین کی مجموعی لاگت کا 80 فیصد حصہ صرف اسے ٹھنڈا رکھنے کے انتظامات پر صرف ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی طرح یہ خرچہ کم ہوجائے تو 1000 روپے والی ویکسین کی قیمت کم کرکے 200 روپے تک لائی جاسکے گی۔

ان تمام مسائل کو ایک ساتھ حل کرتے ہوئے میکسیکو کی نیشنل آٹونومس یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار سیلولر فزیالوجی کے ماہرین نے ویکسین سازی کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جو بہت اچھوتا بھی ہے۔

انہوں نے وہ حکمتِ عملی اختیار کی جسے کیڑے مکوڑوں پر حملہ وائرس استعمال کرتے ہیں اور کھلے ماحول میں ایک لمبے عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وائرس ’’پولی ہیڈرین‘‘ نامی ایک پروٹین استعمال کرتے ہیں جو ناموافق حالات درپیش ہونے پر وائرس کے گرد ایک قلم (کرسٹل) تشکیل دے دیتی ہے جو اسے موسم کی سختیوں سے بچاتی ہے۔

یہ پروٹین اتنی سخت جان ہوتی ہے کہ اگر برسوں تک حالات موافق نہ ہوں، تب بھی یہ وائرس کو تباہ ہونے نہیں دیتی۔ اپنی تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ پولی ہیڈرین پروٹین کے پہلے 110 امائنو ایسڈز میں وائرس کے گرد حفاظتی کرسٹل بنانے کی مکمل صلاحیت ہوتی ہے۔ یعنی اگر اس پروٹین کو ویکسینز کا حصہ بنادیا جائے تو وہ لمبے عرصے تک، انتہائی سرد ماحول میں رکھے بغیر ہی، محفوظ رہ سکیں گی۔

چوہوں پر کیے گئے تجربات کے دوران معلوم ہوا کہ پولی ہیڈرین کے 110 امائنو ایسڈز والی زنجیر کو جب ویکسین مالیکیولز سے جوڑا گیا تو ویکسین کی اثر پذیری بڑھ گئی اور اس کی کم مقدار ہی نے امیون سسٹم کو زیادہ مضبوط بنایا۔ دوسری جانب یہ ویکسین ایک سال تک عام درجہ حرارت پر رکھی گئی؛ اور اس کے بعد جب چوہوں کو دوبارہ وہی ویکسین استعمال کرائی گئی تو اس کی افادیت جوں کی توں رہی۔

واضح رہے کہ عام طور پر ویکسین کی وجہ سے ہمارے جسم کے قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) میں بیماری کے خلاف پیدا ہونے والا ردِعمل خاصا کمزور ہوتا ہے جسے مضبوط بنانے کےلیے ویکسین کے ساتھ کچھ اضافی اجزاء بھی شامل کرنے پڑتے ہیں۔ پولی ہیڈرین کی بدولت یہ ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

فی الحال یہ تکنیک ابتدائی مرحلے پر ہے جسے انسانی آزمائش کے مختلف مراحل سے گزرنے کےلیے عالمی منظوری درکار ہوگی تاہم اس کی افادیت کے پیشِ نظر، یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس تکنیک کو انسانی آزمائشوں اور دیگر مراحل کےلیے جلد ہی منظوری مل جائے گی۔

اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ’’بی ایم سی بایوٹیکنالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

The post کم خرچ اور طویل عرصے تک محفوظ رہنے والی ویکسین بنانے کا نیا طریقہ appeared first on ایکسپریس اردو.

فکر اور ذہنی تناؤ سے بال سفید ہونے کا معما حل

$
0
0

ہارورڈ: اگر آپ کہتے ہیں کہ فکریں اور پریشانیوں نے سر سفید کردیا ہے تو یہ درست ہے اور اب اس کی سائنسی وجوہ بھی معلوم ہوچکی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ مسلسل پریشانی سے بال سفید ہوسکتے ہیں۔ سفید بالوں کے مساموں کی گہرائی میں موجود اسٹیم سیل میں قدرتی رنگ (پِگمنٹ) بنانے کی صلاحیت بتدریج ختم ہوجاتی ہے بالوں کو سیاہ بنانے کا عمل بالکل رک جاتا ہے۔

اس سے قبل کسی صدمے، شدید دکھ اور پریشانی سے بھی بال سفید ہوسکتے ہیں بلکہ یہ عمل ہفتوں اور مہینوں میں بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں یا چی سو نے کہا کہ ذہنی تناؤ اور پریشانیاں جلد اور بالوں کو شدید متاثر کرتی ہیں۔

ماہرین نے چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت کیا کہ اسٹریس کی کیفیت میں بالوں کے مساموں کے اندر موجود اسٹیم سیل سیاہ رنگت (پگمنٹ) بنانا بالکل بند کردیتے ہیں اور یوں بال تیزی سے سفید ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد میں بالوں کی سفیدی قدرے تیزی سے نمودار ہوتی ہے۔

پروفیسر یاچی سو نے کہا کہ ذہنی دباؤ جسم پر برے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ہم نے بالوں کی سفیدی کے درمیان اس کا تعلق واضح کیا ہے۔ چوہوں میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے ان میں تناؤ بڑھا ویسے ویسے اسٹیم سیل نے بالوں کے لیے گہرا رنگ بنانا ختم کردی۔ اس کے بعد بال سفید ہوگئے اور یوں ہمیشہ کے لیے ان کا رنگ تبدیل ہوگیا۔

اسی ٹیم نے بتایا کہ شدید دباؤ کی صورت میں سمپیتھٹک نروس سسٹم (ایس این ایس) ایک نیورو ٹرانسمیٹر نوریپانیفرائن خارج کرتا ہے جس سے اسٹیم سیل کی تعداد ایک مقام سے حرکت پذیر ہوکر بالوں کے مساموں کے سوراخوں میں جمع ہوجاتی ہے اور اس سے بالوں کی سفیدی کا براہِ راست تعلق واضح ہوتا ہے۔

The post فکر اور ذہنی تناؤ سے بال سفید ہونے کا معما حل appeared first on ایکسپریس اردو.

پانچ اخروٹ روزانہ، رکھیں پیٹ اور دل کو توانا!

$
0
0

پنسلوانیا: یہ بات شاید آپ بھی جانتے ہوں کہ اخروٹ اور اس قسم کے دیگر خشک میوہ جات میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو دماغ کو تقویت پہنچاتے ہیں، لیکن اب سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ روزانہ صرف 2 سے 3 اونس (5 سے 6) اخروٹ کھانے سے دل کو بھی افاقہ ہوتا ہے جبکہ آنتوں اور پیٹ کی حالت بھی اچھی رہتی ہے۔

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کالج آف ہیلتھ کے ماہرین نے اس سے پہلے ایک مطالعے میں دل اور بلڈ پریشر کے حوالے سے اخروٹ کے فوائد دریافت کیے تھے۔ اب اسی ٹیم نے اخروٹ پر تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ روزانہ اخروٹ کھانے سے ہمارے پیٹ، یعنی نظامِ ہاضمہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

پروٹین، صحت بخش روغنیات، کیلشیم اور آئرن کے معاملے میں اخروٹ خاصے بھرپور ہوتے ہیں جبکہ ان میں الفا لینولینک ایسڈ بھی وافر ہوتا ہے، جو دراصل اومیگا تھری فیٹی ایسڈ ہی کی وہ قسم ہے جو پودوں میں پائی جاتی ہے؛ اور جو دماغ کو اومیگا تھری ہی کی طرح فائدہ پہنچاتی ہے۔

تازہ مطالعہ ایسے 42 افراد پر کیا گیا جو یا تو زائد الوزن (اوور ویٹ) تھے یا پھر موٹے ہوچکے تھے جبکہ ان کی عمر 30 سے 65 سال تک تھی۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مطالعے میں معلوم ہوا کہ خون کی رگوں اور دماغ کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ، اخروٹ کے اجزاء ہماری آنتوں اور پیٹ میں پائے جانے والے مفید جرثوموں (بیکٹیریا) کی تعداد بڑھاتے ہیں جس سے آنتوں اور پیٹ کی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ غذا کے ہضم ہونے (میٹابولزم) پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تحقیقی مجلے ’’دی جرنل آف نیوٹریشن‘‘ کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر روزانہ اوسط وزن والے صرف چار سے پانچ اخروٹ بھی پابندی سے کھائے جائیں تو اس سے جہاں نظامِ دورانِ خون، رگوں اور دل کو فائدہ پہنچے گا، وہیں نظامِ ہاضمہ بھی بہتر ہوگا جس سے صحت کے دوسرے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔

The post پانچ اخروٹ روزانہ، رکھیں پیٹ اور دل کو توانا! appeared first on ایکسپریس اردو.

کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات

$
0
0

 کراچی: چین میں کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بن سکتا ہے اور اب تک دو درجن سے زائد افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس مضمون میں کرونا وائرس کے متعلق عام سوالات کےجوابات دیئے جارہے ہیں۔ 

کرونا وائرس کیا ہے؟

کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اسے خردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآئے جوعموما تاج (کراؤن) جیسی شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔

اب بھی زیادہ تر جان دار مثلاً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھے گئی ہیں لیکن یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر 13) سامنے آچکی ہیں جنہیں اپنی آسانی کے لیے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا وائرس کی 13 اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز وائرس کو nCoV 2019 کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی بالکل نئی قسم ہے۔

کرونا وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟

واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کے لیے تین ہلاکت خیز وائرسوں میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول، سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ، دوسرا مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) مشرقِ وسطیٰ سے اور اب تیسرا 2019 nCoV بھی چین کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔

ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ء میں سارس وائرس سے چین میں 774 افراد ہلاک اور 8000 متاثر ہوئے تھے۔ مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔

نئے کرونا وائرس حملے کی علامت بتایئے؟

چین میں لوگوں نے بد ہضمی، سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری علامات سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔

نئے کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج کیسے ممکن ہے؟

چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ء میں نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات سے ہی اس کا علاج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے 4 فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ 25 فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔

کیا  کرونا وائرس سانپ اور چمگاڈر سے پھیلا؟

دوروز قبل چینی سائنس دانوں نے جینیاتی تحقیق کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا وائرس کی کوئی نئی قسم سانپ سے پھیلی ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دیگر ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔ چین میں سانپ ، حشرات اور چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں۔

دیگر ممالک کے ماہرین کا اصرار ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے پھیلا ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیلا تھا۔ چینی ماہرین کا اصرار ہے کہ سانپ اور چمگاڈروں کا فضلہ ہوا میں پھیل کر سائنس کے ذریعے انسانوں میں اس وائرس کی وجہ بن سکتا ہے لیکن دوسرے ماہرین اس سے متفق نہیں۔

کیا یہ وائرس عالمگیر وبا بن سکتا ہے؟

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز ماہرِ حیوانیات اور مصنف، ڈاکٹر صلاح الدین قادری نے بتایا کہ کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں:

اول: وائرس کی نئی قسم ہو

دوم: حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت

سوم: انسان میں مرض پیدا کرنے کی صلاحیت

چہارم: انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد

اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے آچکی ہیں۔ ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری نے بتایا کہ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک سرایت کرچکی تھی۔

کرونا وائرس پاکستان آسکتا ہے؟

اس سوال کا فوری جواب ہاں میں ہے۔ واضح رہے کہ چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر شہروں میں پھیلا ہے۔ اس کے بعد جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور اور امریکا میں اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جارہی ہے۔ ایک مریض برطانیہ میں بھی سامنے آیا ہے لیکن عالمی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی اسکیننگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں چینی ماہرین سی پیک اور دیگر منصوبوں کے لیے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی اور اسکیننگ کی ضرورت ہے۔ صرف چین میں ہی ایک شخص سے کئی افراد متاثر ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔

وزیرِ مملکت برائے صحت ظفرمرزا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ وائرس کتنا مہلک ہے؟

اب تک چین میں 26 افراد اس وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد 830 سے تجاوز کرچکی ہے۔ ووہان اور دیگر دس شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ بند ہے اور لوگ گھروں تک محصور ہوچکے ہیں۔ تاہم نئے قمری سال کی تقریبات پر لاکھوں کروڑوں لوگ باہر نکلتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

چینی حکام نے کہا کہ وائرس سے شکار ہونے والے 4 فیصد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے کرونا وائرس کی ہلاکت خیز شدت کم ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں انفیکشن امراض کے ماہر ڈاکٹر مارک وول ہاؤس اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید یہ اوسط درجے کے انفیکشن اور سارس کے درمیان کی شدت رکھتا ہے جس سے زائد اموات ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وائرس خود کو مزید تبدیل کرلے تو شاید زیادہ مہلک ہوسکتا ہے۔

کرونا وائرس سے کیسے بچا جائے؟

عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔

ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے جس طرح کی ہدایات دی ہیں وہ وضو سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ  میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان سے چین جانے والوں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟

اقوامِ متحدہ نے چین کے لیے ایسی کوئی ہنگامی صورتحال کا اعلان نہیں کیا تاہم کہا ہے کہ وہ عمومی احتیاط اختیار کریں اور اپنی سفری تاریخ سے حکام کو آگاہ کریں۔ دوسری جانب جہاں ضروری ہو اسکیننگ کے عمل سے گزرا جائے۔

The post کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات appeared first on ایکسپریس اردو.

ہلدی بنی سونا: اب کھلاڑیوں اور ایتھلیٹ کے لیے بھی مفید قرار

$
0
0

کیمبرج: ہلدی کو مغرب میں اب پیار سے خالص سونا کا نام دیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں موجود جادوئی مرکب ’سرکیومن‘ بلڈ پریشر، کینسر، امراضِ قلب ، جوڑوں کے درد میں انتہائی مفید تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اب تازہ خبر یہ ہے کہ کھلاڑیوں اور ایتھلیٹ کی صلاحیت بڑھانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔

لیکن اب بھی ایک سوال سب سے اہم ہے کہ سرکیومن جسم کے اندار آسانی سے جذب نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر کیمبرج یونیورسٹی کے ممتاز ماہرین نے ٹرمرک سی فارمولہ بنایا ہے جو جسم کے اندر سرکیومن کو انجذاب کو 30 گنا بڑھاتا ہے۔ اس فارمولے میں وٹامن سی شامل کیا گیا ہے جو خون میں سرکیومن جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ٹرمرک سی سپلیمنٹ سی کو برطانیہ کے مجاز اداروں نے استعمال کی اجازت بھی دیدی ہے۔ برطانیہ میں لوگوں کی بڑی تعداد سرکیومن استعمال کررہی ہے جو ہلدی کی رنگت اور اسے جادوئی تاثیر دینے والا ایک اہم مرکب ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال جوڑوں کے گھساؤ اور ہڈیوں کی بریدگی کو روکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایتھلیٹ اسے استعمال کرر ہے ہیں۔

45 سالہ مارک وشارٹ دوڑنے کے شوقین ہیں اور میراتھن سے لے کر دوڑ کے ہر چھوٹے بڑے مقابلوں میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بہترین کارکردگی کے لیے سرکیومن سپلیمنٹ لے رہے اور انہوں نے غذا میں ہلدی کا استعمال بڑھادیا ہے۔

دوسری جانب ہلدی جسم کے اندر سوزش اور فاسد مادوں کو بھی ختم کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ ہلدی صدیوں سے ایشیا میں استعمال ہوتی آرہی ہے لیکن حال میں یورپ اور امریکا میں تحقیق کے بعد اس کے زبردست فوائد سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد ہلدی کا استعمال طرزِ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔

The post ہلدی بنی سونا: اب کھلاڑیوں اور ایتھلیٹ کے لیے بھی مفید قرار appeared first on ایکسپریس اردو.

موٹاپا ایک وبال: اسے آنے سے پہلے روکیں

$
0
0

بڑھتا ہوا ویٹ اور پیٹ دونوں بلائے جانے سے کم نہیں۔وزن ایک مرتبہ بڑھ جاے اسے کم کرنا محال ہے اور جب وزن بڑھتا ہے تو ممکن ہی نہیں کے پیٹ نہ بڑھے۔ مگر بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ وزن تو نہیں بڑھتا لیکن پیٹ بڑھ جاتا ہے اور بڑھا ہوا پیٹ انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔

مردوں میں جہاں یہ نامناسب معلوم ہوتا ہے وہیں خواتین میں پورے کا پورا فگر برباد کر ڈالتا ہے۔ بڑا ہوا پیٹ بڑھے ہوئے وزن سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے جس کے باعث مرد ہو یا عورت شخصیت ماند پڑجاتی ہے اور جب اس کو واپس لانے کا خیال آتا ہے تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بڑھتے پیٹ اور وزن کی وجوہات یا علامات پر تو بہت بحث ہوتی ہے مگر اس سے بچا کیسے جاسکتا ہے۔ یہ لوگ کم ہی دھیان دیتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے، ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ اگر اس رہنما اصول کو اپنی زندگی میں اپنا لیا جائے تو بہت سی تکلیفوں اور بیماریوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم آپ کو ان اقدامات سے آگاہ کریں گے جن پر عمل پیرا ہوکر آپ بڑھتے وزن اور پیٹ کے مسائل سے بچ سکتے ہیں اور اگر اس کا شکار ہوجائیں تو چھٹکارا پانا بھی ممکن نہ رہے گا۔

-1 نشاستہ دار غذائوں سے پرہیز
نشاستہ دار غذا دراصل ایسی غذا کو کہا جاتا ہے جس میں کاربوہائیڈریٹس موجود ہوں (Carbohydrates) ۔جوکہ انرجی بہم پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ عموماً پھلوں، سبزیوں، ڈبل روٹی یا پاستا اور بازاری اشیاء میں پائے جاتے ہیں۔ اب یہاں آپ کو یقینا حیرانی ہوگی کہ بھلا نشاستہ دار غذائیں جو جسم کو طاقت و حرارت پہنچانے کا سبب ہیں، کیسے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں؟ تو اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ تمام غذائیں جیسے بری نہیں ہوتی ویسے ہی تمام غذائوں کی زائد مقدار اچھی نہیں ہوتی کچھ نشائستہ دار اجزاء جیسے کہ شکر قندی، برائون رائس اور حلوہ کدو میں نشاستے وافقر مقدار میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ اگر ان کا استعمال کیا جائے تو موٹاپے کا کوئی ڈر نہیں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عام نشاستہ دار غذائیں جیسے کہ چھنا ہوا آٹا، میدے والی ڈبل روٹی اور سفید چاول کا استعمال کیا جائے۔

ڈاکٹر روم ماہر غذا اور غذائیت کا اس حوالے سے خیال ہے کہ پیچیدہ نشاستوں والی غذائیں جسم میں بلڈ شوگر کو ایک متوسط درجے تک رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں جبکہ عام نشاستہ دار غذائیں جسم میں شوگر کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کو متحرک کردیتی ہیں جس سے شوگر لیول متعدل رہنے کے بجائے اوپر نیچے ہوتا ہے۔ ایسی غذائیں باقاعدگی سے کھانا ایک نا ایک روز موٹاپے، انسولین کی مزاحمت اور سوجن کا باعث بنتی ہیں۔ وہ غذائیں جن سے اس ضمن میں پرہیز کرنی چاہیے ان میں سنگین، سفید چاول، پاستا، ڈونٹ اور مفین شامل ہیں۔

-2 غیر متوازن چربی سے پرہیز کریں
ہماری روزمرہ خوراک میں فیٹس کی ایسی تین اقسام موجود ہوتی ہیں جوکہ موٹاپے، سوزش اور پیٹ بڑھنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں سے سے خطرناک فیٹس ٹرانس فیٹس ”Trans Fats” ہوتی ہیں جوکہ غیر سیرشدہ چربی کو تادیر قابل استعمال بنانے کے لیے ہائیڈروجن شامل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ عمومی طور پر بازاری اشیاء جیسے کہ نمکین بسکٹس، بیکڈ اشیاء مفنیز اورپیکٹ میں دستیاب چپس میں پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد قابل استعمال ہونے کی مدت کو بڑھانا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک اسے استعمال کیا جاسکے۔

آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہوکہ فورڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن Food & Drug Administration کے قوانین میں ٹرانس فیٹس کو بین کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جوکہ توسیع پاچکا ہے۔ اس کے پیچھے کی کہانی ایسی خوراک تیار کرنے والوں کی جانب سے FDA کو دائر کردہ پٹیشن ہے جس کے نتیجے میں 2021ء تک ٹرانس فیٹس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جہاں کچھ پروڈکٹس پر O ٹرانس درج ہوتا ہے تو ”O Trans Fats” کا مطلب آدھا گرام فیٹس کی موجودگی ہوتا ہے۔

یہاں ان ٹرانس فیٹس کا مسئلہ بڑھتے ہوئے پیٹ سے کچھ بڑھ کر ہے۔ جی ہاں کیونکہ اس سے نہ صرف موٹاپا پروان چڑھ رہا ہے بلکہ شوگر، دل اور دیگر جسمانی امراض بھی پیدا ہورہے ہیں۔ بندروں پر کی جانے والی ایک آٹھ برس کی تحقیق میں انہیں روزانہ 8 فیصد Trans Fats کھلائے گئے جس سے ان کی پیٹ کی چربی 33 فیصد تک اضافہ ہوا۔

کیونکہ ٹرانس فیٹس پگھل کر جسم کا حصہ نہیں بنتے اور جس جگہ رکتے ہیں ونہی پڑائو ڈال لیتے ہیں اس لیے یہ انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صحت بخش فیٹس کے حصول کے لیے زیتون کا تیل، خوبانی کا تیل اور نباتاتی تیل استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ ٹرانس فیٹس جسمانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں جوکہ پکیجڈو فورڈز (Packeged Foods) ، پروسیڈ میٹ (Processed meat)، فل فیٹ ڈیری (Full Fat dairy)، کچھ ٹافیوں، کنولا تیل، انگور کے بیجوں کے تیل، سویا بین کے تیل، زعفران سوچ مکئی اور اومیگا میں پائے جاتے ہیں۔

-3بازاری چپس
مہنگے داموں فروخت ہونے والے ہوا سے بھرے شاپروں میں چند چپس کے دانے ہم بڑے شوق سے خریدتے اور کھاتے ہیں مگر ان کے نقصانات جانے بنا، پیٹ کی چربی بڑھانے میں سب سے بڑا ہاتھ نمک کا ہے جس سے جسم سے نمکیات کا اخراج نہیں ہوپاتا اور پانی جسم میں موجود رہنے سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سے افراد کو اپھارے کی بھی بھی شکایت ہوتی ہے۔

سن 2019ء میں امریکی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گیس کی ایک بہت بڑی شکل اپھارہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ 412 افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ جسم میں سوڈیم کی زیادہ مقدار سے اپھارہ کی شکایت ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فائبر کی زیادہ مقدار بھی اپھارہ کا باعث بنتی ہے مگر سوڈیم (نمک) کی کم مقدار اس ضمن میں کارآمد ثابت ہوتی ہے۔

بازاری چپسوں میں بڑی مقدار میں نمک موجود ہوتا ہے اور پروسیڈ شدہ ٹرانس آئل فیٹس بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے پیٹ کی چربی بڑھتی اور موٹاپا آتا ہے۔

-4چربی سے پاک خوراک کی حقیقت
اگر آپ کے ذہن میں خیال آرہا ہے کہ چربی سے پاک ”FatFree” کا لیبل رکھنے والی خوراک درحقیقت چربی سے پاک نہیں ہوتی تو آپ صحیح سمجھے ہیں۔ لوگ ایسی اشیاء یہ سمجھ کر خریدتے ہیں کہ اس سے وہ واقعی چربی سے پاک خوراک استعمال کررہے ہیں لیکن کھانے کے بعد بھی یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ ان میں ”Fats” موجود تھے۔ فورڈ سائنس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر روم کا کہنا ہے کہ فیٹس کے حوالے سے سب سے بہترین زیتون کا تیل اور آڑو کا تیل ہے جوکہ جسم کو اتنی ہی انرجی پہنچاتا ہے۔ جتنی درکار ہوتی ہے لیکن لوگ غیر معیاری فیٹس کی مقدار لیتے ہیں جس کی وجہ سے موٹاپا جنم لے رہا ہے۔ فیٹس کے حوالے سے سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس سے پیٹ بھرا رہتا ہے اور اتنی ہی انرجی ملتی ہے جتنی چاہیے ہو۔ لیکن فیٹ فری فورڈ کے حوالے سے یہ سوچنا چھوڑ دیں کے وہ آپ کے پیٹ پر رحم کرے گی۔

-5سوفٹ ڈرنکس اتنی بھی سوفٹ نہیں
ہم میں سے بہت سے لوگ سوفٹ ڈرنکس بڑے شوق سے پیتے ہیں مگر شاید اس کے نقصانات سے پوری طرح واقف نہیں۔ سوفٹ ڈرنکس نام کی حد تک ہی سافٹ ہیں۔ اگر ان کی تیاری کے مراحل کو دیکھا جائے یا ان کے کیمیائی اجزاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجود سوڈا جسم کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر معدے پر پڑتا ہے جس سے جلن، معدے کی تکلیف اور السر جنم لیتا ہے۔ مزید یہ کہ ان سوفٹ ڈرنکس میں شکر کی کافی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جوکہ وزن میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔

-6زیادہ سونا مناسب امر نہیں
کچھ لوگوں کے خیال میں زیادہ دیر تک سونا اور آرام کرنا صحت کے لیے مفید ہے مگر یہ تاثر انتہائی غلط ہے۔ آپ نے وہ محاورا تو سن رکھا ہوگا ’’جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے‘‘ تو جناب خاطر جمع رکھیے زیادہ سونے والا انسان صرف اپنی صحت کو ہی نہیں کھوتا بلکہ اپنے قیمتی وقت کا بھی ضیاع کرتا ہے۔ بہت سی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ سونے سے وزن بڑھنے کے ساتھ پیٹ بھی بڑھتا ہے۔ 68,000 خواتین پر 16 برس میں کی گئی ایک طویل ریسرچ سے یہ حقائق سامنے آئی کہ وہ خواتین جو 5 گھنٹوں سے کم سوتی ہیں ان میں 7 گھنٹوں تک سونے والی خواتین کی نسبت 32 فیصد وزن میں اضافہ ہوا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف زیادہ سونا ہی نہیں بلکہ کم سونا اور وقت پر نہ سونا بھی وزن میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ نیند میں خلل کا مرض بھی وزن میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے جس سے پیٹ کی چربی بڑھ سکتی ہے۔

-7ذہنی دبائو سے بچیں!
انسان کا ذہن زندگی کی علامت ہے۔ زندگی کا کوئی بھی میدان ہو اس میں ذہنی استعداد اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ذہن دبائو کا شکار ہوگا تو اس کے اثرات تمام جسم پر ہی نہیں بلکہ باقی معاملات پر بھی پڑیں گے۔ انسانی جسم میں دبائو یعنی ”Stress” کو کنٹرول کرنے والا ایک ہارمون پایا جاتا ہے جیسے کوریٹیول کہتے ہیں جس کا بنیادی مقصد جسم میں تنائو کو قابو کرنا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ہارمون جہاں Stress کو کنٹرول کرتا ہے ونہی اس عمل کے دوران کیلوریز کو جسم میں قید کرتا ہے۔ جس کا مرکز پیٹ ہوتا ہے۔ وہ خواتین جن کمر کولہوں سے بھاری ہوتی ہے وہ دبائو کے وقت یہ ہامون عام خواتین کی نسبت زیادہ خارج کرتی ہیں۔ اس لیے ذہنی دبائو سے چھٹکارا پانا موٹاپے کو دور بھگانے کا آسان ترین حل ہے۔

-8کیک پیسٹری سے پرہیز
برتھ ڈے ہو یا کوئی بھی ڈے اب اسے منانے کے لیے کیک ایک لازمی جزو بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کیک اور پیسٹریاں بھی ایک قسم کی پروسیڈ شدہ خوراک ہیں جن کو کچھ عرصے اور معیار کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور ان کی تیاری میں جو اجزاء درکار ہیں وہ بھی غذائیت سے بھرپور نہیں۔ سفید آٹا بیکنگ سوڈا جوکہ جسم میں انرجی لیول کو متحرک نہیں کرتے۔ نتیجتاً اس سے موٹاپہ اور صحت کے امراض جنم لیتے ہیں۔ حتیٰ الامکان کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیک اور پیٹسری کم سے کم کھائیں۔

-9تلی ہوئی اشیاء
مزیدار تلی ہوئی چیزوں کا خیال آتے ہی منہ میں پانی آتا فطری سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان کی کثرت سے ناصرف موٹاپا آتا ہے بلکہ بڑھے پیٹ کے تحفے کے ساتھ سینے کی جلن کا گفٹ بھی ملتا ہے۔ تلی ہوئی اشیاء جیسے کہ آلو کے چپس، سموسے، پکوڑے، نگٹس اور نجانے کیا کیا سب بالکل اسی طرح پیٹ میں ڈیرہ ڈالتے ہیں جیسے پروسیڈ گوشٹ، ایسی خوراک کو جسم میں حل ہونے میں بہت وقت لگتا ہے جس کا باعث ان میں موجود بھاری فیٹس ہوتے ہیں جوکہ پیٹ کی چربی میں اضافہ کرتے ہیں تو بہترین حل یہ ہے کہ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو تلی ہوئی اشیاء کو ہم چھوڑ نہیں سکتے مگر انہیں کم سے کم استعمال کرسکتے ہیں۔

-10پروسیس شدہ گوشت
گوشت اور گوشت سے بنی اشیاء سب شوق سے کھاتے ہیں۔ گو پروسیس شدہ گوشت ذائقے میں لذیز ہوتا ہے مگر اس میں موجود کیلوریز کی وافر مقدار صحت اور وزن دونوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پروسیس شدہ گوشت ہے کیا؟ تو یہ ایسا گوشت ہوتا ہے جیسے مختلف طریقوں سے زیادہ وقت کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے جیسے کے نمک لگا کر، ٹین میں رکھ کر، خشک یا سکھا کر یا پھر جلا کر لمبے عرصے تک محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ ناصرف معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ امراض قلب اور فالج کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے گوشت کو ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ آنتوں میں جاکر ٹھہر جاتا ہے اور جسم میں حل ہونے میں وقت درکا ہوتا ہے۔ اس کی مثال پکے ہوئے گوشت کے ٹھنڈے کئے ہوئے ٹکڑے، فریز، قیمہ اور خاص طور پر فروزن میٹ ہے جو کہ ڈبوں میں رکھ کر بیچا جاتا ہے۔ ان میں کوئی بھی فائبر نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں ہضم کرنے میں وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

-11ورزش اور واک کو معمول بنائیں
صحت عطیہ خداوندی ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیـں۔ اور صحت مند رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے۔ورزش صحت کے لئے بہت ضروری ہے، اس سے نا صرف جسم تندرست و توانا رہتا ہے بلکہ اضافی چربی بھی گھل جاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ روزانہ ایک گھنٹہ واک انسان کی صحت کو متاثر کرنے والے امراض سے بچاتی ہے۔ اور وزن کو بڑھنے سے روکتی ہے۔

-12میٹھے پھلوں کو کم استعمال کریں
میٹھے میٹھے پھلوں کی لذت سب ہی کو مزہ دیتی ہے۔ مگر ان پھلوں میں پایا جانے والا شکر موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے۔کچھ پھلوں جیسے کے سیب،آم، تربوز میں اس کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کے ان پھلوں کو استعمال نہ کیا جائے بلکہ اعتدال سے استعمال کرنا بہترین عمل ہے۔

-13پھلیاںاور خشک میوہ جات
پھلیاں اور خشک میوہ جات دل کے لئے افادیت بخش ہیں۔لیکن یہ گیس کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق پھلیوں میں گیس پیدا کرنے کی اتنی ہی صلاحیت ہوتی ہے جتنی گوبھی اور براکلی میں ہوتی ہے جو کہ نتیجتاً موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ اور گیس کی وجہ بیکٹیریا کہ جسم میں حل نہ ہونا ہے۔پھلیوں اور میوہ جات کو اکٹھا کھانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

-14سلاد کھائیں
سلاد افادیت سے بھرپور غذا ہے۔ مگر دھیان رکھئے بازار سے ملنے والا سلاد بذاتِ خود پیٹ پہ چربی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ خاص طور پہ سلاد کی مائونیئز اور مختلف سوسز سے ہوئی ڈریسنگ اسے بھاری بناتی ہے۔ سلاد کی بہترین ڈریسنگ زیتون کا تیل ،سرکا اور مصالحہ جات ہیں۔ماہرین کے خیال میں سرخ مرچ، کالی مرچ، روز میری، لہسن پائوڈریا لیموں کا رس ہے جو سلاد کو منفرد ذائقہ بخشتے ہیں۔

The post موٹاپا ایک وبال: اسے آنے سے پہلے روکیں appeared first on ایکسپریس اردو.


کم مقدار میں اسپرین کا استعمال قبل از وقت پیدائش سے بچاتا ہے، تحقیق

$
0
0

کینبرا: کم آمدنی والے چھ ممالک میں کی گئی ایک تازہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پہلی بار ماں بننے والی خواتین اگر روزانہ تھوڑی سی مقدار میں اسپرین بھی لے لیا کریں تو اس سے بچے کی قبل از وقت پیدائش سے بچا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران کونگو، گوئٹے مالا، ہندوستان، کینیا، پاکستان اور زیمبیا میں مجموعی طور پر ایسی 12 ہزار خواتین کو مطالعے میں شریک کیا گیا جو پہلی بار ماں بننے جارہی تھیں۔

یہ تو معلوم نہیں کہ اسپرین اس معاملے میں کس طرح عمل کرتی ہے لیکن اتنا ضرور ثابت ہوچکا ہے کہ اسپرین استعمال کرنے والی وہ خواتین جو پہلی بار حاملہ ہوئی تھیں، ان میں بچے کی قبل از وقت پیدائش کے امکانات 11 فیصد تک کم رہ گئے جبکہ حمل کے 34 ویں ہفتے سے پہلے زچگی (ڈیلیوری) کے امکانات 25 فیصد تک کم ہوگئے۔

واضح رہے کہ تجزیئے کی غرض سے اس مطالعے میں روزانہ معمولی مقدار میں اسپرین لینے والی خواتین کا موازنہ ایسی خواتین سے کیا گیا جو پہلی بار ماں بننے تو جارہی تھیں لیکن وہ اسپرین استعمال نہیں کررہی تھیں۔

ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بچوں کی قبل از وقت پیدائش بھی خواتین کے اہم مسائل میں شامل ہے اور اس ضمن میں روزانہ ’’بے بی اسپرین‘‘ کہلانے والی صرف ایک گولی روزانہ کھانے سے حاملہ خواتین کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ خواتین میں حمل کا اوسط دورانیہ 280 دن، 40 ہفتے یا پھر سوا نو مہینے (9 مہینے اور ایک ہفتہ) ہوتا ہے۔ کچھ بچے اس سے چند دن پہلے جبکہ کچھ اس اوسط سے کچھ دن بعد بھی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تشویش کی بات تب ہوتی ہے جب بچے کی پیدائش، اس اوسط سے تین چار ہفتے یا اس سے بھی پہلے ہوجائے۔ قبل از وقت پیدائش کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے اکثر کم وزن اور جسمانی و ذہنی طور پر کمزور بھی ہوتے ہیں؛ اور وہ کم عمری ہی میں موت کا آسان شکار بن سکتے ہیں۔

ساتویں اور آٹھویں مہینے میں پیدا ہونے والے بیشتر بچے یا تو مُردہ پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدائش کے کچھ وقت بعد ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ زچہ و بچہ کے یہ مسائل پاکستان سمیت دوسرے ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بہت عام ہیں۔ اگر اسپرین کی معمولی اور نہایت کم خرچ خوراک سے یہ صورتِ حال بہتر بنانے میں کوئی افاقہ ہوتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔

اگرچہ اس تحقیق کی تفصیلات معروف و معتبر طبّی تحقیقی جریدے ’’دی لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی اس سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپرین کو باقاعدہ طور پر اس انداز سے خواتین کےلیے تجویز کرنے سے قبل ہمیں مزید وسیع تر تحقیق کرکے اپنا پورا اطمینان کرلینا چاہیے۔

The post کم مقدار میں اسپرین کا استعمال قبل از وقت پیدائش سے بچاتا ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

خشک آنکھ کو نم رکھنے والا کانٹیکٹ لینس تیار

$
0
0

ٹوکیو: دنیا میں ہزاروں لاکھوں افراد آنکھ کے ایک عارضے میں مبتلا ہیں جس میں آنکھوں سے نمی کی مقدار کم بنتی ہےاور خشک آنکھوں کی وجہ سے بار بار آنکھوں میں قطرے ٹپکانا پڑتے ہیں۔

لیکن اب آنکھوں کو مسلسل نم رکھنے والے جدید کانٹیکٹ لینس بنائے گئے ہیں جو مسلسل نمی خارج کرکے آنکھوں کی خشکی سے بچاتے ہیں اور بار بار آنکھوں میں قطرے ٹپکانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

روایتی کانٹیکٹ لینس پہننے سے آنکھ کی پتلی کو پلاسٹک کا ٹکڑا مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے۔ ہم آنکھ جھپکانے کے ہرعمل سے آنکھوں میں نمی پھیرتے ہیں لیکن لینس کی وجہ سے آنکھ کی گول پتلی نمی سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹیکٹ لینس پہننے والے خواتین وحضرات کچھ دیر بعد ہی خارش، جلن اور بےچینی کی شکایت کرتے ہیں۔ تاہم مختلف افراد میں یہ اس کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔

جاپان کی ٹوہوکو یونیورسٹی کے پروفیسر مٹشیکو نیزی شاوا نے اس مسئلے کے حل کے لیے جدید کانٹیکٹ لینس بنایا ہے جو وقفے وقفے سے لینس اور اپ کی آنکھ کے درمیان ہلکی نمی خارج کرتا رہتا ہے۔ یہ نمی ایک طبعیاتی مظہر الیکٹرواوسموٹک فلو (ای او ایف) کے تحت بنتی ہے۔ ای او ایف میں جب کسی چارج شدہ سطح پر بجلی گزاری جاتی ہے تو مائع کا ہلکا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے۔

لینس کے اوپر ہائیڈروجل لگایا گیا ہےجو کرنٹ دینے پر آنکھ کو قدرتی طور پر نم رکھنے والے مائع غدود سے نمی کا بہاؤ ممکن بناتا ہے۔ یہ غدود آنکھ کے اوپری پپوٹے کے اندر کونے میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لینس کے اندر ہلکی بجلی بنانے والی بایو بیٹری لگائی گئی ہے جو میگنیشیئم اوراینزائم والے فرکٹوز آکسیجن سے بنائی گئی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی ہے کہ اسے آنکھ کے اندر ہی لگایا جاسکتا ہے۔

فی الحال سے دستی طور پرآن یا آف کیا جاتا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب لینس میں مائع کے بہاؤ کا آپشن وائرلیس کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے گا۔ دوسری جانب لینس کو مزید پائیدار اور کم وولٹیج پرکارآمد بنانے پر بھی کام کیا جائے گا۔

اس ایجاد کے بعد لینس کے مزید استعمال یہی پر ختم نہیں ہوجاتے بلکہ اگلے مرحلے میں کانٹیکٹ لینس کے ذریعے آنکھوں کے مرہم یا دوا کو ازخود خارج کرنے کے طریقوں پر بھی غور کیا جائے گا۔

The post خشک آنکھ کو نم رکھنے والا کانٹیکٹ لینس تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

درجنوں عام دواؤں میں سرطان کے خلاف تاثیر دریافت

$
0
0

ہارورڈ: ایک نئے مطالعے سے لگ بھگ 50 سے زائد ایسی دواؤں میں کینسر کے خلاف علاج کی خاصیت دریافت ہوئی ہیں جو کینسر کے علاج کے لیے نہیں بنائی گئی تھیں۔

ان دواؤں میں ذیابیطس، اندرونی جلن، شراب نوشی چھڑانے اور یہاں تک کہ پالتو کتوں کی ہڈیوں کے علاج کی دوائیں بھی شامل ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان پرانی دواؤں میں سرطان ختم یا کم کرنے کی کم یا زیادہ صلاحیت موجود ہے۔

میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں واقع بروڈ انسٹی ٹیوٹ اور ہارورڈ میں واقع ڈینا فاربر کینسر انسٹٰی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے مجموعی طور پر 6000 دواؤں کا جائزہ لیا ہے جو عام استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں سے 50 ادویہ کینسر کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ اس طرح شاید کینسر کے خلاف لڑائی میں ہماری رفتار بڑھ سکے اور یوں ہم بہتر دوائیں بنانے کے قابل بھی ہوجائیں گے۔

اس ضمن میں ٹوڈ گولب نامی ماہر نے بتایا کہ دنیا بھر کی تجربہ گاہیں برسوں اس کوشش میں ہیں کہ کینسر کے خلاف کوئی مرکب مل جائے اور اب اس طرح کئی درجن ادویہ ہمارے سامنے ہیں جو ایف ڈی اے کی منظوری کے بعد دنیا بھر میں استعمال ہورہی ہیں۔ اس طرح پہلی مرتبہ ادویہ کی اتنی بڑی تعداد کو سرطان کے لیے جانچا گیا ہے۔

ماہرین نے کینسر لائن انسائیکلوپیڈیا (سی سی ایل ای) میں سے 578 مختلف اقسام کے کینسر کے خلیات کو شناخت کرکے ادویہ کو ان پر آزمایا ہے اور امید افزا نتائج ملے ہیں۔ اکثر ادویہ کینسر کی وجہ بننے والے پروٹین کو روکنے میں مؤثر پائی گئی ہیں۔

The post درجنوں عام دواؤں میں سرطان کے خلاف تاثیر دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.

ملک میں5 کروڑ نوجوان موٹاپے کا شکار ہیں ،عالمی ادارہ صحت

$
0
0

 کراچی:  پاکستان میں موٹاپے کی وبا نے انتہائی خوفناک شکل اختیار کرلی ہے جہاں پر 20 سال سے زائد عمر کے چار سے پانچ کروڑ افراد موٹاپے کا شکار ہیں، دوسری طرف پاکستانی بچوں میں موٹاپے کی بیماری بڑھتی جارہی ہے،عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2045 تک پاکستان بچوں میں موٹاپے کے لحاظ سے نویں نمبر پر آجائے گا۔

بچوں اور بڑوں میں موٹاپے کے نتیجے میں ذیابیطس، بلڈپریشر، دل کی بیماریوں، فالج اور جوڑوں کے ناکارہ ہونے سمیت دیگر بیماریوں سے اموات اور مستقل معذوری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرسکے، روزانہ ورزش، متوازن غذا اور معدے اور آنتوں کی سرجری کر کے موٹاپے پر قابو پایا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں ذیابیطس اور دیگر امراض سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار معروف پاکستانی بیریاٹرک سرجن اور میٹابولک سرجری کے ماہر ڈاکٹر تنویر رازی احمد نے دی سیکنڈ فلور (T2F) میں موٹاپے کے حوالے سے عوامی آگاہی کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینار کا انعقاد ایک مقامی تنظیم نے کیا جس نے موٹاپے میں کمی کے لیے “آج سے تھوڑا کم” کے نام سے مہم کا آغاز کیا، اس موقع پر ذیابطیس، بلڈ پریشر اور باڈی ماس انڈیکس کے ٹیسٹ بھی کیے گئے۔

ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق 50 فیصد شرکاء بشمول خواتین موٹاپے کے مرض میں مبتلا پائے گئے، عوامی آگاہی کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تنویر رازی احمد کا کہنا تھا کے پاکستان کے نیشنل ڈائبیٹیز سروے کے مطابق پاکستان میں 76 فیصد سے زائد افراد وزن کی زیادتی اور تقریبا باسٹھ فیصد افراد موٹاپے کا شکار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ موٹاپے کی وجہ سے پاکستان کی 26 فیصد آبادی ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہے، 52 فیصد افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں جبکہ 90 فیصد سے زائد افراد کا کولیسٹرول بڑھا ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موٹاپا تمام بیماریوں کی ماں ہے اور اس کے نتیجے میں دل کے دورے اور فالج کے سبب لاکھوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ سالانہ لاکھوں لوگ مستقل طور پر معذور ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر تنویر رازی کا کہنا تھا کہ موٹاپے پر قابو پانے کے لیے روزانہ 40 منٹ تک ورزش، کم کھانا اور متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے وزن کم کرنے کے بعد اسے برقرار رکھنا انتہائی دشوار کام ہے، ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ بیریاٹرک یا میٹابولک سرجری کے ذریعے اب موٹاپے سے مستقل طور پر نجات دلائی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر تنویر رازی احمد نے بتایا کہ سرجری کے ذریعے یا تو معدے کو چھوٹا کر دیا جاتا ہے یا چھوٹی آنت کی لمبائی کو کم کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جسم کو کم خوراک ملتی ہے اور انسان کا وزن تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس سرجری کے نتیجے میں 30 سے 40 کلو گرام تک وزن کم کیا جاسکتا ہے۔

The post ملک میں5 کروڑ نوجوان موٹاپے کا شکار ہیں ،عالمی ادارہ صحت appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں کو دماغی صحت کے لیے سبزیاں ضرور کھلائیں

$
0
0

پینسلوانیا: اگر آپ اپنے بچوں کو دماغی طور پر قوی بنانا چاہتے ہیں تو انہیں سبزیوں کی طرف راغب کیجئےبالخصوص ہرے پتوں والی سبزیوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔

یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے سائنسدانوں نے 8 سے 24 برس کے  1500 بچوں اور نوعمروں کے دماغوں پر غور کیا ہے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جن بچوں میں فولاد کی کمی تھی دماغی مشقوں اور ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی دیگر کے مقابلے میں ناقص رہی۔

سائنس شواہد کی بنیاد پر کہتی ہے کہ جسم میں فولاد جاکر آخرکار خلیات (سیلز) میں جمع ہوجاتی ہے۔ فولاد دماغی اور جسمانی کارکردگی کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً منطقی اور عقلی معاملات میں فولاد کی مناسب جسمانی مقدار اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہرے پتوں والی سبزیوں میں فولاد کی غیرمعمولی مقدار پائی جاتی ہے جن میں پالک، شاخ گوبھی اور سلاد سرِ فہرست ہیں۔ یہ تحقیق یونیورسٹی کے پروفیر ڈاکٹر بارٹ لارسن نے کی ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ جب تک بچہ 20 سال کی عمر تک نہ پہنچ جائے اسے فولاد سے بھرپور غذائیں دی جائیں یا پھر آئرن سپلیمنٹ دیئے جائیں۔ پوری دنیا میں دوارب سے زائد افراد میں فولاد کی کمی  ریکارڈ کی گئی ہے۔

بچے ہوں یا بڑھے فولاد کی کمی سے دردِ سر، کمزوری، چکر، جلد کی پیلی رنگت اور سینے میں درد جیسی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ خون کے سرخ خلیات سازی میں فولاد کا اہم کردار ہوتا ہے اور یہ خلیات پورے جسم میں آکسیجن پہنچاتے ہیں۔

بچوں کو روزانہ 8 ملی گرام فولاد درکار ہوتی ہے جبکہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے نوعمروں کو 11 ملی گرام فولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر لڑکیوں کو 15 ملی گرام فولاد درکار ہوتا ہے کیونکہ مخصوص ایام میں فولاد کی کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔

ڈاکٹر لارسن کی تحقیق بتاتی ہے کہ دماغی خلیات میں فولاد جمع ہوتا رہتا ہے اور اگر نہ ہوں تو اس سے ایک جانب تو کئی دماغی عارضے پیدا ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی اکتساب، یادداشت اور منطقی امور میں دماغی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

یہ تحقیق جرنل آف نیوروسائنس میں شائع ہوئی ہے۔

The post بچوں کو دماغی صحت کے لیے سبزیاں ضرور کھلائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 5215 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>