Quantcast
Channel: Health News and Tips in Urdu - صحت - ایکسپریس اردو
Viewing all 5214 articles
Browse latest View live

انڈے کی زردی سے بنی سستی اور مؤثر انسولین

$
0
0

میلبرن: انسولین وہ ہارمون ہے جو خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں میں خاطر خواہ ہارمون نہیں بنتا جس کے لیے انسولین کے ٹیکے لگانے پڑتے ہیں لیکن اب اچھی خبر یہ ہے کہ ماہرین نے بہت کم خرچ اور مؤثر طریقے سے انسولین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کا اہم جزو انڈے کی زردی ہے۔

لیکن موجودہ انسولین کی ایک خرابی یہ ہے کہ اگر اسے خاص ماحول میں نہ رکھا جائے تو اس کے اندر شامل اجزا ریشے دار شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ انسولین کا مرکب ایک یا دو دن میں باریک لوتھڑوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے جسے ’’فائبرلس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عمل مریضوں کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، بالخصوص ایسے مریضوں کے لیے جو کسی پمپ کے ذریعے انسولین بدن میں داخل کرتے ہیں۔

میلبرن میں واقع فلورے انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز اینڈ مینٹل ہیلتھ کے ڈاکٹر اختر حسین اور ان کے ساتھیوں نے انڈے کی زردی کے بعض اجزا کو اس طرح بدلا ہے کہ اس سے انسولین کے ریشے بننے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ اس طریقے کو ماہرین نے مصنوعی طریقے سے انسولین کی تیاری کا نام دیا ہے۔

انسولین پمپ میں فائبرلس کا مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے اور اس کے لوتھڑے مریض کے بدن میں جاکر بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے مریضوں کو ہر 24 سے 72 گھنٹے کے لیے انسولین پمپ بدلنا یا اسے صاف کرنا پڑتا ہے لیکن نئی انسولین سے اس کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی اور دوا ضائع ہونے سے بھی بچ جائے گی۔

انڈے کی زردی میں شکریات پائی جاتی ہیں جس کی بدولت اس کے سالمات کو انسولین کے مالیکیول میں رکھا گیا ہے۔ اس سے جو شے وجود میں آئی ہے اسے ’گلائکو انسولین‘ کا نام دیا گیا ہے۔

توقع ہے کہ اس طریقے سے بننے والی ویکسین دو سے چھ روز تک مؤثر رہے گی اور سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی کیونکہ صرف امریکا میں ہی تین لاکھ سے زائد افراد انسولین پمپ استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر اختر اور ان کی ٹیم کے مطابق اس کے ابتدائی تجربات نہایت حوصلہ افزا رہے ہیں۔

The post انڈے کی زردی سے بنی سستی اور مؤثر انسولین appeared first on ایکسپریس اردو.


ایک وقت میں خون روکنے اور لہو جمانے والی بینڈیج تیار

$
0
0

سنگاپور: سائنس دانوں نے حادثاتی طور پر ایک ایسی پٹی تیار کرلی جو ایک ہی وقت میں دو کام کرسکتی ہے۔ اول یہ زخم سے خون کے بہاؤ کو روکتی ہے اور دوسری جانب باہر آنے والا خون جمنے میں مدد دیتی ہے جس سے زخموں کو مؤثر طور پر بند کرکے انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ زخم کو پٹیوں سے ڈھانکا جائے تو پٹی وقتی طور پر خون روک دیتی ہے لیکن پٹی اتارنے پر زخم دوبارہ کھل سکتا ہے اور اس سے خون کا بہاؤ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ تو ضروری ہے کہ ایک جانب خون کے بہاؤ کو روکا جائے تو دوسری جانب خون کو بہنے سے بھی باز رکھا جائے۔

نیچر کمیونی کیشن نامی عالمی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق ای ٹی ایچ زیورخ انسٹی ٹیوٹ اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ماہرین بدن میں داخل کرنے والے تاروں اور آلات کے لیے ایسی کوٹنگ بنانے پر غور کررہے تھے جو مائعات کو بھگانے والی ہو اور خون سمیت تمام سیال اشیا کو دھکیل سکے لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں نے ایک اور مٹیریل دریافت کرلیا جو بہتے خون کو فوری طور پر جمنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

یہ باریک پرت کاربن اور سلیکون کے نینو فائبر سے بنئی ہے اور اسے آسانی سے عام پٹیوں پر لگایا جاسکتا ہے۔ ایک جانب یہ خون کو دور ہٹاتا ہے یعنی خون اس پر چپکتا نہیں تو دوسری جانب خون باہر نکل کر جیسے ہی اس سے عمل کرتا ہے وہ گاڑھا ہوکر جمنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایجاد حادثاتی طور پر واقع ہوئی ہے جسے سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اب تک خیال ہے کہ اس میں اہم کردار کاربن نینو فائبر کا ہی ہے۔

تیسری اہم بات یہ کہ نئی ایجاد اور حادثاتی طور پر دریافت شدہ مٹیریل کسی بیکٹیریا کو جمع نہیں ہونے دیتا اور اپنی فطرت میں اینٹی بیکٹیریا خواص رکھتا ہے۔ اس کے بعد پٹی کو زخمی چوہوں پر آزمایا گیا اور زبردست کامیابی ملی ہے لیکن فی الحال اسے مزید بہتر کرنے کے بعد ہی انسانوں کی باری آسکے گی۔

یہ دنیا کا پہلا مٹیریل ہے جو خون کے بہاؤ کو روکتا ہے اور خون کو جماتا بھی ہے، اسے عام زبان میں ’سپر ہائیڈرو فوبک‘ مٹیریل کا نام دیا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں کھولی گئی پٹیوں سے زخم دوبارہ کھل جاتے ہیں اور بیکٹیریا اور جراثیم پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہوسکتا ہے۔ پٹی بدلتے وقت ہسپتالوں میں اکثر ایسے مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔

The post ایک وقت میں خون روکنے اور لہو جمانے والی بینڈیج تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

کریلے میں کینسر کو روکنے والے طاقت ور اجزا کی موجودگی ثابت

$
0
0

میسوری، امریکہ: کریلا کئی سوسال قبل چین سے پاکستان اور بھارت پہنچا اور اب بھی اسے بطور سبزی یا گوشت میں ملا کر کھایا جاتا ہے، کریلے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس میں سرطان کو روکنے والے طاقتور اجزا موجود ہیں۔

آیو ویدرک اور طبِ یونانی میں کریلے کو ذیابیطس سمیت کئی ادویات کے علاج میں برسوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اب میسوری کی سینٹ لوئی یونیورسٹی کی پروفیسر رتنا رے اور ان کے ساتھیوں نے کریلے کے مفردات (ایکسٹریکٹس) کشید کرکے انہیں کینسر کے مریض چوہوں پر آزمایا تو ان میں سرطان کا پھیلاؤ سست پڑا اور رسولیوں کی افزائش بھی بہت کم ہوگئی۔

اس طرح کڑوے کریلے کا ایک طبی فائدہ سامنے آیا ہے جو کینسر کے علاج میں مدد دے سکتا ہے۔ اس کے بعد پروفیسر رتنا  نے چھاتی، پروسٹیٹ، سر اور گردن کے کینسر کے خلیات حاصل کیے اور ان میں کریلے کے اجزا شامل کیے تو سرطانی خلیات کی تقسیم بند ہوگئی اور سرطان کا پھیلاؤ بہت حد تک رک گیا۔

چوہوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ کریلا زبان کے کینسر کے معالجے میں بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگراس تحقیق اور کریلے کے اجزا کی پوری کارکردگی سمجھ میں آجاتی ہے تو اس سے بہتر علاج کی راہ ہموار ہوگی۔

ہم جانتے ہیں کہ سادہ شکر اور چکنائی کے سالمات کینسر کے مقام پر جا کر سرطان کو مزید بڑھاتے ہیں۔ کریلے کےاجزا ان دونوں کا راستہ روکتے ہیں اور اس طرح سرطانی خلیات کم ہوجاتے ہیں اور بعض خلیات کو مرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

پروفیسر رتنا کے مطابق جب کریلے کو مختلف جانوروں پر آزمایا گیا تو سرطانی رسولیوں کی جسامت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اب اگلے مرحلے میں کریلے کے یہ اجزا انسانوں پر آزمائے جائیں گے۔

The post کریلے میں کینسر کو روکنے والے طاقت ور اجزا کی موجودگی ثابت appeared first on ایکسپریس اردو.

بیکٹیریا کو’کچل کر‘ مارنے والے مقناطیسی ذرات

$
0
0

سڈنی: بیکٹیریا اور جراثیم انسانیت کے لیے بڑے ہلاکت خیز خطرات بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا ادویاتی اسلحہ خانہ ان کے سامنے بے اثر ہوچکا ہے اور تگڑے ہوتے ہوئے بیکٹیریا کے سامنے نئی اینٹی بایوٹکس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن نئی اینٹی بایوٹکس کی تیاری کے لیے بہت وقت، سرمایہ اور محنت درکار ہے۔

آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے حقیقت میں بیکٹیریا پر حملہ کرکے انہیں چیرپھاڑ کرنے پر تحقیق کی ہے۔ اس کے لیے سائنس دانوں نے مقناطیسی اور دھاتی مائع کے نینو ذرات (پارٹیکلز) بنائے ہیں۔ جب ایسے ذرات کو ہلکے مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو مائع دھات کے نینو قطرے اپنی شکل بدل لیتے ہیں اور ان کی کنارے نوک دار ہوجاتے ہیں۔ اب یہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ کسی نیزے کی طرح بیکٹیریا میں پیوست ہوکر اسے پنکچر کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔

تجربہ گاہ میں اسے بیکٹیریا کے باریک چادر (بایو فلم) پرآزمایا گیا تو صرف 90 منٹ میں ذرات نے اسے تباہ کرکے 99 فیصد بیکٹیریا کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس سے تمام اقسام کے بیکٹیریا مرگئے اور انسانی خلیات (سیلز) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

تحقیق کے مرکزی مصنف آرون ایلبورن کہتے ہیں کہ بیکٹیریا کیمیائی عمل کے سامنے مضبوط ہورہے ہیں اور ان پر حملہ کرکے مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔

سائنس دان آرون نے کہا کہ ’ہم نےمائع دھاتوں کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیکٹیریا کی بایوفلم کو پھاڑ کر انہیں مزید بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اگر اس میں مزید کامیابی ملتی ہے تو اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت کی باتیں قصہ پارینہ ہوجائیں گی‘۔

اس تکنیک کو اسپرے میں بدل کر طبی پیوند اور آلات کو بیکٹیریا سے محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ کامیابی کی صورت میں فنگل انفیکشن، بدن سے کولیسٹرول کاٹنے اور خود کینسر کے خاتمے میں کامیابی مل سکے گی۔

The post بیکٹیریا کو’کچل کر‘ مارنے والے مقناطیسی ذرات appeared first on ایکسپریس اردو.

این آئی سی وی ڈی کراچی میں ’ہس بنڈل پیسنگ‘ کے پہلے کامیاب تجربات

$
0
0

 کراچی: قومی ادارہ برائے قلب ’این آئی سی وی ڈی‘ کے ماہرین نے پاکستان کی تاریخ میں ہس بنڈل پیسنگ کے کامیاب تجربات کیے ہیں، یہ کامیابی پاکستانی ماہرین کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس عمل میں برقی سگنل کو ہموار انداز میں خارج کرکے دھڑکن کو منظم کرنے والے پیس میکر کا تار دل کے اندر ایک خاص مقام پر لگایا جاتا ہے اس مقام کو ’ہس بنڈل‘ کہا جاتا ہے اور اس جگہ پیس میکر کے تار پہنچانے کا عمل ہس بنڈل پیسنگ کہلاتا ہے۔

ہس بنڈل پیسنگ کا عمل این آئی سی وی ڈی میں الیکٹرو فزیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر اعظم شفقت، نائب پروفیسر فیصل قادر نے امریکی جامعہ منی سوٹا سے وابستہ ڈاکٹر ریحان کریم کی سربراہی میں انجام دیا گیا ہے۔

45 سالہ مریض نور الدین اور 80 سالہ مریض شمیم بیگ کو دل کی کمزوری اور دل کی کم اور بے ترتیب  دھڑکن کی بیماری کے باعث این آئی سی وی ڈی میں داخل کیا گیا تھا۔ آپریشن کے بعد یہ دونوں مریض تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق دونوں مریضوں کو جلد ہی ہسپتال سے فارغ کردیا جائے گا۔

ہم جانتے ہیں کہ دل کی دھڑکن، خون پمپ کرنے کی صلاحیت سب میں دل کی برقی (الیکٹرک) سرگرمی کا دخل ہوتا ہے اور اسی سے ای سی جی حاصل کی جاتی ہے۔

اسی لیے دل کی بے ترتیب دھڑکن کو درست کرنے کے لیے پیس میکر لگائے جاتے ہیں جو مصنوعی طور پر مسلسل یکساں وقفے سے بجلی کا جھماکہ دل تک پہنچا کر برقی سرگرمی کو درست کرکے دل کی دھڑکن کو ہموار بناتے ہیں۔ یہ مرض ڈی سنکرنی (عدم مطابقت) یا اردھمیا کہلاتا ہے۔ لیکن اس سے دل کے پٹھوں کی کمزوری سمیت دیگر پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔

ہس بنڈل پیسنگ کی اہمیت

روایتی پیس میکر میں ایک خرابی بار بار سامنے آتی ہے کہ برقی تار دل کے سیدھے خانے میں اوپر اور نیچےکی جانب لگایا جاتا ہے۔ کافی عرصے بعد دل کے نچلے خانے کی دھڑکن ہم آہنگ نہیں ہوپاتی اور مریض کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

اس کے برخلاف پیس میکر کا تار دل کے دائیں وینٹریکل میں ایک مقام ’ہس بنڈل‘ تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ بیماری سے پاک یا دور ہوتا ہے۔ اس طرح اب پیس میکر یکساں رفتار سے دل کے دونوں نچلے خانوں کو یکساں حرکت میں رکھتا ہے اور اس سے مزید امراض کا خدشہ ٹل جاتا ہے۔

ہس بنڈل پیسنگ ایک جدید طریقہ ہے جو خاص ماہرین کی زیرِ نگرانی ہی انجام دیا جاتا ہے۔

The post این آئی سی وی ڈی کراچی میں ’ہس بنڈل پیسنگ‘ کے پہلے کامیاب تجربات appeared first on ایکسپریس اردو.

نومولود بچوں سے کھیلتے ہوئے بڑے اور بچے کے دماغ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں

$
0
0

 نیویارک: اپنی نوعیت کی پہلی دلچسپ تحقیق میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جب بڑے کسی بہت چھوٹے بچے کے ساتھ کھیلتے ہیں تو دونوں کے دماغ باہم جڑجاتے ہیں اور گویا ایک ہی فریکوئنسی پر آجاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ چھوٹے بچے آپ سے بات نہیں کرتے لیکن غوں غاں سے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ آنکھوں کے ملاپ، سرہلانے اور ایک دوسرے کو متوجہ کرنے کے اس عمل میں دونوں کی دماغی کیفیت ایک ہی سطح پر آجاتی ہے اور دونوں کے دماغ یکساں سرگرمی دکھاتےہیں۔

پرنسٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ ثابت کیا ہے کہ قدرتی طور پر بچے اور بڑے کے درمیان کھیل اور متوجہ ہونے سے دماغ ایک ہی نہج پر آتے ہیں ۔ بالخصوص بچے کو کوئی کھلونا دیتے ہوئے یا اس سے آنکھیں ملانے کے عمل میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ تحقیق ’ بے بی لیب‘ میں کی گئی ہے جس سے بچوں میں سیکھنے، دیکھنے، سمجھنے اور دنیا کو جاننے کے بارے میں بہت رہنمائی ملے گی۔

تحقیقی ٹیم میں شامل مرکزی سائنسداں پروفیسر ایلس پیازا اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ یہ بچے میں پہلے سال ہی شروع ہوجاتا ہے اور بچوں میں زبان سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق کےلیے کئی رضاکاروں کو بچے کے ساتھ کھیلنے اور ان سے بات کرنے کا موقع دیا گیا۔

اس دوران ایک خاص مانیٹر کے ذریعے دونوں کی دماغی سرگرمی کو ریکارڈ کرکے اس کا جائزہ لیا گیا۔ اسکیننگ کے لیے رضاکاروں اور بچوں کو خاص ٹوپی پہنائی گئی جس پر 50 سے زائد چینل تھے جو مختلف دماغی علاقوں سے سگنل وصول کررہے تھے۔

ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ بچے کو اگر کوئی لوری سناتا ہے، کھلونے سےبہلائے یا اس سے آنکھ ملاکر اسے خوش کرے تو اس کے دماغ میں اس شخص کا گہرا تصور بنتا ہے اور عین دوسرے بالغ فرد میں بھی بچے جیسی دماغی سرگرمی نے جنم لیا ۔ اس طرح دو افراد کے باہمی رابطے کے بارے میں پتہ چلا ہے اور خود بچے کے سیکھنے کے عمل پر قیمتی معلومات ملی ہیں۔

The post نومولود بچوں سے کھیلتے ہوئے بڑے اور بچے کے دماغ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

جگر کو جسم سے باہر 7 دن تک محفوظ رکھنے والی مشین ایجاد

$
0
0

زیورخ: سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایک ایسی مشین تیار کرلی ہے جو نہ صرف زخمی انسانی جگر کی مرمت کرسکتی ہے بلکہ اسے جسم سے باہر ایک ہفتے تک زندہ حالت میں محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔ اس طرح یہ مشین جگر کے علاج اور پیوند کاری کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ جگر ہمارے جسم کا انتہائی اہم عضو ہے جسے ’’انسانی جسم کا ویئر ہاؤس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بہت حساس عضو بھی ہے جو انسانی جسم سے نکالے جانے کے بعد صرف چند گھنٹوں تک ہی زندہ حالت میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جگر کے عطیات اور پیوند کاری جیسے شعبہ جات میں پیش رفت بہت سست رفتاری کا شکار ہے۔

انسانی جگر کو جسم سے باہر ایک ہفتے تک زندہ اور محفوظ حالت میں رکھنے کا براہِ راست مطلب یہ ہوا کہ آنے والے برسوں میں نہ صرف جگر کے زیادہ عطیات جمع ہوسکیں گے بلکہ اس سے جگر کے امراض میں مبتلا لاکھوں مریضوں کو ہر سال فائدہ ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال پیوند کاری یا ’’ٹرانسپلانٹ‘‘ کے مجموعی طور پر 100,800 آپریشن ہوتے ہیں جن میں سے 20200 آپریشن جگر کی پیوند کاری کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف 14.6 فیصد جگر اُن فوت شدہ افراد سے لیے جاتے ہیں جو مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کرجاتے ہیں۔

عطیہ چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، ڈاکٹروں کے پاس جگر کی منتقلی اور پیوند کاری کےلیے صرف چند گھنٹے کا وقت ہوتا ہے۔

یہ مشین زیورخ یونیورسٹی، سوئٹزرلینڈ کے ماہرین کی ایک وسیع ٹیم نے ایجاد کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مشین ایک ایسا پیچیدہ نظام ہے جو (جسم سے نکالے جانے کے بعد) جگر میں خون کی گردش تقریباً اسی طرح سے جاری رکھتا ہے جیسے حقیقی انسانی جسم میں ہو۔

نتیجتاً جگر کو انسانی جسم کے باہر ایک ہفتے تک زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس دوران جگر کے زخموں کی مرمت کی جاسکتی ہے، جگر میں جمع ہوجانے والی اضافی چربی صاف کی جاسکتی ہے، اور جگر کی جزوی طور افزائش بھی کی جاسکتی ہے۔

مشین کی آزمائش کےلیے ایسے 10 انسانی جگر حاصل کیے گئے جنہیں یورپ میں ہر پیوند کاری اسپتال نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ بالکل خراب ہوچکے ہیں۔ مشین کے ذریعے ان 10 میں سے 6 جگر صرف ایک ہفتے کے اندر اندر مکمل طور پر صحت مند حالت میں بحال کردیئے گئے۔ تاہم انہیں انسانوں میں پیوند نہیں کیا گیا۔

اگلے مرحلے میں اس مشین سے صاف اور مرمت شدہ جگر انسانی جسم میں پیوند کرنے کے تجربات کیے جائیں گے۔ البتہ یہ ایک حساس مرحلہ ہوگا اس لیے سوئٹزرلینڈ اور یورپ کے طبّی تحقیقی ادارے ہر پہلو سے سابقہ تجربات کا جائزہ لینے کے بعد ہی محدود پیمانے پر انسانی تجربات کی اجازت دیں گے۔

اس ایجاد کی تفصیلات ’’نیچر بایوٹیکنالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں اور استفادہ عام کےلیے مفت دستیاب ہیں۔

The post جگر کو جسم سے باہر 7 دن تک محفوظ رکھنے والی مشین ایجاد appeared first on ایکسپریس اردو.

جگر کو صحت مند کیسے رکھیں؟

$
0
0

دورِحاضر میں بہت سے ایسے امراض  ہیںکہ مریض انھیں ہاضمے کی خرابی جان کر نظر انداز کردیتے ہیں،تاہم رفتہ رفتہ تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھر پتہ چلتا ہے کہ مرض ہاضمے کا نہیں تھا بلکہ جگر کا تھا۔

امراضِ جگرپر معلومات سے قبل اسکے مقام و افعال پر نگاہ ڈالنا مناسب ہے۔ جگر جسمِ انسانی کا سب سے بڑا عضواور غدہ ہے، دائیں  پسلیوں کی نچلی طرف واقع ہے،عموماً وزن تین پونڈ ہوتا ہے اور رنگ سرخی مائل نسواری۔ یہ پانچ سو سے زیادہ اہم افعال کا مرکز ہے۔ اس کا کچھ حصہ بائیں جانب بھی موجود ہے۔ یہ استحالہ کاخاص مرکز ہے یعنی غذا، دوا الغرضیکہ جو کچھ بھی انسان کھاتا پیتا ہے، جگر اپنی طبعی حرارت سے اسے پکاتا اور منظم کرتا ہے۔

جس طرح شریان دل سے اُگتی ہیں ، اسی طرح وریدیں جگر سے اُگتی ہیں۔ یہیں سے خون دل کے دائیں اذن(ایٹ ریّم) میں پہنچتا ہے۔ اسیاعضائے ہضم کا حاکم بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس کے ذمہ اخلاط کی افزائش بھی ہے۔ جب معدے سے باب الکبد کے ذریعے غذا جگر تک پہنچتی ہے تو جگر اسے چھانتا ہے۔ غذا کے کسی جزو کو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ وہ جل جاتا ہے، اسے ’سوداء‘  کہتے ہیں۔ یہ اسے تلی تک اپنے  عروق کے ذریعے پہنچاتا ہے  تو غذاکو ایسی حرارت مل جاتی ہے کہ بخارات جیسی ہئیت ہوجاتی ہے یعنی  ’ صفراء ۔ جگر اسے پتّہ میں جمع کرتا ہے۔ غذا کا کوئی جزوپکنے سے  رہ جائے تو اس پر جگر کی حرارت ٹھیک طور پر اثر انداز نہیں ہوتی، اسے خون کے ساتھ بہا دیتا ہے اسے بلغم کہاجاتا ہے یعنی کم پکا ہوا خون۔کبھی غذاء کے کچھ اجزاء کو ٹھیک حرارت پہنچا کر اپنے ہم رنگ کر دیتا ہے جو سر خ رنگ کا خون کہلاتا ہے، اس میں سرخی غالب ہوتی ہے مگرباقی اخلاط بھی پائے جاتے ہیں۔

غذا میں بھی کچھ صلاحیت پائی جاتی ہے، مثلاَ ٹھنڈی تاثیر والی اغذیہ کو اس قدر حرارت کی ضرورت ہوتی ہے کہ بعض لوگوںکا جگر وہ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے، مگر  بعض لوگوںکو یہی غذاء مفید ہوتی ہے کہ ان کا جگر وہ حرارت مہیا کر دیتا ہے ۔ اکثر لوگوںکا مزاج سُست ہوتا ہے ان کے ہاضمے اس لیے خراب رہتے ہیںکہ جگر غذاء کو مطلوبہ حرارت مہیا نہیںکرتا۔ ان کے بر عکس چُست لوگوں کا ہاضمہ درست ہوتا ہے مگر ان میں جگر کی حرارت بڑھ جانے سے غذاء کا کافی حصّہ بخارات جیسا ہوجاتا ہے یاجل جاتا ہے،دوسرے الفاظ میں صفراء یا سوداء بڑھ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تیزابیت جیسی کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر اکثر لوگ ہر حالت میں صرف معدے کی ادویہ ہی استعما ل کرتے رہتے ہیں یوں انھیں صرف وقتی آرام ہی حاصل ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں جگر کے ذمہ حیاتین(وٹامنز)کو محفوظ کرنا، خامرات کے افراز کو قابو میں رکھنا ، خون کو بہنے اور منجمد کرنے والے اجزاء کو قابو میں رکھنا ، دوا کے زہریلے اثرات کو دور کرنا بھی شامل ہیں نیز جگر ایک خاص ہارمون ’’اینجی ٹین سینوجن‘‘بناتا ہے جو بلڈپریشر بڑھاتا ہے،خون کی عروق کو پتلا کرتا ہے۔ جسم بھر میں جو حرارت پائی جاتی ہے وہ جگر کے ہی مرہونِ منت ہے۔

جگر کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض کی طرف دھیان دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے جگر پیدائشی طور پر کمزور (کم حرارت والے) ہوتے ہیں، ان لوگوں کی جلد نرم، سفیدی مائل ہوتی ہے،یہ لوگ سُست ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو قبض اور ریح کی شکایت زیادہ رہتی ہے، کیونکہ حرارت کی کمی کے سبب ان کی غذاء سے بلغم کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ کبھی یہ کیفیت پیدائشی نہیں بلکہ بعض وجوہات سے ہوتی ہے مثلاََ زیادہ تیل والی غذاء کا استعمال، زیادہ پریشانی کے سبب بھی جگر کی طبعی حرارت کم ہوجاتی ہے، ان کا پیٹ بڑھا ہوتا ہے۔ اکثر ذیابیطس کے مریضوںکا جگر کمزور ہوجاتا ہے۔

بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر یا  بعض دیگر وجوہات کی بنا پرجگر باافراط حرارت پیداکر دیتا ہے، ان لوگوں کے جسم دبلے ہوتے ہیں اور انھیں تیزابیت معدہ، بول وبراز میں پیلاہٹ اور پیاس کی شدت جیسے مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ نیز پیاس کی شدت برق پاشیدوں(الیکٹرولائیٹ) کے غیر منظم ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوںکے جگر زیادہ گرم ہوتے ہیں ، انہیں جنون کی حد تک غصہ آجاتا ہے اوردیر تک رہتا ہے۔

بعض لوگوںکا جگر اس حد تک گرم ہوتا ہے کہ وہ  غذا کے اکثر اجزا کو جلا دیتاہے۔ یہ راکھ نما اجزا سوداء (کالی خلط)کی شکل میں عروق کے ذریعے تلی میں پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ  وہم ،قبض، موٹاپا،  نیند اور بھوک کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ چاہے پیدائشی طور پر ہوںیا دیگر وجوہات کی بنا پر، بہرحال مناسب تدابیر کے ذریعے جگر کی حرارت کوکم یا  بڑھایا جا سکتا ہے مثلاََ کم غذا کے استعمال کے ساتھ ورزش کا اہتمام کر کے بلغمی مزاج کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح زیادہ مائع دار اغذیہ استعمال کرکے محض پیدل چلنے کی ورزش سے زیادہگرم مزاج کے حامل افراد جگر کی اصلاح کرسکتے ہیں۔

اب جگر کے لئے مفید اور مضر اغذیہ اور ادویہ پرنگاہ ڈالی جائے تو تیل والی غذائیںجگر میں چربی پیدا کرنے کے علاوہ اس کی حرارت کو بجھاتی ہیں۔ انڈے کا بہ کثرت استعمال جگر پر چربی چڑھاتاہے۔ زیادہ چینی کا استعمال ترشی پیدا کرتا ہے جبکہ دہی کا زیادہ استعمال جگر،  معدہ اور جسم میں ٹھنڈک لاحق کردیتا ہے۔ حیاتین(وٹامنز)کا بے جا استعمال صفراء کی زیادہ پیدائش کر کے تیزابیت، اسہال اور بعض لوگوں کو قبض اور معدے میں خراش کے مسئلہ کا شکار کردیتی ہے۔ کافی اور چائے کا بکثرت استعمال معدے کی غشائے مخاطی پر بُرے اثرات مرتب کرنے کے علاوہ جگر کوگرم کردیتا ہے۔

سفید رنگ کی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بلغم زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز سرخ رنگ کی غذاؤں مثلاََ سٹرابیری، سرخ انگور، چقندر، آڑو،انار، ٹماٹر پکے ہوئے اور سبز رنگ کی غذاؤں جسم اور جگر دونوں کے لیے بہتر ہیں۔  یادرہے کہ جگر کی زیادہ حرارت جگر کو متورم کردیتی ہے اور خون کے قوام کو رقیق کرتی ہے جس سے یرقان، نکسیر، جلد پر دھبے اور بالوں کا رنگ تبدیل ہوسکتا ہے۔ جگر کو زیادہ ٹھنڈک پہنچنے سے بلغم کی پیدائش کے علاوہ خون کا جمنا، موٹاپا، دائمی قبض، ذیابیطس (یہ اکثر پہلے ہوتی ہے اور جگر کو نقصان دیتی ہے)، دل کے عوارض، بالوں کا رنگ سفید ہونا، پیشاب کی زیادتی، بدن میں حرارت کی کمی پیدا ہوتی  ہے، کبھی اس نالی میں جمع ہوجاتا ہے جو صفراء کو چھوٹی آنت میں پہنچاتی ہے، اس سے پتّہ کی پتھری بن جاتی ہے۔

ذیل میں جگر اور بدن کی حرارت کو معتدل کرنے کا نسخہ لکھا جارہاہے جو موٹاپے اور ریح کے مبتلا لوگوں کے لیے مفید ہے:

برگ ِپودینہ، دارچینی، سیاہ زیرہ، قنطور یون، مازریون، اجوائن دیسی، برنجاسف، انیسون رومی ہموزن کا قہوہ یا سفوف استعمال کرنا ہوتو برگ ِکاسنی کا اضافہ کر لیں۔

تیزابیت کے مبتلا اشخاص کیلیے:تخم کرفس، مصطگی رومی،کندر،زعفران، سفید زیرہ،بسفائج،ہموزن کا قہوہ یا سفوف موزوں ہے۔

جگر کو صحت مند رکھنے والی غذائیں: جو کا دلیہ ، کھجور، لہسن،سبز چائے، چقندر، انجیر،میوہ جات، مچھلی، زیتون کا پھل، سیب ، آلوبخارا، پکی ہوئی غذاؤں میں پرندوں کے گوشت کی یخنی، بکرے کے گوشت کی یخنی، مونگ مسور کی دال،کالے چنے کا پانی، کدو ، ان اجزاء میں جینیاتی تبدیلی بھی نہیں ہے اور اینٹی آکسی ڈینٹ ہونے کے ناتے جگر کو محفوظ ومامون رکھتے ہیں۔

The post جگر کو صحت مند کیسے رکھیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


چائے، ہماری صحت کی دشمن یا دوست؟

$
0
0

چائے دنیا کے سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے مشروبات میں سے ہے۔ سر میں درد سے نجات پانی ہو یا دن بھر کی تھکاوٹ سے چھٹکارا پانا ہو، مہمانوں کی خاطرتواضع کا معاملہ ہو یا بڑوں کی سیاسی بیٹھک، خوشی کی گھڑی ہو یا غم کا موقع ، چائے ہماری تہذیبی روایات کا اہم حصہ بن چکی ہے۔

چائے کی دریافت آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل چین میں اس وقت ہوئی جب چین کے شہنشاہ شین ننگ کے سامنے اْبلتے پانی کے برتن میں جنگلی پتے ڈال کر ایک مشروب پیش کیا گیا، اْس نے اس مشروب کی خوشبواور ذائقہ کو بے حد پْرلطف پایا۔ سولوھویں صدی میں چائے یورپ میں متعارف ہوئی۔ سترھویں صدی کے دوران میں برطانیہ میں چائے پینا فیشن بن گیا۔ بعدازاںبرطانیہ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پلانٹ کی تیاری اور تجارت شروع کی۔

ابتدائی طور پر صرف خاص مواقع پر چائے پی اور پلائی جاتی تھی۔ انیسویں صدی کے دوران میں یورپ میں چائے کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہوئی۔ انیسویں صدی کے آخر تک چائے معاشرے کی ہر سطح پر روزمرہ کے مشروبات کا حصہ بن چکی تھی۔ 2003 ء میں چائے کی پیداوار 3.15 ملین ٹن سالانہ تھی۔ اس کی سب سے زیادہ کاشت کاری بھارت، چین اور سری لنکا میں ہوئی۔

چائے کی اقسام اور اس کے فوائد

چائے کی تمام اقسام ایک ہی بنیادی پلانٹ کیمیلا سینس سے آتی ہیں، اس پلانٹ کا تعلق ایشیا سے ہے لیکن اس وقت پوری دنیا میں چائے کی کاشت ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔

ڈارک ٹی

ڈارک ٹی چین کے صوبہ ہنان اور سیچوان سے ہے۔ یہ ایک ذائقہ دار پروبائیوٹک چائے ہے جس کا ذائقہ ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے۔ ڈارک ٹی میں بھرپور تعداد میں وٹامنز اور امینو ایسڈ موجود ہیںجن سے جسم کے ہاضمے اور بلڈ پریشر میں کمی میں مدد ملتی ہے۔

گرین ٹی

گرین ٹی کی ابتدا بھی چین سے ہوئی، بعد میں تیزی سے ایشیاء کے تمام ممالک میں پھیل گئی۔ گرین ٹی کا استعمال صحت پر مفید اثرات مرتب ہوتا ہے۔ گرین ٹی کا استعمال چھاتی کے کینسر، پروسٹیٹ کینسر اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو کم کرتا ہے اور وزن میں کمی کا باعث بنتا ہے۔گرین ٹی چربی ختم کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔گرین ٹی کے استعمال سے بڑھاپے میں دماغ کی حفاظت میں مدد ملتی ہے۔گرین ٹی بیکٹیریا کو ختم کرتی ہے جس سے دانتوں کی صحت میں بہتری اور انفیکشن کے خطرے میں کمی آتی ہے۔

ییلو ٹی

ییلو چائے کی ایک ایسی قسم ہے جو ذائقہ میں گرین ٹی کی طرح ہوتی ہے۔ چین میں ییلو ٹی کو ’ہنگچی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی چائے ہے۔ یہ صحت کے حیرت انگیز فوائد کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ اس کا استعمال جگر کی بیماریوں سے محفوظ کرتاہے، تیزی سے بڑھاپے کی رفتارکم کرتا ہے، ذیابیطس اور بڑی آنت کے کینسر کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔

وائٹ ٹی

وائٹ ٹی انتہائی ذائقہ دار ہوتی ہے۔ اس میں چائے کی باقی اقسام کے مقابلے میں کم کیفین ہوتی ہے۔ اس کی کاشت زیادہ تر چین، مشرقی نیپال، تائیوان اور مشرقی ہندوستان میں کی جاتی ہے۔ اس کا استعمال دل کی بیماریوں کے خطرے میں کمی اور دانتوں کو بیکٹیریا سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔

اوولونگ ٹی

اوولونگ ٹی کو وولونگ ٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اوولونگ ٹی کا ذائقہ بلیک ٹی یا گرین ٹی کی طرح لطیف نہیں ہوتا لیکن اس کی خوشبو انتہائی مسحورکن ہوتی ہے۔ اس کا موازنہ اکثر تازہ پھولوں یا تازہ پھلوں کے ذائقہ اور مہک سے کیا جاتا ہے۔ اوولونگ ٹی کے استعمال سے دل کی بیماریوں، فالج اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اوونگ ٹی ذیابیطس کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اوولونگ ٹی کا استعمال دانتوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

بلیک ٹی

بلیک ٹی اوولونگ ٹی، گرین ٹی اور وائٹ ٹی سے زیادہ آکساڈائز ہے۔ بلیک ٹی دوسری اقسام کے مقابلے میں زیادہ سٹرانگ ہوتی ہے۔ بلیک ٹی کا استعمال کولیسٹرول کو کم اور گردے کی پتری کو کم کرنے مدد دیتا ہے۔جسم میں ایل ڈی ایل دل کی بیماری اور فالج کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بلیک ٹی کا استعمال کی سطح کو کم کرنے میں مددگاد ثابت ہوتا ہے۔ بلیک ٹی بلڈ پریشر اور شوگر کی سطح کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

چائے صحت کے لئے اچھی لیکن بغیر دودھ کے

چائے پینا آپ کو دل کی بیماری سے بچانے میں مدد فراہم کرتا ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق دودھ شامل کرنے سے اس کے سارے فوائد ختم ہو سکتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ دودھ کا اضافہ چائے کے اجزاء کی حیاتیاتی سرگرمیوں میں ردوبدل کرسکتا ہے اور اس کے مثبت اثرات کو ختم کرسکتا ہے۔ دودھ والی چائے آپ کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ یہ اضطراب ، تناؤ ، بے چینی کو فروغ دیتی ہے۔

دودھ کی چائے کا زیادہ استعمال چہرے پر دانوں کو نمایاں ہونے کاسبب بن سکتا ہے۔ اس کی زیادہ مقدار پیٹ پھولنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دراصل چائے میں موجود کیفین ہی اس کے پھولنے کی وجہ بنتی ہے۔ چائے میں دودھ شامل کرنا اس حالت کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ دودھ اور کیفین گیس پیدا کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چائے اور دودھ کو ایک ساتھ پینے سے جسم میں ضروری غذائی اجزاء کے جذب میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ دودھ کی چائے کی بہت زیادہ مقدار جسم میں میں آئرن اور زنک کی کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

کیا چائے صحت کے لیے نقصان دہ ؟

چائے کا زیادہ استعمال جسم کے لیے جسم کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم میں موجود آئرن کم ہوتا ہے۔ بے چینی اور بے خوابی کا مرض لاحق ہوتاہے۔ زیادہ مقدار میں چائے کا پینا تیزابیت معدہ، سر درد، اور چکر آنے کا سبب بن سکتا ہے۔

The post چائے، ہماری صحت کی دشمن یا دوست؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

16 پیچیدہ امراض کا شہد اور دارچینی سے علاج

$
0
0

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے شہد کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔‘‘

٭آیورویدک اور طب یونانی میں شہد کو تمام بیماریوں کے علاج کے لیے رام بان یعنی اکسیر قرار دیا گیا ہے۔ جدید تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ’’شہد‘‘ میں واقعی شفا ہے۔ کینیڈا میں کی گئی تحقیق کے مطابق ’’شہد‘‘ اور ’’دار چینی‘‘ کے مرکب سے بہت ساری بیماریوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جن میں سے بعض کا ذکر درج ذیل ہے:

جوڑوں کا درد
٭ایک چمچ شہد، دو چمچ نیم گرم پانی اور آدھا چمچ دار چینی کا سفوف لے کر اس کا پیسٹ بنا لیں اور اس کو صبح شام دکھتے جوڑوں پر لگائیں۔ چند دنوں میں درد اور سوزش سے افاقہ ہو گا۔
٭جوڑوں کے درد کے مستقل مریض روزانہ صبح شام ایک کپ نیم گرم پانی میں دو چمچ شہد ایک چمچ دار چینی کا سفوف ملا کر استعمال کریں۔ اس سے بیماری میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس نسخہ پہ عمل کرنے سے جوڑوں کے درد کے 200 مریضوں کی درد اور سوزش ایک ہفتے کے استعمال سے کم ہو گئی اور انہوں نے چلنا پھرنا شروع کر دیا۔

گنجا پن
٭سر پہ بال اگانے کے لیے زیتون کے تیل کے دو چمچ، ایک چمچ شہد ایک چمچ سفوف دار چینی لے کر پیسٹ بنائیں اور نہانے سے 15 منٹ پہلے سر پر لگائیں اور اس کے بعد سر دھولیں۔

مثانے کے انفیکشن
٭ ’’مثانے‘‘ کے انفیکشن کے علاج کے لیے ایک چمچ دار چینی کا سفوف اور ایک چمچ شہد نیم گرم پانی کے گلاس میں ڈال کر استعمال کریں۔ اس سے مثانے میں انفیکشن کرنے والے جراثیم کا خاتمہ ہو گا اور پیشاب میں آنے والی پروٹین بھی کم ہو جائے گی مگر اس نسخے کا استعمال کم از کم ایک مہینے تک ضرور کریں۔

دانت کا درد
٭دانت کا درد دور کرنے کے لیے ایک چمچ سفوف دار چینی اور پانچ چمچ شہد لے کر پیسٹ بنائیں اور متاثرہ دانتوں پر لگائیں۔ دانتوں کے درد اور سوزش سے افاقہ ہو گا۔

کولیسٹرول میں کمی
٭دو چمچ شہد، دو چمچ (چائے والے) سفوف دار چینی کو ایک کپ چائے کے گرم قہوہ میں ڈال کر روزانہ استعمال کرنے سے کولیسٹرول کے لیول میں خاطر خواہ کمی ہو جاتی ہے۔

نزلہ، زکام، فلو
٭نزلہ، زکام اور فلو کی صورت میں ایک چمچ نیم گرم شہد میں ایک چوتھائی چمچ سفوف دار چینی ڈال کر صبح شام تین دن استعمال کریں۔ یہ نسخہ پرانی کھانسی کیلئے بھی مفید ہے۔
٭سپین میں کی گئی تحقیق کے مطابق شہد میں موجود ایک قدرتی عنصر فلو کے وائرس کو ختم کرتا ہے۔

مردانہ کمزوری اور بانجھ پن
٭مردانہ کمزوری کے مریض روزانہ سونے سے پہلے دو چمچ شہد استعمال کریں۔
٭چین، جاپان اور مشرق بعید کے ممالک کی وہ عورتیں جنھیںحمل نہیں ٹھہرتا، سفوف دار چینی استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ آدھا چمچ سفوف دار چینی اور آدھا چمچ شہد روزانہ استعمال کرنے سے بھی حمل ٹھہرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
٭میری لینڈ امریکہ میں ایک جوڑے نے جن کے ہاں گزشتہ 14 سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ اوپر والے نسخے کو چند ماہ تک استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف حمل ٹھہرا بلکہ صحت مند جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔

معدے کی خرابی اور بدہضمی
٭منہ سے بدبو اور بدبودار سانس دور کرنے لیے گرم پانی میں شہد اور سفوف دار چینی ڈال کر صبح غرارے کریں۔
٭شہد اور دار چینی کے مرکب کا باقاعدہ استعمال معدے کے امراض کا خاتمہ کرتا ہے اور معدے کو گیس اور السر سے بچاتا ہے۔
٭دو چمچ شہد میں تھوڑا سا دار چینی کا سفوف چھڑک کر کھانے سے پہلے استعمال کرنے سے بدہضمی، کھٹے ڈکار اور منہ سے بدبو کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

دل کے امراض
شہد اور سفوف دار چینی کا پیسٹ بنا کر روٹی یا ڈبل روٹی پر لگا کر استعمال کرنے سے کولیسٹرول کم ہوتا ہے بلکہ دل کے امراض سے بھی بچاتا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں کی گئی تحقیق کے مطابق شہد اور سفوف دار چینی کے پیسٹ کے روزانہ استعمال سے دوران خون میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

مدافعتی نظام
٭سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق شہد اور سفوف دار چینی کے مرکب کے باقاعدہ استعمال سے جسم کا مدافعاتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہد کے باقاعدہ استعمال سے خون کے سفید جرثومے مضبوط ہوتے ہیں اور یوں وہ مختلف قسم کے جراثیم، بیکٹیریا اورفنجائی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

بڑھاپے پہ قابو
٭شہد اور سفوف دار چینی کو چائے میں ڈال کر استعمال کرنے سے جسم تندرست و توانا رہتا ہے۔ اس سے جلد ترو تازہ اور جھریوں سے محفوظ رہتی ہے۔
٭4چمچ شہد، ایک چمچ سفوف دار چینی تین کپ گرم پانی میں ملا کر چائے بنا لیں اور اس کو دن میں دو تین دفعہ استعمال کریں۔ اس سے جسم میں چستی اور تازگی آئے گی۔

کیل مہاسے اور جلد کے انفیکشن
٭کیل مہاسے اور چھائیاں دور کرنے کے لیے تین چمچ شہد اور ایک چمچ سفوف دار چینی کا پیسٹ بنا کر سونے سے پہلے کیل مہاسوں پر لگائیں۔ (دو ہفتے تک) اور صبح اُٹھ کر گرم پانی سے دھو لیں۔ کیل مہاسوں اور چھائیوں سے نجات ملے گی۔
٭شہد اور سفوف دار چینی کا برابر مقدار میں پیسٹ بنا کر لگانے سے جلد کے انفیکشن مثلاً خارش، ایگزیما وغیرہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

وزن میں کمی
ایک کپ گرم پانی میں ایک چمچ شہد اور ایک چمچ سفوف دار چینی ملا کر روزانہ سونے سے پہلے اور صبح نہار منہ استعمال کرنے سے وزن میں خاطر خواہ کمی ہو جاتی ہے۔ اس نسخہ کا استعمال کم از کم تین ماہ تک کیا جائے۔

کینسر
کینسر کے مریض روزانہ ایک چمچ شہد اور ایک چمچ سفوف دار چینی استعمال کریں۔ انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔

تھکاوٹ
٭تھکاوٹ، بے چینی اور پژمردگی دور کرنے کے لیے ایک گلاس پانی میں ایک چمچ شہد، 1/4 چمچ سفوف دار چینی ملا کر روزانہ صبح اور دوپہر تین بجے استعمال کریں۔

بہرہ پن
سننے میں کمی یا بہرہ پن دور کرنے کے لیے شہد میں سفوف دار چینی ملا کر صبح شام استعمال کریں۔

The post 16 پیچیدہ امراض کا شہد اور دارچینی سے علاج appeared first on ایکسپریس اردو.

پراسرار چینی فلو کی وجہ کرونا وائرس دنیا میں پھیل سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

$
0
0

جنیوا: عالمی ادارہ برائے صحت نے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین میں کئی ماہ سے پراسرار فلو کی وجہ بننے والا ناقابلِ فہم مرض کی اصل وجہ کرونا وائرس ہی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگرچہ زیادہ تر مریضوں کے باہمی خاندان میں ہی اس کا پھیلاؤ دیکھا گیا ہے لیکن یہ چینی حدود سے باہر نکل کر باقی دنیا میں جاسکتا ہے اور اسی بنا پر عالمی ادارے نے دنیا بھر کے ہسپتالوں کو خبردار بھی کیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ کرونا وائرس ایسے وائرس ہوتے ہیں جو سانس اور ناک سےجڑے پورے نظام کو کئی بیماریوں کا شکار بناتے ہیں۔ کرونا وائرس عام ٹھنڈ سے لے کر سارس جیسے جان لیوا امراض کی وجہ بنتے ہیں۔ تھائی لینڈ کے حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک چینی خاتون کو اس مرض سے متاثر ہونے کے بعد الگ تھلگ ایک قرنطینے میں رکھا ہے۔ یعنی چین سے باہر اس مرض کا یہ پہلا واقعہ بھی ہے۔

اس بنا پر عالمی ادارہ صحت نے وائرس کے بقیہ ممالک میں پھیلاؤ پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ چین میں 41 مریض سامنے آئے ہیں اور ایک موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ تاہم چینی حکام نے کہا ہےکہ انہوں نے اس مسئلے پر قابو الیا ہے اور اس سے زیادہ مریض سامنے نہیں آسکے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم آئی آر ایس کا مرض جان لیوا اور تشویش ناک ہے جو کرونا وائرس سے پھیلتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کے ممالک اور ہسپتالوں کو ہنگامی حالت اور احتیاطی تدابیر کی تفصیل جاری کردی ہے۔

The post پراسرار چینی فلو کی وجہ کرونا وائرس دنیا میں پھیل سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت appeared first on ایکسپریس اردو.

چوہوں پر ’یونیورسل فلو ویکسین‘ کے کامیاب تجربات

$
0
0

اٹلانٹا: امریکی ماہرین نے انفلوئنزا کی تمام اقسام کے خلاف مؤثر ’’یونیورسل فلو ویکسین‘‘ کے تجربات مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسے چوہوں میں بھی بڑی کامیابی سے آزمایا ہے۔

ریسرچ جرنل ’’ایڈوانسڈ ہیلتھ کیئر مٹیریلز‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، یہ ویکسین دو طرح کے نینو ذرّات (نینو پارٹیکلز) پر مشتمل ہے جنہیں دو اہم انفلوئنزا پروٹینز سے تیار کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ’’میٹرکس پروٹین 2 ایکٹوڈومین‘‘ (ایم ٹو ای) جبکہ دوسرا ایک خامرہ (اینزائم) ہے جو ’’نیورامنیڈیز‘‘ (این اے) کہلاتا ہے۔

ابتدائی تجربات میں کامیابی کے بعد اس یونیورسل فلو ویکسین کو چوہوں میں آزمایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے چار مہینے تک چوہوں کو کسی بھی قسم کے انفلوئنزا سے محفوظ رکھا۔

اس تحقیقی منصوبے پر اٹلانٹا میں واقع جیورجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ’’انسٹی ٹیوٹ فار بایومیڈیکل سائنسز‘‘ پر کام ہورہا ہے جہاں اب اس یونیورسل فلو ویکسین کی انسانوں پر اوّلین لیکن محدود آزمائشوں کی تیاریاں جاری ہیں۔

واضح رہے کہ انفلوئنزا کو عام انگریزی میں ’’فلو‘‘ (Flu) اور اردو میں ’’زکام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری وائرس سے ہوتی ہے اور خود فلو کی کئی اقسام ہیں۔

لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ انفلوئنزا وائرس بہت جلدی جلدی تبدیل ہوتا ہے اس لیے اگر ایک فلو ویکسین اس سال کارآمد ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اگلے سال میں بالکل ناکارہ ہوجائے۔

یہی وجہ ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کو ہر سال نئی فلو ویکسین تیار کرنے کے علاوہ، فلو کی ہر قسم کےلیے بھی علیحدہ علیحدہ ویکسین بنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ماہرین برسوں سے ایک ایسی فلو ویکسین کی تلاش میں تھے جو کسی بھی قسم کے زکام کا علاج کرسکے؛ اور جس کی افادیت پر فلو وائرس میں ہونے والی ظاہری تبدیلیوں سے کوئی فرق بھی نہ پڑے۔ اسی خاصیت کی بناء پر اس ویکسین کو، جو اب تک تیار نہیں ہوسکی ہے، ’’یونیورسل فلو ویکسین‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ایچ ٹو ای اور نیورامنیڈیز، دونوں ہی ایسے پروٹین ہیں جو ہر قسم کے فلو وائرس پر پائے جاتے ہیں، سب قسم کے فلو وائرسوں میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور، ان سب سے بڑھ کر، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بہت ہی معمولی تبدیلیاں آتی ہیں۔

طویل عرصے تک نظرانداز کرنے کے بعد، حالیہ برسوں میں معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایسی فلو ویکسین بنائی جائے جو ان ہی دونوں پروٹینز کی بنیاد پر فلو وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرے، تو وہ نہ صرف تمام اقسام کے انفلوئنزا سے بچا سکے گی بلکہ ایک لمبے عرصے تک کارآمد بھی رہے گی۔

اگر ’سب کچھ ٹھیک‘ چلتا رہا تو امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ عشرے میں ہی ہر قسم کے زکام سے بچانے والی فلو ویکسین دستیاب ہوگی۔

The post چوہوں پر ’یونیورسل فلو ویکسین‘ کے کامیاب تجربات appeared first on ایکسپریس اردو.

برفیلے نمکین انجکشن سے چربی گھٹانے کے کامیاب تجربات

$
0
0

میسا چیوسیٹس: اگرچہ یہ طریقہ کسی نیم حکیم یا عطائی ڈاکٹر کا خودساختہ نسخہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی نئی اختراع ہے جس میں نمکین پانی میں برفیلے ذرات شامل کرکے انہیں انجکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی اور میسا چیوسیٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) کے سائنسدانوں نے نمکین پانی میں گلیسرول شامل کیا اور پھر 20 سے 40 فیصد مقدار میں برف کے باریک ٹکڑے شامل کہے۔ اگلے مرحلے میں اسے براہِ راست جسم میں چربی کے ذخائر مثلاً پیٹ میں داخل کردیا گیا۔ اس طرح برفیلے ذرات چربی میں گھس کر ان کے خلیات (سیلز) کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چند ہفتوں بعد چکنائی والے مردہ خلیات جسم سے باہر نکل کر خارج ہوسکتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ جسم کے کسی بھی حصے میں چربی کے لوتھڑے گھلاسکتا ہے خواہ وہ کتنی ہی گہرائی میں ہی کیوں نہ ہوں بس شرط یہ ہے کہ وہاں سوئی اور تار پہنچ سکے اور ٹھوس پٹھوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ تجربے میں کامیابی کی تصدیق کے بعد برفیلے محلول کو موٹے تازے خنزیروں پر آزمایا گیا تو آٹھ ہفتوں میں ان کی چربی 55 فیصد تک کم ہوگئی۔ پھر غور کیا گیا تو جلد اوراندرونی گوشت متاثر نہیں ہوا تھا۔

اس دلچسپ اور عجیب و غریب عمل کو ’کرائیو لائپو لائسس‘ اور ’کول اسکلپٹنگ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یوں سمجھیے کہ برفیلا نمکین محلول چربی کے خلیات کو ٹھنڈا کرکے واقعی مار ڈالتا ہے۔ تحقیق سے وابستہ پروفیسر للیت گریبیان نے کہا ہے صرف ایک سادہ انجکشن  سے کوئی بھی ڈاکٹر ایک منٹ میں یہ کام کرسکتا ہے۔ مریض گھر جاسکتا ہے اور اس کے بعد دھیرے دھیرے چربی گھلتی رہتی ہے۔

تاہم ناقدین نے کہا ہے کہ اسے صرف خنزیروں پر آزمایا گیا ہے اور انسانوں پر اس کے نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کاسمیٹک کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن صرف نمکین ٹیکوں سے موٹاپا دور نہیں کیا جاسکتا، اس ضمن میں اس تحقیق پر مزید تجربات کی ضرورت ہے۔

The post برفیلے نمکین انجکشن سے چربی گھٹانے کے کامیاب تجربات appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ڈینگی کے دُشمن‘‘ مچھر تیار کرلیے گئے

$
0
0

کیلیفورنیا: امریکا، آسٹریلیا اور تائیوان سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے مچھر تیار کرلیے ہیں جو ڈینگی وائرس سے متاثر نہیں ہوسکتے؛ اور نتیجتاً وہ ڈینگی پھیلانے کی وجہ بھی نہیں بنتے۔

یہ کارنامہ جدید جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے انجام دیا گیا ہے جس کے تحت ڈینگی پھیلانے والے ’’ایڈیز ایجپٹائی‘‘ مچھروں میں ایک خاص طرح کی اینٹی باڈی (ضد جسمیہ) بنانے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے۔ اس اینٹی باڈی کی بدولت یہ مچھر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ ڈینگی وائرس نہ تو انہیں متاثر کرسکتے ہیں، نہ ان میں پروان چڑھ سکتے ہیں، اور نہ ہی ان کے ذریعے دوسرے مچھروں اور انسانوں تک پھیل سکتے ہیں۔

آن لائن طبی تحقیقی جریدے ’’پی ایل او ایس پیتھوجنز‘‘ (PLOS Pathogens) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں اسی طرح کے جینیاتی ترمیم شدہ مچھروں کی بڑی تعداد تیار کرکے، ان کے ذریعے ڈینگی وائرس اور اس سے لاحق ہونے والے ڈینگی بخار کا پھیلاؤ روکا جاسکے گا۔

واضح رہے کہ ڈینگی وائرس کی 4 اقسام ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ڈینگی وائرس کی چاروں اقسام سے دنیا بھر میں ہر سال اندازاً 39 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے صرف 9 کروڑ 60 لاکھ لوگوں ہی کو اسپتال یا طبّی مرکز لا کر ڈینگی کی تشخیص کروائی جاتی ہے۔ ان میں سے بھی لگ بھگ 10 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ڈینگی کی وبا 2006ء سے پاکستان میں تباہی پھیلا رہی ہے لیکن اسے قابو کرنے کی موجودہ حکومتی کوششیں بہت ناکافی محسوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ درمیان میں کچھ سال تک ڈینگی کی سالانہ وبا کی شدت خاصی کم رہی لیکن گزشتہ سال یہ ایک بار پھر بہت شدید ہوگئی۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء کے دوران پاکستان اور آزاد کشمیر میں 47 ہزار 120 افراد مصدقہ طور پر ڈینگی سے متاثر ہوئے، جن میں سے 75 لوگ موت کا نوالہ بن گئے۔

جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ڈینگی وائرس سے محفوظ مچھروں کی تیاری اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی، تو ان ہی خطوط پر کام آگے بڑھاتے ہوئے چکن گنیا اور زیکا وائرسوں کے خلاف بھی مچھروں میں مزاحمت پیدا کی جاسکے گی۔ اس طرح ہم بیماری پھیلانے والے مچھروں ہی کو اس بیماری کے خلاف استعمال کرسکیں گے۔

The post ’’ڈینگی کے دُشمن‘‘ مچھر تیار کرلیے گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

عام گھریلو کیمیکل بچوں کی دماغی کمزوری کی وجہ قرار

$
0
0

 نیویارک: ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق بالخصوص امریکا اور یورپ کے گھروں میں عام استعمال ہونے والے کیمیکل نہ صرف بچوں کے آئی کیو (ذہانتی پیمائش) میں کمی کی وجہ بن رہے ہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح ان کے دماغ اور اعصابی نظام کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں۔

جرنل آف مالیکیولر اینڈروکرائنولوجی میں امریکہ میں سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اور دیگر اداروں کے ڈیٹا کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ اس سروے میں ماں کی افزائشِ نسل کی عمر اور پانچ سال تک کے بچوں کے خون کےنمونے جمع کئے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف دو طرح کے کیمیکل ہی نہایت مضر ہیں جن میں کیڑے مار ادویہ اور لکڑی سے بنے فرش پر آگ سے بچانے والا کیمیکل پولی برومنیٹیڈ ڈائی فینائل ایتھرنہایت مضر ہے۔ کیڑے مار ادویات میں آرگینو فاسفیٹ شامل ہیں جو پودوں اور درختوں کو حشرات سے بچاتے ہیں۔

یہ دونوں اقسام کے اجزا عام استعمال کئے جاتے ہیں اور طویل عرصے تک ان کے ساتھ رہنے والے بچوں کا آئی کیو ایسے ماحول سے دور بچوں کے مقابلے میں کم دیکھا گیا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی کے لینگون میڈیکل سینٹر کے مطابق صرف آگ سے بچانے والے کیمیل نے 7 لاکھ سے زائد بچوں کو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے اور کیڑے مار دواؤں سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ گیارہ ہزار بچوں سے زیادہ ہے۔

امریکی ماحولیاتی انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ اب بہت سے گھروں میں آگ سے بچانے والے کیمیکل استعمال نہیں ہورہے اور ضرورت ہے کہ اسے بالکل ختم کردیا جائے۔ دوسری جانب کیڑے مار ادویات پر سخت کنٹرول کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل اسکنڈے نیویا کے کئی ممالک میں لاکھوں بچوں پر کئے گئے سروے سے معلوم ہوا تھا کہ اسکولوں میں استعمال کیا جانے والا فینائل سانس اور پھیپھڑوں کے امراض کی وجہ بن رہا ہے۔

The post عام گھریلو کیمیکل بچوں کی دماغی کمزوری کی وجہ قرار appeared first on ایکسپریس اردو.


چائے

$
0
0

چائے… جسے پاکستان اور اس کی ثقافت میں خاص اہمیت و مقبولیت حاصل ہے۔ وطن عزیز میں صوبہ خیبرپختونخوا کا ضلع مانسہرہ وہ مقام ہے، جہاں چائے پیدا ہوتی ہے، لیکن یہ پورے ملک کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہی چائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا میں چائے درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

سبز چائے قدیم روایات کی حامل ہے، جو ہزاروں برس قبل سے اس خطے میں استعمال کی جا رہی ہے، تاہم دودھ والی کالی چائے برطانوی سامراج کے دور میں یہاں متعارف کروائی گئی، جو آج بھی بہت زیادہ مقبول ہے، لیکن مدتوں بعد آج کی میڈیکل سائنس اس کے فوائد اور نقصانات پر آئے روز نت نئی تحقیقات کو سامنے لا رہی ہے، جس میں زیادہ تر دل کے امراض سے لے کر کینسر کو شکست دینے تک کے فوائد کو بیان کیا جاتا ہے، لیکن یہ وہ چائے نہیں، جو برصغیر پاک و ہند میں کثرت سے استعمال کی جاتی ہے یعنی دودھ اور چینی والی چائے۔

پاکستان میں چائے تواضع اور ذائقہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے، جس میں طبی فوائد کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، لیکن درحقیقت یہ ایک صحت مند خوراک ہے، کیوں کہ اس چائے میں دودھ ہوتا ہے نہ شکر، بلکہ چائے کے پتوں کو بھی بہت زیادہ مشینی عمل (  آج کل بازار سے ملنے والی ڈبوں میں پیک چائے) سے نہیں گزارا جاتا، پھر چائے کے پتوں کو پانی میں ڈال کر ابالا نہیں جاتا بلکہ پانی کو گرم کرنے کے بعد اس میں چائے کے پتے ڈالے جاتے ہیں۔

معروف امریکی آرتھوپیڈک سرجن انتھونی کوری کا کہنا ہے کہ ’’جب بھی آپ چائے پیئے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس میں شوگر ہو نہ چائے کے پتوں کو بہت زیادہ مشینی عمل سے گزارا گیا ہو، کیوں کہ ان پتوں کو جتنا زیادہ مشینی عمل سے گزارا جائے گا، ان کے فوائد اتنے کم ہوتے چلے جائیں گے‘‘ ڈاکٹر کوری کے مطابق ’’چائے کے پودے (Camellia Sinensis) میں کثرت سے اینٹی آکسیڈنٹ پایا جاتا ہے۔

اینٹی آکسیڈنٹ کا لفظی مطلب ہے ’’آکسیجن کا توڑ کرنے والا‘‘ اصل میں جسم میں ہر وقت کیمیائی عوامل ہوتے رہتے ہیں، جن کے باعث آکسیجن پیدا ہوتی ہے۔ آکسیجن یوں تو جسم کے لیے نہایت مفید ہے لیکن اس آکسیجن کی ایک خاص قسم ’’فری ریڈیکل‘‘ کہلاتی ہے، جو خلیوں کے اندر ایسی توڑ پھوڑ کا باعث بنتی ہے جیسے لوہے کی اشیا کو زنگ لگ جاتا ہے۔ ایک عام نظریہ یہ بھی ہے کہ فری ریڈیکلز کی اسی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں انسان کے اندر بڑھاپے کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور جسم مختلف قسم کی بیماریوں کو شکار ہوتا ہے‘‘ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ایک دن میں کتنے کپ چائے پینی چاہیے؟ تو اس کا جواب انتھونی کوری دیتے ہیں کہ ’’ مختلف تحقیقات میں اس سوال کا جواب مختلف ہے، کیوں کہ چائے میں پائی جانے والی کیفین کا بہت زیادہ استعمال نقصان کا باعث بن سکتا ہے، لہذا میرے خیال میں ایک دن میں تین سے پانچ کپ سبز چائے کے استعمال سے نقصان کا احتمال کم ہوتا ہے۔‘‘

چائے کا استعمال درست ہے یا نہیں، اس سے کتنا فائدہ یا کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟ جیسے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے میڈیکل سائنس کے ماہرین کی طرف سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، جو حتمی نتائج تک جاری رہے گا۔ تاہم یہاں ہم آپ کو جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں چائے کے چند فوائد کے بارے میں آگاہ کریں گے۔

کینسر

چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اور دیگر مرکبات کینسر کے خطرات کو کم کرنے کا باعث ہیں۔ امریکی ماہر خوراک اُما نیڈو کے مطابق ’’ چائے میں پائے جانے والے اجزاء جلدی، غدود، پھیپھڑے اور چھاتی کے سرطان کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چائے کی مختلف اقسام کئی قسم کے کیسنرز پر اثرات مرتب کرتی ہیں، لہذا یوں ہم کہہ سکتے ہیںکہ چائے کا استعمال کینسر سے بچاؤ کا ایک سادہ سا طریقہ ہے‘‘ دیگر ماہرین کے مطابق سبز چائے کا استعمال کرنے والی خواتین میں علاج کے بعد بریسٹ کینسر کے لوٹنے کے امکان کم ہوتے ہیں، اسی طرح آنتوں کے کینسر کا خطرہ بھی 30 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔

جلد

کالی چائے کے استعمال سے جلدی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے سب سے بڑا فائدہ جلدی کینسر سے بچاؤ ہے۔ ڈاکٹر اُما نیڈو کہتی ہیں کہ ’’ گرم کالی چائے پینے سے انسانی جلد کو وہ طاقت ملتی ہے، جو کینسر سے بچاتی ہے‘‘ اس کے علاوہ سبز چائے میں شامل اینٹی آکسیڈنٹ کیل مہاسوں کو صاف کرنے میں نہایت معاون ہے، تاہم اس کے لئے چائے کو پینے کے بجائے ٹھنڈا کرکے فیس واش کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اسی طرح سبز چائے فلیونوئڈز یعنی نباتاتی کیمیکلز سے بھرپور ہوتی ہے، جو سوجن سے تحفظ دیتی ہے۔ یہ مختلف اقسام کی الرجیز سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے، مثال کے طور پر اس مشروب کے استعمال سے ناک کے اندرونی حصے کی سوجن میں کمی لائی جا سکتی، جو الرجی سے تحفظ کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ذیابطیس

روزانہ کالی چائے پینے سے یہ آپ کو ذیابطیس سے بچا سکتی ہے۔ کالی چائے کھانے کے بعد خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں نہایت معاون تصور کی جاتی ہے۔ ایشیاء پیسیفک جرنل آف کلنیکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کالی چائے کا استعمال بلڈ شوگر میں کمی واقع کرتا ہے، خصوصاً جب آپ نے کھانا کھایا ہو کیوں کہ کھانے میں شوگر ہوتی ہے۔

دانت

سارا دن کھانے پینے سے دانت گندے ہو جاتے ہیں، جن سے پھر دانتوں میں کیڑا بھی لگنا شروع ہو جاتا ہے، لہذا ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے بھی آپ کو چائے کی مدد لینی چاہیے۔ اورل اینڈ میکسیلوفیشل پیتھالوجی جرنل کی ایک تحقیق کے مطابق سبز چائے اپنے اندر اینٹی بیکٹریل خصوصیات رکھتی ہے، جو دانتوں کو کھوڑ پیدا کرنے والے جراثیم سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ سبز چائے پینے والوں کے دانتوں میں جلد کیڑا بھی نہیں لگتا، یوں آپ کے دانت صحت مند رہتے ہیں۔

امراض قلب

چائے کے اندر سوزش کے خلاف مدافعت کی صلاحیت ہوتی ہے، جو خون کی نالیوں کو صاف اور آرام دہ بناتی ہے، جس سے دل پر پریشر کم پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کوری اور ڈاکٹر نیڈو کے خیال میں ’’ چائے کے اندر ’’Catechins‘‘ نامی مادہ ہوتا ہے، جو خون کی شریانوں میں سوزش پیدا نہیں ہونے دیتا، لہذا ایک دن میں تین کپ کالی چائے ضرور پینی چاہیے تاکہ آپ کا دل صحت مند اور خوش رہے‘‘

یاداشت

اگر آپ خود یا آپ کا کوئی پیارا الزیمر (یاداشت میں کمی) کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو یہ سوچ ہی ہمیں خوفزدہ کر دیتی ہے، لہذا یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ اس بیماری کی ابتدائی علامات پر ہی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اس ضمن میں چائے بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔سبز چائے کے دو اجزاء ایل تھیانائن اور کیفین توجہ اور ہوشیاری کی سطح میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔ توانائی بخش دیگر مشروبات کے مقابلے میں سبز چائے کے استعمال سے اعصابی تناؤ اور خلجان جیسی کیفیات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نیڈو کے مطابق ’’ سبز چائے میں موجود اجزا ذہنی دباؤ اور الزیمر کے خلاف آپ کی قوت مدافعت کو بڑھانے میں نہایت معاون ہیں، یہ اجزاء ایسے خلیوں کو نقصان پہنچنے سے بچاتے ہیں، جو دماغی امراض کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں‘‘

نیند

جو لوگ بے خوابی کا شکار رہتے ہیں، ان کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اپنے تاثر سے بالکل برعکس چائے نیند کو بہتر بناتی ہے، لیکن یہ چائے وہ نہیں ہونی چاہیے، جو ہم پاکستانی پیتے ہیں یعنی دودھ اور چینی والی چائے۔ ڈاکٹر نیڈو بتاتی ہیں کہ ’’ مشرقی ایشیاء میں بنائے جانے والی روایتی چائے نیند اور نتیجتاً معیار زندگی کو بھی بہتر بناتی ہے۔ یہ چائے مختلف جڑی بوٹیوں سے تیار کی جاتی ہے۔‘‘

آنکھیں

طبی ماہرین کے مطابق سبز چائے کے ٹی بیگ کو گیلا کرکے آنکھوں پر پندرہ سے بیس منٹ تک پھیرا یا دبایا جائے تو اس سے تھکی ہوئی یا سوجی ہوئی آنکھوں کو سکون ملتا ہے اور وہ تازہ دم ہوجاتی ہیں۔

دمہ

سبز چائے میں موجود ایک اینٹی آکسائیڈنٹ کیورسیٹن ماسٹ نامی خلیات میں ایسے اجزاء میں جگہ بنالیتا ہے جو الرجی کے علاج کا باعث بنتے ہیں۔ لہذا روزانہ دو کپ سبز چائے کا استعمال دمہ کی علامات کو دور رکھنے میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

استحالہ

استحالہ (میٹابولزم) یعنی غذا کے جزو بدن بننے کے عمل کی خرابی سے انسان کی مجموعی صحت گر سکتی ہے، لہذا اس کیمیائی عمل کو توانا رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر کوری کا کہنا ہے کہ ’’ چائے میں شامل کیفین جس میں موجود چربی  کو زائل کرکے نہ صرف ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ بلکہ میٹابولزم کو تقویت پہنچاتی ہے، تاہم اس میں چائے کی مقدار کو ضرور مدنظر رکھیں۔ایک کپ سبز چائے میں 40 ملی گرام کیفین ہوتی اور ایک روز میں انسانی جسم کو 3 سو سے 4 سو تک ہی اسے حاصل کرنا چاہیے، اس سے زیادہ کیفین کا حصول جسم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

The post چائے appeared first on ایکسپریس اردو.

اگر آپ بیمار نہیں ہونا چاہتے

$
0
0

نت نئی ایجادات اور دریافتوں کے حوالے سے تو بہت سے لوگ واقف ہوں گے۔

اخبارات، جرائد اور رسالوں میں بیماریوں کے علاج پر بھی عمیق نگاہ رکھتے ہوں گے جس کا محرک کہیں نہ کہیں انسان کے لاشعور میں بیٹھا وہ ڈر ہے کہ کبھی اسے خود یا اس کے کسی پیارے کو وہ بیماری لاحق ہوجائے تو علاج کرواسکے۔ ماہرین کو بھی عموماً بیماریوں کے پیدا ہونے کی وجودہات اور ان کے علاج کے لیے سرگرم دیکھا گیا۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹر حضرات کم ہی دیکھنے سننے کو ملے جو کہ آپ کو آگاہ کرتے دکھائی دیں گے کہ بیمار ہونے سے بچا کیسے جاسکتا ہے۔

یہ بات تو عقل مند حضرات اچھے سے جانتے ہوں گے کہ ایک مرتبہ انسان کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو مشکل سے ہی جان چھوٹتی ہے اور اگر بیماری موذی ہو تو جان لیے بنا ٹلنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ افسوسناک حقائق یہ ہیں کہ دور حاضر میں مادیت اور کمرشلائزیشن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مسیحا بجائے بیماریوں سے بچاؤ کی آگاہی پر توجہ دینے کے بیماریوں کے علاج اور دواؤں پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ معمولی نزلہ زکام کی دروائیں بھی چار سے چھ گولیوں سے کم نہیں ہوتی جن کی قیمت خرید بھی عام آدمی کی بساط سے باہر ہے اور ڈاکٹروں کی فیسوں تو الاماں الحفظ! مگر ہائے رہے ہوس زد! انسان سے انسانیت اور ہمدردی کے عظیم جذبات ہی چھن گئے۔

کس طرح مسیحاؤں کو ”Incentives” دے کر دوا ساز کمپنیاں انہیں معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا ہنر سکھاتی ہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن فی الوقت ہم آپ کو یہ بتانے جارہے ہیں کہ وہ کونسے معمولی اقدامات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر آپ بیمار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں اگر کچھ چیزیں شامل کرلی جائیں تو ہماری عادات میں ایک تبدیلی آئے گی جس کا اثر یقینا صحت پر بھی پڑے گا اور قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوگا تو یہ سنہری ہدایات ان تمام لوگوں کے لیے پیش خدمت ہیں جو اپنی زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے متحرک رہنا چاہتے ہیں۔

-1 پانی زیادہ پئیں!

پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، یہ جملہ تو سب نے اکثر و بیشتر سن رکھا ہوگا۔ شاید کسی ملحد (جو اللہ کو نہیں مانتے) کے لیے یہ بات قابل یقین نہ ہو۔ لیکن جدید سائنس بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پانی سے بڑی کوئی نعمت انسان کو قدرت کی طرف سے عطا نہیں کی گئی۔ اگر یہ کہیں کہ پانی سے زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ انسان کی زندگی کی ابتداء بھی پانی کی ایک بوند جسے قرآن نے نطفہ کہہ کر بیان کیا (سورۂ یٰسین آیت نمبر 77 میں)، سے ہوئی۔ جب انسان میں پانی کی مقدار مناسب درجے پر موجود ہوتی ہے تو وہ صحت مند رہتا ہے کیونکہ اسے اندر سے جراثیم اور زہریلے مادے خارج ہوجاتے ہیں۔ امریکی ادارہ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق کسی شخص کو ایک دن میں کتنا پانی پینا چاہیے۔ اس کا بہترین پیمانہ یہ ہے کہ اپنے وزن کو پاؤنڈز Pounds میں دیکھیں پھر اسے آدھا کردیں اور ان آدھے پاؤنڈز کے جتنا پانی اونس کے حساب سے پئیں۔ جیسے کسی شخص کا وزن 150 پاؤنڈ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ 75 اونس پانی روزانہ پیئے۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے 2 لیٹر پانی روزانہ پینا چاہیے۔

-2 پورینیند لیجئے!

نیند تو کانٹوں پر بھی آجاتی ہے یہ جملہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا مگر آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ نرم گرم بستروں پر بھی نیند نہیں آتی، جس کی ایک بڑی وجہ رات دیر تک موبائل فون کا استعمال ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ رات کی نیند پوری نہیں لیتے ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے اور نتیجتاً وہ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نیند سب سے اہم ہے کیوں؟ اس لیے کہ سونے کے دوران آپ کا جسم اپنے اندر بیماریوں کے خلاف مذمت کرنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے اور اس سلسلے میں نیند کا وقت اہمیت رکھتا ہے۔ قدرت نے ہمارے جسم کے اندر ایک آلارم کلاک لگا چھوڑا ہے جوکہ ہمیں مختلف چیزوں کے متعلق بتاتا ہے۔ جیسے ہی رات ہوتی ہے ہمیں نیند کا غلبہ محسوس ہوتا ہے مگر کیونکہ ہمیں رات دیر تک جاگ کر خود کو الوں سے مشابہہ قرار دینے کا بہت شوق ہوتا ہے جبھی اس وقت کو اہمیت نہیں دیتے۔ یوں رات گئے سونے اور دن ڈھلے اٹھنے کو فیشن کے طور پر اپنا چلن بنانے والے اندرونی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق روزانہ 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ہر شخص کے لیے بے حد ضروری ہے مگر یاد رہے کہ اس کا مناسب وقت رات 9 سے 10 کے درمیان سے شروع ہوجاتا ہے۔

-3 جراثیم سے پاک رکھیے!

اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ آپ کے جسم میں انفیکشنز کی ترسیل کا سب سے اہم ذریعہ آپ کے سمارٹ فونز اور چابیاں ہیں تو یقینا آپ کو حیرانی ہوگی۔ تو جی بھر کے حیران ہوں۔ آپ کے موبائل فون کی سکرین آپ کی سوچ سے کئی زیادہ گندی ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر جگہ سے اپنے ساتھ جراثیم کا ایک جم غفیر لے کر آتی ہے۔ جب وہ جراثیم اسے چھونے سے انگلیوں میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ ہاتھ، آنکھوں، منہ، ناک اورکان کے ذریعے جسم میں جاکر وائرس اور انفکشن کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہی حال گاڑی، بائیک اور گھر کی چابیوں کا ہے جنہیں صاف کرنے کی نوبت شازونادر ہی آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ اپنے موبائل فون اور چابیوں کو وائپ سے ضرور صاف کریں اور گھر میں کوئی بیمار ہے تو اس احتیاط کو مزید بڑھا دیجئے۔

-4 ویکسنیشن کروائیے!

اگر آپ پالتو جانور پالنے کے شوقین ہیں تو خبردار رہئیے کیونکہ جانوروں کے جسم سے آپ کو بہت سی بیماریاں منتقل ہوسکتی ہیں خواہ آپ انہیں روزانہ غسل دیتے ہوں اور صفائی کا کتنا ہی اچھا نظام رکھا ہے۔ یہ حقائق بہرحال تلخ ہیں کہ جانور اور انسان مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب دونوں کا باہم اختلاط ہوتا ہے اور وہ آپ کے استعمال کی چیز سے ٹچ کرتے ہیں تو تمام چیزوں میں ان کے جسم سے جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو نزلہ، زکام کی ویکسینیشن بھی کرائی جاتی ہے جوکہ کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

-5 یوگا یا مراقبہ کیجئے!

آج کے دور میں پریشانیاں بے حد بڑھ چکی ہیں۔ مسائل لامحدود اور وسائل محدود ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی شخص ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ نیو جرسی کی رہائشی کا سیا بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر عموماً بیمار رہتا ہے اور اس کی وجہ ذہنی دباؤ ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرا شخص ذہنی دباؤ کے اثر میں ہے۔ جس سے بہت سے دوسرے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے لوگ اپنے سٹریس کو مینج کرنا سیکھیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر میرندا کا کہنا ہے کہ روزانہ کچھ وقت نکال کر مراقبہ یا یوگا کریں۔ جس میں لمبے لمبے سانس لیں اور خود کو پرسکون محسوس کریں۔ اگر یہ حد سے بڑھ جائے تو اس ضمن میں کسی ماہر نفسیات سے کونسلنگ میں مدد لیں۔ اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ پاگل ہیں بلکہ یہ آپ کو پاگل پن سے بچانے میں مدد گارہوگا۔

-6 باہر نکلیں!

کیا آپ کے خیال میں اپنے بستر میں گھسے رہنا اور سارا وقت اپنے موبائل، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس میں مصروف رہنا آپ کی صحت کے لیے درست امر ہے۔ اگر اس کا جواب آپ کے نزدیک ہاں ہے تو تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو سہل پسندی کی طرف دھکیلا تو ساتھ ہی ساتھ اسے معاشرتی میل جول اور روابط سے دور کر ڈالا۔ باہر نکل کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کی صناعی کتنی حسین ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ صحت مند رہیں تو ضروری ہے کہ باہر نکلیں، کھلی تازہ ہوا میں سانس لے کر دیکھیں آپ خود کو چست و تندرست محسوس کریں گے۔ اپنی روزانہ کی روٹین سیٹ کر لیجئے کہ کم از کم ایک گھنٹہ آپ نے واک کرنی ہے۔

ایک صحت مند طرز زندگی قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ سارا وقت گھر میں ٹیکنالوجی کے ساتھ مصروف رہیں۔ بلکہ باہر نکلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جس سے آپ ایک قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہوسکیں۔ دھوپ ہی کی مثال لے لیجئے۔ وٹامن D حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور سستا ذریعہ دھوپ ہے۔ کوشش کریں کہ روزانہ 15 سے 20 منٹ دھوپ میں ضرور بیٹھیں اس سے ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور اگر صبح کی سیر ہری ہری گھاس پر ننگے پیر کریں گے تو قدرت سے بے شمار فائدے ملیں گے۔

-7 گرم پانی پئیں!

ہمارے ہاں گرم پانی تو غراروں (گلے خرابی کی صورت میں) کے لیے یا پھر سردیوں میں نہانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر شاید اکثریت ان حقائق سے نابلد ہے کہ گرم پانی پینا کس قدر فائدہ مند ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جہاں گرم پانی پینے سے بلغم کو سانس کی نالیوں سے گزرنے میں مدد ملتی ہے ونہی یہ ناک میں اندرونی سوزش کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ڈاکٹر نندی کے مطابق گرم پانی میں شہد، لیموں اور ایک ٹکڑا دار چینی ملا کر پینا صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔

-8 اپنی ناک صاف رکھیے!

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ناک میں موجود رطوبتیں بہت سی صورتوں میں انفیکشن سے بچاتی ہیں کیونکہ جراثیم ہوا کے راستے ناک میں داخل ہوکر اپنا بسیرا کرتے ہیں اور ناک میں موجود رطوبتیں انہیں ختم کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس سے بہتر انداز میں دفاع کے لیے ناک کو نمکین واش (Saline Wash) سے دھونا مفید ہے۔ یہ کہنا ہے میڈیکل ہربلسٹ تامی برونسٹلین کا۔ ناک کے اندرونی حصہ میں سپرے کرنا زکام پیدا ہونے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔ سو اس سے زکام کے خلاف مذمت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال وضو ہے جس کوئی شخص دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتا ہے تو ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنے سے سارا معاملہ آسان ہوجاتا ہے اوہر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔

-9 نباتاتی تیل استعمال کیجئے!

بعض اوقات تھکاوٹ اور اینتھن سے جسم ٹوٹنے لگتا ہے اور یہ احساس اعصاب پر سوار ہوجاتا ہے۔ اسی صورت حال بعض اوقات بہت پریشان کن اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ اسے میں بجائے پریشان ہونے اور ڈاکٹر کے ہاں جانے کے بجائے نباتاتی تیل کا استعمال کیجئے، جوکہ کرشماتی نتائج دیتا ہے۔ جب بھی تھکاوٹ محسوس ہو چند قطرے ہتھیلیوں پر ڈالیں اور متعلقہ جسم کے حصے کی ہلکے ہاتھوں سے مالش کیجئے۔ خاص طور پر کام کرنے والے مرد و خواتین جن کو آٹھ سے زائد گھنٹے اکڑوں بیٹھنا پڑتا ہے اور ان کے پیر جوتوں میں بند رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ضرور اپنے پیروں اور ریڑھ کی ہڈی پر ہلکا مساج کریں۔ ماہرین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نباتاتی تیل میں سے خصوصاً ’’نیازبو‘‘ کے تیل میں ایسے اینٹی باڈیز موجود ہوتے ہیں جو تھکان کو دور بھگاتے ہیں۔ مزید براں تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نباتاتی تیل میں جراثیم کش مواد قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں مچھروں سے بچاؤ کے لیے لوگ اپنے جسم پر تیل کا استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا نباتاتی تیل کا استعمال بے حد فائدہ مند ہے۔

-10 خوشگوار ازدواجی زندگی گزارئیے!

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوکہ خوشگوار ازدواجی زندگی بہترین صحت کی ضمانت ہے۔ بہت سی تحقیقات یہ ثابت کرچکی ہیں کہ جو لوگ پرسکون ازدواجی زندگی گزارتے ہیں وہ بہت سی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ان میں قوت مدافعت کا بڑھ جانا ہے کیونکہ ان کے اندر ذہنی تناؤ پیدا نہیںہوتا اس لیے ان میں بیماریوں سے لڑنے کی زبردست طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔

-11 جراثیم سے اتنا مت گھبرائیں!

اگر آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جوکہ صابن کو بھی اس لیے استعمال نہ کریں کہ اس میں جراثیم لگے ہوں گے تو آپ جلد بیمار ہوسکتے ہیں ۔کیونکہ آپ صفائی کے معاملے میں حد سے زیادہ متفکر رہتے ہیں۔ بے شک آپ کو کوئی بھی کام کرنے کے بعد ضرور ہاتھ دھونے چاہئیں مگر ہر وقت ہاتھ ہی دھوتے رہنا پاگل پن کی علامت ہے۔ ڈاکٹر لپمین کا کہنا ہے کہ ’’جدید سائنٹفک ریسرچ بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ کچھ اچھے جراثیم ہوتے ہیں جوکہ صحت مند رکھنے اور ہمارے اندر قوت مدافعت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرے والدین جو مجھے کچھ وقت کیلئے میلا رہنے دیتے تھے وہ مجھے مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔‘‘

آج کل کی ہی مثال لے لیجئے جرمز کے نام پر جو فوبیا ماڈرن ماؤں کو لاحق ہے وہ بچوں کو ہر وقت صاف رکھتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کے بچے پہلے کی نسبت زیادہ اور جلد بیمار ہوجاتے ہیں تو وجہ ان کو ایک آرٹیفیشل ماحول میں رکھ کر ان میں قوت مدافعت کی کمزوری کو پروان چڑھانا ہے۔ ماہرین کا بھی یہ خیال ہے کہ جو بچے مٹی میں کھیل کھود کر بڑے ہوتے ہیں وہ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ مٹی میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جوکہ انسانی جسم کو تقویت بخشتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر قسم کا بیکٹریا ہمیں بیمار کرے، اچھے بیکٹریا ہمیں بیماری سے بچانے کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔

12۔ جم جائیے!

لوگ اکثر اسی وقت جم جاتے ہیں جب وہ اپنا وزن کم کرنے کے درپے ہوں۔ بہرحال یہ بات تو نئی نہیں کہ ورزش صحت کے لیے اچھی چیز ہے۔ مگر یہ بات شاید آپ کو پہلے سے معلوم نہ ہوکہ ورزش جسم میں انفیکشنز  کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہے۔ جب اس حوالے سے ایک سروے کیا گیا تو ورزش کرنے والے افراد کا موقف یہ تھا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے کی وجہ سے وہ بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ورزش کرنے والے افراد نزلہ زکام کا شکار کم بنتے ہیں۔

-13 تولیہ بدلتے رہیں!

اپنے باتھ ٹاول (نہانے والے تولیے) کو تو آپ یقینا تین سے چار دن بعد دھو ڈالتے ہوں گے لیکن ہاتھوں کو صاف کرنے والے تولیے کی صفائی پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جراثیم پھیلانے کا بڑا ذریعہ بنتے ہیں۔ انہیں ٹھیک سے صاف نہ کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ اسے روزانہ دھوئیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ کچن میں رکھے ہاتھ صاف کرنے والے تولیے 89 فیصد بیکٹریا کے حامل ہوتے ہیں جوکہ گھر بھر کے افراد کو بیمار کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

-14 گرین ٹی پئیں!

گرین ٹی (سبز چائے) پینے کے بہت سے فوائد ہیں لیکن ان میں سب سے اہم فائدہ ہے کہ یہ ہمارے مدافعتی نظام کو فعال بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ناصرف وائرس کا شکار ہونے سے بچاتی ہے بلکہ وائرس کے دورانیے کو کم کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ سبز چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس صحت مند خلیوں میں جاکر انفیکشن کے حملوں سے بچاؤ میں مدد دینے کے ساتھ وائرس کے دورانیے خصوصاً نزلہ زکام اور بخار کو کم کرنے میں بھی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اوریگانوسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق میں اس کی وجہ گرین ٹی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ Polyphenols ہے جو کہ جسم میں موجود ٹی۔ سیل (T-Cell) پر اثر انداز ہوتا ہے اور جسمانی مدافعتی نظام کی فعالیت بہتر بناتا ہے۔

-15 دوستوں کے ساتھ مل بیٹھیں!

کہا جاتا ہے کہ مسکراہٹ ایسی دوا ہے جو ہر درد دور کردیتی ہے۔ کسی کو بغیر صلے کی تمنا کیے دیئے جانے والی خوشی آپ کے لیے ذہنی و روحانی آسودگی کا باعث بن سکتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انسانی جسم جیسے ماحول میں رہتا ہے وہ اپنے آپ کو ویسے ہی ڈھال لیتا ہے۔ اگر آپ منفی قسم کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں تو آپ کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات نمایاں ہونے لگیں ہے۔ ڈاکٹر مندرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب ہمارا جسم مثبت ماحول، اچھے لوگوں (گھر والے اور دوست) میں رہتا ہے تو اس طرح ہم ہنسی خوشی اپنا وقت گزارتے ہیں اور ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوپاتے۔ نتیجتاً ہم بیماریوں سے بچے رہتے ہیں اور ہماری صحت پر برے اثرات نہیں پڑتے۔ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کچھ وقت ضرور گزاریں اس سے آپ خود کو تروتازہ محسوس کریں گے۔ ریسرچ کے مطابق معاشرتی زندگی میں اچھے لوگوں سے میل جول آپ کو اچھی خوشگوار اور لمبی زندگی جینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

-16 دہی کھائیے!

دہی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ دہی میں ایسے بیکٹریاز موجود ہوتے ہیں جوکہ ناصرف صحت کے لیے بہت افادیت رکھتے ہیں بلکہ بیمار ہونے سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دہی میں اچھے اور برے دونوں بیکٹریا موجود ہوتے ہیں۔ خمیرزدہ کھانوں، چیز (پینر) اور دہی انسانی جسم میں آنتوں کی فعالیت کو بہتربنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دہی سرفہرست ہے کیونکہ یہ آنتوں کے انفیکشن سے بچاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دہی کھانے سے سانس کی نالیوں میں پیدا ہونے والے انفیکشنز کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔

اس میں موجود وٹامنز، زنک اور منرلز قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ نزلہ زکان سے بھی بچاتے ہیں۔

-17 غرارے کیجئے!

قدیم زمانے میں روزانہ غرارے کرنا گلا خرابی سے بچاؤ کا مستند نسخہ سمجھا جاتا تھا۔ جاپان میں کی گئی ایک تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ روزانہ غزارے کرنے سے سانس کی نالی میں انفیکشن نہیں ہوتا۔ البتہ اس پر ناقدین کا یہ خیال ہے کہ ضروری نہیں ہر بار نتائج ایسے ہی حاصل ہوں۔ بہرحال غرارے کرنے سے گلے کو سکون ملتا ہے اور گلینڈز کو تراوٹ کے ساتھ تقویت بھی ملتی ہے۔ تو بے شک آپ روزانہ غرارے مت کریں مگر ہفتے میں دو سے تین مرتبہ ایسا کرنا آپ کو فائدہ دے سکتا ہے۔

-18 سیب کا سرکہ استعمال کیجئے!

سیب کا سرکہ بہت سے معلامات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ خصوصاً ناک اور گلے کے انفیکشنز کی صورت میں کیونکہ اس میں جراثیم کے خلاف لڑنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مزید براں یہ کہ اس میں موجود پوٹاشیم بلغم کو پتلا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ گوکہ اس حوالے سے کوئی جدید طبی شواہد موجود نہیں اور یہ گمان بھی قوی نہیں کہ یہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مگر بہرحال یہ ایک دیسی نسخہ کے طور پر استعمال ضرور ہوتا رہا ہے۔ آٹھ اونس پانی میں ایک چھوٹا چائے کا چمچہ سیب کا سرکہ ملا کر استعمال کرنے سے آپ کو وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، مگر دھیان رکھیے اس میں کافی مقدار میں پائے جانے والے ایسڈ دانتوں کے خول کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ سو پہلے اپنے طبی معالج سے مشورہ ضرور کرلیجئے۔ اسے سلاد پر چھڑک کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

-19 مثبت انداز فکر اپنائیے!

آپ کا ذہن اور جسم دو الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہیں۔ آپ جو سوچتے ہیں اس کا اثر ہر صورت آپ کے جسم پر ہوتا ہے جو لوگ مثبت انداز فکر کو اپنا شعار بناتے ہیں وہ زندگی میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ منفی سوچیں ذہن اور جسم پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں جن سے انسان ذہنی ہیجان کا شکار ہوکر بیمار پڑجاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً خواتین میں یہ مسائل زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ منفی انداز فکر اپنا کر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹینشن لیتی ہیں جس کا نتیجہ بیماریوں کی صورت واضح ہوتا ہے۔ یہ بات تحقیق سے واضع ہوچکی ہے کہ مثبت اور منفی انداز فکر انسانی صحت اور عمر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

The post اگر آپ بیمار نہیں ہونا چاہتے appeared first on ایکسپریس اردو.

مضر صحت غذاؤں کے نقصانات سے کیسے محفوظ رہیں؟

$
0
0

انسان غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگرغذا خالص استعمال نہ کی جائے تو اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد غذا کے انفرادی اجزاء جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مختلف اعضاء کو ان کی غذا پہنچاتے ہیں۔

کسی زمانے میں صرف شیور مرغیاں، کیمیائی دودھ وغیرہ کے استعمال سے ہی منع کیا جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں مصنوعی اشیاء کی تعداد میں اضافے کے علاوہ  جینیاتی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں جو ان اشیاء کو تادیر سڑنے سے روکنے میں معاونت کرتی ہیں، مگر اب ان اشیاء کی نہ وہ صحت ہی رہی کہ جراثیم ، پھپھوندی وغیرہ اسے چھوئے نہ وہ مزاج رہا کہ معالج اسے تجویز کرسکے۔

شیور مرغی پید ا کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے کہ انڈے کو ایک خاص حد تک حرارت مہیا کی جائے تاکہ جلدی چوزا پیدا ہو۔ ایسی مرغی میں نہ  چُستی ہوتی ہے نہ پُھرتی کیونکہ وہ  پیدائش کے مراحل فطری انداز میں طے نہیںکر پاتی لہذا جب انسان اسے کھاتے ہیں تو ان کی اپنی حرارتِ بدنی کمزور ہوجاتی ہے۔

ایسی مرغی کی تاثیر انسانی بدن کی حرارت کی نسبت کمزور ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغی کھانے والے کو حرارت کا تحفہ بخشتی ہے۔ اس امر میں غذا کی جینیات بھی بہت اثر رکھتی ہیں۔ بڑے جانوروں مثلاً بَیل، گائے، بکرے وغیرہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں مختلف اغراض سے انجکشن لگائے جاتے ہیں جن میں ’پینی سیلین،  ٹیٹرا سائیکلین  وغیرہ شامل ہیں، انھیںخاص قسم کا چارہ جس میں جینیاتی تبدیلی ہوتی ہے، استعمال کرایا جاتا ہے، ایسے چارے میں اسٹیرائیڈز ہوتے ہیں تا کہ ان کی نشو و نما جلد  ہوسکے یعنی یہ جانور بھی ایک قسم کے شیور ہی کہلاتے ہیں۔

بغیر ضرورت ’اینٹی بائیوٹک‘ بھرے گوشت کے استعمال سے ان ادویہ کے خلاف مزاحمت (اینٹی بائیوٹک رزسٹنس) پیدا ہوتی ہے، انسانوں میں بھی اینٹی بائیوٹک رزسٹنس بڑھتی جا رہی ہے۔ مویشی پالنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ اگر ہم مویشیوں کو اسٹیرائیڈز  والا چارہ نہ کھلائیں تو جانور بیمار ہوکر مرجائیں گے مگر ایسا کرنے سے انسانی صحت متاثر ہورہی ہے اس لیے جانوروں کو صاف غذا فراہم کی جائے اور آلودگی سے پاک ماحول میں پالا جائے۔

یہ  جانور اور انسان دونوں کی صحت کے لئے بہتر ہے لہذا جب انسانوں کو اپنی بیماری کے دوران میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسہال، پیچش اور خون کی کمی ہی ہوتی ہے اور کوئی فائدہ  نہیں ہوتا۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کس اینٹی بائیوٹک سے رزسٹینٹ ہوچکے ہیں۔ جراثیم کی خاص مدّت پوری ہونے کے بعد مرض بھی ٹھیک ہونے لگتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک سے فائدہ ہوا ہے۔ دوسری طرف جانوروں کو دیے جانے والے اسٹیرائیڈز انسانوں کو جَلد جوان کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے چہرے اور دیگر بال جلداُگ آتے ہیں، آواز خاص عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کوتاہ قد وقامت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اگر گائے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاگل گائے (میڈ کاؤ) کے لئے کوئی ٹیکہ نہیں ہوتا۔ مویشی پالنے والے اشخاص ایسی گائے کو جَلد ذبح کرکے اس کا گوشت فروخت کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک خاص پروٹین ’پریون‘  انسان میں داخل ہوجاتا ہے جو دماغ میں پہنچ کر دماغ کو پگھلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ٹانگیں بیکار ہوتی ہیں، پھر رفتہ رفتہ نزلہ شدت اختیار کرتاہے حتیٰ کہ انسان کا دماغ ضائع ہوجاتا ہے۔ جو بھی غذا انسان استعمال کرتا ہے اس کا اثر اس کی عادات، خیالات اور ساخت پر پڑتا ہے۔

مثلاََ بھینس کا گوشت زیادہ استعمال کرنے سے سُستی، کُند ذہنی، موٹاپا ہوتا ہے۔ بکرے کا گوشت کھانے والے  چُست، ذہین اور دُبلے نظر آتے ہیں۔ خوف کی حالت میں زیادہ شیور مرغی کھانے والوںکی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ ان میں سُستی اور نیند زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغ کھانے والے اشخاص نسبتاً چُست ہوتے ہیں۔ مچھلی زیادہ کھانے والے لوگوں کے جسم پُھول جاتے ہیں اور وہ زیادہ سوتے ہیں۔ سبزی اور میوہ جات کی جن اعضاء سے  مشابہت ہوتی ہے انہیں قوت پہنچاتی ہیں مثلاً مولی ہڈی سے مشابہ ہے ، ہاضم ہوتی ہے، کیلشیم کا منبع ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح اخروٹ دماغ سے مشابہ ہے ، وہ  دماغ کو مضبوط بھی کرتا ہے۔

70 فیصد سے زیادہ سبزیوں اور غذاؤں میں جینیاتی تبدیلی کی جا چکی ہے۔ اگر سبزیوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں ایسی جینیات متعارف کی گئی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ  پھپھوندی اور دیگر حشرات الارض سے بچاتے ہیں۔ وٹامنز جو پہلے ان میں نہیں پائے جاتے تھے اب پائے جاتے ہیںاس کے علاوہ گلوکوز جو پہلے کم مقدار میں پھلوں میں پایا جاتا تھا اور ذیابیطس کے مریض انھیں استعمال کرسکتے تھے، اب ان میں گلوکوز  وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پھلوں کو جلد پکانے کی غرض سے’ایسی ٹائلین‘ استعمال کیاجاتا ہے۔

یاد رہے کہ اس کی زیادہ مقدار انسان کا سانس روک دیتی ہے، یہ سردرد، دل کی تیز دھڑکن، متلی کا موجب بھی ہے۔ جن پھلوںکا ذائقہ ناگوار ہوتا تھا یا جن کا وزن کم ہوتا تھا، انہیں کبھی نمکین اور کبھی میٹھے پانی میں کافی دیر تک  رکھا جاتا ہے۔ باہر سے گاڑھا پانی پھل میں داخل ہوکر اس کے ذائقے اور دیگر خصوصیات اور سائز کو بدل دیتا ہے۔ اب ایسے پھلوں کے استعمال سے شوگر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ مریض کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس قدر اضافہ کیوں ہوا۔ علاوہ ازیں ان میں ایسی جین پیدا کی گئی ہے جو جسم میں داخل ہونے کے بعد شکر کی وافر مقدار پیدا کرتی ہے۔

شکر اشیاء کو جلدی سڑنے سے بچاتی ہے جبکہ اس سے زیادہ موزوں چیز شہد ہے۔ چینی کی مختلف اقسام ہیں مثلاََ براؤن شوگر، سٹیویا سے ماخذ شکر وغیرہ۔ اس لیے مصری کو پیس کر استعمال کرنا بہتر ہے۔ نیز جین کے ہمراہ اسٹیرائیڈز نما مواد بھی متعارف کرایا جاتا ہے تا کہ جین ایکٹو ہو۔ جب یہ اسٹیرائیڈز جین کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو شَکر کی مقدار اس طاقت سے بڑھتی ہے کہ لبلبہ اس مقدار کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ آلو کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک خاص ترکیب سے  ’امائینو ایسڈ ایسپیراجین‘   کو بیکار کیا جاتا ہے جو جسم میں حرارت بڑھانے کا کام کرتی ہے، جسم میں گوشت کی مقدار بڑھاتی ہے، دماغ اور اعصاب کے میٹابولزم کو قابو کرتی ہے۔ اس کی بجائے شکر کی مقدار بڑھانے والی جین کو ایکٹو کیا جاتا ہے تاکہ کسی حد تک شکر اس امائینو ایسڈ کی قائم مقام بن جائے۔

دوسرا بہت زیادہ استعمال کیے جانے والی غذا  ’چاول‘  میں جینی اضافات کچھ اس طرح کیے گئے ہیں کہ اس سے’بیٹا کیروٹین‘ کی وافر مقدار جسم میںپیدا ہوتی ہے جو قدرتی چاول سے نہیں ہوتی۔ یہ جزو آنکھ کے لئے بہت مفید ہے مگر ہر شخص چاول ضرور کھاتا ہے۔ چاول بطور آنکھ کی دوا کوئی استعمال نہیں کرتا، لہذا گر  ’بیٹا کیروٹین‘ کی مقدار ایک حد سے تجاوز کرجائے تو ہاضمہ خراب،جِلد کا رنگ ہلکا اور جوڑوں کا درد لاحق ہوجاتا ہے۔

مصنوعی دودھ جس کا آج کل ایک بڑا طبقہ دیوانہ ہے، اسے پانی، خشک صابن، نمک، یوریا اور ان کے اثرات معتدل کرنے والے کیمیکلز سے تیار کیا جاتا ہے(بحوالہ ریسرچ گیٹ)۔1773ء میں یوریا پیشاب سے الگ کیا گیا تھا (بحوالہ بریٹینیکا)۔ اب جو اشیاء مصنوعی دودھ سے تیار کی جاتی ہیں، ان میں کیک، پیسٹری سرِفہرست ہیں۔ ان میں ’بیکرز امونیا‘ ڈالا جاتا ہے جو دخانی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) پیدا کرتا ہے اور بیکری اشیاء کو ہلکا اور پھولا ہوا بناتا ہے۔ مزید ان میں خمیرہ (پھپھوندی کی قِسم)، نشاستہ، شَکر، سوڈا، ایسڈ اور الکلی ڈالی جاتی ہے اس لیے معالجین خارش کے مریضوں کو ان سے پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔ اکثر لوگ فیشن ایبل غذا سمجھتے ہوئے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کے کھانے استعمال کرتے ہیں۔ برگرز، تلی ہوئی شیور مرغی اور ان کے ٹکڑے، چپس، پیزا، سینڈوچ، رقیق پیسٹری جو یہ گلاس میں دیتے ہیں، مشہور فاسٹ فوڈز ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان سے موٹاپا، قبض، شوگر، نیند کی خرابی اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔

پانی کی بھی بہت سی اقسام بن چکی ہیں۔ جو پانی بوتلوں میں دستیاب ہے ان میں ’سوڈیم  اور کیلشیم‘ کی مقدار کم و بیش پائی جاتی ہیں۔ بعض پانیوں میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو بعض میں کیلشیم کی مقدار  یا پھر اس کے برعکس بعض میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جو پانی گھروں میں مہیا کیا جاتا ہے اس کے اجزاء کا انحصار اس نالی (پائپ) پر ہوتا ہے جن میں سے وہ گزر کر آتا ہے۔ اکثر اس میں دھاتوں کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے جن کی وافر مقدار پانی ابالتے وقت برتن کی تہہ میں جم جاتی ہے۔ بورنگ والے پانی میں وائرس، بیکٹیریا، اور دیگر اجزاء ملے ہوتے ہیں جو پاکستان میں 2.5  ملین اموات کا ذمہ دار ہے (بحوالہ این سی بی آئی ریسرچ، ہنداروی)۔

ہر پانی کو ضرور ابالنا چاہئیے۔ جس پانی میں نمکین ذائقہ محسوس ہو،  وہ پینے کے لئے استعمال نہ کریں۔آج کل لوگ بغیر ابالے اور بغیر فلٹر کئے پانی پیتے ہیں، چنانچہ یہ اجزاء گردہ (جسم کے فلٹر) کی ساخت میں اسی طرح تہہ نشین ہوتے ہیں جس طرح برتن کی تہہ میں جم جاتے ہیں۔ یہ گردے کی باریک نالیوں میں پھنس کر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا پانی ہرایک پیتا ہے۔عرض ہے کہ ہر ایک کے جسم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے، جس طرح ہر شخص کے معدے کی حالت، شکل اور قد یکساں نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو چیز ایک شخص کو طاقت فراہم کرے، ضروری نہیں وہ دوسرے شخص کو بھی ویسی ہی قوت مہیا کرے۔ اس لیے دل، بلڈ پریشر  اور گردے کے مریضوں کو ہر قسم کا پانی اُبال کر پینا چاہئیے۔

غلط غذاؤں سے پیدا ہونے والے خطرات سے کیسے نمٹا جائے؟

1۔ بچہ جانور خریدیں، اس کے چارے کا انتظام خود کریں یعنی اپنے سامنے اُگا ہوا چارا کھلائیں۔

2۔  موسمی تبدیلی کے وقت جانور کا خاص خیال رکھیں۔

3۔ جانور کو بغیرضرورت انجکشن نہ لگوائیں، کیونکہ جیسا خون ہو گا ویسا ہی اس کا دودھ ہو گا۔

4۔ ہفتے میں ایک بار اصل جانور کا گوشت ضرور استعمال کرنا چاہئیے تا کہ لحمیات (پروٹین) کی مقدار معتدل رہے۔

5۔ سبزیاں کھانے کے بعد ہفتے میں ایک بار رات کو سوتے وقت ہاضم دواء یا قہوہ ضرور لینا چاہیے یہاں تک کہ معدہ صاف ہوجائے۔

6۔ قبض کسی صورت نہ ہونے دیں۔

7۔  پھل جب بھی کھائیں، اس پر’کالی مرچ کا سفوف‘  چھڑکیں تا کہ اس کے مضر اثرات سے دور رہیں اور معدہ بھی صاف رہے۔ یاد رہے کہ جینیاتی تبدیلی کے حامل پھل گیس پیدا کرتے اور ہاضمہ ناقص کرتے ہیں۔

8۔  آلو ، مولی، شلجم کا استعمال ایسے شوربے میں کریں جس میں ہلکا گرم مصالحہ ہو تا کہ ہضم ہوکر جلد معدے سے خارج ہو جائیں۔ جتنا دیر یہ معدے میں ٹھہرے گی ان میں ڈالی گئی جین بھی ٹھہرے گی اور جس جزو کو پیدا کرنے کی غرض سے ڈالی گئی ہے وہ جزو دیر تک پیدا کرے گی۔ مثلاً آلو میں شکر کی مقدار بڑھانے والی جین تا دیر شکر کی مقدار بڑھائے گی اور شوگر کے مریضوں کے لئے مشکل کاباعث بنے گی۔

9۔  دودھ کا استعمال گرم حالت میںکریں۔

10۔  شیور والی غذا کھانے کے بعد اس کے جلد ہضم کی تدبیر کریں۔

نوٹ:  بیج کاسنی اور دار چینی کا قہوہ مفید ہے مگر طلوعِ آفتاب کے وقت  ’یوگا ‘  ورزش کا اہتمام زیادہ بہتر ترکیب  ہے۔ اس میں سانس اندر، باہر کرنے کی خاص ترکیب ہوتی ہے ورنہ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ورزش کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے قوت مدبرہ بدن میں ایکٹو ہوتی ہے  جو جسم کے تمام غیر ضروری مواد کی اصلاح کرتی ہے۔ یوں ورزش ایک موثر ڈی ٹاکس ہے۔

The post مضر صحت غذاؤں کے نقصانات سے کیسے محفوظ رہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا الٹرا ساؤنڈ سے کینسر کا علاج بھی ہوسکے گا؟

$
0
0

پیساڈینا، کیلیفورنیا: سائنسدانوں نے کم شدت والی الٹرا ساؤنڈ لہریں سرطان زدہ پھوڑوں (کینسر ٹیومر) پر مرکوز کرکے انہیں اس انداز سے ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ آس پاس کے صحت مند خلیوں کو کچھ بھی نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ الٹرا ساؤنڈ دراصل آواز ہی کی ایسی لہریں ہوتی ہیں جنہیں ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ الٹرا ساؤنڈ سے کینسر ٹیومر کا خاتمہ بھی کوئی نہیں بات نہیں بلکہ یہ تکنیک بھی برسوں سے استعمال ہوتی آرہی ہے۔

البتہ، اب تک اس مقصد کےلیے زیادہ شدت والی الٹرا ساؤنڈ لہروں کو مرکوز (فوکس) کرکے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس کی وجہ سے کینسر ٹیومر کے ساتھ ساتھ آس پاس کے صحت مند خلیے بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کبھی کبھی مریض کو فائدہ ہونے کے بجائے اُلٹا نقصان ہی پہنچ جاتا ہے۔

اس ضمن میں الٹرا ساؤنڈ کو محفوظ تر بنانے کےلیے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور سٹی آف ہوپ بیکمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے مشترکہ تحقیق میں یہ دریافت کیا ہے کہ اگر زیادہ شدت کے بجائے کم شدت والی الٹرا ساؤنڈ لہریں استعمال کی جائیں تو اس سے صرف وہی خلیے تباہ ہوں گے کہ جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے خلیے بالکل محفوظ رہیں گے۔

انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کم شدت والی الٹرا ساؤنڈ، صحت مند خلیوں کےلیے تو بے ضرر ہوتی ہے لیکن سرطانی رسولیوں (کینسر ٹیومرز) میں موجود خلیوں کو ان کی بعض اہم ظاہری خصوصیات کی بناء پر ہلاک کردیتی ہے۔

یہ جاننے کے بعد انہوں نے سرطان زدہ رسولیوں پر نئی تکنیک کے تجربات کیے جن میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئی۔ اس تحقیق کے نتائج ’’اپلائیڈ فزکس لیٹر‘‘ نامی ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

اب ان سائنسدانوں کا ارادہ ہے کہ کم شدت والی مرکوز الٹرا ساؤنڈ کو انسانوں میں موجود کینسر ٹیومرز کے خاتمے پر آزمایا جائے، جس کےلیے انہیں متعلقہ محکموں کی جانب سے اجازت لینا ہوگی۔

The post کیا الٹرا ساؤنڈ سے کینسر کا علاج بھی ہوسکے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں آن لائن علاج کیلیے ٹیلی میڈیسن کی ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی نئی فورس تیار

$
0
0

کراچی: پاکستانی ہیلتھ اسٹارٹ اپ نے آن لائن علاج معالجے کے لیے ٹیلی میڈیسن کی ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی نئی فورس تیار کرلی۔

700لیڈی ڈاکٹرز جو بیرون ملک مقیم ہونے یا پاکستان میں اپنی گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے پریکٹس نہیں کرسکی تھیں انھیں آن لائن تربیت فراہم کرکے لیڈی ڈاکٹرز کی تعلیم و تربیت پر حکومت پاکستان کے خرچ ہونے والے 4 ارب روپے کا کثیر سرمایہ بھی محفوظ اور کارآمد  بنالیا ہے، پاکستانی آئی ٹی فرم نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود گھریلو ذمے داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے پریکٹس نہ کرنے والی لیڈی ڈاکٹرز کی مشکل آسان کردی، امور خانہ داری یا بیرون ملک منتقل ہونے والی پاکستانی ڈاکٹرز کے لیے متعارف کرائے گئے خصوصی پلیٹ فارم ’’ ای ڈاکٹر‘‘کے ذریعے 700سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کو دوبارہ شعبہ طب سے جوڑ دیا گیا جو جلد ہی ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہی مریضوں کا علاج کرسکیں گی۔

ای ڈاکٹر ایک آن لائن پورٹل ہے جو پاکستانی آئی ٹی فرم نے تیار کیا ہے اس پلیٹ فارم کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کی بھی سرپرستی حاصل ہے جس کا مقصد میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر پریکٹس نہ کرنیو الی لیڈی ڈاکٹرز کو شعبہ طب میں ہونے والی تبدیلیوں اور جدید طریقہ علاج کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید ٹولز کے استعمال کی تربیت دے کر آن لائن علاج  معالجہ کی سہولت کو عام کرنا ہے۔

ای ڈاکٹر سے اب تک 700لیڈی ڈاکٹرز تربیت حاصل کرچکی ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، چین، بحرین، گریس، انڈونیشیا، آئرلینڈ، ملائیشیا، ترکی، سنگاپور، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور عمان میں مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹر شامل ہیں جو بیرون ملک منتقل ہونے کی وجہ سے اپنے پیشے سے دور ہوگئیں اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پریکٹس نہیں کرسکیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز کے لیے ان  ممالک میں پریکٹس کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ انھیں دیگر ملکوں میں کورسز کرنا پڑتے ہیں اور پریکٹس کے لیے رجسٹریشن اور لائسنس لینا پڑتا ہے جس پر کثیر خرچ آتا ہے۔

ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پیڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے

تربیت یافتہ لیڈی ڈاکٹرز کی اس فورس سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں پاکستان میں زیادہ تر ڈاکٹر شہروں میں خدمات کی انجام دہی کو ترجیح دیتے ہیں اور دیہی یا دور دراز علاقوں میں تعیناتی سے اجتناب کرتے ہیں ٹیلی میڈیسن کی اس سہولت سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹرز کی قلت دور کی جاسکتی ہے شہروں میں بھی جہاں مریضوں کا اژدھام ہے اور ڈاکٹرز پر  مریضوں کی زیادہ تعداد کا دباؤ ہے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے آن لائن او پی ڈی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے ۔

اس طریقہ سے عوام کو خرچ نہیں برداشت کرنا پڑے گا جبکہ حکومت کے بھی ہسپتال یا کلینک کے انفرااسٹرکچر پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوگی اور صحت کے عوامی بجٹ کو زیادہ موثر انداز میں استعمال کیا جاسکے گا۔ بڑی صارف کمپنیاں، بینک، انشورنس کمپنیاں، ٹیلی کمیونی کیشن یا  موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ سہولت بلامعاوضہ فراہم کرسکتی ہیں جس سے ملک میں عوام کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور کاروباری اداروں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے ناکام ہوئے کہ انھیں ڈاکٹرزکے مزاج کااندازہ نہیں تھا

عبداللہ بٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ہیلتھ اسٹارٹ اپ اس لیے  ناکام رہتے ہیں کیونکہ انھیں ڈاکٹرز کے مزاج اور عادات کا اندازہ  نہیں ہوتا ڈاکٹر کسی مریض کا ڈیٹا فون پر معلوم کرکے درج کرنے اور اسے سنبھال کر رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ وہ مریضوں کا معائنہ کرنے پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اس رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے Call Doc نے کال سینٹر کا تصوردیا ہے جہاں کال کرنے والے مریض اور ڈاکٹر کے درمیان ایک کال سینٹر آپریٹر ہوگا یہ پیرا میڈیکل تربیت یافتہ عملہ مریض سے اس کے کوائف مرض کی نوعیت اور علامتیں پہلے سے جاری علاج ، بخار، بلڈ پریشر، شوگر کی ریڈنگ وغیرہ مرتب کرے گا اور پھر مریض کے کوائف پہلے سے ڈاکٹر کو بھیج دیے جائیں گے تاکہ ڈاکٹر یہ تفصیلات مدنظر رکھتے ہوئے طبی مشورہ یا نسخہ تجویز کرسکیں، اس طرح ڈاکٹروں کا وقت بھی بچے گا اور مریض کو بھی اطمینان ہوگا کہ اس کے مرض کے بارے میں ڈاکٹر کو مفصل آگاہی حاصل ہے۔

ہرسال16ہزارمائیںطبی سہولت نہ ملنے سے فوت ہوجاتی ہیں

ای ڈاکٹر نامی پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی لیڈی ڈاکٹر ز کو تربیت کی فراہمی کا بیڑہ اٹھانے والے انجینئر عبداللہ بٹ اس سے قبل آن لائن ٹیوشن، قرآن کی تعلیم ، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے طبی مشاورت کے پروجیکٹس کرچکے ہیں، عبداللہ بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز کو تربیت دے کر ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی کا بنیادی مقصد پاکستان میں زچہ وبچہ کی بلند شرح اموات کو کم کرنا ہے پاکستان میں سالانہ 16ہزار سے زائد مائیں بروقت طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہیں اور نوزائیدہ بچوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہے۔

عبداللہ بٹ کے مطابق انھوں نے یہ آئیڈیا2013 میں پیش کیا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا 2018 میں ایک بار پھر ڈائو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے وائس چانسلر کے سامنے رکھا جسے انہوں نے اور شعبہ طب کی سینئر شخصیات نے خوب سراہا اور ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی کیونکہ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت  50 لاکھ روپے کے اخراجات کرتی ہے اور پریکٹس نہ کرنے یا شعبہ ترک کرنے کی صورت میں یہ سرمایہ ضایع ہوجاتا ہے اور ڈاکٹرز کی قلت برقرار رہتی ہے  اس پراجیکٹ کے لیے ڈائو یونیورسٹی نے سرپرستی فراہم کی اور دنیا کے بہترین ماہرین کی مدد سے ری فریش نصاب تیار کیا گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھ جانے والی لیڈی ڈاکٹرز کو ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد میڈیکل کے شعبہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور جدت سے ہم آہنگ کیا گیا یہ آن لائن کورس 3 ، 3 ماہ کے 2 سیمسٹر پر مشتمل ہے جس کے ذریعے لیڈی ڈاکٹرز کو پروفیشنل معلومات کے ساتھ کلینکل معلومات، ادویات ، ادویات کے فارمولا جات، تشخیص کے جدید طریقوں اور پاکستان میں امراض کی نوعیت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں، پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ ان لیڈی ڈاکٹرز کو ٹیلی میڈیسن کے جدید طریقے کی تربیت دی گئی جس کی مدد سے وہ انٹرنیٹ اور دیگر ڈیجیٹل سہولتوں اور ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہوئے مریضوں کا آن لائن معائنہ، تشخیص اور ادویات تجویز کرسکیں گی۔

عبداللہ  بٹ کے مطابق گھر بیٹھی لیڈی ڈاکٹرز جو اپنے پیشہ کو تقریباً خیر باد کہہ چکی تھیں واپس شعبہ سے  منسلک کرنا ایک مشکل کام تھا اور ان سمیت سینئر اساتذہ کو اتنی امید نہ تھی لیکن اپریل 2018 میں جب پہلے تربیتی  بیچ کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تو 350 لیڈی ڈاکٹرز نے رابطہ کیا جس میں70 فیصد بیرون ملک مقیم تھیں ان میں سے 130لیڈی ڈاکٹروں کو پہلے بیچ میں شامل کیا گیا، دوسرے بیچ میں160، تیسرے میں 240 اور چوتھے بیچ میں 140لیڈی ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کی گئی پانچویں بیچ کی رجسٹریشن جاری ہے جس میں 100کے لگ بھگ ڈاکٹروں کی شمولیت کا امکان ہے اس طرح 700 لیڈی ڈاکٹروں کی تربیت مکمل ہوچکی اب ان میں سے 400 ڈاکٹر نسخہ لکھنے کی تربیت لے رہی ہیں۔

The post پاکستان میں آن لائن علاج کیلیے ٹیلی میڈیسن کی ماہر لیڈی ڈاکٹرز کی نئی فورس تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 5214 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>