Quantcast
Channel: Health News and Tips in Urdu - صحت - ایکسپریس اردو
Viewing all 5227 articles
Browse latest View live

اچھی شخصیت کا راز اچھی صحت میں پوشیدہ ہے

$
0
0

الطاف حسین حالی نے کیسی پیاری بات دو مصروں میں سمو دی ہے کہ

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا!

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

لیکن کیا ہم واقعی محنت کر کے انسانیت کی اوجِ ثریا پہ پہنچ پاتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو اس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آج ہم اس پہ بات کریں گے۔ ایک متوازن شخصیت ہی ایک کارآمد فرد کے روپ میں معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے،سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنھیں اپنا کر ہم اپنی ذات کو نفع بخش بنا سکتے ہیں؟

سب سے پہلے جسمانی صحت پہ بات کرتے ہیں۔ اگر آپ جسمانی طور پہ تندرست و توانا رہنا چاہتے ہیں تو اپنا ایک غذائی چارٹ بنائیے،جو چیزیں آپ کے جسم سے مطابقت رکھتے ہوئے آپ کو فائدہ دیں، انھیں اس چارٹ میں شامل کیجیے۔ جو چیزیں فقط زبان کا چسکا تو پورا کریں لیکن آپ کو راس نہ آتی ہوں انھیں اس چارٹ سے خارج کر دیں،ایک دم سے اپنی پسند کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا تو اس کا حل یہ ہے ہدف بنا لیجیے کہ میں نے  اپنی فلاں فلاں پسندیدہ لیکن صحت کے لیے نقصان دہ چیز چھوڑنی ہے جیسے کہ کوئی بھی جنک فوڈ  لیکن اس کی جگہ ایک مفید چیز چاہے وہ مجھے ناپسند ہی کیوں نہ ہو، اپنی خوراک میں ضرور شامل کریں۔ اور پھر خود پہ ضبط کرتے ہوئے اس پہ کچھ عرصہ عمل کیجیے۔آپ دیکھیں گے کہ شروع میں یہ خاصا مشکل لگے گا لیکن آہستہ آہستہ آپ کی عادت بن جائے گی۔ تاہم سیلف ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں۔

ناشتہ لازمی کیجیے عمدہ اور غذائیت سے بھرپور ناشتہ آپ کو دن بھر ہشاش بشاش رکھے گا۔ دوپہر میں مناسب کھانا لیجیے کیونکہ دن بھر کے کام کاج کے وقفے میں اگر آپ بہت بھاری کھانا کھا لیں گے تو شام تک طبعیت میں سستی غالب رہے گی جبکہ رات کو ہلکا پھلکا کچھ کھائیے جو بس اتنا ہو کہ معدہ کو خالی رہنے سے بچائے۔

دوسری اہم ترین چیز جو ہمیں جسمانی صحت حاصل کرنے کے لیے درکار ہے، ورزش ہے۔ اس سے آپ خود کو متحرک پائیں گے، ساتھ ہی آپ کا ذہن پہلے سے زیادہ کام کرنے لگے گا کیونکہ خون کی گردش جب دماغ میں جاتی ہے تو وہ دْگنا کام کرنے لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ جِم ہی جائیں تو ورزش ہوگی،گھر میں رہتے ہوئے بھی تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ صرف چہل قدمی کے لیے 30منٹ روزانہ مختص کرلیں تو آپ اپنے اندر واضح، مْثبت تبدیلی دیکھیں گے،اس سے منفیت سے نجات ملے گی، تازہ ہوا اندر تک تازگی سے بھر دے گی۔ چاہیں تو کوئی بھی آسان سی ایروبک ورزش بھی گھر میںکر سکتے ہیں لہذا آپ تادیر چْست، توانا اور ذہنی طور پہ مستعد رہنا چاہتے ہیں تو ورزش/ چہل قدمی کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیجیے،زندگی خوبصورت لگے گی۔

جسمانی صحت کے حصول کے لیے تیسرا اہم نقطہ نیند ہے۔ آپ کتنا،کب اور کیسے سوتے ہیں یہ سب آپ کی صحت پہ اْتنا ہی اثر انداز ہوتا ہے جتناآپ کا کھانا پینا اور ورزش کرنا وغیرہ۔ رات اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سونے کے لیے جبکہ دن کام کاج کے لیے بنایا ہے، جبکہ ہم راتوں کو دیر تک جاگ کر اور دن میں دیر تک سو کر فطرت کے خلاف چلتے ہیں اور حقیقتاً اپنی صحت کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔

رات کے اندھیرے میں جب ہم سو رہے ہوں تو ہمارے جسم سے ایک ایسا ہارمون خارج ہوتا ہے جو ہمیں پْرسکون کرتا ہے لیکن یہ صرف تب خارج ہوتا ہے جب اندھیرے میں ہم سو رہے ہوں یعنی جاگ نہ رہے ہوں۔ سوتے وقت موبائل فون اور ٹی وی سکرین سے خود کو لازمًا دور رکھیے،کم از کم فون اتنا دور ہو کہ آپ کو چل کر فون تک پہنچنا پڑے ۔کوشش کیجیے کہ عشاء کے بعد سوجائیں اور فجر سے قبل اٹھ جائیں یا پھر فجر کے وقت لازمًا اٹھ جائیں۔ صبح کا بابرکت آغاز دن بھر تازگی سے ہم کنار کرے گا، لہذا نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد دیگر امور پہ توجہ دیجیے۔

روحانی صحت

ہماری روح پیاسی ہو اور اسے غذا نہ ملے لیکن ہم اپنی جسمانی صحت پر بھرپور توجہ دینے والے ہوں تو کیا ہم ایک متوازن اور کامیاب فرد بن سکیں گے؟ یقینًا نہیں، تو آئیے جانتے ہیں ہماری روح کی غذا کیا ہے؟ بحیثیت مسلمان ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مغرب میں روح کی تسکین کے لیے میڈیٹیشن کی جاتی ہے۔ مثلاً آپ کو کسی ایک خاص نقطے پہ نظر مرکوز کروا کر اسی لمحے میں جینے کو کہا جائے گا، مثلاً  آبشار کے گرتے پانی پہ نظر جمائی جائے، اسی کو مکمل ارتکاز اور توجہ سے دیکھا جائے اور ذہن کو ہر طرح کی سوچوں سے آزاد کر کے صرف اْن موجودہ لمحات کو محسوس کیا جائے۔ہم ایسے ارتکاز اور توجہ سے نماز ادا کرنے لگ جائیں کہ سب فکریں ایک طرف رکھ کر فقط نماز پہ مکمل توجہ دیں تو ہماری روح توانا ہوگی۔ یقینًا ہم ایسا کرکے دنیا کی سب سے بہترین اور کارآمد میڈیٹیشن کریں گے۔

اس عمل کے بعد خود سے باتیں کیجیے کہ مجھ میں کیا غلط ہے جس کی اصلاح کرنی ہے۔ سوچیے جو عبادت آپ میں مثبت تبدیلی نا لا پائے کیا وہ اللہ کو پسند آئے گی؟ اللہ سے باتیں کریں ، اپنے مسئلے بیان کریں وہ راہیں کھولتا جائے گا۔ فطرت میں وقت گزارئیے،کھلی تازہ ہوا اندر اتارئیے،جہاں تک ممکن ہو پودوں کی قربت میں رہیے،کبھی کسی بہتی ندی یا جھیل کنارے بیٹھ جائیے،غرضیکہ قدرتی اور خالص مناظر کا حصہ بننے کی کوشش آپ کی روح کو سرشار کر کے آپ کو شاد کر دے گی۔ صدقہ دیجیے،کسی کی مدد کر دیجیے،جو ہنر یا جو نعمت آپ کے پاس ہے اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیے۔ یہ سب بظاہر چھوٹے چھوٹے عمل ہیں لیکن یہی آپ کی روحانی صحت کے ضامن ہیں،بکثرت دعائیں کیجیے۔

ذہنی صحت

شخصیت سازی میں ذہنی صحت کی مسلمہ اہمیت سے سب ہی آگاہ ہیں۔ آپ مذکورہ بالا طریقے پر کاربند رہے تو ذہنی مسائل کا سامنا کم ہوگا۔ یاد رکھیے اگر آپ کا ذہن منتشر خیالات کی آماج گاہ بن جائے ،آپ زندگی کے منفی پہلوؤں پہ زیادہ توجہ دینے لگیں ، آپ کو خیر میں بھی شر نظر آئے، ڈپریشن طاری رہے تو ایسی صورتحال میں آپ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں گے، اپنے ذہن کو منفیت سے بچانے کے لیے اچھی، عمدہ اور معیاری کتب کا مطالعہ کیجیے۔کتاب دوست انسان کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ روزانہ کچھ وقت کتب بینی میں ضرور لگائیے۔ اپنے ذوق اور پسند کے مطابق کتاب منتخب کیجیے اور اسے پڑھ کر اپنی ذات کو نکھارنے کے لیے کچھ نا کچھ سیکھیے اور عمل میں لانے کی کوشش کیجیے۔کہا جاتا ہے’’جو نہیں پڑھتا اور جو نہیں پڑھ سکتا وہ دونوں برابر ہیں‘‘۔

ایسے افراد کی صحبت اختیار کیجیے جو آپ کو مثبت طرز عمل کی طرف ابھاریں،جن کے پاس بیٹھ کر آپ خود کو پرسکون محسوس کریں،جن کی گفتگو روشنی کی مانند ہو۔  ڈپریشن سے نجات کے لیے ہاتھ سے کام کرنا بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ پریشان ہیں تو ہاتھوں کو مصروف کر لیجیے،پینٹنگ کیجیے ،سلائی کیجیے، بْنائی کیجیے،کھانا پکا لیجیے،صفائی میں لگ جائیے،غرض ہر وہ کام جس میں ہاتھ حرکت میں رہیں وہ کرنا شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی پریشانی زائل ہونے لگے گی۔ البتہ اگر آپ کے ڈپریشن کا دورانیہ تین ماہ سے بڑھ جائے تو  آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔

اپنے ذہن کو مصروف رکھیں،کیسے؟ اپنے اہداف طے کر لیجیے مثلاً یہ کہ آپ آج سے دس سال بعد خود کو کس مقام پہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ طے کر لیجیے اور پھر اْس مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیجیے۔ یوں آپ کے ذہن کو یکسوئی سے اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک صحیح راستہ مل جائے گا اور آپ بہت سی ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ پائیں گے۔ اخلاقی برائیوں حسد، جھوٹ، کینہ، غیبت،چغلی وغیرہ سے بچنے کی کوشش بھی آپ کے ذہنی سکون کو جِلا بخشے گی۔

لوگوں کے ساتھ تعلقات

سب سے زیادہ صبر آزما مرحلہ جو شخصیت پہ کی گئی تمام محنت کا عملی امتحان لیتا ہے، اپنے ارد گرد موجود افراد سے تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے لڑائی جھگڑے زیادہ ترگھر میں ساتھ رہنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں نا کہ دوست احباب سے،اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صلہ رحمی پہ بہت زور دیا ہے۔ جذباتی کنٹرول رشتوں کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ،بس یہ بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ جیسے آپ اپنی ذات میں منفرد ہیں ویسے ہی ہرشخص اپنی الگ پہچان رکھتا ہے جو دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اس چیز کو قبول کر لینے کے بعد آپ میں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی ہمت بڑھ جائے گی۔ اس حقیقت کو سمجھیے اور قبول کیجیے کہ تعلقات ہمیشہ انا سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا انگریزی محاورہ ہے Agree to disagree یعنی آپ دوسرے کی کسی بات پہ متفق نہ ہونے کو قبول کیجیے لیکن قطع تعلقی مت کیجیے۔

اپنا موقف نرمی سے واضح کیجیے ،دلائل بھی دیجیے،اور اپنی بات بھی منوائیے لیکن نرمی سے، چلائیے مت،آپ کی آواز اور الفاظ کے انتخاب سے لے کر آپ کی حرکات و سکنات میں بھی شائستگی اور نرمی کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔کوئی زیادتی کر دے تو معاف کر دیجیے،اللہ کی خاطر اور اپنے سکون کی خاطر۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے استقامت کی اور نرمیِ دل کی دعا مانگتے رہیے،یاد رکھیے! نفسیات ہمیں ہمیشہ اپنی ذات پہ کام کرنے پہ اْکساتی ہے کہ اپنی فکر کیجیے دوسروں کی فکر مت کیجیے،آپ کی ذات سے بس خیر عطا ہو مقابل بھلے شر انگیز ہو وہ آپکا مسئلہ نہیں،آپ خود کو اتنا مضبوط بنائیے کہ جیسے ایک چھتناور درخت جو ٹھنڈی میٹھی چھایا بھی دیتا ہو اور میٹھا پھل بھی،اس سے قطع نظر کہ اسے کاٹا جا رہا ہے،توڑا جا رہا ہے،وقت پہ پانی مل رہا ہے یا نہیں۔

وقت کی تنظیم

وقت کو استعمال کرنے کے طریقے سے اگر ہم ناواقف ہوں تو سمجھیے کچھ بھی درست نہیں ہونے والا،کیونکہ جب آپ کو علم ہی نا ہو گا کہ کون سا کام کب اور کتنی اہمیت کا حامل ہے تو آپ وقت سے صحیح فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں گے۔آپ وقت کے صحیح استعمال کے لیے کاموں کی تقسیم اس طرز پہ کیجیے:

فوری اور اہم کام

وہ کام جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ فوری طور پہ کرنے والے ہوں جیسے کہ کوئی اچانک درپیش آ جانے والی ایمرجنسی کی صورت جہاں آپ کی موجودگی ضروری ہو یا کوئی اور ایسی ہی اہم اور اشد ضرورت ،ان کاموں کے لیے آپ فوراً وقت نکالیے۔

فوری نہیں لیکن اہم کام

ایسے کام جو اہم تو ہوتے ہیں لیکن فوری طور پہ نہ بھی کیے جائیں تو کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا،ایسے کام کوشش کیجیے کہ فرصت کا لمحہ ملتے ہی سرانجام دیدیں، قبل اس کے کہ ان کاموں کی آخری تاریخ آن پہنچے اور انھیں بھاگم بھاگ کرنا پڑے۔ جیسے کہ بجلی کے بل جمع کروانا،راشن لانا،اسائمنٹ جمع کروانا وغیرہ۔اور اپنی روز مرہ کے معمول کے تمام کام۔

فوری ضروری لیکن غیر اہم

اس میں وہ کام جو فوری کرنے والے تو ہوں لیکن اہم نہ ہوں جیسے کہ آپ نے کسی کے ساتھ بازار جانا ہے یا کوئی چیز کھانے کو بے حد دل چاہ رہا ہے لیکن چیز پاس نہیں تو یہ فوری ضروری تو ہے لیکن اہم نہیں کہ ان کے پیچھے آپ دیگر اہم کام ملتوی کر دیں لہذا ایسے کاموں کو آپ سنجیدہ اور ضروری اہم نوعیت کے معاملات پہ فوقیت نہیں دیںگے۔

اور ایسے کام جو نہ تو اہم ہوں اور نہ ہی فوری طور پہ کرنا ضروری ہوں ان پہ وقت ضائع مت کیجیے۔ بس اسی طرح کاموں کی ترتیب بنا کر انھیں تقسیم کیجیے اور وقت کا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔

The post اچھی شخصیت کا راز اچھی صحت میں پوشیدہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


کیا ماسک کرونا وائرس سے محفوظ رکھ سکتاہے؟

$
0
0

کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ نظر آنے والی تصاویر ڈاکٹروں والے ماسک پہنے لوگوں کی دکھائی دیتی ہیں۔

انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب یا ماسک کا استعمال دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہے۔ خاص طور پر چین میں کورونا وائرس کے حالیہ پھیلاؤ کے دوران ان کا استعمال بڑھ گیا ہے جبکہ ایسے ہی ماسک چین میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے بھی پہنے جاتے ہیں۔ تاہم ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچاؤ میں ماسک کے پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ماسک وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

سرجیکل ماسک 18ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا استعمال 1919 میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں آیا جو پانچ کروڑ افراد کی ہلاکت کی وجہ بنا تھا۔

برطانیہ کی سینٹ جارج یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ کیرنگٹن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’عام استعمال کے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچاؤ کے لیے بہت پراثر ثابت نہیں ہوئے اور زیادہ تر وائرس اسی طریقے سے پھیلے تھے۔ ان کی ناکامی کی وجہ ان کا ڈھیلا ہونا، ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی اور آنکھوں کے بچاؤ کا کوئی انتظام نہ ہونا تھا۔‘ لیکن یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچاؤ اور ہاتھ سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔

سنہ 2016 میں نیو ساؤتھ ویلز میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ لوگ ایک گھنٹے میں تقریباً 23 مرتبہ اپنے منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ پروفیسر جوناتھن بال یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں مالیکیولر وائرالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ہسپتال کے ماحول میں کی جانے والی محدود تحقیق یا کنٹرولڈ سٹڈی میں فیس ماسک بھی انفلوئنزا کے انفیکشن سے بچاؤ میں اتنا ہی اچھا رہا جتنا اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا سانس لینے والا مخصوص آلہ تھا۔‘

سانس لینے کے لیے بنایا جانے والے اس آلے میں ہوا کو صاف کرنے کے لیے فلٹر لگا ہوتا ہے اور یہ خاص طور پر اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر فضا میں موجود خطرناک ذرات سے بچنے میں مدد مل سکے۔ پروفیسر بال مزید کہتے ہیں کہ بہرحال جب آپ عمومی سطح پر عوام میں ماسک کے فائدے سے متعلق کی گئی تحقیقات کو دیکھتے ہیں تو اعداد وشمار اتنے مثاثرکن نظر نہیں آتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک کو طویل وقت تک استعمال کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کونوربیمفرڈ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی میں تجرباتی ادویات کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت زیادہ سودمند ہے۔ وہ کہتے ہیں ’جب چھینک آئے تو منہ ڈھکنا، ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کے قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فلو پیدا کرنے والے وائرس وغیرہ سے بچنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ:

٭ ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔

٭ جتنا بھی ممکن ہو اپنی آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔

٭ صحت مند انداز زندگی کو اپنائیں۔

ڈاکٹر جیک ڈننگ پبلک ہیلتھ انگلینڈ میں انفیکشنز اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ منہ پر ماسک پہننا شاید فائدہ مند ہے، حقیقت میں ہسپتال کے ماحول سے باہر اس کے بڑے پیمانے پر فائدہ مند ہونے کے بہت ہی کم شواہد ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ماسک کو صحیح طریقے سے پہننا چاہیے، اسے تبدیل بھی کرتے رہنا چاہیے اور انھیں محفوظ طریقے سے تلف کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر ڈننگ کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اس حوالے سے خوف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی جسمانی، خاص طور پر ہاتھوں کی صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔

The post کیا ماسک کرونا وائرس سے محفوظ رکھ سکتاہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

’کرونا وائرس‘ سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

$
0
0

کروناوائرس نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ چند ہی دنوں میں یہ وائرس ایک قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔

چین کے صدر کے مطابق کرونا وائرس ایک ’’ شیطان‘‘ ہے، اس شیطان کا ساری دُنیا کو مقابلہ کرنا ہے۔ وائرس سے ہونے والی پھیپھڑوں کی بیماری اور اس کا انفیکشن جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

پچھلے دو ہفتوں میں’کرونا وائرس‘ چین میں 132 انسانوں کو نگل چکا ہے جبکہ  اس وقت چین میں ساڑھے چار ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔ دُنیا بھر میں ہیلتھ الرٹ جاری کئے جا چکے ہیں۔ چین آنے اور جانے والوں کی ائیرپورٹس پر اسکریننگ ہو رہی ہے۔ متعدد ممالک نے چین آنے اور جانے والی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے ’کرونا وائرس‘ کے پھیلاؤ کو ایک میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیربھی جاری کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کے وائرس سے دُنیا کو پالا پڑا تھا جن میں ڈینگی وائرس، وائن فلو وائرس، برڈ فلو اور سارس جیسے وائرس شامل ہیں مگر ان کی تباہ کاریاں ’کرونا‘ جیسی نہ تھیں مگر’’ کرونا وائرس‘‘ نے ساری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی اور جدت کے باوجود ابھی تک وائرس سے پھیلنے والے امراض کے علاج کے لیے کوئی واضح پروٹوکول موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی خاص ویکسین دستیاب ہے۔ نتیجتاً  وائرس کی وجہ سے ہونے والے امراض میں اموات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ چین سے ملحقہ ممالک بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

آسڑیلیا، تائیوان، نیپال، جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا بلکہ امریکا میں بھی کرونا وائرس سے متاثر افراد کے کیسز دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے چینی انجنئیرز اور ورکرز متعدد قومی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، اس لئے پاکستان میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

’کرونا وائرس‘ کی خبروں کی بعد اورنج لائن ٹرین  اور دوسرے منصوبوں جات پہ کام کرنے والے چینی باشندوں کا کام سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اسکریننگ ہونے تک ان کی رہائش گاہوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ’کرونا وائرس‘ کے بارے میں قومی ادارہ صحت نے بھی ہیلتھ ایڈوائزری جاری کی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مختلف ائیر پورٹس پر اس سلسلے میں ہیلتھ کاؤنٹرز قائم کر دیئے ہیں۔

مختلف ہسپتالوں میں علیحدہ آئسولیشن وارڈبنا دیے گئے ہیں۔ بیماری کی تشخیص کے لیے چین سے ’کرونا وائرس‘ کی تشخیص کے لئے ٹیم آج پاکستان پہنچ جائے گی دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے نے بھی تشخیصی کٹس کی فراہمی کر دی ہیں۔

٭کرونا وائرس کیا ہے؟

٭بیماری کا آغاز کب ہوا؟

٭ کرونا وائرس کا انفیکشن کیسے پھیلتاہے؟

٭اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟

٭اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

عوام الناس کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں ان تمام سوالوں کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ لوگوںکو زکام، گلا خراب، سر درد اور بخار کی علامات ہوتی ہیں، جسم تھکا تھکاسا لگتا ہے، ناک مسلسل بہتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہو جائے تو پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خطر ناک وہ لمحہ ہوتا ہے جب انفیکشن کی وجہ سے نمونیہ ہو جائے۔ اس سے پھیپھڑوں میں زبردست انفیکشن ہو جاتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، بخار زیادہ ہو جاتا ہے، ایسے میں فوری طور پر ہسپتال میں علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہونے کی صورت میں سانس رک جاتی ہے اور مصنوعی تنفس دینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حالت میں یہ میڈیکل ایمرجنسی بن جاتی ہے۔ اگر انفیکشن پھیل جائے تو سانس رک جاتا ہے اور  چند گھنٹوں ہی میں موت واقع ہو سکتی ہے۔

کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی تمام علامات نمونیہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اس سے ہونے والی بیماری کا آغاز دسمبر2019ء میں چین کے صوبے ہوبی کے شہرو وہان میں ہوا جہاں اب تک 132 اشخاص جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بیجنگ میں بھی ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ بھارت میں بھی ایک موت ہوئی ہے۔ اس سے  ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 9 ہزار سے زیادہ مشکوک کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبی اور ووہان میں پانچ سو سے زیادہ پاکستان طالب علم وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، انہوں نے ارباب اختیار سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری طور پر وہاں سے نکالا جائے تاکہ وہ اس جان لیوا وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔

کرونا وائرس آسانی سے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند شخص کومنتقل ہوجاتا ہے۔ متاثرہ شخص دو سے پانچ دن تک بیماری کو دوسروں تک پھیلا سکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کو بیماری کی تشخیص ہوگئی ہو تو اسے کم از کم ایک ہفتے تک علیحدگی میں رکھا جاتا ہے تاکہ صحت مند اشخاص وائرس سے بچے رہیں۔ بیماری کے آغاز میں علامات زکام اور نظام تنفس کے بالائی حصے کے انفیکشن سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اس دوران علاج سے افاقہ ہو جاتا ہے مگر سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اس دوران مریض کو علیحدگی میں رکھا جائے تاکہ دوسرے صحت مند اشخاص بیماری کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے اور جسم میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

چین میں کروناوائرس سب سے پہلے سانپوں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ پالتو بلیاں اور کتے بھی اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان سے وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ زکام کی طرح کرونا وائرس سے ہونے والی علامات بھی زیادہ تر 7 دن سے لیکر 10 دن تک جاری رہتی ہیں اگر اس دوران مکمل آرام کیا جائے اور ڈاکٹر کے مشورہ سے ادویات لی جائیں تو مرض میں افاقہ ہو جاتا ہے اور آدمی صحت مند ہو جاتا ہے۔ اس لیے کرونا وائرس سے زیادہ گھبرانے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ زیادہ تر متاثرین ہفتے دس دن تک خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے چین نے اپنے مختلف صوبوں میں لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ شہروں میں6 کروڑ سے زیادہ چین باشندے اپنے شہروںتک محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔ شنگھائی شہر میں نئے سال کی چھٹیاں 9  فروری تک بڑھا دی گئی ہیں۔ ابھی تک چین میں متاثرہ افراد کی تعداد 5974 تک پہنچ گئی ہے جس میں 976 افراد کی حالت نمونیہ کی وجہ سے تشویشناک ہے۔ چینی کی یونیورسٹیوں میں داخلے کے ٹیسٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یعنی زبردست میڈیکل ایمر جنسی لگا دی گئی۔ وزارتِ خارجہ  کے اعلان کے مطابق چین کے شہر ووہان میں 515 پاکستان طالب علم زیر تعلیم ہیںاور وہ الحمداللہ صحت مند ہیں۔ کسی بھی طالب علم میں وائرس کی موجودگی کے آثار نہیں پائے گئے مگر سب بچے پریشان ہیں اور وہاں سے وطن منتقل ہونے کے متمنی ہیں۔ اللہ ان طالب علموں کی حفاظت فرمائے۔

چین کے شہری کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ بینرز لگے ہوئے ہیں:’’ ہم کرونا وائرس سے شکست نہیں کھائیں گے، ہم شیطان وائرس کو مار بھگائیں گے‘‘۔ ووہان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے سبزیوں اشیائے خورو نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ چین کے دوسرے شہروں سے چینی کے بہادر لوگوں نے ووہان کے ہم وطنوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے سبزیوں ، اشیائے خورو نوش اور ادویات کے سینکڑوں کنٹینرز ووہان پہنچا دیئے ہیں ۔ اگرچہ کرونا وائرس نے چین کے ساتھ دُنیا بھر میں کھلبلی مچا دی ہے، اس سے ہلاکتوں اور متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کا علاج اتنا مشکل نہیں ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس  سے ہونے والا زکام یا اس سے ہونے والی سانس میں رکاوٹ ابتدائی طور پر جاں لیوا مرض نہیں۔ آرام کرنے، بخار اور کھانسی اور انفیکشن کی ادویات لینے سے مرض کی علامات میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو جائے یا  اس جیسی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں تو اس مریض کو کم از کم سات دن کے لیے علیحدگی میں رکھا جائے۔ اگر ٹیسٹ کرونا وائرس کے لیے پازیٹو آجائے تو ٹیسٹ آنے کے کم از کم ایک ہفتہ تک اس مریض کو مکمل علیحدگی میں رکھا جائے۔ ضروری ہے کہ مریض اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والے تمام اشخاص احتیاطی تدابیر، ماسک اور دستانے استعمال کریں۔ مریض کے کمرے میں اسپرے کیا جائے اور اس کے زیرِ استعمال  ٹشو پیپرز کو علیحدہ تلف کیا جائے۔ کرونا وائرس زکام کے وائرس کی طرح  Heat Sensitive وائرس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مریض کو بھاپ دی جائے اور پینے کے لیے قہوہ، سبزیوں کا سوپ دیا جائے تا کہ بیماری کی علامات کم سے کم رہیں۔

بخار ہونے کی صورت میں بخار ختم کرنے والی ادویات دی جائیں۔ کھانسی کی صورت میں ایک کپ گرم پانی میں دو چمچ شہد اور تھوڑی سی کالی مرچ ڈال کر دیں۔ بیماری کی تشخیص ہو جائے تو صبح شام ایک کپ گرم دودھ میں ایک چمچ ہلدی ایک چمچ زیتون کا تیل اور ایک چمچ شہد ڈال کر دیں۔ ہلدی اور زیتون کے تیل میں اللہ تعالیٰ نے بے حد شفاء رکھی ہے۔

ان دونوں میں انفیکشن کنٹرول کرنے کے صلاحیت اور اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ شہد ویسے ہی ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ زکام اور گلے کے انفیکشن کے لیے پودینہ، سونف، دار چینی اور ادرک کا قہوہ  بھی مفید ہے۔ مریض کو پینے والی گرم چیزیں دینے سے مرض میں خاطر خواہ افاقہ ہوتا ہے۔ مریض کے ساتھ خوشی گوار رویہ رکھا جائے کیونکہ علیحدگی میں رکھنے کے باوجود مریض سے رابطہ رکھا جاسکتا ہے۔ چین کی اپنے شہریوں تک محدود کرنے کی ہدایات سے 1440 سال پہلے رسول اللہﷺ کی دی گئی ہدایات یاد آتی ہیں۔

مدینہ میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو آپ نے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو اپنا شہر چھوڑنے سے منع فرمایا تاکہ مرض دوسرے علاقوں میں صحت مند افراد میں منتقل نہ ہو۔ مسلم شریف کی جلد نمبر 2 میں حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ طاعون اور متعدی بیماری ایک عذاب ہے جو پہلی امتوں پر مسلط کیا گیا۔ جب کسی علاقے یا شہر میں کوئی وبا پھیل جائے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شہر کے باشندے اپنا علاقہ چھوڑ کر نہ جائیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے شہروں کے لوگ متاثرہ شہر یا علاقے میں نہ جائیں۔ جو ہدایات آج کی میڈیکل سائنس میں اب سامنے آرہی ہیں وہ ہادی دو جہاں  ﷺ نے ہمیں 1440 سال پہلے بتا دیں (ماشاء اللہ) ۔

پاکستان میں بھی بیماری کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ 5 مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ مریض کے زیر استعمال ٹشو پیپرز اور دوسری اشیاء کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے جبکہ کھانسی یا چھینک آنے پر منہ اور ناک کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپ کر رکھا جائے۔ بخار، کھانسی اور سانس لینے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کریں۔ نزلہ، زکام اور سانس میں رکاوٹ محسوس ہو تو دفتر یا سکول ، کالج جانے سے پرہیز کریں، گھر میں رہ کر آرام کریں ، دوچار دن آرام کرنے سے طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔

بیماری اور وبا اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ سے خیروعافیت کی دُعا کریں۔ بیماریوں سے پناہ مانگیں اور مندرجہ ذیل دُعا پڑھیں:

اَللّٰہُمَّ اِنّیِ اَعُُوذُبِکَ مِنَ البَرَصِ وَالجنونِ وَالجُذَامِ وَ مِن سَیِئی الا سقَام (آمین)

’’ ا ے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برص سے، دماغی خرابی سے، کوڑھ سے اور ہر قسم کی بُری بیماریوں سے۔‘‘

اس دُعا کے بار بار پڑھنے سے اللہ آپ کو ’کورنا وائرس‘ سمیت ہر طرح کے متعدی امراض سے محفوظ رکھے گا۔ صدقہ بلا اور بیماری کو ٹالتاہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے دوا، دُعا کے ساتھ صدقہ بھی ضرور کریں۔

The post ’کرونا وائرس‘ سے کیسے محفوظ رہا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

دل کی شریانوں میں جمی چربی کو صاف کرنے والے نینوذرات

$
0
0

مشی گن: فی الوقت دل کے شریانوں میں جمی چربی اور پلاک کے علاج کے لیے یا تو اینجیو پلاسٹی کی جاتی ہے یا پھر زیادہ پیچیدہ صورت میں بائی پاس کیا جاتا ہے۔ لیکن اب نینوذرات کی بدولت دل کی شریانوں کو اندر سے صاف کیا جاسکتا ہے۔

اسٹینفرڈ اورمشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے خاص طرح کے نینوذرات بنائے ہیں جو دل کی شریانوں میں جاکر اندرونی طور پر انہیں صاف کرکے دل کے دورے سے بچاسکتے ہیں۔

مشی گن یونیورسٹی کے معاون پروفیسر برائن اسمتھ کہتے ہیں کہ  خفیہ رہنے والے ’ٹروجن ہارس‘ ذرات دی گئی ہدایات کے مطابق شریانوں کی چربی اور کچرا وغیرہ صاف کرسکتے ہیں۔ یہ طریقہ شریانوں کی تنگی کا بہترین علاج ثابت ہوسکتا ہے جو امریکہ سمیت کئی ممالک میں اموات کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔

اس کی تفصیلات نیچر نینوٹیکنالوجی میں شائع ہوئی ہے۔ نینوذرات کو کچھ ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ شریانوں میں جم جانے والے مخصوص خلیات (سیلز) پر ہی عمل کرتے ہیں۔ نینوذرات میں دوا بھری ہوتی ہے جو خلیات کے اندرجاکر انہیں گھلادیتی ہے۔ یہ پلاک کی عین اندر جاکر خلئے کے اہم حصے میکروفیج پر اثر ڈالتی ہے اور اسے سکیڑدیتی ہے۔ اس طرح بہت مؤثر انداز میں شریانوں کی پلاک کم کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر برائن کہتے ہیں کہ بہت جلد اس کی انسانی آزمائش شروع کی جائے گی اور توقع ہے کہ اس سے کئی طرح کے ہارٹ اٹیک کو ٹالا جاسکے گا اور کسی طرح کے ضمنی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

ماہرین نے نینوذرات میں بھرنے کے لیے ذہانت سے بھرپور دوا بنائی ہے۔ یہ امنیاتی خلئے کے اندر موجود بڑے اور اہم حصے میکروفیج کے خاتمے یا سکڑنے کا پیغام دیتی ہے۔

’ ہم نے تحقیقات میں غور کیا ہے کہ دوا کی ہدایات سے میکروفیج مردہ خلیات کو ختم کرنا شروع کرتا ہے ۔ یہ وہی خلیات ہیں جن کا ڈھیر جمع ہوکر خون کے بہاؤ میں رکاوٹ بن جاتا ہے،‘ پروفیسر برائن نے بتایا۔

ماہرین کے مطابق اس طریقے کو دل کی شریانوں کے علاوہ دیگر کاموں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کسی خلئے کے باہر کی بجائے دوا کو اندر تک بھیجنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگلے مرحلے پر اسے بڑے جانداروں، پھر انسانی ٹشوز اور آخر میں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔

واضح رہے کہ اس طریقہ علاج کے لیے پیٹنٹ (حقِ ملکیت) کی درخواست دی جاچکی ہے۔

The post دل کی شریانوں میں جمی چربی کو صاف کرنے والے نینوذرات appeared first on ایکسپریس اردو.

اخروٹ کھانے سے دماغی صلاحیتیں بھی جوان

$
0
0

کیلیفورنیا: عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جہاں ہماری جسمانی صلاحیتیں کمزور پڑتی ہیں، وہیں ہمارے دماغ میں نت نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت یعنی ’’اکتسابی صلاحیت‘‘ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جاتی ہے جو آگے چل کر مختلف دماغی امراض کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

لیکن اگر 40 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگ اپنی روزمرہ غذا میں خشک میوہ جات، بالخصوص اخروٹ کی تھوڑی سی مقدار بھی شامل کرلیں تو ان کی دماغی اور اکتسابی زیادہ طویل عرصے تک جوان رہتی ہیں اور وہ زیادہ بڑی عمر تک سیکھنے کے معاملے میں فعال رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ چند روز پہلے ایکسپریس نیوز کی اسی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک خبر میں دل اور نظامِ ہاضمہ پر اخروٹ کے مثبت اثرات کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ تازہ خبر بھی اسی تسلسل میں ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں اخروٹ اور صحت مند عمر رسیدگی میں باہمی تعلق کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا تھا جس میں معدے اور دل کے علاوہ دماغی صحت کے مختلف پہلو بھی شامل کیے گئے تھے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: پانچ اخروٹ روزانہ، رکھیں پیٹ اور دل کو توانا!

اخروٹ اور عمر رسیدگی کے حوالے سے مطالعے کا یہ دو سالہ حصہ لوما لنڈا یونیورسٹی، کیلیفورنیا کے ماہرین نے انجام دیا جس میں امریکا اور اسپین سے ایسے 640 عمر رسیدہ افراد شامل کیے گئے جو اکیلے رہ رہے تھے۔

انہیں دو گروپوں میں بانٹا گیا: ایک گروپ نے روزانہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں اخروٹ استعمال کیے جبکہ دوسرے گروپ نے اس بارے میں کوئی پابندی نہیں کی۔ دو سالہ عرصے میں ان کا باقاعدگی سے طبی معائنہ جاری رکھا گیا۔

مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن بزرگوں نے اپنی روزمرہ غذا میں اخروٹ شامل رکھے تھے، دو سال کے عرصے میں ان کی دماغی صحت اور اکتسابی صلاحیت، دونوں معمول کے مطابق تھیں۔ ان کے برعکس، اخروٹ نہ کھانے والے بزرگ افراد کی دماغی صحت اور اکتسابی صلاحیتیں، ان ہی دو سال کے دوران قدرے کم ہوگئی تھیں۔

اخروٹ میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور پولی فینولز نامی مادّے پائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں کے دونوں ہمارے دماغ کو طاقتور بناتے ہیں اور اکتسابی صلاحیتوں کو کمزور پڑنے سے روکتے ہیں۔

مذکورہ تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دماغ کو تقویت پہنچانے والے اجزاء میں ان ہی دونوں مادّوں کا اہم ترین کردار ہے۔

اس تحقیق کے نتائج ’’امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

The post اخروٹ کھانے سے دماغی صلاحیتیں بھی جوان appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس، وٹامن سی والے فروٹ کثرت سے استعمال کریں

$
0
0

کراچی: کورونا وائرس کا علاج ابھی تک سامنے نہیں آیا جبکہ اس وائرس نے دنیا میں تباہی مچا دی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی دنیاکے تمام ممالک کو وائرس سے محفوظ رہنے کیلیے ہائی الرٹ بھی جاری کردیا ہے، وائرس ایک سے دوسرے صحت مند انسان میں منتقل ہونے کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہے، وائرس سے محفوظ رہنے کیلیے احتیاطی تدابیراختیارکرنا ہوگی۔

وائرس کی ابتدائی علامات بھی فلوکی طرح ہوتی ہیں فلوعام طورپر سے جسم میں وٹامن سی کی کمی، غیرصحت مندانہ خوراک کھانے اورسافٹ ڈرنکس سے بھی لاحق ہوتا ہے کمزورقوت مدافعت والے افراد اوربچوں میں فلو عام طورپرسے ہوجاتا ہے۔

قومی ادارہ اطفال برائے صحت کے ایگزیکٹوڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا، جناح اسپتال کی ایگزیکٹوڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات چیت میں بتایا کہ دسمبرسے جاری وائرس نے دنیا کے بیشترممالک کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کاابھی تک کوئی علاج سامنے نہیں آیا تاہم اس وائرس سے محفوظ رہنے کیلیے ہجوم والے مقامات جانے سے گریزکریں جس میں شاپنگ سینٹرز، ہوٹل وغیر شامل ہیں ،گھروں میں ماسک اور دستانے رکھیں، خواتین اور باروچی خانے میں کام کرنے والی ملازمہ کو بھی دستانے پہنا کرگوشت کی صفائی کا کام کرائیں،کچا انڈا،کچا پکاگوشت کھانے سے گریزکریں۔

ان ماہرین نے عوام سے کہاکہ یہ خوف زردہ نہ ہو یہ وائرس پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوا، فلووائرس عام طورپر جسم میں وٹامن سی اور قوت مدافعت کم ہونے کی کمی سے بھی لاحق ہوتا ہے لہذا موجود موسم میں وٹامن سی قدرتی فروٹ موسمی، کینو ، مالٹے سے بھی حاصل کیاجاسکتا ہے تاہم ان فروٹ کو دوپہرکے وقت کھائیں رات میںکھانے سے گریزکریں۔

The post کورونا وائرس، وٹامن سی والے فروٹ کثرت سے استعمال کریں appeared first on ایکسپریس اردو.

تجربہ گاہ میں افزائش کردہ خلیات پہلی مرتبہ انسانی دل میں منتقل

$
0
0

ٹوکیو: انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں افزائش کئے گئے خلیات انسانی دل کو لگائے گئے ہیں۔ دنیا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

اسے شکستہ دلوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جو ہارٹ اٹیک یا کسی اور عارضے میں شدید متاثرہوتے ہیں۔ توقع ہے کہ اس سے دل کے علاج کی نئی انقلابی راہیں کھلیں گی۔ یہ ٹیکنالوجی کیوٹو یونیورسٹی میں وضع کی گئی تھی جسے 2006 میں طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

یہ طریقہ علاج دوبارہ افزائش یعنی ری جنریٹوو میڈیسن کے زمرے میں شامل ہے جس میں تجربہ گاہ میں خاص اسٹیم سیل بنائے جاتے ہیں۔ ان خلیات کو ’انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز‘‘ (آئی پی ایس سی) کہا جاتا ہے۔ کسی عطیہ دینے والے شخص کے خلیات اور بافتوں کو لے کر انہیں ایک مفید وائرس کا سامنا کرایا جاتا ہے جس کے بعد اسٹیم سیل کسی بھی طرح کے خلیات میں ڈھل سکتے ہیں جن میں دل کے خلیات بھی شامل ہیں۔

اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر یوشیکی ساوا اور ان کے ساتھیوں نے پہلے مریض پر اس کا تجربہ کیا ہے اور اس سال مزید نو مریضوں میں خلیات کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ پہلے آئی پی ایس سی کے عمل سے انسانی قلب کے دس کروڑ خلیات بنائے جاتے ہیں اور انہیں مریض میں داخل کیا جاتا ہے۔ موافق ماحول پر وہ دل کے متاثرہ حصوں کی افزائش شروع کردیتے ہیں اور دل دھیرے دھیرے صحت مند ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل چوہوں اور خنزیر پر اس کے انتہائی کامیاب تجربات کئے گئے ہیں ۔ ہر طرح کی تسلی کے بعد اب اسے انسانوں پر آزمایا گیا ہے۔

ایک ماہ قبل مریض میں یہ خلیات داخل کئے گئے تھے اور اب وہ تیزی سے بحال ہورہا ہے۔ خلیات کو ایک خاص مٹیریل کی شیٹ پر رکھ کر دل پر چپکایا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ شیٹ ازخود گھل کر ختم ہوجاتی ہے اور یوں خلیات دل کا حصہ بن کر وہاں اپنی کارکردگی بڑھانے لگتے ہیں۔ تاہم اس مریض کا پورے سال مسلسل معائنہ کیا جائے گا۔

جاپانی ڈاکٹروں کے مطابق یہ ٹیکنالوجی دل کے لیے ایک انقلابی علاج ثابت ہوگی۔

The post تجربہ گاہ میں افزائش کردہ خلیات پہلی مرتبہ انسانی دل میں منتقل appeared first on ایکسپریس اردو.

نئے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی سب سے کم ہے، رپورٹ

$
0
0

بیجنگ: اس وقت جبکہ چینی شہر ووہان سے پھیلنے والے ’’ناول کورونا وائرس 2019‘‘ المعروف ’’ووہان وائرس‘‘ کی وجہ سے دنیا بھر میں خوف و دہشت کی فضا پھیلی ہوئی ہے، ایک انگریزی ویب سائٹ ’’بزنس انسائیڈر‘‘ نے جانوروں سے پھیلنے والی مختلف وباؤں کی ہلاکت خیزی کا موازنہ، ووہان وائرس کی ہلاکت خیزی سے کیا ہے۔

اپنے تجزیئے کو عام فہم بنانے کےلیے انہوں نے اسے ایک چارٹ کی شکل دی ہے جسے ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے:

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس چارٹ میں 30 جنوری 2020 تک کے اعداد و شمار شامل ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ووہان وائرس سے متاثر ہونے والوں میں ہلاکتوں کی شرح صرف 2 فیصد ہے جبکہ 1967 میں 11 ممالک تک پھیلنے والے ’’ماربرگ‘‘ وائرس نے اگرچہ صرف 466 افراد کو متاثر کیا لیکن ان میں سے 373 افراد ہلاک ہوگئے۔ یعنی ماربرگ وائرس سے ہلاکت کی شرح 80 فیصد رہی!

اسی چارٹ میں کچھ اور نیچے اتریں تو ہمیں 2009 میں H1N1 نامی ایک اور وائرس دکھائی دے گا۔ اسے ’’سوائن فلُو‘‘ کا نام بھی دیا گیا کیونکہ یہ سؤروں سے انسانوں میں پھیلا تھا۔ یہ اکیسویں صدی میں انفلوئنزا کی پہلی بڑی عالمگیر وبا تھی جو 214 ممالک میں پھیلی، اس سے 1,632,258 (سولہ لاکھ بتیس ہزار دو سو اٹھاون) افراد متاثر ہوئے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 284,500 رہی۔ یعنی اس کی بھی ہلاکت خیزی کی شرح 17.40 فیصد تھی۔

باقی اعداد و شمار بھی آپ کے سامنے ہیں، جن کا موازنہ آپ خود کرسکتے ہیں۔

یہاں یہ بھی واضح رہنا ضروری ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ روز ووہان وائرس کے بارے میں اپنے دوسرے ہنگامی اجلاس کے بعد اس وبا کو ’’عالمی طبّی ایمرجنسی‘‘ قرار دیا ہے جبکہ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ اب تک چین کے علاوہ یہ جن 19 ملکوں تک پہنچا ہے، ان میں سے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں اس وائرس سے نمٹنے کےلیے ضروری طبّی اقدامات (حفاظتی تدابیر اور قرنطینہ وغیرہ) مناسب طور پر موجود نہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی اسی رپورٹ میں چین کی جانب سے کیے گئے ہنگامی و حفاظتی اقدامات اور شفافیت کی بطورِ خاص تعریف کی گئی ہے؛ اور یہ بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا ایک تجزیاتی وفد آئندہ چند دنوں میں چین کا دورہ کرے گا اور وہاں کے حالات کا خود مشاہدہ کرے گا۔

تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ اب تک 20 ملکوں میں اس وائرس سے 9,821 افراد متاثر ہوچکے ہیں مگر ان میں بھی سب سے بڑی تعداد، یعنی 9,692 افراد، چین میں ہے جبکہ باقی 19 ممالک میں مجموعی طور پر 219 افراد ووہان وائرس سے متاثر ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ووہان وائرس سے اب تک جتنی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں (جن کی موجودہ تعداد 213 ہے)، وہ سب کی سب چین میں ہوئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانوں کو لاحق ہونے والی 75 فیصد سے زیادہ بیماریاں جانوروں سے پیدا ہوتی ہیں۔ وبائی امراض کے پھیلاؤ کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایسی بیشتر حالیہ وبائیں چمگادڑوں، پرندوں اور سؤروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں اور پھر ایک سے دوسرے انسان میں پھیل کر وبائی صورت اختیار کرگئیں۔

غرض کہ حالیہ 55 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں پھیلنے والی دیگر تمام وباؤں کے مقابلے میں ووہان وائرس کی ہلاکت خیزی سب سے کم ہے۔

The post نئے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی سب سے کم ہے، رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.


رنگ بدل کر انفیکشن سے خبردار کرنے اور جراثیم مارنے والی ’’ذہین‘‘ پٹی

$
0
0

بیجنگ: چینی سائنس دانوں نے ایک ایسی ’’ذہین پٹی‘‘ (اسمارٹ بینڈیج) ایجاد کی ہے جو ٹریفک لائٹ کی طرح رنگ بدل کر نہ صرف کسی انفیکشن کی اطلاع دیتی ہے بلکہ اینٹی بایوٹکس خارج کرکے جراثیم (بیکٹیریا) کو ہلاک بھی کردیتی ہے۔

بنیادی طور پر ہم اسے ویسا ہی ایک ’’لٹمس پیپر‘‘ سمجھ سکتے ہیں جیسا اسکولوں کی کیمسٹری لیبارٹریز میں تیزابیت اور اساسیت کا پتا چلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ذہین پٹی، زخم میں انفیکشن کے باعث بڑھنے والی تیزابیت پر اپنا رنگ بدل لیتی ہے جبکہ یہ اپنے رنگ کے ذریعے انفیکشن کی وجہ بننے والے بیکٹیریا سے بھی آگاہ کرتی ہے۔

عام حالات میں، جب زخم میں انفیکشن نہ ہو، تو زخم پر بندھی اس ذہین پٹی کی رنگت سبز رہتی ہے۔ البتہ، زخم میں انفیکشن ہونے پر اس کی رنگت بدلنے لگتی ہے: اگر زخم میں ہونے والا انفیکشن ایسے جرثوموں کی وجہ سے ہے جنہیں دستیاب اینٹی بایوٹکس سے ہلاک کیا جاسکتا ہے (اور جنہیں مختصراً DS یعنی ڈرگ سینسیٹیو بیکٹیریا بھی کہا جاتا ہے) تو پٹی کی رنگت پیلی ہوجائے گی؛ لیکن اگر وہ انتہائی سخت جان قسم کے بیکٹیریا ہیں جو موجودہ اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں (اور جو ’’ڈرگ ریزسٹنٹ‘‘ یا مختصراً DR کہلاتے ہیں) تو پھر پٹی کی رنگت سرخ ہوجائے گی۔

انفیکشن میں ڈرگ سینسیٹیو بیکٹیریا موجود ہوں تو یہ پٹی خود ہی اپنے اندر موجود اینٹی بایوٹکس خارج کرکے انہیں ہلاک کردیتی ہے۔ تاہم ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا ہونے کی صورت میں یہ معالج کو بھی خبردار کرتی ہے جو زخم پر تیز روشنی ڈال کر ان سخت جان جرثوموں کو پہلے کمزور بناتا ہے اور پھر اس پٹی کے اندر موجود اینٹی بایوٹک دوا خارج ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنا اثر دکھا سکے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ زخم میں انفیکشن جتنا شدید ہوگا، پٹی کی متعلقہ رنگت بھی اتنی ہی زیادہ گہری ہوگی جس سے انفیکشن کی شدت کا بھی فوری پتا چل جائے گا۔

فی الحال اس ذہین پٹی کو چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔ جانوروں پر کچھ مزید آزمائشوں کے بعد اس پٹی کی انسانی آزمائشیں بھی شروع کردی جائیں گی۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ انفیکشن کا پتا دینے والی یہ ذہین پٹی، اگلے چار سے پانچ سال میکں فروخت کےلیے دستیاب ہوگی۔

اس ذہین پٹی کی دستیابی سے کسی زخم میں بیکٹیریا کی موجودگی (انفیکشن) کا پتا چلانے کے لیے مہنگے اور سست رفتار ٹیسٹوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی اور تھوڑی سی معلومات رکھنے والا فرد بھی اس بارے میں فوری جان سکے گا۔

اس ایجاد کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس سینٹرل سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

The post رنگ بدل کر انفیکشن سے خبردار کرنے اور جراثیم مارنے والی ’’ذہین‘‘ پٹی appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا روزانہ ایک انڈا کھانے سے صحت خراب ہوتی ہے؟

$
0
0

اونٹاریو: دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ایک خاص عمر کے بعد روزانہ انڈے کھائے جائیں تو اس سے جسم میکں کولیسٹرول بڑھتا ہے جو آگے چل کر رگوں میں تنگی اور دل کی مختلف بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ لیکن طبّی ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ شاید یہ بات سچ نہیں۔

کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی کی سربراہی میں گزشتہ برس ایک عالمی مطالعہ کیا گیا جس میں پاکستان سمیت، دنیا کے کئی ممالک سے ماہرین شریک تھے۔ اس وسیع البنیاد تحقیق میں 50 ممالک میں 177000 (ایک لاکھ ستتّر ہزار) سے زائد افراد پر کیے گئے ایک طویل مدتی مطالعے کا ڈیٹا شامل کیا گیا جو کئی سال پر پھیلا ہوا تھا۔ اس مقصد کےلیے پاکستان سے آغا خان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف کمیونٹی ہیلتھ سائنسز اینڈ میڈیسن کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ان تمام اعداد و شمار کو احتیاط اور باریک بینی سے کھنگالنے پر ایسی کوئی بات سامنے نہیں آسکی جو روزانہ انڈے کھانے اور کولیسٹرول میں اضافے کے درمیان تعلق کو ثابت کرسکے۔

آسان الفاظ میں اس تحقیق سے حاصل شدہ نتائج کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ روزانہ ناشتے میں صرف ایک انڈا کھاتے ہیں تو اس سے نہ تو جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے اور نہ ہی وہ دل اور شریانوں کی کسی بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ البتہ، بہتر یہی ہے کہ ناشتے میں اُبلے ہوئے انڈے کھائے جائیں، جبکہ آملیٹ یا ہاف فرائی انڈوں کا استعمال کبھی کبھار کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بس انہیں روز کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔

اس تحقیق کی تفصیلات ’’دی امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

The post کیا روزانہ ایک انڈا کھانے سے صحت خراب ہوتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ایس آئی یو ٹی میں روبوٹک ولیپروسکوپک آپریشن تھیٹر کا آغاز

$
0
0

کراچی: سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اور ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں مریضوں کو سرجری کے بہترین طریقہ کار سے علاج کی فراہمی کیلیے جدید ترین روبوٹک اور سہ جہتی لیپروسکوپک سرجری کی سہولتوں سے آراستہ نئے شعبہ کا آغاز ہوگیا۔

سماجی رہنما بشیر داؤد نے ایس آئی یو ٹی میں منعقدہ تقریب میں افتتاح کیا، انھوں نے اس یونٹ کے قیام کے لیے  450 ملین روپے کی خطیر رقم کا عطیہ بھی دیا، یہ یونٹ مشہور بینکر اور داؤد فیملی کے دوست  قاسم پاریکھ سے موسوم کیا گیا ہے۔

ایس آئی یو ٹی کا شعبہ سرجری جدید ترین خطوط پر استوار ہے جس میں نہایت قابل ڈاکٹرز گردے، مثانہ وغیرہ کی روبوٹک سرجری کا گہرا تجربہ رکھتے ہیں، ان جدید سہولتوں سے سرجری کے شعبہ کا دائرہ کار مزید وسیع ہو جائے گا، مریضوں کے لیے سرجری کے اس طریقہ علاج کے فوائد میں کم درد، آپریشن کا چھوٹا زخم، خون کا کم ضیاع، جلد صحتیابی، اسپتال میں کم مدت تک رہنا اور کم پیچیدگیاں شامل ہیں۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  بشیر داؤد نے ایس آئی یوٹی کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور جذبہ خدمت کو بہت سراہا، انھوں نے ایس آئی یو ٹی کے نئے منصوبے ’’بچوں کے امراض گردہ اور امراضِ قلب اسپتال‘‘کی تعمیر کے لیے ایک بلین روپے کی خطیر رقم عطیہ کرنے کا بھی عہد کیا ہوا ہے، قبل ازیں ڈائریکٹر ایس آئی یو ٹی پروفیسر ادیب رضوی نے  بشیر داؤد کو خوش آمدید کہااور ادارے کی سرگرمیوں سے متعلق آگاہی بھی دی۔

 

The post ایس آئی یو ٹی میں روبوٹک ولیپروسکوپک آپریشن تھیٹر کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.

کینسر کا علاج دریافت ہو گیا؟

$
0
0

اللہ تعالیٰ نے اگر انسان کا امتحان لینے کی خاطر بیماریاں پیدا فرمائی ہیں تو ان کا توڑ بھی انسان کو عطا کیا گیا۔ یہی وجہ ہے، انسان طبی تحقیق و تجربات سے موذی امراض کے علاج بھی دریافت کرلیتا ہے۔ تاہم کینسر یا سرطان ان گنے چنے امراض میں سرفہرست ہے جن کا شافی توڑ فی الحال سامنے نہیں آسکا۔ مگر اب صورتحال بدل سکتی ہے جو یقیناً کینسر میں مبتلا مریضوں کے لیے سب سے بڑی خوش خبری ہے۔

برطانوی ماہرین طب نے ہر قسم کے کینسر کا علاج کرنے والا طریق کار دریافت کرنے کی نوید سنائی ہے۔ اس علاج کا تعلق ہمارے ٹی خلیوں(T cells) سے ہے۔انسانی جسم کا حفاظتی یا مدافعتی نظام (Immune system)مخصوص خلیے رکھتا ہے۔ جب کسی بیماری کے جراثیم یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہوں تو سب سے پہلے یہی مدافعتی خلیے انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان خلیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ٹی خلیے وہ خصوصی مدافعتی خلیے ہیں جو کینسر کے خلیوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیت انہیں دیگر مدافعتی خلیوں سے ممتاز کردیتی ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی جرثومہ یا وائرس انسانی جسم کے کسی خلیے پر قبضہ کرلے تو متاثرہ خلیہ مخصوص پروٹین کے سالمات (Molecules) خارج کرتا ہے۔ یہی پروٹینی سالمے ٹی خلیوں میں مدافعتی نظام چالو کردیتے ہیں۔ ٹی خلیوں کی سطح پر بھی مخصوص پروٹینی سالمے پائے جاتے ہیں۔ اب جرثومے یا وائرس کی نوعیت و ہیئت کے مطابق ٹی خلیوں کی کوئی قسم متاثرہ خلیوں پر حملہ کردیتی ہے۔ حملہ یوں ہوتا ہے کہ ٹی خلیوں کے پروٹینی سالمات متاثرہ یا بیمار خلیے کی سطح پر چمٹ جاتے ہیں۔ یوں ٹی خلیوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بیمار خلیے کا تیا پانچہ کر ڈالیں۔

کینسر کا وائرس بیماریوں کی دنیا میں سپرپاور کی حیثیت رکھتا ہے۔اکثر اوقات لاکھوں ٹی خلیے بھی اس وائرس سے متاثرہ خلیوں کو تباہ نہیں کرپاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وائرس کا نظام ان کے حملے بے اثر بنا دیتا ہے۔رفتہ رفتہ مگر تحقیق و تجربات سے عیاں ہوا کہ بعض انسانوں میں کینسر پنپ نہیں پاتا اور وہ شفایاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ان میں کینسر سے نبرد آزما خلیوں میں کوئی خاص بات تھی جس نے کینسر جیسے موذی بیماری کے وائرس کو پلنے بڑھنے نہیں دیا اور آخر مار ڈالا۔ چناں چہ طبی سائنس داں ٹی خلیوں پر تحقیق کرنے لگے۔

ایک عشرہ قبل انکشاف ہوا کہ جس انسان میں ایک پروٹینی مادہ،ایچ ایل اے (human leukocyte antigen) رکھنے والے ٹی خلیے زیادہ ہوں تو وہ خصوصاً خون کے کینسر میں مبتلا نہیں ہوتا۔یہ ایک اہم انکشاف تھا۔ بعدازں جنیاتی (جینیٹک) انجینئرنگ نے اس انکشاف کو علاج کی شکل دے ڈالی۔ یہ علاج CAR-T کہلاتا ہے۔اس علاج میں طریق کار یہ ہے کہ جب کوئی انسان خون کے کینسر میں مبتلا ہو، تو CAR-T اپناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا خون نکالا جاتا ہے۔

جس میں ٹی خلیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ یوں وہ خون کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں محو حرکت رہتے ہیں۔ پھر جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے نکالے گئے خون کے زیادہ سے زیادہ ٹی خلیوں میں ایچ ایل اے پروٹینی مادہ داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خون پھر مریض کے جسم میں جاپہنچتا ہے۔ یہ عمل کئی بار انجام پاتا ہے۔ اس طرح مریض کے جسم میں ایچ ایل اے رکھنے والے ٹی خلیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ وہ پھر کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ یوں مریض تندرست ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایچ ایل اے پروٹینی مادے کی خامی یہ ہے کہ وہ عموماً کینسری رسولی سے چمٹ نہیں پاتا۔ اسی لیے جس انسان میں کینسر سے رسولی بن جائے، اس میں CAR-T کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم بعض طبی سائنس دانوں کو یقین تھا کہ ممکن ہے، ٹی خلیوں کی دیگر اقسام میں ایسے پروٹینی مادے پائے جاتے ہوں جن کی کثرت کینسری رسولیوں کا بھی خاتمہ کرسکے۔ پچھلے چند برس سے امریکا، برطانیہ اور جاپان کے طبی مراکز میں یہی جاننے کی خاطر تحقیق و تجربے جاری تھے۔ ان میں کارڈف یونیورسٹی کا سکول آف میڈیسن بھی شامل تھا۔

کارڈف یونیورسٹی برطانیہ کی معروف سرکاری درس گاہ ہے۔ کارڈف شہر میں واقع ہے۔ اس کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر اینڈریو سیول اپنی ٹیم کی مدد سے ٹی خلیوں پر تحقیق کررہے تھے۔ پچھلے سال انہوں نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ ٹیم نے کینسری خلیوں کے درمیان مختلف اقسام کے ٹی خلیے چھوڑ دئیے۔ ماہرین دیکھنا چاہتے تھے کہ کس قسم کے ٹی خلیے زیادہ سے زیادہ کینسری خلیے مار ڈالتے ہیں۔ لیبارٹری میں یہ تجربہ کئی بار کیا گیا۔

درج بالا تحقیق ہی سے کینسر پر حملہ کرنے والا نیا پروٹینی مادہ دریافت ہوگیا جو ایم آر 1  (MR1) کہلاتا ہے۔ یہ مادہ ٹی خلیوں کی مخصوص قسم،MC.7.G5 میں پایا جاتا ہے۔ ایم آر 1 بھی ایچ آر اے کی طرح کینسری خلیے کی سطح سے چمٹ جاتا ہے۔ یوں ٹی خلیہ اس سے جڑ کر اسے تباہ کرنے لگتا ہے۔ایچ آر اے اور ایم آر 1 میں مگر ایک بنیادی فرق ہے۔ جانوروں اور انسانوں میں بھی ہر ذی حس میں ایچ آر اے مختلف ہئیت رکھتا ہے۔ اسی لیے CAR-T طریق علاج میں پہلے ہر انسان کے ایچ آر اے کا مطالعہ کرکے اس کے مطابق بذریعہ جنیاتی انجینئرنگ نقول تیار ہوتی ہیں۔ اسی پیچیدگی کے باعث CAR-T ایک مشکل اور مہنگا علاج ہے۔ مگر ایم آر 1 تمام انسانوں میں ایک ہی صورت شکل رکھتا ہے۔

گویا اسے بطور علاج اپنانا زیادہ آسان اور سستا عمل ہے۔تجربات سے ایم آر 1 کی ایک اور انقلابی خصوصیت سامنے آئی… یہ کہ نیا پروٹینی مادہ کینسر کی رسولیوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ دوران تجربات طبی ماہرین نے پھیپھڑوں، جلد، خون، آنتوں، سینے، ہڈی، پروسٹیٹ، گردوں، بیض دانہ (Ovarian) اور کرولیکل پر حملہ آور کینسر کے خلیے لیے اور ان میں ایم آر1 والے ٹی خلیے چھوڑ دیئے۔ ٹی خلیوں نے کینسر کی درج بالا سبھی اقسام سے متاثر سبھی خلیوں کو مار ڈالا۔ اس بات نے طبی ماہرین کو نہ صرف حیران کر ڈالا بلکہ وہ جوش میں بھی آگئے۔

دراصل انہیں احساس ہوگیا کہ ایم آر 1 کی بدولت اب وہ کینسر کی بیشتر اقسام کا علاج ہوسکتا ہے۔ وجہ یہی کہ اول یہ پروٹینی مادہ تقریباً تمام انسانوں میں یکساں صورت و ہئیت رکھتا ہے۔ دوسرے ایم آر1 کینسری رسولیاں ختم کرنے کی بھی صلاحیت کا حامل ہے۔ گویا پروفیسر اینڈریو سیول کی زیر قیادت کارڈف یونیورسٹی کی ٹیم نے کینسر کا ایک نیا اور موثر طریق علاج دریافت کرلیا جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

پروفیسر اینڈریو کا پروگرام ہے کہ اسی سال یہ نیا طریق کار کینسر کے ان مریضوں پر آزمایا جائے جو مرض کی آخری سٹیج پہ ہیں۔یوں نئے طریقہ علاج کی خوبیاں اور خامیاں واضح طور پر سامنے آ سکیں گی۔نیز یہ بھی پتا چل سکے گا کہ انسانوں میں یہ طریقہ کتنا کارگر ثابت ہو گا۔دلچسپ بات یہ کہ طبی سائنس کی محیر العقول ترقی کے باوجود سائنس داں اب تک نہیں جان سکے، ٹی خلیے حیوانی جسم میں وائرس زدہ خلیوں سے کیونکر چمٹتے ہیں۔ان کے پروٹینی مادے کو وائرس زدہ خلیوں میں ایسا کیا نظر آتا ہے کہ وہ ان سے چمٹ جاتے ہیں، جبکہ بدن کے تندرست خلیوں کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔یہ راز جاننے کی خاطر بہرحال طبی ماہرین تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔اس بابت معلوم ہو جائے تو ٹی خلیوں پہ مبنی علاج زیادہ کارگر ہو جائے گا۔

نیا تباہ کن وبائی وائرس

ایک طرف دنیا بھر میں سائنس داں ناقابل علاج بیماریوں کو شکست دینے کی خاطر نت نئے علاج دریافت کر رہے ہیں تو دوسری سمت وائرس ،جراثیم اور زندگی کو نقصان پہنچانے والے دیگر نامیے بھی بہت سرگرم ہیں۔یہ نئے سے نئے امراض پیدا کر رہے ہیں۔کچھ عرصے سے ایک نئے موزی،کرونا وائرس نے چین کے شہر،ووہان میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔تادم تحریر یہ وائرس 80 انسانوں کو نمونیے میں مبتلا کر ان کی جانیں لے چکا۔ پوری دنیا میں تین ہزار مردوزن اس سے متاثر ہو چکے۔اس  کا کوئی علاج فی الوقت موجود نہیں۔

نوول کرونا وائرس چھوتی (Infectious) وائرسوں اور جراثیم  کے ایک ذیلی گروہ،وبائی(contagious) سے تعلق رکھتا ہے۔  وبائی وائرسوں،جراثیم اور دیگر موذیوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ماحول میں پھیل کر ایک انسان یا جانور سے دوسرے انسانوں اور جانوروں کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ان وبائی وائرسوں اور جراثیم کے بارے میں بعض بنیادی باتیں ہر بچے،جوان اور بوڑھے کو معلوم ہونی چاہیں تاکہ وہ ان سے محفوظ رہ کر تندرست کی دولت پائے رکھیں۔وبائی امراض ’’قابل منتقلی‘‘ (Transmissible) بھی کہلاتے ہیں۔وجہ یہ کہ وہ کسی نہ کسی ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایڈز، کالی کھانسی (Whooping cough)،چھوتی اسہال (Gastroenteritis)،عام بخار(کامن کولڈ)، ہیپاٹائٹس، نمونیہ، دق، انفلوئنزا، ملیریا، ڈینگی بخار، خسرہ، کن پیڑے (mumps) وغیرہ نمایاں وبائی یا چھوتی بیماریاں ہیں۔

یہ بات یاد رکھیے کہ کسی بھی وبائی مرض کا شکار انسان کے جسم سے جو بھی مادہ نکلے، اس میں بیماری کے وائرس اور جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ان مادوں میں تھوک کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔وجہ یہ کہ یہی مادہ بدن سے زیادہ نکلتا ہے۔تاہم مریض کے فضلے اور مادہ حیات میں بھی وائرس اور جراثیم وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب مریض کھانستا، چھینک مارتا، تھوکتا  یا رال ٹپکاتا ہے تو آلودہ تھوک باہر آ جاتی ہے۔ کھانسنے یا چھینکنے سے اس کے منہ سے تھوک آبی بخارات بن کر بھی خارج ہوتی ہے۔یہ آبی بخارات ہوا میں شامل ہو کر تین فٹ دور تک جا سکتے ہیں۔یہ آبی بخارات جب بھی تندرست انسان میں داخل ہوں تو وہ بھی چھوت کا نشانہ بن سکتا ہے۔

ایک سے دوسرے انسان کو وبائی مرض کی منتقلی دو طرح سے ممکن ہے۔اول براہ راست(ڈائرکٹ)۔وہ یوں کہ دونوں افراد بہت قریب رہیں اور اکثر ایک دوسرے کو چھوتے رہیں۔ قربت کے لمحات بھی آ جائیں۔دوم غیر براہ راست (ان ڈائرکٹ)طریقے سے۔اس منتقلی کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کا کتا پہلے کسی وبائی مرض میں گرفتار ہوا۔چونکہ آپ کتے کے قریب رہتے ہیں لہذا جلد یا بدیر وہ آپ کو بھی وبائی بیماری کا وائرس یا جرثومہ منتقل کر دے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ فضا میں مریض کی چھینک سے تھوک کے آبی بخارات پھیل جائیں۔وہ پھر کسی بھی ذی حس کو نشانہ بنا لیں گے۔

بیرونی فضا یا کھلے ماحول میں ہر چھوتی یا وبائی مرض کے وائرس، جراثیم، فنگی(Fungi)اور دیگر مضر صحت نامیے و طفیلیے(Parasites) مختلف عرصہ زندہ رہتے ہیں۔جب کوئی وبا پھیل جائے تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس کا وائرس وغیرہ کھلی ہوا میں کتنا عرصہ زندہ رہتا ہے۔اس طرح وبائی بیماری سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ماہرین طب کا کہنا کہ مریض سے نکلے آبی بخارات کچھ دیر ہوا میں گردش کرنے کے بعد بالاآخر کسی جگہ ٹک جاتے ہیں۔اگر اس جگہ تندرست آدمی نے ہاتھ لگا دیا تو وبائی وائرس یا جراثیم انگلیوں سے چمٹ جائیں گے۔اب آدمی نے انگلی ،کان ،ناک یا منہ میں ڈال لی تو تب  وبائی وائرس وغیرہ اس کے جسم میں بھی داخل ہو اسے بیمار کر ڈالیں گے۔

یہ وبائی بیماری پھیلنے کا معروف طریق کار ہے۔بعض اوقات مریض کی جلد سے بھی وبائی وائرس چپکے ہوتے ہیں۔لہذا انھیں چھونے سے بھی وہ چمٹ سکتے ہیں۔تاہم وبائی وائرسوں اور جراثیم وغیرہ کی اکثریت جلد پر دس سے تیس منٹ تک زندہ رہتی ہے۔لیکن یہ موزی سخت اور نم مقام پہ کئی دن زندہ رہ سکتے ہیں۔اسی لیے وہ زیادہ خطرناک بن جاتے ہیںکہ کسی بھی وقت صحت مند انسان سے چمٹ کر اسے بھی بستر سے لگا دیتے ہیں۔

ماہرین کی رو سے فلو کے وائرس گھر کی اندرونی فضا میں سات دن زندہ رہتے ہیں۔مگر ایک دن بعد ان کی قوت میں کمی آنے لگتی ہے۔جتنا زیادہ عرصہ گذرے،وہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔فلو پیدا کرنے والے وائرس بھی سخت جگہ پر ایک دن زندہ پائے گئے۔تاہم ہاتھوں پر پانچ دس منٹ بعد ہی ان کی قوت کم ہو جاتی ہے۔وبائی وائرسوں،جراثیم وغیرہ سے بچنا کافی مشکل ہے لیکن بچاؤ کے طریقے اپنا لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔مثلاً وبا پھیلنے والے علاقے میں منہ ماسک سے ڈھانپ کر رکھیے۔دن میں بار بار ہاتھ منہ دھوئیں تاکہ انگلیوں ،ناک اور منہ پہ کوئی وائرس بسنے نہ پائے۔خاص طور پر پاخانے جانے کے بعد صابن سے ہاتھ ضرور دھویے۔کپڑے اور رہنے بسنے کی جگہ بھی صاف رکھیے۔

The post کینسر کا علاج دریافت ہو گیا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں سالانہ پونے 2 لاکھ کینسر کے مریض سامنے آنے لگے

$
0
0

 لاہور: پاکستان میں سالانہ پونے دو لاکھ کینسر کے مریض سامنے آنے لگے۔

ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں سے رجوع کرنے والے ہر تیسرے مریض کو کینسر تشخیص ہورہا ہے، اونکالوجی سوسائٹی آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ہر ساتویں موت کی وجہ کینسر ہے۔

کسی ایک اسپتال میں تشخیص سے علاج تک کی سہولیات میسر نہیں، مریض کو تمام ٹیسٹ کرانے میں تین ماہ لگ جاتے ہیں حالانکہ اسی عرصہ میں اسے بچایا جاسکتا ہے، اگر تشخیص سات دن کے انددر ہوجائے تو 14 دن میں آپریشن کرکے کینسر ختم کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اگر ون ونڈو پروگرام یعنی ایک چھت تلے تشخیص سے علاج کی سہولیات دستیاب ہوں تو 90 فیصد مریضوں کی جان بچائی اورآئندہ زندگی صحت مند بنائی جاسکتی ہے۔

واضح رہے کہ سالانہ پونے دو لاکھ کینسر کے مریض سامنے آرہے ہیں جن میں سے ایک لاکھ بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے پرلقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انسانی زندگی محفوظ بنانے کے لیےجدید طریقہ علاج کا نظام بنایا جارہا ہے۔

The post پاکستان میں سالانہ پونے 2 لاکھ کینسر کے مریض سامنے آنے لگے appeared first on ایکسپریس اردو.

نمکین ماسک کورونا وائرس کو ختم کرسکتے ہیں

$
0
0

اوٹاوا: کینیڈا کے ایک سائنسدان کا دعویٰ ہے کہ محض سادہ ماسک پہننے سے کورونا وائرس کو روکنا محال ہے لیکن اسی ماسک پر عام نمک کی ایک پرت لگا کر کورونا وائرس کو مؤثر انداز میں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف البرٹا میں بایو میڈیکل انجینئر پروفیسر ہیو جِک چوئی کہ کورونا وائرس روکنے کے لیے جو سرجیکل ماسک استعمال ہوتے ہیں ان میں دو طرح کی خامیاں ہیں، اول یہ کہ وہ ہوا میں تیرتے ہوئے مائع کے بڑے قطرے ہی روک سکتے ہیں، کورونا وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ وہ مائع کے انتہائی باریک قطروں میں رہتے ہوئے ناک اور پھر سانس تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا ایک اور حل این 95 اور این 99 قسم کے ماسک مہنگے ہوتے ہیں جنہیں زیادہ دیر تک پہنا نہیں جاسکتا۔

دوسری جانب ماسک کے سوراخوں میں بھی وائرس پھنس جاتے ہیں اور بار بار ماسک اتارنے اور پہننے سے انگلیوں اور ہاتھوں پر وائرس چپک سکتے ہیں۔ اس لیے وائرس کوختم کرنے والے ایک ماسک کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ اس کا کم خرچ اور آسان حل نمک والے ماسک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

حل کے طور پر پروفیسر ہیو جِک چوئی نے روایتی ماسک پر نمک کی ایک پرت لگائی ہے جو پانی کے قطروں کو جذب کرلیتی ہے۔ دوسری جانب وائرس اس سے ٹکراتے ہیں فنا ہوجاتا ہے جس کے لیے انہوں نے سوڈیئم کلورائیڈ اور پوٹاشیئم کلورائیڈ جیسے عام نمک پر مشتمل ایک پرت تیار کی ہے۔

پروفیسر ہیو نے بتایا کہ ’ ہم نے نمکین ماسک تین اقسام کے فلو وائرس پر آزمایا اور صرف 30 منٹ میں نمک کی تہہ نے اکثر وائرس کو ختم کرڈالا‘۔ اگرچہ اسے نئے کورونا وائرس پر نہیں آزمایا گیا لیکن توقع ہے کہ انفلوئینزا کے باقی وائرس کی طرح یہ کورونا وائرس کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔

اب یونیورسٹی نے بتایا ہے کہ کاروباری شریک ملنے کی صورت میں ایک سے ڈیڑھ برس میں یہ ماسک بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ تب تک سائنسدانوں کا مشورہ ہے کہ ماسک پہنتے اور اتارتے وقت ہر مرتبہ وہ اپنے ہاتھ اور چہرے کو اچھی طرح دھوئیں اور اگر ممکن ہو تو تھوڑے تھوڑے دن بعد ماسک تبدیل کرلیں اور پہلے ماسک کو اچھی طرح تلف کریں۔

واضح ہے کہ پروفیسر ہیو ایک عرصے سے وائرس اور مختلف ماسک پر تحقیق کررہے ہیں۔ انہوں نے 2017ء میں تجویز کیا تھا کہ دروازے کھولنے کے دستوں اور سیڑھیوں کی سہارا دینے والی ریلنگ پر نمک کا لیپ کرکے انفیکشن کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

The post نمکین ماسک کورونا وائرس کو ختم کرسکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کورونا وائرس سے متاثر 523 افراد صحت یاب، رپورٹ

$
0
0

اسلام آباد/ بیجنگ: اس وقت کورونا وائرس دنیا بھر میں خوف کی علامت بنا ہوا ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب تک اس وائرس سے متاثر ہونے 523 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 17,488 افراد متاثر ہوچکے ہیں جن کی بھاری اکثریت چین میں رہائش پذیر ہے۔

اب تک کے اعداد و شمار سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی صرف 2 فیصد ہے جو ماضی میں وائرس سے پھیلنے والی وباؤں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: کرونا وائرس ہے کیا؟ 10 بنیادی سوالات کے جوابات

ادھر امریکی نفسیاتی ماہرین نے کورونا وائرس سے پھیلتی ہوئی افراتفری اور بے یقینی سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس بذاتِ خود اتنا خطرناک نہیں جتنا خوفناک بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے؛ جس کی وجہ سے کورونا وائرس کے نفسیاتی اثرات زیادہ خطرناک انداز میں لوگوں پر مرتب ہورہے ہیں۔

طبّی ویب سائٹ ’’ہیلتھ ڈے‘‘ پر شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں مختلف امریکی ماہرینِ نفسیات نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی معلومات سے خوفزدہ نہ ہوں۔

ایکسپریس نیوز کی یہ ویڈیو بھی دیکھیے: کورونا وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر

ناپختہ ذہن کے باعث چھوٹی عمر کے بچے زیادہ جلدی خوف کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے جھوٹی خبروں کا تذکرہ کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے جبکہ انہیں اس وائرس کے بارے میں درست معلومات، اس طرح سے دی جائیں کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں۔

بچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے وائرس پھیل چکے ہیں جو اس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ خوفزدہ کرنے کے بجائے بچوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ کون کونسی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: چین کے خلاف ’’انفارمیشن وارفیئر‘‘ اور ووہان وائرس

پاکستان ینگ سائیکالوجسٹس ایسوسی ایشن (PYPA) کے صدر عارف نیازی نے چین میں موجود پاکستانی افراد کی کاؤنسلنگ کرنے کے لیے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین میں مقیم پاکستانیوں میں ڈپریشن سے زیادہ اینگژائٹی کی علامات دیکھی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈپریشن کا تعلق ماضی میں ہوجانے والے واقعات کی یاد سے ہوتا ہے جبکہ اینگژائٹی وہ تشویش ہے جو کسی شخص کو مستقبل کے خدشات کے بارے میں لاحق ہوتی ہے۔

امریکی ڈاکٹروں نے موازنے کی غرض سے یہ بتایا ہے کہ 2018ء سے 2019ء تک کے فلُو سیزن کے دوران امریکا میں 34 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ غیر محتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے مرنے والوں کی شرح، کورونا وائرس سے مرنے والوں کی شرح سے بھی زیادہ ہے۔

The post کورونا وائرس سے متاثر 523 افراد صحت یاب، رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.


کینسر بڑا عالمی چیلنج؛ احتیاط سے شرح اموات میں کمی ممکن ہے!

$
0
0

ایکسپریس میڈیا گروپ اور جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے اشتراک سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ’’ورلڈ کینسر ڈے‘‘ کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیاگیا جس کی مہمان خصوصی صوبائی وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں جبکہ مہمانان گرامی میں صدر سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان پروفیسرڈاکٹر زیبا عزیز،ہیڈ آف میڈیکل انکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور ڈاکٹرمحمد عباس کھوکھر،سیکرٹری پنجاب کینسر رجسٹری ڈاکٹر فرحانہ بدر، جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آف بینک اشورنس سید رضوان عزیز اور ایگز یکٹو ڈائریکٹر مارکیٹنگ ایکسپریس پبلی کیشنز اظفر نظامی شامل تھے۔

سیمینار میں میڈیکل کے اساتذہ، طلبہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے خصوصی شرکت کی ۔ سیمینار کے انعقاد میں سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان نے خصوصی تعاون کیا۔ سمینارکی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد

(صوبائی وزیر صحت پنجاب)

کینسر کی بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویشناک ہے۔ اس میں ہمارا طرز زندگی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا اگر اپنا لائف سٹائل تبدیل کر لیا جائے تو کینسر کی بیشتر اقسام کا خاتمہ ممکن ہے۔ منہ کا کینسر باعث تشویش ہے اور مردوں میں اس کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ تمباکو نوشی، گٹکے وغیرہ کا استعمال ہے، یہ عادت ترک کر دی جائے تو منہ کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے جس کی باعث مریض کا پورا خاندان متاثر ہوتا ہے لہٰذا اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو پریشانی سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں70 فیصد مریض اپنے  علاج معالجے کے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔

حکومت صرف 30 فیصد مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات دیتی ہے۔ کینسر کی بات کی جائے تو اس حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے۔ کینسر کی ادویات و علاج مہنگا ہے لہٰذا ایک خاص حد تک ہی مریض کو ہسپتال میں سہولیات دی جاسکتی ہیں تاہم ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ صحت کے حوالے سے لوگوں کو بہترین سہولیات دیں گے۔تحریک انصاف کی حکومت نے سب سے پہلا کام غرباء کی صحت کو تحفظ دینے کے لیے کیا۔ اس حوالے سے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراع کیا گیا اور اب تک پنجاب میں 62لاکھ خاندانوں کو یہ کارڈ دیئے جا چکے ہیں۔ اس کارڈ کی حد 7لاکھ 20 ہزار روپے ہے تاہم اگر مرض سنگین نوعیت کا ہو اور مزید علاج کی ضرورت ہو تو اس کارڈ کے ذریعے مزید 7 لاکھ روپے تک کا علاج کروایا جاسکتا ہے۔

حکومت مریضوں پر خرچ کرتی رہے گی مگر یہ حل نہیں ہے۔ ہمیں علاج سے پہلے احتیاط کی جانب بڑھنا ہوگا اور اس پر توانائی و وسائل خرچ کرنا ہوں گے۔ لوگوں کو کینسر سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور انہیں تمباکو نوشی، گٹکا و دیگر نشہ آور اشیاء کے نقصان کے بارے میں بھی بتایا جائے تاکہ منہ کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔ یہ درست کہا گیا کہ ہمارا طرز زندگی صحتمندنہیں ہے۔ ہم صحت مند خوراک کے بجائے فاسٹ فوڈ زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بچے سبزی کھانے کو تیار نہیں حالانکہ یہ ان کی زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہمارے بچپن میں نہ لیپ ٹاپ تھے نہ ہی موبائل، ہم کھیل کود زیادہ کرتے تھے اور چست رہتے تھے۔ آج سب اس کے الٹ ہے۔ ہم اپنی ہی غلط عادات کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔

ماں بچے کو چپ کروانے کیلئے موبائل پکڑا دیتی ہے، ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ اس فون سے نکلنے والی شعاعیں  دماغ اور جسم کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ کینسر تکلیف دہ بیماری ہے مگر اس سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر شروع میں ہی اس بیماری کو پکڑ لیا جائے تو اس کا مکمل علاج کیا جاسکتا ہے۔ بریسٹ کینسر کو ابتداء میں آپریشن سے حل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کولون کینسر ہے، اگر اسے بھی وقت پر پکڑ لیا جائے تو مکمل علاج ممکن ہے۔ کینسر کی علامات کا لوگوں کو علم ہونا چاہیے اور اگر جسم میں کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ جسم اللہ کی امانت ہے لہٰذا ہمیںا س نعمت کا خیال رکھنا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بیماری سے صرف ایک شخص نہیں بلکہ پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔

کینسر کے علاج کے حوالے سے حکومت انکالوجی کے نئے سینٹرز قائم کر رہی ہے، یہ صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔اس حوالے سے ڈی جی خان میں انکالوجی سینٹر کا آغاز کرنے جارہے ہیں جبکہ ملتان کے سینٹر کو وسیع بھی کیا جائے گا۔ حکومت لوگوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات دینے کیلئے کوشاں ہے مگر اس میں وقت لگے گا تاہم پرہیز فوری ممکن ہے۔ اگر ہم وسائل اور توانائی اس پر زیادہ خرچ کریں تو فوری فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس حوالے سے تربیت دینے جارہے ہیں کہ وہ خواتین کو بریسٹ کینسر کے بارے میںآگاہی دیں تاکہ اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح کو کم کیا جاسکے۔پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر پر حکومت کی توجہ ہے اور ہم اس حوالے سے سخت محنت بھی کر رہے ہیں مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی، ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پروفیسرڈاکٹر زیبا عزیز

( صدر سوسائٹی آف میڈیکل انکالوجی پاکستان)

کینسر ہمارے ملک میں بہت زیادہ نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، یہ پاکستان سمیت تمام  ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آفت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2040ء تک ترقی پذیر ممالک میں کینسر موت کی سب سے بڑی وجہ ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں 20 سے 30 فیصد مریض کینسر کی اگلی سٹیج پر مرتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں 70 فیصد مریض کینسر کی تشخیص کے بعد بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ غربت، ناخواندگی ، مرض کی علامات کو نظر انداز کرنا اور کینسر سینٹرز تک رسائی نہ ہونا کینسر کے بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے بڑے شہروں کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میںکینسر سینٹرز موجود ہیں مگر دور دراز علاقوں میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے دیگر علاقوں کے مریضوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر علاج کیلئے شہر جانا پڑتا ہے اور بیشتر لوگ مشکلات کے نہیں آتے اور اگر ایک بار آتے بھی ہیں تو دوبارہ نہیں آتے۔ ہمارے ہاں کینسر کی بنیادی ادویات کی دستیابی کا بھی مسئلہ ہے۔

ادویات زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لہٰذا سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کی ادویات دستیاب ہونی چاہئیں تاکہ مریض کا صحیح علاج ممکن ہوسکے۔ جب صحیح علاج نہیں ہوتا توقبل از وقت موت ، خصوصاََ 65برس سے کم عمر افراد کی شرح اموات بڑھ جاتی ہیں۔ علاج کا مریض پر معاشی و سماجی اثر ہوتا ہے۔ علاج کے کیلئے لوگ اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں اور پورے خاندان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس بھی وسائل محدود ہوتے ہیں اور اسے تمام معاملات دیکھنا ہوتے ہیں۔ کینسر ، ہارٹ اٹیک، ذیابطیس و دیگربیماریاں حکومت کیلئے چیلنج ہیں اور اسے تمام امراض کے حوالے سے عوام کو سہولیات دینی ہیں لہٰذا صرف حکومت کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا، ہمیں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔

ایسے انفیکشن جن سے بچ کر کینسر سے بچا جاسکتا ہے ان کی شرح ترقی پذیر ممالک میں 26فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 8 فیصد ہے لہٰذا ہمیں احتیاط کی طرف جانا چاہیے۔ کینسر کی بعض اقسام کا تعلق غربت سے ہے جن میں سرویکل، اسوفیگس اور جگر کا کینسر شامل ہیں۔ مغربی طرز زندگی کے حساب سے دیکھیں تو بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر اور کولوریکٹل کینسر شامل ہیں۔ پاکستان میں پرائمری اور سیکنڈری پری وینشن نہیں ہے۔ لوگوں کو علاج سے پہلے احتیاط اور کینسر کی علامات کے حوالے سے بتایا جائے تو نہ صرف وہ اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اس کی ابتدائی مراحل میں تشخیص بھی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح مریض کی زندگی کے ساتھ ساتھ وسائل کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔

دنیا کے مقابلے میں ہم اپنے علاج کیلئے 80 فیصد تک اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ پاکستان کا سالانہ جی ڈی پی2 لاکھ 10 ہزار روپے ہے جبکہ ماہانہ جی ڈی پی 17 ہزار 515 روپے ہے۔ ہمارے ہاں پانچ افراد والے گھر کی ماہانہ اوسط آمدن 87 ہزار575 روپے ہے۔ ہماری 40 فیصد آبادی مختلف اقسام کی غربت کا شکار ہے۔ کیا ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ غریب اپنی صحت پر 5 ہزار روپے خرچ کرسکے گا؟ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی آمدن کا صرف 10 فیصد ان کی صحت پر خرچ ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں 71 فیصد اخراجات مریض خود کرتا ہے کیونکہ یہاں ہیلتھ انشورنس نہیں ہے۔ بیماریوں پر اخراجات کی وجہ سے خاندانوں کے غریب ہونے کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

70فیصد سے زائد کینسر کے مریض اپنی 50 سے 100 فیصد بچت یا اثاثہ جات علاج کے اخراجات پورے کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ اگر مرض سنگین ہو تو مریض دنیا سے چلا جاتا ہے اور اس کے خاندان کیلئے زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔انہی وجوہات  کی وجہ سے کینسر جیسے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں کینسر کے 6 ہزار 800 نئے کیس سامنے آئے اور اسی سال 6 ہزار 13 کی موت ہوگئی۔ پاکستان میں روزانہ 177 ملین سگریٹ پیئے جاتے ہیں۔ 46 فیصد مرد جبکہ 5.7 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ سال 2014ء میں 64 بلین سگریٹ پر 250بلین روپے خرچ کیے گئے۔

ملک میں 23.9 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ 1 لاکھ 25 ہزار افراد کی موت تمباکو سے لاحق ہونے والے امراض سے ہوتی ہے۔  جب لوگ سگریٹ پیتے ہیں تو  انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کس طرح ان کے پھیپھڑوں کو متاثر کر رہا ہے۔ امریکا میں ایک سٹڈی کے مطابق جو نوجوان سگریٹ نوشی کرتے ہیں، ان کے اردگرد موجو د دیگر نوجوان بھی سگریٹ نوشی کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں سموگ پر کافی شور مچایا گیا لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ فصلوں کی باقیات کو جلایا جارہا ہے اور ہماری گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑ رہی ہیں۔

لاہور کی آبادی صحت مند نہیں ہے۔ 22 فیصد سالانہ اموات ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس آلودگی کی وجہ سے کینسر، ہارٹ اٹیک و دیگر بیماریوں میںاضافہ ہوتا ہے ۔ غریب عوام اور مزدور اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحت کی سہولیات تک رسائی بھی نہیں ہے۔ ہر 20میں سے 1 پاکستانی ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہے۔ ہائی رسک آبادی میں ہر 6 میں سے 1 شخص ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔ہم بچیوں کے کان چھدواتے وقت یہ تسلی نہیں کرتے کے آلات سٹریلائزڈ ہیں یا نہیں،یہی عالم ٹیٹو بنواتے وقت بھی ہوتا ہے۔اسی طرح لوگ فٹ پاتھ پر بیٹھے دندان ساز سے دانت نکلواتے ہیں جس کے آلات صاف نہیں ہوتے۔ اس طرح ہیپاٹائٹس پھیلتا ہے۔

اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم بیماری سے پہلے احتیاط کیوں نہیں کرتے؟ہیپاٹائٹس ’سی‘ سے صرف کینسر ہی نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ H. Pylori معدے کا انفیکشن ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں 90 فیصد افراد کو یہ انفیکشن ہوتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 50 فیصد آبادی اس کا شکار ہے۔ معدے کا کینسر مضر صحت کھانا کھانے سے ہوتا ہے۔ HPV انفیکشن، سرویکل کینسر ہے۔ مردوں میں کینسر کی بہت ساری اقسام آرہی ہیں جن میں دماغ اور گردن کا کینسر، ہونٹ کا کینسر و دیگر اقسام شامل ہیں۔ یہ کینسر انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر  ویکسینیشن یقینی بنائی جائے تو مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

یورپ میں سٹڈی کے مطابق HPV انفیکشن سے ہونے والے سرویکل کینسر، دماغ اور گردن کے کینسر وغیرہ میں ویکسینیشن کی وجہ سے 75 فیصد کمی آئی ہے۔ ایفلوٹوکسن پاکستان میں بہت عام ہے۔ گندم، مرچ، مصالحے و دیگر کھانے کی اشیاء کی سٹوریج محفوظ نہیں ہوتی بلکہ گندی جگہ پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے فنگس بن جاتی ہے جو کھانے کو متاثر کرتی ہے۔ جب یہ کھانا چھوٹے بچے کھاتے ہیں تو یہ فنگس ان کے جسم میں زہریلا مادہ اور کینسر بناتی ہے، اس سے خاص طور پر لیور کینسر ہوتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔20 فیصد سے زائد پاکستانی الکوحل پیتے ہیں۔

ہارڈ لیکر اور دیسی شراب کا کوالٹی کنٹرول نہیں ہے لہٰذا جب یہ معیاری نہیں ہوگی تو پینے والے کا نقصان کرے گی۔ایک عادی شراب نوش جس کی خوراک اچھی نہ ہو وہ کولن کینسر، لیرکس، اسوفیگس، منہ و دیگر اقسام کے کینسر کا شکار ہوسکتا ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنا طرز زندگی تبدیل کرلیں تو 30 فیصدکینسر کے کیس ختم کیے جاسکتے ہیں۔ ہم بچپن سے ہی ورزش نہیں کرتے، فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں۔ اچھی زندگی کیلئے ہمیں اپنے نفس کو مارنا ہوگا۔ پیدل چلنے کو ترجیح دیں، گاڑی دور کسی پارکنگ میں کھڑی کریں۔ اچھا اور معیاری کھانا کھائیں اور اپنے وزن کا خیال کرکھیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہم محفوظ ہوں گے بلکہ ہمارا خاندان بھی خوشحال رہے گا۔

ڈاکٹرمحمد عباس کھوکھر

( ہیڈ آف میڈیکل انکالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور)

کینسر کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کینسر سے کیسے بچ سکتے ہیں اور دوسری یہ کہ کینسر کی علامات سے جلد تشخیص کیسے ممکن ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کینسر کی وجہ سے اموات میں کمی آئی ہے، وہاں انہوں نے جلد تشخیص کو بہتر بنایا۔ اگر ہم کینسر کو جلد نہیں پکڑتے اور وہ پھیل جائے تو اس میں ادویات تو بہت ساری استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن اس کو مکمل ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کینسر کی علامات کیا ہیں۔ اس کی بہت ساری علامات ا یسی بھی ہیں جو دیگر بیماریوں میں مشترک ہیں۔ کینسر کی سب سے عام علامت کسی جگہ گلٹی کا نمودار ہونا ہے مگر ہر گلٹی کینسر کی نہیں ہوتی۔ بریسٹ کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام ہے۔

دنیا میں تقریباََ ہر سال 2 ملین سے زائد کینسر کے کیس سامنے آتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ سے زائد کی موت ہوجاتی ہے۔ کینسر اتنا عام ہے لہٰذا سب کو خصوصاََ خواتین کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، کہیں کوئی ایسی تبدیلی تو نہیں جو کینسر کا سبب ہو۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے دیکھا جائے تو بریسٹ میں گلٹی کا نمودار ہونا، گڑھا پڑ جانا، جلد کا رنگ بدلنا ، بلیڈنگ یا ڈسچارج ہونا یا کوئی غیر معمولی عمل کا ہونا کینسر کی علامات ہوسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے۔ جسم میں کسی اور جگہ بھی گلٹی پیدا ہوسکتی ہے۔

اگر یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کر کے مکمل تشخیص کروانا ضروری ہے۔ اس کی تحقیق کے لیے بائیوپسی ہوتی ہے، جس کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہوتی ہے لہٰذا جلد تشخیص کے بعد مکمل علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ کینسر کی علامات میں بلاوجہ یا غیر معمولی طور پر خون کا آناشامل ہے۔ ماہواری کے دوران غیر معمولی خون آرہا ہو، پاخانہ کے دوران خون آئے ، بلغم یا تھوک کے ساتھ خون آرہا ہو تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کرکے متعلقہ ٹیسٹ کروانے چاہئیں۔ پیشاب یا پاخانہ کی عادت میں غیر معمولی تبدیلی کا آنا بھی کینسر کی علامت ہے۔ اگر پاخانہ میں رکاوٹ محسوس ہورہی ہو، پاخانہ زیادہ آرہا ہو، پاخانہ یا پیشاب میں خون آرہا ہو تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اگر جسم میں کچھ ایسے زخم ہوں جو جلدی ٹھیک نہیں ہورہے تو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وجہ کیا ہے اور مرض کیا ہے۔ عمومی طور پر زخم 5 سے 7 دن میں ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر نہیں ہورہے تو ان کی تشخیص کرنا بہت ضروری ہے۔یہ وہ علامات ہیں جو ابتدائی تشخیص کیلئے معلوم ہونی چاہئیں۔ جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کینسر ہونے سے کیسے بچا جاسکتا ہے، ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ کوئی بھی علامت ظاہر ہونے کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے رابطہ کریںجو ٹیسٹ وغیرہ کروا کر مرض کی تشخیص کرتے ہوئے علاج کو آگے بڑھا سکے۔ اگر کسی کو ڈر ہے کہ اس کے اندر کینسر ہے یا ہوسکتا ہے تو اس کے لیے کینسر سکریننگ کا طریقہ کار موجود ہے۔اگر ڈاکٹر سے رجوع کر کے سکریننگ کروالیں تو کینسر کے امکانات کو جلد پکڑا جاسکتا ہے۔ ہمی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو ہر تین میں سے ایک زندگی بچائی جاسکتی ہے۔

میمو گرافی، بریسٹ کینسر سکریننگ اور تشخیص کیلئے اچھا اور سستا ٹیسٹ ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں بھی موجود ہے۔ 45 سال سے زائد خواتین کو ہر سال یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے یا اگر کوئی لمپ محسوس ہو تو ڈاکٹرکے مشورے سے ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔ یہ اچھا ٹیسٹ ہے جس میں ایک سینٹی میٹر جتنے چھوٹے ٹیومر کی بھی تشخیص ہوسکتی ہے۔ اگر ٹیومر جلدی پکڑا جائے تو زندگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کینسر کے علاج کی صورت میں تکالیف بھی کم ہوسکتی ہیں۔ اگر کینسر کی جلدتشخیص ہوجائے تو چھوٹے سے آپریشن سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور مزید پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔

کلونو سکوپی ایسا ٹیسٹ ہے جس میں آنت کو کیمرے کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ اس میںکوئی ایسا مسئلہ تو نہیں جس سے کینسر ہو۔ 50 سال کے بعد یہ ٹیسٹ کروالینا چاہیے، اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے مگر اس کے لیے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔ سب کو اپنے جسم کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے اور جو علامات یہاں بتائی گئی ہیں ، ظاہر ہونے کی صورت میں بغیر کسی انتظار کے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ عطائیوں کے پاس جا کر وقت ضائع نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ کینسر کی جلد تشخیص سے مرض کا علاج آسانی سے ممکن ہے اور اس کے ساتھ شفایابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

 ڈاکٹر فرحانہ بدر

(سیکرٹری پنجاب کینسر رجسٹری)

ہمارے پاس ہسپتال اور آبادی کے لحاظ سے کینسر رجسٹری ہے۔ ہسپتال پر مبنی رجسٹری ہمیں کینسر کے ان مریضوں کے بارے میں بتاتی ہے جو ہسپتال میں زیر علاج ہوتے ہیں جبکہ آبادی پر مبنی رجسٹری ہمیں کسی خاص جغرفیائی علاقے میں رہنے والی آبادی میں رجسٹرڈ کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا دیتی ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری 2005ء میںقائم کی گئی اور اِس وقت اس کے 47 اراکین اور ملک بھر میں 26 اشتراکی سینٹرز ہیں جن میں سرکاری و نجی دونوں سینٹرز شامل ہیں۔ ڈیٹا مختلف طریقوں سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہم کاغذی شکل میں اور ڈیٹا کولیکشن موبائل ایپ کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔

یہ ڈیٹا بعد ازاں شوکت خانم ہسپتال کے انفارمیشن سسٹم میں درج کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب کینسر رجسٹری کی ویب سائٹ پر کینسر کے حوالے سے تمام ڈیٹا موجود ہے اور وہاں سے عوام یہ ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع ہیں اور یہاں سے ہم 10کروڑ کی آبادی سے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جو پورے ملک کی تقریباََ نصف آبادی بنتی ہے۔ ہم نے لاہور میں کینسر رجسٹریشن کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ لاہور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ اس میں ہمیں مختلف ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ہم دیگر اضلاع میں بھی کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔

2005ء میں رجسٹری کے قیام سے لے کر 2018ء تک لاہور کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو کینسر کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ 2005ء میں یہ تعداد 2ہزار 6 تھی جبکہ 2018ء میں 6ہزار 248 ہوگئی جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ سال 2019ء کا ڈیٹا ابھی مرتب کیا جا رہا ہے۔ جب ہم نے اس کا آغاز کیا تو یہ آسان نہیں تھا مگر اب ہمیں بہت سارے سینٹرز کا تعاون حاصل ہے۔ لاہور میں 6 ہزار سے زائد نئے کینسر کے مریضوں کا سامنے آنا بہت تشویشناک بات ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ابھی بھی بے شمار کیسز رپورٹ نہیں ہوئے جو ایک الگ مسئلہ ہے۔ کینسر کے اتنے زیادہ مریضوں سے ڈیل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ہم نے حال ہی میں کینسر کے مریضوں کے حوالے سے 6 سالہ سٹڈی مکمل کی ہے جو ابھی شائع نہیں کی گئی مگر یہ پیپر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے جرنل کے لیے منظور کر لیا گیا ہے جو رواں ماہ شائع ہو جائے گا۔ لاہور کی آبادی کا جائزہ لیں تو یہاں کی 40 فیصد آبادی 15 برس سے کم عمر ہے لہٰذا ہمیں اس فیکٹر کو بھی دیکھنا ہے۔ ہماری آبادی کا گراف ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے۔

ان 6 برسوں کے دوران 33 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس سامنے آئے۔ عمر کے لحاظ سے جائزہ لیں تو نوزائدہ بچوں سے 14 برس کی عمر تک تقریباََ 6 فیصد، 15 سے 19 برس کی عمر تک 2 فیصد جبکہ 90 فیصد سے زائد کیس 20 برس سے 75  برس تک کی عمر میں تشخیص ہوئے۔ 45برس سے 64 برس کی عمر تک کے افراد میں تقریباََ 42 فیصد کینسر کے کیس سامنے آئے، یہ عمر کینسر کے حوالے سے لاہور میں توجہ طلب ہے۔

لوکیمیا، بون میرو ٹیومر اور برین نروس سسٹم، کینسر کی تین عام اقسام ہیں۔ جب یہ پیپر شائع ہوگا تو کینسر کی 10 مختلف اقسام کے حوالے سے اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ مرد اور خواتین کا جائزہ لیا جائے تو خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ کینسر ایک لاکھ خواتین میں سے تقریباََ نصف کو تھا۔ اس کے علاوہ کینسر کی دیگر اقسام بھی خواتین کو لاحق تھی مگر ان کی تعداد کم ہے۔ مردوں میںپروسٹیٹ اور بلیڈر کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ خواتین کو لاحق ہونے والے بریسٹ کینسر سے کئی گنا کم ہے۔ 45 سے 65برس کی عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ اس عمر میں کینسر کی بروقت تشخیص کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح مردوں میں 45 برس کی عمر کے بعد سے پروسٹیٹ کینسر کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پنجاب کینسر رجسٹری لاہور کا ڈیٹا ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ کینسر کے تمام کیس رجسٹرڈ نہیں ہوئے مگر اس کے باوجود کینسر کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔ ہم نارتھ ویسٹ کینسر رجسٹری پر بھی کام کر رہے ہیں جس میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے موجود ہیں۔

ہم نے 3 برس قبل اس پر کام کا آغازکیا ہے لہٰذا امید ہے کہ آئندہ برسوں میں ان علاقوں کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کیلئے گلوبوکین 2018ء کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو 20 کروڑ کی آبادی میں 1لاکھ 70 ہزار سے زائد کینسر کے نئے کیس جبکہ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ سے زائد کیس سامنے آئے۔ گلوبو کین رپورٹ میں پنجاب کینسر رجسٹری کا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گلوبوکین رپورٹ کے مطابق خواتین میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر پایا جاتا ہے جبکہ مردوں میں لب اور منہ کا کینسرزیادہ ہے ، اس کے بعد پھیپھڑوں کے کینسر کا نمبر آتا ہے۔

اس رپورٹ میں کینسر کے حوالے سے تفصیل سے ڈیٹا موجود ہے۔ 2018ء کی اس رپورٹ میں مردوں اور خواتین میں کینسر کی 5 بڑی اقسام کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک لاکھ مرد اور ایک لاکھ خواتین کے اس ڈیٹا کے مطابق خواتین میں 43.9 فیصد بریسٹ کینسر، 8.1 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 7.3 فیصد سروکس یوٹری کینسر، 4.4میں اسوفیگس کینسر جبکہ 3.8 میں کولو ریکٹم کا کینسر ہے۔ اسی طرح مردوں میں 16.3 فیصد ہونٹ اور منہ کا کینسر، 11.5 فیصد پھیپھڑوں کا کینسر، 6.7 فیصد پروسٹیٹ کینسر، 6.5 فیصد اسوفیگس کینسر اور 4.9 فیصد بلیڈر کا کینسر شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بریسٹ کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے، اس کے بعد ہونٹ اور منہ کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر اور اسوفیگس کے کینسر کی تعداد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں کینسر کی 10 بڑی اقسام کی تشخیص اور اموات کا ڈیٹا موجود ہے جو ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ کینسر رجسٹری بنانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ لاہور کے حوالے سے ڈیٹا کولیشن جاری رہنی چاہیے۔ ملک بھر کے اضلاع میں موجود ماہرین کو سہولیات دینی چاہئیں تاکہ وہ اپنے اپنے علاقے میں کینسر رجسٹری قائم کر سکیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کینسر جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے کینسر رجسٹریشن انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

 سید رضوان عزیز

( ہیڈ آف بینک اشورنس جوبلیلائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ )

ہمارے ایک ساتھی کو جنوری 2019ء میں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد ہمیںاس بیماری سے ہونے والی پریشانی و مسائل کا ادراک ہوا۔ مریض اور اس کے خاندان پر جذباتی طور پر تو دباؤ ہوتا ہے مگر ان کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ آپ بیماری سے تو لڑ رہے ہوتے ہیں مگر علاج کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ آپ کو پیسے کیلئے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ جب ہمارے ساتھی کو کینسر ہوا تو ہم 6 ماہ کیلئے اس کے ساتھ تھے جن میں وہ علاج معالجے کے مراحل سے گزرا۔ اس کے بعد جوبلی لائف کی مینجمنٹ بیٹھی، اس بیماری کے حوالے سے حل نکالا اور نومبر2019ء میں یہ پراڈکٹ لانچ کی۔

ہم اس بیماری کی تکلیف سے گزرے ہیں، اسی لیے ہم نے یہ پراڈکٹ متعارف کرائی ہے اور ہم پہلی انشورنس کمپنی ہیں جس نے کینسر کے حوالے سے پراڈکٹ لانچ کی۔ دنیا بھر میں 2018ء میں 17 ملین کینسر کے نئے مریض سامنے آئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق 2040ء میں کینسر کے 27.5 ملین نئے کیس سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں بھی کینسر کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔ ہر سال  ایک لاکھ 70 ہزار کینسر کے نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 3 لاکھ 50 ہزار کینسر کے زندہ مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔

کینسر کے اس عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس مرض کے خلاف بھرپور جنگ لڑیں گے مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ لڑائی آسان نہیں ہے۔ کینسر قابل علاج ہے مگر اس کے اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ بسا اوقات یہ اخراجات متوسط پاکستانی کی پہنچ سے بھی باہر ہوجاتے ہیں۔ ادویات اور ریڈی ایشن تھراپی علاج کے ہر مرحلے میں ہوتی ہے جس کے لیے خاطر خواہ رقم درکار ہے۔ جوبلی لائف انشورنس نے پاکستان میں کینسر کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے ’’پاکستان کا پہلا کینسر پروٹیکشن پلان‘‘ دیا ہے۔

یہ پلان کینسر کی عام قسم سے لے کر کمیاب قسم تک کے مریض کو تحفظ دے گا۔ پلان کووریج کی رقم پر بینیفٹ اماؤنٹ 25 فیصد ابتدائی کینسر جبکہ دیر سے تشخیص ہونے والے کینسر کیلئے 100 فیصد ہے۔ پلان کا سالانہ پریمیم 735 روپے سے شروع ہوتا ہے جو تقریباََ 2 روپے روزانہ بنتا ہے۔ پلان کی مدت 10 سے 47 برس ہوسکتی ہے ۔ ہم نے ایسا پلان تیار کیا ہے جو ہیلتھ کیئر کے حوالے سے مریض کو انتہائی مدد فراہم کرے گا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ان سب کے لیے انتہائی اہم سپورٹ سسٹم بنے گا جو کینسر کے مرض سے لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں میں 38 فیصد اوسط گروتھ کے ساتھ ہم یہ فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سب سے زیادہ منافع بخش اور بیش قیمت لائف انشورنس کمپنی ہیں۔ ہم عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو برووے کار لاتے ہوئے عوامی خدمت کرر ہے ہیں۔

اظفر نظامی

(ایگز یکٹیو ڈائریکٹر مارکیٹنگ ایکسپریس پبلی کیشنز)

ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر برائے صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد، مقررین اور شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جوبلی لائف انشورنس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون سے اس سیمینار کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ ذرائع ابلاغ کا ادارہ ہوتے ہوئے یہ ہمارے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ ہم مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو آگاہی دیں۔

گزشتہ دنوں ہم نے انشورنس محتسب کی افادیت کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جس کے مہمان خصوصی صدر مملکت عارف علوی تھے۔ دو برسوں سے ہم نے مختلف بیماریوں سے متعلق موضوعات پر سیمینار منعقد کروائے جن میں لوگوں کو بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی اور یہ اہم بات سامنے آئی کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘۔ میرے نزدیک اگر اس پر کام کیا جائے تو ہمارے ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ آج کے اس سمینار سے میں یہ امید کرتا ہوں کہ ہمارے حاضرین ،ناضرین اور قارئین کو آگاہی ملے گی اور ان کے علم میں اضافہ ہوگا۔

The post کینسر بڑا عالمی چیلنج؛ احتیاط سے شرح اموات میں کمی ممکن ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.

گھر داری تک محدود ہونے والی ڈاکٹروں کے لیے ۔۔۔

$
0
0

جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، آج کوئی بھی کام گھر بیٹھے کیا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ کام شہر سے باہر کا ہو یا بیرون ملک کا۔

حال ہی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے ’’ای ڈاکٹر‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو خاص طور پر ان خواتین کے لیے ہے، جنہوں نے اپنی میڈیکل تعلیم مکمل کی، لیکن کسی بھی وجہ سے وہ اس پیشے سے وابستہ نہیں ہو سکیں۔ وہ اس منصوبے کے ذریعے اب اپنے پیشے سے دوبارہ منسلک ہو سکتی ہیں۔

عہدے داروں کے مطابق اِن 700 پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں میں وہ خواتین بھی شامل ہیں، جو اب بیرون ملک مقیم ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لیڈی ڈاکٹروں کی اپنے پیشے سے علیحدگی سے طبی اور صحت کی سہولتوں پر کافی مضر اثر پڑا، بالخصوص کم آمدنی والے طبقات اس سے کافی متاثر ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کی تعلیم پر اوسطاً 50 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اب اِن 700 خواتین ڈاکٹروں کو پیشے میں واپس لانے سے ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں واضح بہتری کی امید ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کا وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں ’ای ڈاکٹر‘ کا پہلا پروگرام پیش کر کے اپنے منفرد کردار کو بر قرار رکھا ہے۔ پروگرام ’ای ڈاکٹر‘ کے پروگرام کو متعارف کرنے کا خیال پانچ سال قبل پیش کیا گیا تھا۔ اب بھی اس نوعیت کے مزید پروگراموں پر کام جاری ہے ، جس کی وجہ سے گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹر فائدہ حاصل کر سکتی ہیں۔

پاکستان میں 65 فی صد سے زیادہ لڑکیاں میڈیکل کی تعلیم میں رجسٹرڈ ہیں، جن میں تقریباً 80 فی صد ہاؤس جاب کی تکمیل کے بعد اس پیشے کو چھوڑ دیتی ہیں۔ اس ’ای ڈاکٹر‘ پروگرام کے ذریعے دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود پاکستانی خاتون ڈاکٹر بہ آسانی آن لائن تربیت حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے پیشے کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ ، متحدہ عرب امارات ، اور سعودی عرب میں متعدد لیڈی ڈاکٹروں نے اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس پروگرام کی تربیت کے بعد یونیورسٹی کی طرف سے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔

یہ لیڈی ڈاکٹر ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے، زچگی اور نوزائیدہ اموات کی شرح کو روکنے، بہبود آبادی کی مہم، پولیو اور وبائی بیماریوں جیسے ڈینگی اور ٹائیفائیڈ وغیرہ میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ای ڈاکٹر کی ماہر ڈاکٹر جہاں آرا کا کہنا ہے کہ ’’یہ منصوبہ اس وقت کی کام کرنے والی ڈاکٹروں کے لیے ہے، جو اپنے خاندانی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے پیشہ وارانہ مشق سے باہر ہو چکی ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے خواتین اپنی مشق واپس حاصل کر سکتی ہیں۔ ’’ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 ہزار خواتین ڈاکٹر ہیں۔

جنہوں نے سرکاری یا نجی جامعات سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے، لیکن وہ ملک میں طبی ملازمتوں کا حصہ نہیں۔ ہزاروں پاکستانی خواتین ڈاکٹر ایسی ہیں، جو اپنی میڈیکل تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچوں کی پرورش اور اپنے کنبے کی دیکھ بھال کر رہی ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں اور مہارت کے ذریعے معاشرے میں حصہ نہیں لے پا رہی ہیں۔

اس منصوبے کی وجہ سے چند مہینوں میں سینکڑوں ایسی خواتین ڈاکٹروں کو جدید ترین پلیٹ فارم کے استعمال کے ذریعے اپنے پیشے میں واپس لایا گیا ہے۔ جس میں ڈیجیٹل تربیت کو جدید صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ماڈلوں اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ میڈیکل فیکلٹی کے ذریعے تازہ ترین طبی طریقوں کے ذریعے استعمال کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تائید ملک کی معروف تنظیموں نے کی۔ جس میں وفاقی وزارتِ صحت اور محکمہ صحت، سندھ شامل ہیں۔

’ای ڈاکٹر‘ کے ذریعے پاکستان کے شہروں اور دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ بحرین، یونان، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کی سیکڑوں باہر کام کرنے والی خواتین ڈاکٹروں کو ایک بار پھر اپنے پیشے میں شامل ہونے کی تر غیب دی گئی۔ اس پروگرام میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسپتالوں میں میڈیکل کنسلٹنٹس کے ساتھ براہِ راست ویڈیو پر مبنی مریضوں کی مشاورت بھی شامل ہے۔

زندگی کی بنیادی سہولتیں، گائناکالوجی، الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈوں کا استعمال، اور ویڈیو معاونت سے متعلق موبائل ہیلتھ اسسمنٹ باہمی تعاون کے پلیٹ فارم سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں چھے ماہ کاآن لائن سر ٹیفیکیشن پروگرام دیا جا تا ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین ’’فیملی میڈیسن سرٹیفیکیٹ‘‘ کی حیثیت سے مختلف شعبوں میں تازہ ترین معلومات حاصل کر سکتی ہیں۔ جو انہیں اپنے گھر سے ہی صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی مشورے فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

The post گھر داری تک محدود ہونے والی ڈاکٹروں کے لیے ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

سالانہ 9 ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص باعث تشویش ہے، ڈاکٹر نعیم جبار

$
0
0

کراچی:  انڈس اسپتال میں کنسلٹنٹ ہیماٹالوجسٹ واونکولوجسٹ ڈاکٹر نعیم جبار نے کہا ہے عموما بچوں کے کینسر کی وجہ جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہے، ملک میں کینسرکی بڑھتی ہوئی شرح تشویشناک ہے اور سالانہ 9 ہزار بچوں میں کینسر کے مرض کی تشخیص ہونا خطرناک صورتحال ہے۔

ڈاکٹر نعیم جبار ڈاکٹر نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 2 کروڑ آبادی والے شہرکراچی میں بچوں کے کینسر کے علاج کرنے والے صرف دو سرکاری ادارے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کا بوجھ بڑھ جانے کے باعث اسپتالوں کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے جبکہ اسپتال معیاری علاج فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں، کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کو ترجیحی بنیاد پر کینسر کے مزید اسپتال قائم کرنے، موثر انفراسٹرکچر مرتب کرنے اور آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اداروں کے کوائف پر مشتمل اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا ہر سال 8 سے 9 ہزار بچوں میں کینسر کے مرض کی تشخیص ہوتی ہے، بچوں کے کینسر میں بروقت تشخیص اور آپٹیمل کئیر فراہم کی جائے تو 80 فیصد بچوں کو بچا سکتے ہیں، انڈس اسپتال میں کینسر کے سالانہ 1000 سے 1200 نئے بچے رجسٹرڈ ہوتے ہیں دیگر کینسر کے بچے علاج کے لیے کہاں جائیں گے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کینسر کے علاج کے لیے ادارے موجود نہیں ہیں ، دنیا کے اچھے سینٹرز میں کیمیا کے 90 فیصد بچے ہمیشہ کے لیے بالکل ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

ہمارے یہاں بدقسمتی سے نتائج اچھے نہیں ہیں، پاکستان کے چند بڑے شہروں میں بچوں کے کینسر کے اسپتال قائم ہیں، دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں بچوں کے کینسر کے علاج کے صرف دو سرکاری ادارے ہیں این آئی سی ایچ اور انڈس اسپتال جہاں کراچی سمیت مختلف شہروں سے کینسر میں مبتلا مریض بچے علاج کے لیے آتے ہیں جو مریضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باعث معیاری علاج فراہم نہیں کرپاتے اور دو نجی اسپتال ہیں جہاں علاج بہت مہنگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر مریض سرکاری اسپتال سے علاج کروانے کو ترجیح دیتا ہے جبکہ کئی بچے اسپتال تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

ڈاکٹر نعیم جبارنے بتایاکہ بچوں میں کینسر کی 12 اقسام ہیں جن میں زیادہ بلڈ کینسر، برین ٹیومر اور غدود کا کینسر ہے، بچوں میں سب سے عام بلڈ کینسر (کیمیا) ہوتا ہے، پاکستان میں تقریبا 35 سے 40 فیصد مریض کیمیا کے آتے ہیں، غدود کا کینسر اور دماغ کا کینسر بہت عام ہے جبکہ دیگر اقسام میں مسلز، ہڈیوں اور گردوں کا کینسر سمیت دیگر اقسام شامل ہیں۔ کینسر کی تشخیص جتنی جلدی ہوگی اس کے ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، فزیشنز میں بھی آگاہی  کی کمی ہے۔

بچوں میں بلڈکینسر کی علامات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بخار کا آنا، جسم میں درد ہونا، ہڈیوں میں درد ہونا، جسم پرسرخ دھبے ہونا، ناک یا منہ سے خون آنا یا گردن میں غدود (گھٹلیاں) ظاہرہوناکینسرکی علامات ہیں، علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ایک اچھی لیبارٹری سے بلڈٹیسٹ (سی بی سی) ضرورکروائیں جو خون کے کینسر کی تشخیص میں سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتاہے، کینسر کے تشخیص ہونے کی صورت میں فوری کسی اچھے اسپتال لے جایا جائے تاکہ علاج بروقت کیاجاسکے، کینسرکا عالمی دن دنیا بھر میں 4 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں نا صرف آگاہی فراہم کرنا بلکہ کینسر کے شکار افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔

کینسر تھا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ٹھیک ہو جاؤں گی

انڈس اسپتال میں زیر علاج خون کے کینسر میں مبتلا 14 سالہ زینب کا کہنا تھا کہ جب میں 13 سال کی تھی تو علاج کے لیے اسپتال آئی تھی، علاج بہت اچھا ہوا ہے اب صحت بہت بہتر ہے ، اسپتال میں میرے ٹیسٹ کیے جاتے اوردوائیں دی جاتی ہہیں،زینب کا کہنا تھا کہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ٹھیک بھی ہوجاؤں گی۔

علاج مکمل ہونے کے بعد دوبارہ پڑھائی شروع کرونگی، کوئٹہ بلوچستان سے آئے ہڈی کے کینسر سے متاثرہ بچے رضوان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے کینسر ہے، ٹیسٹ کروانے کے بعد پتہ چلا، خوش قسمتی کی بات ہے کہ علاج ہوگیا اب میں چل پھر سکتا ہوں،مریض بچوں کے ہمراہ آئے والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی کے علاوہ دوسرے دور دراز شہروں میں بھی اسپتال بنائے جائیں ، ملک بھر میں ایسے ادارے بنائیں جائیں جہاں کینسر کا علاج ہوسکے تاکہ ہمیں دور دراز سے کراچی علاج کے لیے نہ آنا پڑے۔

The post سالانہ 9 ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص باعث تشویش ہے، ڈاکٹر نعیم جبار appeared first on ایکسپریس اردو.

سبزیاں کھانے سے مثانے اور گردے کے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے

$
0
0

تائیوان: بالخصوص مردوں میں پیشاب اور ملحقہ نالیوں اور نظام کا انفیکشن عام ہیں جو شدید صورت میں گردوں کو نقصان پہنچا کر جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

یورنری ٹریکٹ انفیکشن (یوٹی آئی) سبزیاں کھانے سے ٹل سکتا ہے اور اس کا انکشاف تائیوان میں کئے گئے ایک سروے کے بعد سامنے آیا ہے۔ مطالعے میں تائیون میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کا بغور مطالعہ کیا گیا ہے جو سبزیاں کھاتے ہیں اور یوں ان میں یو ٹی آئی کا امکان بہت کم دیکھا گیا ہے۔

تائیوان میں ڈالن زو چی ہسپتال کے ماہرِ قلب ڈاکٹر چِن لون لِن کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں یہ مرض عام ہیں اور ہر سال 15 کروڑ نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ اس کی وجہ ای کولائی بیکٹریا ہے جو گوشت میں بھی موجود ہوتی ہے اور گوشت سے ہی انسانی آنتوں اور وہاں سے پیشاب کے نظام تک جاتی ہے۔ یہ تحقیقات انہوں نے سائنٹفک رپورٹس میں شائع کرائی ہیں۔

سال 2005 سے 2014 تک لگ بھگ 9725 بدھ مت پیروکاروں کا مطالعہ کیا ہے۔ شروع میں کوئی بھی یوٹی آئی کا شکار نہ تھا اور مطالعے کے اختتام پر 661 افراد اس انفیکشن سے متاثر ہوئے۔ اس کے بعد ماہرین نے مختلف ماڈلوں سے اس پر غور کیا اور ساتھ میں بلڈ پریشر، تمباکو نوشی، جسمانی ورزش، کولیسٹرول جیسے پہلو بھی شامل کئے۔

معلوم ہوا کہ جو افراد باقاعدگی سے سبزیاں کھاتے ہیں ان میں یوٹی آئی کے شکار ہونے کا خطرہ 16 فیصد تک کم ہوجاتا ہے اور یہ رحجان خواتین میں زیادہ نظر آیا ۔  سائنسدانوں کے مطابق سبزیوں میں موجود فائٹوکیمیکلز اور دیگر مفید مرکبات جسم کو بہتر رکھتے ہیں اور انفیکشن سے بچاتےہیں۔

The post سبزیاں کھانے سے مثانے اور گردے کے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

اگربتی کی خوشبو سے ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے، تحقیق

$
0
0

میونخ: ’’اگر آپ اپنی یا اپنے بچوں کی یادداشت، ذہانت اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اگربتی جلائیے اور اس کی خوشبو سے ماحول کو مہکا دیجیے۔‘‘ یہ کوئی ٹوٹکا نہیں بلکہ جرمنی میں کی گئی ایک تازہ نفسیاتی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کا خلاصہ اور مشورہ ہے۔

نیچر پبلشنگ گروپ کے ایک تحقیقی مجلے ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں یونیورسٹی آف فرائیبرگ، جرمنی کے ماہرین نے اپنی ایک دلچسپ تحقیق کی تفصیلات شائع کروائی ہیں جو انہوں نے اسکول کے بچوں پر کی تھی۔

انہوں نے چھٹی جماعت میں پڑھنے والے 54 طالب علموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا اور ان پر کئی نفسیاتی تجربات کیے۔ ان طالب علموں کی مادری زبان جرمنی تھی لیکن انہیں اسکول میں انگلش الفاظ بھی سکھائے جارہے تھے۔

پہلے تجربے میں ایک گروپ کے بچوں کو پڑھائی کے دوران اگربتیاں جلا کر قریب رکھنے کےلیے کہا گیا جبکہ دوسرے گروپ سے ایسا کچھ نہیں کروایا گیا۔

دوسرے تجربے میں ایک گروپ کے بچوں سے کہا گیا کہ وہ رات کو سوتے وقت اگربتی جلائیں اور سرہانے کے قریب کسی محفوظ جگہ رکھ لیں، اب کی بار بھی دوسرے گروپ کو اگربتیاں جلائے بغیر سونے دیا گیا۔

کچھ دن تک یہ معمول جاری رہا، جس کے بعد انگلش الفاظ سیکھنے کی مناسبت سے ذہنی صلاحیت، یادداشت اور اکتساب کے حوالے سے ان تمام بچوں کا ٹیسٹ لیا گیا۔

ٹیسٹ کے نتائج میں فرق بہت واضح تھا: جو بچے پڑھتے اور سوتے دوران اگربتی کی خوشبو سونگھتے رہے تھے، ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی ایسے بچوں سے 30 فیصد زیادہ تھی جو اگربتی کی خوشبو سے دور رہے تھے۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ انسانی ذہن پر خوشبو کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ بدبو ہمارے ذہنوں کو منفی انداز سے متاثر کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وہ خوشبودار ماحول میں مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بیان کی گئی باتوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں کوئی تحقیق موجود نہیں تھی۔

اب ڈاکٹر جوئرجن کورنمائیر نے یونیورسٹی آف فرائیبرگ میڈیکل سینٹر کے ڈیپارٹمنٹ آف سائیکاٹری اینڈ سائیکوتھراپی کے زیرِ انتظام یہ تحقیق کرنے کے بعد کہا ہے کہ روزمرہ زندگی میں بھی خوشبو کی بڑی اہمیت ہے۔ اس مطالعے سے ثابت ہوا ہے کہ خوشبو کا اثر ہمارے ذہن اور سیکھنے کی صلاحیت (اکتساب) پر بھی بہت نمایاں ہوتا ہے۔

The post اگربتی کی خوشبو سے ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 5227 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>