Quantcast
Channel: Health News and Tips in Urdu - صحت - ایکسپریس اردو
Viewing all 5210 articles
Browse latest View live

انسانی دانت پر مشتمل دنیا کی پہلی ڈینٹل چِپ تیار

$
0
0

اوریگون: سائنس کی خبروں میں دلچسپی رکھنے والے افراد اس سے قبل چپ پر تجربہ گاہ، چپ پر انسانی دماغی خلیات اور دیگر ایسی ہی پیش رفت پڑھ چکے ہیں۔ اس میں تازہ اضافہ انسانی دانت کو چپ پر منتقل کرکے کیا گیا ہے۔

دانت والی چپ ہوبہو انسانی دانت کی طرح ہے کیونکہ اس پر انسانی دانت کے زندہ حیاتیاتی ٹشو چپکائے گئے ہیں اور دانتوں کی معدن کے کچھ اجزا بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کی پہلی چپ ہے جو دانتوں کی خرابی بالخصوص کیڑے لگنے اور جوف (کیویٹی) بننے کے عمل کو سمجھنے میں مدد دے گی۔

اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اسے تیار کیا ہے۔ چپ میں ڈاڑھ سے کشید کردہ بعض حصے شامل کرکے انہیں ربڑ کی دو سلائیڈوں کے درمیان پھنسایا گیا۔ ربڑ کی ہر پرت کے اندر باریک سوراخ بنائے گئے ہیں جس میں مائعات ڈالے جاسکتے ہیں۔

یہ عمل انسانی دانت میں سوراخ کی طرح ہی ہے جس میں عین انسانی منہ میں موجود مختلف کیمیکل، بیکٹیریا اور تیزاب وغیرہ ڈال کر دانت کے خراب ہونے کا پورا مرحلہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے سمجھ کر ہم دانتوں کے مرض کو بہتر طور پر جان سکیں گے اور دانتوں کی مرمت کے بہتر علاج سامنے آئیں گے۔

ایک مرتبہ دانت کو خراب کرنے کا عمل شروع ہوجائے گا تو سائنسداں وقفے وقفے سے خردبین کے ذریعے اس کا مشاہدہ کریں گے۔ اس طرح ہم ابتدا سے جان سکیں گے کہ دانت خراب ہونے کا عمل کس طرح شروع ہوتا ہے۔ اوریگون کے سائنسداں اس طرح دانتوں کے لیے موزوں ترین بھرت (فلنگ) اور دیگر علاج کو بھی جان سکیں گے۔

تحقیقی ٹیم میں شامل سینئر سائنسداں پروفیسر لوئز نے کہا کہ ’ چند سال میں ہی ڈاکٹر کسی مریض کا دانت نکال کر اسی طرح کے آلے میں رکھیں گے اور دیکھیں گے کہ آخر کس طرح فلنگ جلد یا بدیر جواب دے جاتی ہیں، اس طرح دانتوں کے لیے بہترین علاج سامنے آئے گا اور دندان سازی کا پورا عمل ایک نئے انقلاب سے دوچار ہوگا‘۔

The post انسانی دانت پر مشتمل دنیا کی پہلی ڈینٹل چِپ تیار appeared first on ایکسپریس اردو.


آکوپنکچر اور آکوپریشر سے کینسر کی تکلیف کم ہوتی ہے

$
0
0

نیویارک: جدید میڈیکل سائنس میں آکوپنکچر اور آکوپریشر جیسے معالجوں کو اب تک غیر سائنسی اور بے بنیاد قرار دے کر ردّ کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مشرق میں ہزاروں سال سے استعمال ہونے والے ان معالجاتی طریقوں سے کینسر کے مریضوں کے جسم میں اٹھنے والی تکلیف کم کرنے میں خاطر خواہ مدد لی جاسکتی ہے۔

تازہ تحقیق سے انکشااف ہوا ہے کہ کینسر کے مریضوں میں اٹھنے والی شدید تکلیف پر اگرچہ درد ختم کرنے والی جدید ترین دواؤں تک کا بے حد کم اثر ہوتا ہے لیکن اس معاملے میں بھی آکوپنکچر اور آکوپریشر سے مریض کے درد میں کمی آتی ہے۔

یہ تحقیق امریکی، آسٹریلوی اور چینی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے جس کے نتائج ریسرچ جرنل ’’جاما اونکولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ ’’جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نیٹ ورک‘‘ کو اب مختصراً ’’جاما نیٹ ورک‘‘ کا نام دیا جاچکا ہے جس کے تحت درجن بھر سے زائد میڈیکل ریسرچ جرنلز شائع ہوتے ہیں جبکہ ان تمام تحقیقی جرائد کو دنیا بھر میں بہت معتبر اور محتاط تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ’’جاما اونکولوجی‘‘ بھی ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ’’جاما اونکولوجی‘‘ میں شائع ہونے والی کسی ریسرچ رپورٹ کو بھی معتبر اور قابلِ اعتماد ہی سمجھا جانا چاہیے۔

مذکورہ مطالعہ بنیادی طور پر 31 مختلف طبی مطالعات کے تجزیوں پر مبنی تھا جن میں مجموعی طور پر کینسر کے 2000 سے زیادہ مریض شریک ہوئے تھے۔ ان تمام مطالعات میں آکوپنکچر اور آکوپریشر کروانے والے اور نہ کروانے والے، دونوں طرح کے مریض شامل تھے۔

تجزیوں کے اختتام پر ایک جامع نتیجہ یہی سامنے آیا کہ کینسر کے مریضوں کی تکلیف میں جو کمی آکوپنکچر اور آکوپریشر کی بدولت ہوئی تھی، جدید درد کُش دوائیں کھانے کے اثرات بھی ان سے بہت کم تھے، یا پھر نہ ہونے کے برابر تھے۔
اگرچہ ابھی تک ہمارے پاس ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں جو آکوپنکچر اور آکوپریشر کے طبّی فوائد کو قابلِ فہم اور درست سائنسی انداز میں بیان کرسکے لیکن یہ بات بڑی حد تک ثابت ہوگئی کہ ان دونوں روایتی طریقہ ہائے علاج سے کینسر کے مریضوں کی تکلیف میں نہ صرف کمی آتی ہے بلکہ یہ تدابیر ایسے مواقع پر بھی کام کرتی ہیں جہاں درد ختم کرنے والی جدید ایلوپیتھک دوائیں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔

البتہ، فی الحال اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ آکوپنکچر اور آکوپریشر کی بدولت غالباً ہمارے امیون سسٹم اور درد سے نجات دینے والے نظام میں کچھ اس طرح سے تحریک پیدا ہوتی ہے جیسے کہ اصل میں مؤثر دوا کھا لی گئی ہو۔

The post آکوپنکچر اور آکوپریشر سے کینسر کی تکلیف کم ہوتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

شدید غذائی قلت ڈی این اے میں بھی تبدیلی کی وجہ بن سکتی ہے، تحقیق

$
0
0

ہیوسٹن: بچوں میں غذائی قلت سے ان کے جسم میں ہولناک تنائج برآمد ہوتے ہیں لیکن اب پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ اگرغذائی قلت شدید نوعیت کی ہوتواس سے خود ڈی این اے بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

ہیوسٹن میں واقع بیلرکالج آف میڈیسن نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ بالخصوص اگربچوں میں غذائی قلت بہت شدید ہو تو اس سے ایپی جنیٹک سطح پر ڈی این اے متاثر ہوتا ہے یعنی جین کے احکامات (ایکسپریشنز)بدل جاتے ہیں، لیکن اس قسم کی غذائی قلت کو طبی طور پر دو اقسام یعنی ای ایس اے ایم اور این ای ایس اے ایم میں بانٹا جاتا ہے۔

یہ دونوں کیفیات بچوں کی زندگی کے اولین دنوں میں ظہور ہوسکتی ہیں جن کا پورا نام ’ ایڈامیشس سیویئر اکیوٹ میل نیوٹریشن (ای ایس اے ایم) اور ’ نان ایڈامیشس سیویئر اکیوٹ میل نیوٹریشن ‘ (این ای ایس اے ایم) ہیں، اس کی تحقیقات نیچر میں شائع ہوئی ہیں۔

ان میں سے ای ایس اے ایم ، بچے کے جین پر پیچیدہ ترین اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس سے میٹا بولزم اور غذائیت کے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور یہ ای ایس اے ایم جگر پر چربی کے امراض، جسمانی کمزوری اور خون میں شکر کی غیرمعمولی مقدار کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بیلر کالج کے پروفیسر نیل ہینچرڈ کے مطابق ای ایس اے ایم جسمانی سوجن، کئی اعضا کی تباہی، جگر کی خرابی ، خون کے خلیات اور آنتوں کو متاثر کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ ان کی وجہ سے بچوں کا وزن کم ہوتا ہے اور ان کی جلد اور بال بھی متاثر ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں نے ای ایس اے ایم کے شکار درجنوں بچوں کا بغور مطالعہ کرکے ان کے جین کا جائزہ لیا اور معلوم ہوا کہ کھانے پینے میں شدید کمی کی یہ کیفیت ان کے جین اس طرح بدل رہی ہے کہ وہ طرح طرح کے امراض کے شکار ہورہے ہیں۔ اس تحقیق سے ماہرین غذائی قلت کو جینیاتی سطح پر جاننے کے قابل ہوئے ہیں اوریہ تحقیق غذائی قلت سے ہونے والے مسائل کے حل میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔

The post شدید غذائی قلت ڈی این اے میں بھی تبدیلی کی وجہ بن سکتی ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو زندگی کو مقصد دیجیے

$
0
0

سان ڈیاگو: امریکا میں 21 سالہ نوجوانوں سے لے کر 100 سال سے بھی زیادہ ضعیف العمر افراد پر کیے گئے ایک تازہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کو بامعنی اور بامقصد سمجھتے ہیں، وہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ صحت مند بھی رہتے ہیں۔

سان ڈیاگو کاؤنٹی، کیلیفورنیا میں 1042 افراد سے ’صحت اور سوچ‘ کے بارے میں بھروائے گئے تفصیلی سروے فارمز میں شرکاء کے جوابات کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اپنی زندگی کو بامقصد اور بامعنی والے، یا زندگی میں کسی مقصد یا مفہوم کی تلاش میں رہنے والے لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بھی عموماً صحت مند رہتے ہیں۔ ان کے برعکس وہ لوگ جو اپنی زندگی کو ’بس یونہی‘ گزار دینے کے قائل ہوتے ہیں، وہ ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں زیادہ بیمار رہنے لگتے ہیں۔

جوانی کو صحت مندی اور بڑھاپے کو بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عمر رسیدگی کے ساتھ صحت کا گرنا اگرچہ یقینی ہے لیکن مطالعے میں یہ دیکھا گیا کہ وہ تمام افراد جو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی ’’مقصد‘‘ اور ’’مفہوم‘‘ کے قائل یا متلاشی تھے، وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اچھی صحت کے مالک تھے؛ جبکہ ان ہی کے ہم عمر، وہ افراد جو زندگی میں نہ تو کسی مقصد کے قائل تھے اور نہ ہی انہیں زندگی کے کسی مفہوم کی تلاش تھی، انہیں بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں زیادہ شدت سے متاثر کرنے لگیں۔ علاوہ ازیں، ان لوگوں کی اکتسابی (نیا سیکھنے کی) صلاحیتیں بھی عمر رسیدہ ہونے پر تیزی سے کم ہونے لگتی ہیں۔

غرض پیچیدہ اعداد و شمار اور تکنیکی زبان میں لپٹی ہوئی اس تحقیق کا پیغام بہت سادہ ہے: بامقصد زندگی گزاریئے تاکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کا ذہن ٹھیک کام کرتا رہے اور جسمانی صحت بھی درست رہے۔

اس مطالعے کی تفصیلات ’’جرنل آف کلینیکل سائیکاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

The post صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو زندگی کو مقصد دیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا کی پہلی لیزرالٹرا ساؤنڈ سے جسم کی بہترین تصاویرکا حصول

$
0
0

بوسٹن: ایک عرصے سے ہم جسم کے عکس حاصل کرنے کے لیے الٹرا ساؤنڈ استعمال کررہے ہیں لیکن الٹرا ساؤنڈ کی بعض خامیوں اور حدود کی وجہ سے یہ ایک خاص حد تک ہی کام کرتی ہیں۔

میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے لیزر الٹرا ساؤنڈ تیار کی ہے جس کے ذریعے اولین تصاویر حاصل کی گئی ہیں جو روایتی الٹرا ساؤنڈ کے مقابلے میں بہت صاف ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں الٹرا ساؤنڈ کے کسی آلہ یا لیزر کو جسم سے چھونا نہیں پڑتا۔ ماہرین نے اس کے لیے ایسی لیزر بنائی ہے جو آنکھ اور جلد کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔ ایک لیزر نظام مریض سے دور رہ کر آواز کی لہریں خارج کرتا ہے جو پورے جسم سے منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔ اب دوسری لیزر واپس پلٹتی ہوئی ان امواج کو شناخت کرتی ہے اور اس طرح ایک بہتر اور صاف تصویر سامنے آتی ہے۔

ابتدائی شناخت میں سائنس دانوں نے کئی رضا کاروں کے بازوؤں کے اسکین لیے جس میں ٹشوز اور پٹھے (مسلز) کا معائنہ کرنا تھا۔ نئی ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ تصاویر سے چھ سینٹی میٹر گہرائی تک کی تصاویر ملیں جن میں پٹھے، گوشت، چربی اور ہڈیاں نہایت واضح تھی۔ حالانکہ لیزر نصف میٹر دور رکھی گئی تھیں اس کے باوجود تصاویر عام الٹرا ساؤنڈ سے بہتر تھیں۔

ایم آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے 1550 نینو میٹر لیزر استعمال کی تھیں اور اس طولِ موج کی شعاعیں پانی میں اچھی طرح جذب ہوجاتی ہیں۔ یہ چہرے، جلد اور آنکھوں کو نقصان نہیں پہنچاتی اور موشن ڈٹیکٹر اسے بہتر طور پر عکس لینے میں مدد کرتا ہے۔

اگرچہ یہ نظام الٹرا ساؤنڈ سے بہتر ثابت تو ہوا ہے لیکن اس بھاری بھرکم سسٹم کو چھوٹا کرکے قابلِ استعمال بنانا ایک چیلنج ہے جسے اب بھی حل کرنا باقی ہے۔

The post دنیا کی پہلی لیزرالٹرا ساؤنڈ سے جسم کی بہترین تصاویرکا حصول appeared first on ایکسپریس اردو.

گھٹنے کے 3 لاکھ آپریشن میں مدد کرنے والا روبوٹ

$
0
0

نیوجرسی: میکو دنیا کا کامیاب ترین روبوٹک بازو ہے جو اب تک گھٹنے کی لاکھوں سرجری میں مدد کرچکا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ انسانوں کی طرح غلطی بھی نہیں کرتا۔

دنیا بھر کے 600 ہسپتالوں میں میکو کامیابی سے استعمال ہورہا ہے جسے اسٹرائیکر کمپنی نے برسوں کی محنت سے بنایا ہے۔ اس کا بصری نظام گھٹنے کی تھری ڈی شکل دکھاتا ہے اور آپریشن کی جگہ کا بغور معائنہ کرکے سرجری کے عمل کو آسان بناتا ہے۔

جدت اور حساسیت کی بنا پر یہ روبوٹ غلطی نہیں کرتا اور اب تک تین لاکھ سے زائد آپریشن انجام دے چکا ہے۔ روبوٹک بازو میں ہر طرح کی سرجری کے اوزار سما سکتے ہیں۔ میکو گھٹنے کے علاوہ کولہے کی ہڈی کے پیچیدہ آپریشن بھی انجام دے سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ گھٹنہ (یا اس کی گولہ نما ہڈی) بدلنی ہو تب بھی یہ جزوی آپریشن میں مدد دیتا ہے۔

اگرچہ میکو کی ٹیکنالوجی دس برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی لیکن اسے مسلسل بہتر بنایا گیا اور اب یہ سائنس فکشن سے نکل کر حقیقت بن چکی ہے اور لاکھوں مریضوں کو علاج کی صورت میں سکون فراہم کرچکی ہے۔ روبوٹ کا بصری نظام سرجن کو گھٹنے کی مفصل ویڈیو اور تصاویر دیتا ہے جس کی بنا پر درست جگہ آپریشن کرنے میں سرجن کو مدد ملتی ہے۔

کسی بھی گڑبڑ کی صورت میں روبوٹ بازو فوری طور پر رک جاتا ہے کیونکہ غلط آپریشن مریض کو ہمیشہ کے لیے معذور بھی کرسکتا ہے۔ اگر سرجن اسے کسی ایک حصے پر کام کرنے کا حکم دیتا ہے تو یہ اسی جگہ محدود رہتا ہے اور بصورتِ دیگر کام کرنا بند کردیتا ہے۔

اپنی کئی خوبیوں کی بنا پر یہ روبوٹ دنیا بھر میں ہڈیوں کے سرجن کی اولین ترجیح بن چکا ہے تاہم اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کمپنی فراہم کرتی ہے۔

The post گھٹنے کے 3 لاکھ آپریشن میں مدد کرنے والا روبوٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

2019؛ ایڈز، پولیو، ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ

$
0
0

 اسلام آباد:  حکومتی اداروں کی بد انتظامی و مجرمانہ غفلت، سال2019 میں ایڈز، پولیو اور ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ، ریاستی اداروں کی غفلت کے باعث سال بھرپاکستانی مختلف موذی امراض کا شکار رہے۔

رواں سال جہاں ڈینگی وائرس سے51 ہزار 670 شہری متاثر ہوئے وہیں پولیو وائرس نے 123 افراد کا شکار کرکے 5 برس بعد اپنی سنچری مکمل کرلی جبکہ اس سال ایڈز نے بھی9 ہزار 600 کے قریب افراد کا شکارکرکے ریکارڈ قائم کیا۔ سال2019 صحت کے حوالے سے پاکستانیوں پر بھاری رہا،2019 کے دوران ڈینگی وائرس سے51 ہزار 670 افراد متاثر ہوئے جبکہ اس وائرس نے88 افراد کی جانیں لے لیں۔

ڈینگی سے سب سے زیادہ سندھ میں14ہزار814فراد متاثر ہوئے جن میں سے39 افراد جاں بحق ہوئے۔اسلام آباد میں 13ہزار260 افراد متاثر ہوئے۔ جن میں سے 22 افراد جاں بحق ہوئے۔ پنجاب میں 9 ہزار995 افراد متاثر ہوئے جن میں سے23 افراد جاں بحق ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں7ہزار68 افراد متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں3 ہزار383 افراد متاثر ہوئے جن میں سے3 افراد جاں بحق ہوئے۔آزاد کشمیر میں 1ہزار690 افراد متاثر ہوئے جن میں سے1 فرد جاں بحق ہوا۔

قبائلی علاقہ جات میں 793فراد متاثر ہوئے جبکہ دیگر مقامات پر662 افراد متاثر ہوئے۔ سال 2019 کے دوران ملک میں مزید 9 ہزار565 افراد میں ایڈزکی تصدیق ہوچکی جس میں سے اپریل سے 30 نومبر کے دوران محض سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے گاوں رتوڈیرو کے 895 افراد کے خون کے نمونوں میں ایڈز کے جراثیم کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ 2019 کے دوران ملک میں پولیو وائرس نے پاکستان میں رواں برس123 افراد کا شکارکر کے 5 برس بعد اپنی سنچری مکمل کرلی۔

The post 2019؛ ایڈز، پولیو، ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.

فالج کی وجوہات اور احتیاطیں

$
0
0

فالج ایک ایسی بیماری سمجھی جاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ دماغ کی شریانوں میں رکاوٹ آجانا جس کی وجہ سے دماغ کو خون کی سپلائی کا متاثر ہونا فالج کہلاتا ہے۔ شوگر، بلڈپریشر، موٹاپا، سگریٹ نوشی، تمباکو، شراب نوشی، دل کے والوو کی خرابی، ایسی بیماری کے رسک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی شرح 40فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔10لاکھ لوگ تقریباً فالج کی وجہ سے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

فالج دو قسم ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس میں دماغ خون کی شریانوں کا پھٹ جانا، دوسرا دماغ کی خون کی شریانوں میں کسی رکاوٹ کا آجانا۔ دل میں خرابی، دل کے والوو میں خرابی، گردن کی شریانوں میں چربی کا جم جانا، فالج کے خاصے اہم اسباب ہوتے ہیں۔

فالج کی علامات

اچانک منہ ٹیڑھا ہوجانا یا کسی بھی ایک طرف کا ہاتھ، پاؤں کاکام نہ کرنا، آواز کا متاثر ہونا۔ اس مرض کی تشخیص کے لئے دماغ کا ایم آر آئی یا سی ٹی سکین کرانا ہوتا ہے جس سے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ دماغ کا کون سا حصہ فالج کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔

جیسا کہ سابقہ سطور میں عرض کیا جاچکا ہے کہ پاکستان میں فالج کے مریضوں کی شرح40فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔آئندہ برسوں میں فالج پاکستان کی چوتھی بڑی بیماری بن جائے گی۔ پاکستان میں فالج کے مسئلے سے دوچار کم ازکم 22فیصد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر معذور ہوجاتے ہیں۔ حاملہ عورتوں میں فالج کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

جس کوCVSTکہاجاتا ہے اور اس میں MRVکے ذریعے اس مرض کی تشخص کی جاتی ہے۔بچوں میں فالج کی وجہ دماغ کا انفیکشن، دل کے والوو کا مسئلہ، خون کی خرابیاں ہوتی ہیں۔ دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد کو کبھی بھی زندگی میں فالج ہوسکتا ہے اور اس سے بچاؤ ممکن ہے۔

فالج سے کیسے محفوظ رہاجاسکتاہے؟

اپنے بلڈپریشر کو کنٹرول میں رکھنا اور باقاعدگی سے بلڈپریشر کی دوائیاںلینا۔

شوگر کو کنٹرول میں رکھنا اور باقاعدگی سے اس کی دوائیاں استعمال کرنا۔

روزانہ کم ازکم15سے20منٹ کی چہل قدمی(واک) کریں۔

سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا۔

افسردگی اور دباؤ سے بچنا کیونکہ ہر چھ میں سے ایک فرد کے فالج کی وجہ ذہنی تناؤ  ہے۔

غصے کو کنٹرول کریں اور کولیسٹرول کو کم کریں۔

متوازن غذا ضرور کھائیں یعنی فروٹ اور سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔

اپنے وزن کو کنٹرول میں رکھیں، ہر پانچ میں سے ایک فالج موٹاپا کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اگر کسی کو فالج ہوجائے تو دوائیوں کے ساتھ ساتھ فزیوتھراپی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگرفالج کی علامات میں کوئی بھی علامت کسی بھی مریض میںملتی ہے تو فوراً دماغ کے ڈاکٹر یعنی نیورولوجسٹ سے رابطہ کریں اور فالج سے نہ ہونے والی پیچیدگیوں سے بچیں۔ فالج کے بعد سینے کا انفیکشن، پیشاب کا انفیکشن، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، ڈپریشن ، جسم میں درد وغیرہ جیسی پیچیدگیاں عام ہیں۔ یاد رکھیں کہ صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر آپ فالج اور فالج سے ہونے والی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔

The post فالج کی وجوہات اور احتیاطیں appeared first on ایکسپریس اردو.


فاقہ کشی حفظان صحت کے اُصولوں کے خلاف

$
0
0

توند نکل آئی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ موٹاپے سے تنگ ہوں کوئی دوا بتاؤ۔ فلاں کی سمارٹنیس کا راز کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے سوالات سوشل میڈیا پر بھی ہر وقت نظر آتے ہیں۔ اور مختلف رسائل و اخبارات میں بھی اس حوالے سے مضامین مل جاتے ہیں۔ ہر شخص کا تجربہ مختلف ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے ہر نسخہ یا دوا بلا سوچے سمجھے مت استعمال کریں۔ کوشش کریں کسی ماہرِ غذائیات سے مشورہ کرکے اپنے کھانے پینے کا چارٹ تیار کروائیں اور اس پر عمل کرکے اپنا وزن کنٹرول کریں۔

میں سندیافتہ ماہرِ غذائیات نہیں ہوں مگر دو سال شعبہ غذائیات میں کام کرنے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے جن عادتوں کو اپنا کر خود کو موٹاپے سے بچایا ہوا ہے وہ چیدہ چیدہ آپ کے لیے پیشِ خدمت ہیں۔ اس میں اکثر ایسی چیزیں ہیں جو ہر شخص بلاجھجھک اپنا سکتا ہے۔

زندہ رہنے کے لیے کھایا کریں، کھانے کو ہی زندگی نہ سمجھ لیں۔

امریکہ میں دلیہ روزمرہ کا ناشتہ کا اہم جزو ہے، جو کا دلیہ غذائیت سے بھرپور، چکنائی سے مبرا، اور معدہ کو پُر کرنے والی غذا ہے۔ خصوصاً جسمانی کام کرنے والے لوگ دلیہ باقاعدہ استعمال کریں اس سے معدہ بھی بھر جاتا ہے، طاقت بحال رہتی ہے اور دیگر غذاؤں کی طرح چکناہٹ بھی جسم کا حصہ نہیں بنتی۔

جو کی روٹی یا مکئی کی روٹی یا جو کی ڈبل روٹی یا خالص گندم سے تیار ڈبل روٹی ناشتے میں استعمال کریں۔ میدے سے بنی ڈبل روٹی، پراٹھے اور تلی ہوئی اشیاء ناشتے میں استعمال نہ کریں۔ ہفتے میں ایک دن صرف موسمی تازہ پھل کھائیں۔اگر جیب اجازت دے تو ہفتے میں ایک بار مچھلی ضرور کھائیں۔ میٹھی اشیاء کا استعمال کم کریں اور چائے اور قہوہ یا کافی میں چینی کے بجائے شکر استعمال کریں۔

کئی ممالک میں چقندر اور ناریل سے اخذ کی گئی چینی دستیاب ہے جو شکر کا بہترین متبادل ہے۔ پانی بکثرت پیا کریں اور پانی کے جگ یا بوتل میں لیموں کی ایک قاش ڈال لیا کریں اور اس میں مزید پانی ڈالتے رہیں۔ اگر تھوڑا تردد کریں تو گھر میں ایک کولر میں صبح پانی بھریں اور اس میں لیموں، کھیرا، مالٹا، انناس، سٹرابری جو بھی پھل میسر ہو وہ کاٹ کر ڈال دیں، شام تک تمام اہل خانہ وہی پانی استعمال کریں۔

اب میں اپنی ذاتی روٹین بتاتا ہوں کہ میں روزانہ کیا کھاتا ہوں۔

میں مہینے میں کبھی ایک یا دو بار پراٹھا کھالیتا ہوں اس سے زیادہ نہیں۔ میں سموسے پکوڑے صرف ماہِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار بار کھاتا ہوں یعنی تقریباً نہ ہونے کے برابر۔

عام طور پر آپ پانچ یا چھے افراد کے کھانے کے لیے جتنا تیل ایک بار استعمال کرتے ہیں اتنا تیل میں پانچ بار کے کھانے میں استعمال کرتا ہوں۔ کھانے کے تیل کا جتنا استعمال پاک و ہند میں ہوتا ہے اتنا شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ میں ناشتے میں گندم کی ڈبل روٹی یا دلیہ استعمال کرتا ہوں، پراٹھے پوریاں یا تلی ہوئی دیگر اشیاء نہیں کھاتا۔

دن کے کھانے میں سبزی یا سلاد یا پھل کھاتا ہوں مگر عموماً دن کا کھانا ناغہ کرتا ہوں۔ رات کو غذائیت والا بھاری بھرکم کھانا جس میں سبزی اور گوشت یا مچھلی استعمال کرتا ہوں۔ میں کھانا سونے سے کم از کم تین گھنٹے پہلے کھاتا ہوں۔ دو وقت کا اچھا طاقت آمیز کھانا آپ کے لیے کافی ہے اگر زندگی کا مقصد صرف کھانا نہ ہو تو۔

سوڈا مشروبات سے مکمل اجتناب کریں، ان میں چینی کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ آپ کی سب احتیاط پر پانی پھر جاتا ہے۔ گرمیوں میں بھی تازہ پانی پینے کی عادت بنائیں ٹھنڈے پانی سے دور رہیں۔ کچھ وقت لگتا ہے پھر عادت ہوجاتی ہے، میں گرمیوں میں پانی نارمل درجہ حرارت والا پیتا ہوں برف والا یا ٹھنڈا پانی نہیں پیتا۔ میں کبھی کبھار رات کو بھاری کھانا کھانے کے بجائے صرف خشک میوہ جات کی مناسب مقدار استعمال کرلیتا ہوں، بظاہر آپ کو لگے گا کہ پیٹ نہیں بھرا مگر حقیقتا آپ کے جسم کی طاقت اس سے بحال رہتی ہے۔

ایک اور غلط فہمی عموماً پائی جاتی ہے کہ فاقہ کشی سے وزن کم ہوتا ہے، یہ بات صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ آپ جتنا زیادہ فاقہ کرتے ہیں اتنا ہی آپ اپنے جسم کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کرکے امراض کو دعوت دے رہے۔ کھانا پینا ترتیب سے نہ ہو تو ذیابیطس ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہ تو کچھ کھانے پینے کی احتیاط ہوگئی اس کے ساتھ آپ کو جسمانی ورزش کی بھی ضرورت ہے، روزانہ کم از کم تین چار میل پیدل چلیں، جاگنگ کریں، بازار جانا ہو تو کوشش کریں پیدل جائیں سامان زیادہ نہ ہو تو خود اٹھاکر لائیں۔ جم جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف پیدل چلنے کی عادت بنالیں کسی جم ٹرینر کی ضرورت نہیں۔

دفتر اور بازار میں کثیر المنزلہ عمارات میں سیڑھیاں استعمال کریں لفٹ کا استعمال چھوڑ دیں۔ جیب اجازت دیتی ہے تو سائیکل خرید لیں اور گاڑی یا بس کے بجائے دس بارہ میل کا سفر سائیکل پر کریں۔ رات کے کھانے کے بعد کم از کم بیس پچیس منٹ گھر کے اندر ہی واک کرلیں، یا گھر کی چھت پر واک کریں۔ یاد رہے آپ جتنی مرضی ڈائیٹ کریں اور ٹوٹکے کرلیں اگر آپ روزانہ پیدل چلنے کی عادت نہیں بناتے تو آپ کی سب محنت فضول ہے۔

اچھا کھائیں اور تازہ غذا استعمال کریں، جتنا پیسہ آپ ہسپتال میں بیماری پر لگاتے ہیں وہی پیسہ اپنے کھانے پہ لگائیں، پرسکون اچھی زندگی بسر ہوگی۔

The post فاقہ کشی حفظان صحت کے اُصولوں کے خلاف appeared first on ایکسپریس اردو.

گورا کرنے والی کریم سے اعصاب متاثرہونے کا پہلا واقعہ رپورٹ ہوگیا

$
0
0

برکلے، کیلیفورنیا: ایک واقعے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رنگت گوری کرنے والی کریموں سے اعصابی نظام شدید متاثر ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک واقعہ امریکا میں پیش آیا ہے جہاں ایک خاتون نے میکسکو سے بنی ہوئی کریم کا مسلسل استعمال کیا تو اس کا مرکزی اعصابی نظام (سینٹرل نروس سسٹم) شدید متاثر ہونے لگا۔

ڈاکٹروں نے ابتدائی مرحلے میں اس کی وجہ پارے (مرکری) کو قراردیا ہے جس کی بڑی مقدار کریم میں شامل کی گئی تھی اور اس کا مقصد رنگ صاف کرنا تھا۔ خاتون کی صحت اب اتنی بگڑچکی ہے کہ انہیں نلکی کے ذریعے کھانا پینا دیا جارہا ہے اور وہ اپنا خیال رکھنے بلکہ بولنے سے بھی محروم ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق اس کریم میں میتھائل مرکری کی صورت میں نامیاتی پارہ (آرگینک مرکری) موجود تھا جو امریکا میں میتھائل مرکری سے متاثر ہونے کا 50 سال میں پہلا واقعہ ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو (یو سی ایس ایف) کے ڈاکٹر نے اس پورے کیس پر غور کرنے کے بعد کہا ہے کہ جلد کی رنگت نکھارنے والی کریموں کی اکثریت میں غیرنامیاتی (ان آرگینک) پارہ ہوتا ہے لیکن خاتون کو متاثر کرنے والی کریم میں آرگینک مرکری شامل تھی جو ثابت شدہ زہریلے اور مضر اثرات رکھتی ہے۔ ایسی کریمیں انسانی اعصابی نظام کو تباہ کرسکتی ہیں اور استعمال بند کرنے پر بھی ان کا نقصان جاری رہتا ہے۔

خاتون کئی عرصے سے کریم استعمال کررہی تھیں۔ پہلے ان کے پٹھوں میں غیرارادی حرکت پیدا ہوئی۔ پھر کمزوری بڑھی جو بازو اور کاندھے تک پہنچی ۔ دو ہفتے بعد ان کی نظر دھندلاگئی اور بولنے میں شدید دقت ہونے لگی۔ بعد ازاں گھر والوں نے بتایا کہ وہ کریم سات سال سے روزانہ صبح و شام استعمال کرتی رہی تھیں۔

ماہرین نے خاتون کے علاج کے لیے چیلیشن تھراپی استعمال کی جس کی بدولت جسم سے زہر نکالا جاتا ہے لیکن طبعیت مزید بگڑگئی کیونکہ وہ اس قسم کے پارے کو جسم سے نہیں نکال پائے کیونکہ زہر کی نوعیت مختلف تھی۔

The post گورا کرنے والی کریم سے اعصاب متاثرہونے کا پہلا واقعہ رپورٹ ہوگیا appeared first on ایکسپریس اردو.

مزاج بہتر بنانے والے پانچ اہم غذائی اجزا

$
0
0

 لندن: اگرچہ غذا اور دماغی صحت کے درمیان تعلق اب واضح ہوتا جارہا ہے لیکن ان میں بھی بعض ماہرین کے درمیان اختلافات ہیں۔ لیکن دو امریکی غذائی ماہرین کیتھرین نے اور میگن براؤن نے کہا ہے کہ بعض غذائی اجزا سرد موسم میں آپ کے موڈ کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ دونوں خاتون ماہرین مشی گن میڈیسن ویٹ میجنمنٹ پروگرام سے وابستہ ہیں۔ ان کے  مطابق کئی غذائی اجزا انسانی نفسیات پر اثرانداز ہوکر موڈ بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ان کے مطابق کوئی ایسی واحد غذا نہیں جو ڈپریشن اور یاسیت سے بچاسکے ان کے مطابق سبزیاں، پھل، کم چکنائی والی دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کا باقاعدہ استعمال نہ صرف صحت کو بہتر بناتا ہے بلکہ اس میں موجود وٹامن اور کئی طرح کے کیمیکل دماغی صحت کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ غذائی اجزا اور کیمیکل دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں اور موڈ کو اچھا کرتے ہیں۔

ٹرپٹوفین

ٹرپٹوفین نامی کیمیکل کو نیند لانے والا کیمیکل بھی کہتے ہیں ۔ انسانی جسم اسے بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور یہ غذاؤں سے حاصل ہوتا ہے

ٹرپٹوفین کو سیروٹونِن کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ سیروٹونِن دماغی نیوروٹرانسمیٹر ہوتا ہے جو ہماری نیند، بھوک اور دیگر افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر سیروٹونِن کی طرح ٹرپٹوفین کا استعمال کیا جائے تو موڈ بہتر ہوتا ہے۔ اس کے لیے پھلیاں، دودھ ، انڈے اور پالک وغیرہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔

میگنیشیئم

دماغ کو سکون پہنچانے میں میگنیشئم کا کردار مسلم ہے۔ یہ پالک میں پایا جاتا ہے اور دالوں کے ساتھ ساتھ مکمل اناج یا ہول گرین میں بھی میگنیشیئم کی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔

فائٹونیوٹریئنٹس

میٹھی اشیا کھانے سے خون میں شکر کی مقدار تھوڑی دیر کےلیے بڑھ جاتی ہے لیکن جیسے ہی دوبارہ شکر کم ہوتی ہے موڈ بگڑنے لگتا ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے گہری رنگت والی چاکلیٹ کھائی جاسکتی ہیں لیکن اسے بے دریغ کھانے سے اجتناب کیا جائے۔

اسٹرابری اور بلیو بیریاں اپنے فائٹو کیمیکلز کی بنا پر ذہنی تناؤ دور کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈارک چاکلیٹ میں موجود فلےوینولز بھی دماغ کو سکون پہنچا کر ڈپریشن دور کرتے ہیں۔

اومیگا تھری فیٹی ایسڈز

روغنی مچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز عام پائے جاتے ہیں ۔ ان سے بدن کی اندرونی جلن کم ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین نے ایک جانب السی کے بیج کھانے کا مشورہ دیا ہے تو دوسری جانب ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بھی دماغ کو سکون پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

The post مزاج بہتر بنانے والے پانچ اہم غذائی اجزا appeared first on ایکسپریس اردو.

عوامی صحت سے متعلق پاکستانی اسٹارٹ اپ ’ڈاکٹہرز‘ نے بین الاقوامی اعزاز جیت لیا

$
0
0

ڈھاکہ: ٹیلی میڈیسن اور آئی سی ٹی کو استعمال کرتے ہوئے عوامی صحت کے مسائل حل کرنے اور نرسوں اور دائیوں (مڈوائف) کی تربیت کرنے والی، پاکستان کی ابھرتی ہوئی اسٹارٹ اپ کمپنی ’ڈاکٹہرز‘ (DoctHERs) نے پاکستان کا نام روشن کرتے ہوئے بین الاقوامی ٹائیگر چیلنج 2019 مقابلے میں تین سرِفہرست کمپنیوں میں سے ایک کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

یہ مقابلہ بنگلہ دیش میں منعقد کیا گیا جسے میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سولو کے تعاون سے انٹرنیشنل ٹائیگر فاؤنڈیشن نے منعقد کیا تھا۔ بین الاقوامی ٹائیگر چیلنج 2019 کی انٹرنیشنل کیٹگری میں ڈاکٹہرز تین منتخب بہترین کمپنیوں میں شامل رہی۔ اس کے اعتراف میں نہ صرف ڈاکٹہرز کو ایوارڈ دیا گیا ہے بلکہ مجموعی طور پر تین اسٹارٹ اپ میں 20 لاکھ ڈالر تک کی سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔

ڈاکٹہرز کے ساتھ صاف پانی فراہم کرنے والی ایک کمپنی ’ڈِرنک ویل‘ اور سانس کے نظام کی صحت سے متعلق کمپنی ’فلیکس آرٹیفیشل‘ کو بھی تین بہترین اداروں میں شامل کیا گیا تھا۔

پاکستان میں خصوصاً خواتین صحت کے ان گنت مسائل سے دوچار ہیں اور خود کئی خواتین ڈاکٹر ایم بی بی ایس کے بعد اپنی عملی پریکٹس جاری نہیں کرپاتیں۔ ڈاکٹہرز پلیٹ فارم نے ابتدا میں خواتین ڈاکٹروں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مریضوں سے جوڑا اور اس کے بعد آئی سی ٹی استعمال کرتے ہوئے اپنے دائرہ اختیار کو وسعت دی۔

اس کے بعد ڈاکٹہرز نے پورے پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کی مدد سے نرسوں اور مڈوائف کی تربیت کا آغاز کیا اور اب تک ادارے سے 150 سے زائد خواتین ڈاکٹر وابستہ ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر دس لاکھ سے زائد افرد کو طب و صحت کے کسی نہ کسی شعبے میں علاج کی سہولت دی گئی ہے۔ پورے ملک میں ڈاکٹہرز کے موبائل اور اسمارٹ شفاخانوں کی تعداد 50 سے زائد ہوچکی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹہرز وہاں کام کررہا ہے جہاں ڈاکٹر نہیں پہنچ پاتے۔ اس طرح اب تک 3000 سے زائد دوردراز گاؤں اور دیہات میں ان کا دائرہ کار وسیع ہوچکا ہے۔

The post عوامی صحت سے متعلق پاکستانی اسٹارٹ اپ ’ڈاکٹہرز‘ نے بین الاقوامی اعزاز جیت لیا appeared first on ایکسپریس اردو.

مچھلی کا تیل رات میں بہترین نظر کے لیے مفید قرار

$
0
0

لندن: بینائی کی بہتری کے لیے ڈاکٹر ایک عرصے سے مچھلی کے تیل یا تیل بند گولیاں تجویز کرتے آرہے ہیں، اس ضمن میں مختلف ادوار میں مختلف تحقیق کی گئیں اور کبھی اس کے حق میں اور کبھی اس کی مخالفت میں نتائج سامنے آئے۔

اب لوبورو یونیورسٹی کے سائنس داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مچھلی کے تیل اور اس سے بنی گولیوں میں موجود فیٹی ایسڈ ، ڈوکوسا ہیکسا نوئک ایسڈ (ڈی ایچ اے) جو کہ بعض تیل دار مچھلیوں مثلاً سرمئی اور ٹیونا سے کشید کیا جاتا ہے، اس کا باقاعدہ استعمال آنکھ کو رات کی تاریکی سے مطابقت کے قابل بناتا ہے، مطلب یہ کہ کم ہوتی ہوئی روشنی میں آنکھ ماحول کے لحاظ سے خود کو منظم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

ڈی ایچ اے میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے اور انسانی جسم اسے نہیں بنااتا۔ اس کی کمی السی کے بیج اور مچھلی کے روغن سے پوری کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں لوبورو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نےایک چھوٹا سا مطالعہ کیا۔

ماہرین نے 19 رضاکاروں کو بھرتی کیا اور انہیں مدھم ہوتی ہوئی روشنی میں دیوار پر چسپاں بعض نمبر پڑھنے کا کہا لیکن اس سے قبل رضا کاروں کو دن میں چار مرتبہ 260 ملی گرام ڈی ایچ اے کی گولی اور 780 ملی گرام ای پی اے (ڈی ایچ اے میں ڈھلنے والا ایک اور فیٹی ایسڈ) کی گولیاں کھانے کو کہا گیا۔

چار ہفتوں بعد ماہرین سے کہا گیا کہ وہ اسی طرح کم ہوتی ہوئی روشنی میں اعداد پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہاں چار ہفتوں تک ڈی ایچ اے کیپسول کھانے والے رضا کاروں  نے پہلے کے مقابلے میں 25 فیصد دھندلاہٹ میں بھی دیوار پر لکھا نمبر دیکھا اور اسے پہچان لیا۔

اس دوران تمام شرکا کے خون کے نمونے بھی لیے جاتے رہے اور خون میں فیٹی ایسڈ کی براہِ راست مقدار کو بھی نوٹ کیا جاتا رہا۔ اس طرح معلوم ہوا کہ جسم میں فیٹی ایسڈ کی مقدار بڑھنے سے اندھیرے میں بہتر طور پر دیکھنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ اگر آپ رات کے وقت کار چلاتے ہیں، پولیس، فوج یا کسی بھی سیکیورٹی ادارے کے لیے رات کی ڈیوٹی کرتے ہیں تو مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹ آپ ہی کے لیے ہیں۔

The post مچھلی کا تیل رات میں بہترین نظر کے لیے مفید قرار appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی جلد اور آنکھوں کو نقصان پہنچائے بغیر بیماری کی تشخیص کرنے والا ’’الٹرا ساؤنڈ لیزر‘‘

$
0
0

کیمبرج، میساچیوسٹس: کیا یہ ممکن ہے کہ دُور بیٹھے بیٹھے کسی شخص کے اندرونی جسمانی حصوں کا جائزہ لیا جاسکے؟ میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لیزر شعاعیں استعمال کرتے ہوئے ایسا بالکل ممکن ہے۔

لیزر شعاعیں اگرچہ توانائی سے بھرپور ہوتی ہیں اور جلد کو جلا بھی سکتی ہیں لیکن اس مقصد کےلیے جو لیزر شعاعیں استعمال کی گئی ہیں وہ بہت کم توانائی کی حامل ہیں اور بالکل بے ضرر ہیں۔ اپنی اس ایجاد کو ایم آئی ٹی کے ماہرین نے ’’الٹرا ساؤنڈ لیزر‘‘ کا نام دیا ہے، جس کا نظام دو لیزر شعاعوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔

ان میں سے ایک لیزر، شعاع جلد میں الٹرا ساؤنڈ لہریں پیدا کرتی ہے جبکہ دوسری لیزر، انسانی جسم کے اندر سے واپس پلٹ کر آنے والی الٹرا ساؤنڈ لہروں کو محسوس کرتی ہے۔ اس طرح دور سے کسی شخص کی اندرونی جسمانی حالت کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔

البتہ، یہ تکنیک ابھی اپنے ابتدائی مراحل پر ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے لیزر شعاعیں انسانی جسم میں صرف چھ سینٹی میٹر گہرائی تک سرایت کرسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ابھی اس لیزر الٹراساؤنڈ میں درستی کی شرح بھی روایتی الٹرا ساؤنڈ کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔

اس کے باوجود، یہ تکنیک وضع کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسے عملی میدان میں استعمال کے قابل بنانے کی غرض سے تحقیق جاری رکھی ہوئی ہے کیونکہ مستقبل میں اس سے مستفید ہونے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ انسانی جلد اور آنکھوں کو نقصان پہنچائے بغیر ہی، دور بیٹھے بیٹھے، لیزر کی مدد سے کسی بیماری کی تشخیص ممکن ہوجائے گی۔

فی الحال لیزر کے ذریعے الٹراساؤنڈ پیدا کرنے اور اسے جسم کے اندر تک پہنچانے کا تصور پہلی بار انسانوں میں کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے، جس کی تفصیلات ’’لائٹ: سائنس اینڈ ایپلی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوچکی ہیں۔

The post انسانی جلد اور آنکھوں کو نقصان پہنچائے بغیر بیماری کی تشخیص کرنے والا ’’الٹرا ساؤنڈ لیزر‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

نارنجی کے وہ فوائد جن سے عام افراد بھی ناواقف

$
0
0

کراچی  : سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی خوشبودار نارنجیاں اور کینو ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں۔ قدرت کے اس انمول تحفے میں بہت سے قیمتی اجزا اور شفا کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ پہلے تازہ تحقیق سے جائزہ لیتے ہیں کہ نارنجی اور کینو کس طرح امراضِ قلب اور بلڈ پریشر کو روکتے ہیں۔

فالج، بلڈ پریشر اور امراضِ قلب میں مفید

ماہرین نے مسلسل 15 سال تک 28 ہزار افراد کا جائزہ لیا جس میں پھل اور سبزیوں کے دماغی قوت اور صحت سے تعلق کی تصدیق کرنا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کوئی مرد روزانہ اورنج جوس کے ایک چھوٹے گلاس پینے کو معمول بنالے تو اس سے حافظہ متاثر ہونے کا خدشہ 47 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔

ہالینڈ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ انوائرمنٹ نے یورپی کینسر اینڈ نیوٹریشن پروگرام کے تحت 35 ہزا رافراد کا 15 سال سے زائد عرصے تک سروے کیا جن میں 20 سے لے کر 70 سال تک کے افراد شامل تھے۔ اس سروے کا مقصد غذا، صحت یا اس سے ہونے یا نہ ہونے والی بیماریوں کے بارے میں معلوم کرنا تھا۔

تاہم تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف نارنجی کے جوس سے فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ دیگر اقسام کے تازہ پھلوں کا رس بھی اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ برٹش جرنل آف نیوٹریشن میں شائع رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ہفتے میں 8 مرتبہ نارنجی کا رس پیا جائے تو فالج کا خطرہ 25 فیصد تک کم ہوجاتا ہے جبکہ ایک دن چھوڑ کر ایک دن یہ رس پینے سے فالج کا خطرہ 20 فیصد تک ٹلتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اورنج جوس دل کے امراض کے خطرے کو بھی دور کرتا ہے اور اس سے  دل کی شریانوں کے متاثر ہونے کا خدشہ 12 سے 13 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ اس کے رس میں پھل کے تمام اہم کیمیکلز اور فلے وینوئڈز پائے جاتے ہیں جس سے خون کے لوتھڑے بننے کی شرح کم ہوتی ہے اور یوں فالج یا لقوے کا خطرہ کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔

خوبصورت جلد اور چہرہ شاداب

نارنجیوں اور کینو میں کئی طرح کے فلے وینولز خون کی روانی کو بڑھاتے ہیں۔ اس کا اثر پورے جسم پر ہوتا ہے۔ پھر وٹامن سی، فائبر، وٹامن بی ون اور دیگر اہم اجزا سے بھرپور نارنجیاں دیگر 80 غذائی اجزا اور کیمیکل سے بھرپور ہوتی ہیں۔

بلڈپریشر قابو میں رکھے

نارنجی اور کینو میں پوٹاشیئم کی وجہ سے بلڈ پریشر قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ امریکا میں کیے گئے ایک سروے سے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ماہ تک ایک گلاس اورنج جوس پینے سے بلڈ پریشر کو کئی یونٹ تک کم کرکے اسے کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

کینو اور کینسر

نارنجیاں اور کینو کے استعمال سے کئی طرح کے کینسر کے خطرے سےبچا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پھلوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی وسیع مقدار ہوتی ہے۔ اینٹی آکسیڈنٹس خلوی (سیلیولر) سطح پر بگاڑ کو روکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر فری ریڈیکلز کسی نہ کسی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتے ہیں۔

دو چھوٹے مطالعات سے یہ معلوم ہوا کہ اورنج جوس کا باقاعدہ استعمال جلد اور آنتوں کے سرطان کو روکتا ہے۔

The post نارنجی کے وہ فوائد جن سے عام افراد بھی ناواقف appeared first on ایکسپریس اردو.


جلن مٹانے، دوا پہنچانے اور کینسر سے بچانے والا ہائیڈروجل انجکشن

$
0
0

 نیویارک: سائنسدانوں نے ہائیڈروجل (گاڑھے آبی محلول) پر مشتمل انجکشن بنائے ہیں جن کے ذریعے زخموں کو درست کرنے، دوا پہنچانے اور کینسر کے علاج میں مدد لی جاسکتی ہے۔

ہائیڈرجل کو خاص انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ عین اسی طرح تشکیل پاتے ہیں جس طرح جسمانی خلیات (سیل) جڑ کر ایک چادر کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس پر خون کی نئی رگیں بن سکتی ہیں اور جب قدرتی کھال یا ٹشو بن جائے تو یہ ہائیڈروجل کی پرت خود گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔ ہائیڈروجل پر حیاتیاتی شئے یا دوا رکھی جاسکتی ہے اور اس طرح زخموں کو تیزی سے مندمل کیا جاتا ہے۔

یہ تحقیق رائس یونیورسٹی کے بایو انجینئر جیفرے ہارٹگیرنک اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ محققین نے خاص پیپٹائڈ والے ہائیڈروجل پر برسوں کام کرکے ان کی 100 سے زائد اقسام تیار کی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ہائیڈروجل کو جسم کے اندر موجود ماحول میں کام کرنے کے قابل بنایا ہے۔

جسم کی اندرونی جلن اگرچہ کسی خرابی یا بیماری کا پتا دیتی ہے اور مضر سمجھی جاتی ہے لیکن بسا اوقات یہ مفید بھی ہوتی ہے۔ کبھی یہ زخم کے انفیکشن کو ظاہر کرتی ہے تو کبھی بدن میں درد کا پتا بھی دیتی ہے۔ جسم کے اندر جلن تمام اقسام کو خلیات کو سرگرم کرتی ہے تاکہ وہاں عضو یا بافتوں کی نشوونما شروع ہوسکے۔

اس کے لیے مختلف (مثبت یا منفی) چارج والے ہائیڈروجل بنائے گئے جنہوں نے زخموں پر درمیانے درجے کی قابلِ برداشت سوزش پیدا کی اور اس کے بعد کئی طریقوں سے وہاں کا جائزہ لیا گیا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ ہائیڈروجل کے ذریعے درست انداز میں سوزش پیدا ہونے سے زخم مندمل ہونے لگے کیونکہ خود جسم نے اپنا ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ اس کےعلاوہ ان ہائیڈروجل کو زخم تک کئی دوائیں پہنچانے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

The post جلن مٹانے، دوا پہنچانے اور کینسر سے بچانے والا ہائیڈروجل انجکشن appeared first on ایکسپریس اردو.

پیاز؛ فوائد سے بھرپور قدرت کا خزانہ

$
0
0

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ باورچی خانے سے زیادہ  ’’پیاز‘‘ کا استعمال دواؤں میں کیا جاتا ہے۔ پیاز میں اتنی خوبیاں ہیں کہ دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرین طب و صحت کا دعویٰ ہے کہ کرہ ارض سے اگر تمام سبزیاں اور پودے غائب ہو جائیں اور ان کی جگہ صرف پیاز رہ جائے، تب بھی انسان گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ ایک اندازے کے مطابق بچوں، مردوں، عورتوں کے لاتعداد امراض ایسے ہیں، جن میں پیاز کا استعمال فائدہ مند ہے۔

پیاز کی تاثیر بعض تکلیف دہ امراض میں اتنی سود مند ثابت ہوتی ہے کہ اس کے آگے قیمتی سے قیمتی دوائیں ہیچ ہیں۔ پیاز کے کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں حیاتین اور دوسرے قیمتی عناصر بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ پیاز جراثیم کش ہے، اس کا استعمال گہری نیند کا ضامن ہے۔ خواب آور گولیوں کو چھوڑنے کے خواہش مند اگر پیاز کا شوربا چند روز نوش فرمائیں، تو کم خوابی کی شکایت ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گی۔

فرانس میں پیاز کا سوپ شوق سے پیا جاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ دوسرے یورپی ملکوں کے مقابلے میں فرانس میں دل کے امراض کم ہوتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں روسی ڈاکٹروں نے محاذ جنگ پر زخمی ہونے والے سپاہیوں کا علاج محض کچی پیاز سے کیا تھا۔ زخم پر پیاز باندھ دی جاتی اور ایک دو دن کے اندر اندر زخم خشک ہو جاتا۔

دور جدید میں ہارٹ فیل ہوجانا بے حد عام ہو چکا ہے، چناں چہ برطانوی اسپتالوں میں تجزیوں کے بعد معلوم کیا گیا ہے کہ پیاز کا مسلسل استعمال دل کے امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ روم کے بادشاہ نیرو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی آواز بہتر بنانے کے لیے پیاز کھایا کرتا تھا۔ پیازکا پانی سونگھنے سے نکسیر کا خون بند ہو جاتا ہے۔ سفید پیاز کوٹ کر کپڑے میں نچوڑ کر پانی نکال لیں اور اسے نیم گرم کرکے چند قطرے کان میں ڈالیں فوراً درد ٹھیک ہو جائے گا۔

ہیضے کے دنوں میں پیاز کو پھوڑ پھوڑ کر جگہ جگہ گھر میں اس طرح رکھا جائے کہ سارے گھر میں پیاز کی بو سما جائے، یہ ہیضے سے محفوظ رہنے کی نہایت عمدہ تدبیر ہے۔

گٹھیا کے مرض میں پیاز کا پانی اور رائی کا تیل ملاکر جوڑوں پر مالش کریں، اس سے سب جوڑ کھل جائیں گے اور آرام آجائے گا۔ گلے کی سوزش کے لیے پیاز پیس کر دہی اور شکر ملاکر کھانے سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔

زکام کی وجہ سے ناک سے پانی بہہ رہا ہو۔ پیاز کا پانی سونگھنا اور پیاز کھانا مفید ہے۔ پیٹ کے درد کے لیے پیاز کو آگ میں گرم کر کے نچوڑیں اور پانی نکال لیں۔ اس میں ایک ماشہ نمک ملا کر مریض کو کھلائیں، درد جاتا رہے گا۔

قے بند کرنے کے لیے پیاز سونگھانا مفید ہے۔ اس سے متلی کی شکایت بھی دور ہو جاتی ہے۔ مثانے کی پتھری کے لئے پیاز کوٹ کر پانی نکال لیں اور روزانہ چار تولے صبح کے وقت پی لیں، ان شا اللہ افاقہ ہوگا۔

 

The post پیاز؛ فوائد سے بھرپور قدرت کا خزانہ appeared first on ایکسپریس اردو.

وائرس کی تیز رفتار شناخت کے لیے کم خرچ اور مختصر آلہ

$
0
0

پنسلوانیا: دو مختلف امریکی جامعات کے ماہرین نے مشترکہ طور پر تحقیق کرتے ہوئے ایک ایسا مختصر آلہ ایجاد کرلیا ہے جو صرف چند منٹوں میں کسی بھی وائرس کی درست شناخت کرسکتا ہے۔ اس آلے کو ’’وائریون‘‘ (VIRRION) کا نام دیا گیا ہے۔

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کے اشتراک سے تیار کیے گئے اس آلے لیزر شعاعوں کے علاوہ ایک خاص مظہرِ فطرت ’’رامن اثر‘‘ (رامن ایفیکٹ) سے استفادہ کیا گیا ہے جبکہ کاربن نینو ٹیوبز اور سونے کے نینو پارٹیکلز (نینو میٹر پیمانے جتنے مختصر ذرّات) استعمال کرتے ہوئے، وائرس شناخت کرنے میں اس کی درستی غیرمعمولی طور پر بڑھائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ مختلف جانوروں میں اب تک 16 لاکھ 70 ہزار مختلف وائرس دریافت ہوچکے ہیں جن میں ڈینگی، زیکا، ایبولا اور ایڈز سمیت ہزاروں اقسام کے جان لیوا اور مہلک وائرس شامل ہیں۔ وائرس بڑی خاموشی سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے اثرات اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب وہ اپنا کام دکھا چکے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس کی بروقت شناخت بہت اہمیت رکھتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، اگر ہم کسی طرح ابتدائی مرحلے میں ہی وائرس کی شناخت کرنے کے قابل ہوجائیں تو بروقت حفاظتی اقدامات کرسکیں گے اور یوں وائرس سے پھیلنے والی ممکنہ وباؤں کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی روکا جاسکے گا۔ البتہ، وائرس کی شناخت کرنے والے، اب تک کے تمام طریقے بہت سست رفتار ہیں جو کئی گھنٹے اور بعض اوقات کئی دنوں کے بعد ہی کسی وائرس کے موجود ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، یہ طریقے بہت مہنگے بھی ہیں جو ہر ایک کی پہنچ میں نہیں۔

’’وائریون‘‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ صرف چند انچ جسامت کے آلے پر مشتمل ہے جو صرف چند منٹوں میں کسی وائرس کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق کردیتا ہے۔ یہ کسی بھی وائرس کو سب سے پہلے اس کی جسامت کی بنیاد پر شناخت کرتا ہے اور پھر رامن طیف نگاری (رامن اسپیکٹرو اسکوپی) کی مدد سے اس کی مخصوص انفرادی تھرتھراہٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے، شناخت کا عمل حتمی طور پر مکمل کرتا ہے جس میں مجموعی طور پر صرف چند منٹ لگتے ہیں۔

اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’وائریون‘‘ کا استعمال کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ اسپتالوں اور شفا خانوں میں اسے وائرس سے وابستہ امراض کی تیز رفتار اور حتمی تشخیص میں استعمال کیا جاسکے گا۔ دوسری جانب کسان بھی اپنی فصلوں پر حملہ کرنے والے وائرسوں کو حملہ آور ہونے سے پہلے ہی شناخت کرکے فوری کارروائی کرسکیں گے اور یوں اپنی قیمتی فصل کا تحفظ کرسکیں گے۔ ٹھیک اسی طرح مویشیوں میں پھیلنے والے خطرناک وائرسوں کی قبل از وقت شناخت سے مویشی بانی کی صنعت کو بہت فائدہ پہنچے گا۔

فی الحال یہ آلہ اپنی تجرباتی آزمائشوں میں کامیاب ہوچکا ہے لیکن یہ کب تک اور کتنی لاگت میں فروخت کےلیے دستیاب ہوگا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

The post وائرس کی تیز رفتار شناخت کے لیے کم خرچ اور مختصر آلہ appeared first on ایکسپریس اردو.

بدن کے ضدی مسّے برقی جھماکوں سے ختم کردیئے گئے

$
0
0

کیلیفورنیا: جسم کے مختلف مقامات پر مسّوں (وارٹس) کے خاتمے کے لیے طرح طرح کے نسخے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کبھی انہیں بجلی سے جلایا جاتا ہے تو کبھی دیسی طور پر گھوڑے کے بال باندھے جاتے ہیں لیکن اب خیال ہے کہ خاص برقی جھماکوں سے ان ڈھیٹ مسّوں کو باآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔

امریکا اور مغرب میں جسم کے مسّوں کو ختم کرنے کا ایک اور طریقہ استعمال ہوتا ہے جس میں مائع نائٹروجن سے اسے منجمد کرکے نکال لیا جاتا ہے لیکن اس علاج سے بھی وہ دوبارہ ابھر آتے ہیں لیکن اب کیلی فورنیا کی ایک کمپنی ’پلس بایو سائنسِس‘ نے نینو پلس اسٹیمیولیشن (این پی ایس) کے ذریعے جسمانی مسّے منٹوں میں ختم کرنے کا تجربہ کیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی میں نینو سیکنڈ ( ایک سیکنڈ کے بھی ایک اربویں حصے کے برابر) بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس سے مسّے میں باریک مسام کھل جاتے ہیں اور اس میں پوٹاشیئم، کیلشیئم اور سوڈیم کے آئن اندر داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح مسّے کے خلیات مرنے لگتے ہیں اور وہ خشک ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔

ایک ٹیسٹ میں 170 کے قریب خاص قسم کے مسّوں پر جب یہ طریقہ آزمایا گیا اور ایک منٹ سے بھی کم وقفے کے لیے بجلی دی گئی۔ چند ہفتوں میں 82 فیصد مسّے جڑ سے ختم ہوگئے۔ اس عمل میں بقیہ جلد اور صحت مند کولاجن کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا۔

ایک اور تجربے میں چہرے پر بننے والے 99 فیصد غدود صرف ایک مرتبہ کے علاج پر ختم ہوگئے۔ چہرے کے یہ ابھار ہاہپر پلیشیا لیزنس کہلاتے ہیں اور 60 دن میں قریباً سارے ہی صاف ہوگئے۔ صرف 18 مسّوں کا دوبارہ علاج کیا گیا۔

یہ تجربات ڈاکٹر رچرڈ اور ان کی ٹیم نے کیے جو کمپنی کے مرکزی سائنس داں ہیں۔ ان کے مطابق این پی ایس ٹیکنالوجی کئی طرح کے مسّوں کا نہایت مؤثر انداز میں خاتمہ کرسکتی ہے۔ اس سے کم وقت میں بہت آسانی کے ساتھ جسمانی غدود سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

The post بدن کے ضدی مسّے برقی جھماکوں سے ختم کردیئے گئے appeared first on ایکسپریس اردو.

لبلبے کے کینسر کے آپریشن کے دوران سرجن کی غفلت سے مریضہ جھلس کر ہلاک

$
0
0

بخارسٹ: یورپی ملک رومانیہ میں لبلبے کے کینسر کو ختم کرنے کیلیے کیئے جانے والے آپریشن کے دوران سرجن اور میڈیکل اسٹاف کی غفلت نے مریضہ کی جان لے لی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق رومانیہ کے ایک اسپتال میں لبلبے کے کینسر کی مریضہ کا علاج جاری تھا، ڈاکٹرز نے جراحی کے دوران انفیکشن سے بچاؤ کے لیے عمومی طور پر استعمال ہونے والے  alcohol-based disinfectant  کے بجائے بجلی سے چلنے والا جدید آلہ جراحی electric scalpel کو استعمال کیا۔

دوران آپریشن آلہ جراحی میں سے چنگاریاں نکلیں جنہوں نے آناً فاناً نے مریضہ کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، آپریشن تھیٹر میں موجود نرس نے 66 سالہ مریضہ پر ایک بالٹی پانی ڈالا جس سے آگ تو بجھ گئی لیکن مریضہ کا جسم 40 فیصد تک جھلس گیا، بعد ازاں مریضہ نے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دوران علاج دم توڑ دیا۔

دوسری جانب اسپتال انتطامیہ کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک حادثہ تھا، الیکٹرک اسکیپل آپریشن کے دوران استعمال ہونے والا ایک عام آلہ ہے جو برسہا برس سے طب کی دنیا میں زیر استعمال ہے تاہم لواحقین نے سرجن اور میڈیکل اسٹاف کو مریضہ کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

رومانیہ کے وزارت صحت نے مریضہ کی ہلاکت پر سرجن اور میڈیکل اسٹاف کیخلاف تادیبی کارروائی کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ رومانیہ میں صحت کے شعبے میں مہارت، تجربے اور سہولیات کے فقدان کے باعث ایسے حادثات عام ہیں جب کہ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ فنڈز کی کمی اور لاعلمی ہے۔

The post لبلبے کے کینسر کے آپریشن کے دوران سرجن کی غفلت سے مریضہ جھلس کر ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 5210 articles
Browse latest View live