Quantcast
Channel: ایکسپریس اردو »صحت
Viewing all 4399 articles
Browse latest View live

دنیا بھر میں خون کے عطیات کی قلت بحران کی شکل اختیار کرگئی

$
0
0

 واشنگٹن: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پوری دنیا میں خون اور اس کے اجزا کی طلب بڑھ رہی ہے جسے خون کے موجودہ عطیات پورا کرنے سے قاصر ہیں، بعض ممالک میں یہ صورتحال بہت تشویش ناک ہوچکی ہے۔

معروف طبی جریدے لینسٹ میں شائع ایک تفصیلی رپورٹ میں دنیا کے بہت سارے ممالک میں اس کی شماریاتی ماڈلنگ کی گئی ہے جو خون جیسی اہم ضرورت پر لکھی جانے والی پہلی تحقیقی رپورٹ بھی ہے۔ دنیا کے 195 ممالک میں سے 116 میں خون کی سپلائی طلب سے بہت کم ہے اور کئی ممالک میں تو اس کا بحران ہے۔

جنوبی ایشیا، ذیلی صحارا کے تمام افریقی ممالک اور آسٹریلیا و  ایشیا کو چھوڑ کر دیگر ممالک میں بھی یہ کیفیت دیکھی گئی ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ضرورت کے باوجود خون کے 102, 359 ,632 یونٹ موجود ہی نہیں۔

ہر سال خون کے عطیات لاکھوں جانیں بچاتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں طب کا اہم ستون قراردیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں 10 کروڑ یونٹ خون عطیہ کیا جاتا ہے جبکہ 42 فیصد مقدار زائد آمدنی والے ممالک میں جمع ہوتی ہے لیکن افریقا کے 38 ممالک عالمی ادارہ صحت کی حدوں سے بھی دور ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 1000 افراد میں سے کم سے کم 10 افراد کو خون دینا چاہیے جبکہ انہی ممالک میں خون کے امراض معلوم کرنے کی ٹیسٹ کِٹ کی شدید قلت ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں خون کی ماہر کرسٹینا فزمورائس کے مطابق اب تک خون کے امراض اور بیماریوں کے خطرات پر ہی سروے کیے گئے تھے لیکن خون کی ڈیمانڈ اور سپلائی اور عالمی تناظر میں کیا گیا یہ پہلا کام ہے۔ ہمارا کام بتاتا ہے کہ خون کی قلت کہاں ہے، متبادل راستے کونسے ہیں اور کہاں عطیات بڑھانے ہیں۔

اس رپورٹ سے صحت کے عالمی ماہرین کو منصوبہ بندی اور بہتر پالیسی سازی میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس شماریاتی ماڈل میں ہر ملک کی آبادی میں 20 ایسے امراض و کیفیات کو نوٹ کیا گیا ہے جس میں خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر دیکھا گیا کہ آیا ملک کی کتنی فیصد آبادی ان کیفیات اور بیماریوں سے گزرتی ہے۔ اسی بنا پر شماریاتی ماڈل تیار کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں خون کے عطیات اور ضروریات میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ صرف 2017ء میں ہی خون کے 27 کروڑ 20 لاکھ یونٹس عطیہ کیے گئے جبکہ طلب 30 کروڑ 30 لاکھ یونٹ تھی۔ اب خیال ہے کہ اس سال خون کے 10 کروڑ یونٹ کم ہیں۔

امیر ممالک میں کینسر کی وجہ سے خون درکار ہے تو پاکستان جیسے ملک میں تھیلیسیما اور ہیموفیلیا خون کے عطیات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں جنوبی سوڈان سرِ فہرست ہے جہاں ایک لاکھ افراد میں سے صرف 46 ہی خون کا عطیہ دیتے ہیں اور دوسرا ملک بھارت ہے جہاں خون دینے کا رجحان بہت کم ہے۔

The post دنیا بھر میں خون کے عطیات کی قلت بحران کی شکل اختیار کرگئی appeared first on ایکسپریس اردو.


کیا اینٹی بایوٹک بحران کا حل ہلدی میں پوشیدہ ہے؟

$
0
0

 لندن: ایکسپریس کے انہی صفحات پر آپ بار بار یہ خبریں پڑھ چکے ہیں کہ دنیا بھر میں اینٹی بایوٹکس تیزی سے ناکام ہورہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے جرثومے (بیکٹیریا) ان دواؤں کو بے اثر بنارہے ہیں۔

لیکن اب ماہرین نے اینٹی بایوٹک ادویہ کے سامنے مزاحمت کرنے والے ایک بہت مشہور بیکٹیریا پر ہلدی سے حاصل شدہ ایک مرکب آزمایا گیا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

اس وقت دنیا کی 24 سے 79 فیصد آبادی ایک ہیلی کوبیکٹر پائلوری (ایچ پائلوری) سے متاثر ہے جو انسانی آنتوں اور نظامِ ہاضمہ میں پایا جاتا ہے اور کئی ادویہ کو پچھاڑ چکا ہے۔ اب ڈاکٹروں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

لیکن اب جرمنی اور برطانوی ماہرین نے کسی اینٹی بایوٹکس کے بغیر ایچ پائلوری کے حملے کو روکنے کا ایک راستہ نکالا ہے۔ انہوں نے ہلدی میں پایا جانے والا ایک اہم اور مشہور مرکب سرکیومن اور ہلدی کے دیگر اجزا کو کیپسولوں کی شکل دی۔ سرکیومِن پہلے ہی اپنے جادوئی خواص کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکا ہے جس میں دل، کینسر اور دیگر امراض کو روکنے کی صلاحیت موجود ہے۔

لیڈز میں اسکول آف فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن کے پروفیسر فرانسسکو گویوکولی نے کہا کہ دنیا کے 70 فیصد افراد میں ایچ پائلوری کا بیکٹیریا موجود ہے اور یہ دن بدن طاقتور ہوکر دواؤں کا اثر ختم کررہا ہے۔ اس ضمن میں ہلدی سے اخذکردہ کیپسول نہایت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایچ پائلوری معدے کے رطوبت میں چھپے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس دوائیں اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور اگر پہنچ بھی جائے تو خود بیکٹیریا بھی اس کے خلاف مورچہ لگاچکے ہیں۔ اس ضمن میں اگر بہت چھوٹے نینوکیپسولوں میں سرکیومِن شامل کرکے انہیں مریض کو دیا جائے تو اس سے بیکٹیریا معدے کی دیوار سے چپکنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد اوپر آجاتے ہیں جہاں اینٹی بایوٹکس انہیں اچھی طرح نشانہ بناکر ختم کرسکتی ہے۔

ماہرین نے جو نینو کیپسول بنائے ہیں ان سب کو لائسوزائم خامرے(اینزائم) میں لپیٹا گیا جو بیکٹیریا انفیکشن سے لڑتا ہے۔ تاہم کیپسول کے اندر سرکیومن کے ساتھ ایک اور کمیکل ڈیکسٹران سلفیٹ کی تھوڑی سی مقدار بھی شامل کی ہے۔ لیکن اس میں ہرممکن طور پر قدرتی اجزا استعمال کئے گئے ہیں۔

اس کے بعد تجربہ گاہ میں ایچ پائلوری والے معدے کے خلیات پر ان خردبینی کیپسولوں کو آزمایا گیا اور اس کے بعد وہ اینٹی بایوٹکس کےنشانے پر آکر ختم ہونے لگے۔

The post کیا اینٹی بایوٹک بحران کا حل ہلدی میں پوشیدہ ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

شدید خود پسندی سے اعصابی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی

$
0
0

لندن: ویسے تو خود پسندی کو شخصیت کے منفی پہلوؤں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں 700 افراد پر کیے گئے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ ’’شدید خود پسندی‘‘ والے مزاج سے نہ صرف اعصابی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی خاصے کم رہ جاتے ہیں۔

کوینز یونیورسٹی بیلفاسٹ، برطانیہ میں اسکول آف سائیکولوجی کے لیکچرار اور انٹریکٹ لیب کے سربراہ، ڈاکٹر کوستاس پاپا گیورگیو نے اپنے تازہ تحقیقی مقالوں میں بتایا ہے کہ خود پسندی یا نرگسیت کی ایک قسم ’’شدید خود پسندی‘‘ میں مبتلا افراد میں اعصابی تناؤ کم رہتا ہے جبکہ وہ بدترین حالات میں بھی بہت کم ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

شدید خود پسندی یا ’’گرینڈوئز نارسسزم‘‘ میں انسان خود کو سب سے زیادہ اہم سمجھتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے بغیر دنیا کا چلنا محال ہے۔ اپنے مقابلے میں دوسرے اسے حقیر نظر آتے ہیں جبکہ اسے اپنا مقام و مرتبہ سب سے بلند محسوس ہوتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ شدید خود پسندی میں مبتلا انسان اتنی زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا حریف بننے کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔

لیکن اپنے اسی رویّے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی مشکلوں کو بھی بہت حقیر جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ ان مشکلات پر قابو پاسکتا ہے؛ اور اپنے تمام مسائل بخوبی حل کرسکتا ہے۔

یہ کیفیت حقیقی ہو یا غیر حقیقی، لیکن اس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس شخص پر اعصابی تناؤ کا حملہ بھی بہت کم ہوتا ہے اور نتیجتاً وہ ڈپریشن کا شکار بھی بہت کم ہو پاتا ہے۔

شدید خود پسندی کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہوئی مذکورہ تحقیق ’’پرسنیلٹی اینڈ انڈیویجوئل ڈفرینسز‘‘ اور ’’یورپین سائیکیٹری‘‘ نامی ریسرچ جرنلز کے تازہ شماروں میں شائع ہوئی ہے۔

The post شدید خود پسندی سے اعصابی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹی بی کی تجرباتی ویکسین میں اہم پیش رفت

$
0
0

سوئزرلینڈ: ٹی بی (تپِ دق) کا مرض پوری دنیا کے لیے ایک وبا بنا ہوا ہے۔ اب اس ضمن میں ایک ویکسین تیار کی گئی ہے جس کے انسانوں پر اچھے اثرات برآمد ہوئے ہیں۔ اگر لوگوں کی بڑی تعداد پر کی گئی آزمائش سے مزید مثبت نتائج نکلتے ہیں تو ایک خوفناک جان لیوا مرض سے بچنا ممکن ہوجائے گا۔

پوری دنیا میں ٹی بی ہلاکت خیز 10 بڑی بیماریوں میں شامل ہے اور گزشتہ برس 15 لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکی ہے۔ اس ضمن میں بچوں کے تحفظ کے لیے بی سی جی ویکسین دی جاتی ہے لیکن اب تک بڑوں کے لیے ویکسین موجود نہ تھی۔

اس ویکسین کو M72/AS01E کا نام دیا گیا ہے جسے گلیکسو اسمتھ کلائن نے ایرس نامی ادارے کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ کینیا، زیمبیا اور جنوبی افریقہ کے 3575 افراد پر اس کی آزمائش کی گئی ہے۔ ان تمام افراد میں ٹی بی کے جراثیم موجود تھے جنہیں امنیاتی قدرتی نظام نے بے اثر کردیا تھا اور مرض پیدا کرنے سے قاصر تھے۔ اس کیفیت کو انگریزی میں لیٹنٹ ٹیوبرکلوسِس کہا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور جن میں سے نصف کو ویکسین اور بقیہ آدھے افراد کو فرضی دوا ’پلے سیبو‘ دی گئی۔

ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی میں ٹی بی کے جراثیم خوابیدہ رہتے ہیں۔ اس موقع پر مرض نمودار نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسرے شخص تک پھیلتا ہے۔ ان میں سے 5 سے 10 فیصد افراد آگے چل کر کسی نہ کسی انفیکشن کے شکار ہوجاتے ہیں اور ٹی بی کے مریض بن جاتے ہیں۔

پھر تمام افراد کا تین برس تک جائزہ لیا گیا تو ویکسین نہ کھانے والوں کے مقابلے میں دیگر افراد  کی 50 فیصد تعداد میں ٹی بی کا مرض نمودار ہوا۔ اگرچہ ویکسین کی قوت اصل ویکسین کے مقابلے میں آدھی تھی لیکن وہ ٹی بی روکنے میں کارگر ثابت ہوئی اور خوابیدہ ٹی بی کے جراثیم کو اٹھنے ہی نہ دیا۔ اس طرح یہ ویکسین بہت اہم کردار ادا کرتے ہوئے ہر سال لاکھوں افراد کی جانیں بچاسکتی ہے۔

تاہم اس سے پہلے بہت بڑی تعداد میں لوگوں پر اس کے ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ٹی بی کے خطرے سے دوچار ممالک ( جن کی اکثریت غریب ممالک میں رہتی ہے) میں ایسی ویکسین نہایت کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر اس کی افادیت صرف 50 فیصد ہے تب بھی یہ ٹی بی جراثیم رکھنے والے آدھے افراد کی زندگی بچاسکتی ہے۔

The post ٹی بی کی تجرباتی ویکسین میں اہم پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.

پلیٹلٹس (Platelets) کیا ہیں اور کیوں گرتے ہیں؟

$
0
0

آج کل ہر شخص یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ خون کے پلیٹلٹس کیا ہوتے ہیں؟ ڈینگی کے علاوہ کون کون سی بیماریوں میں یہ کم ہوتے ہیں؟ ان کا کون سا لیول خطرناک ہوتاہے؟ کیا ایک دفعہ پلیٹلٹس گر کر دوبارہ نارمل ہو جاتے ہیں؟

کون کون سی بیماریوں میں پلیٹلٹ کی مقدار کم ہوتی ہے اور اس کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں۔ ان سارے سوالوں کا جواب دینے کے لیے یہ مضمون لکھا گیاہے۔ خون میں سرخ اور سفید خلیوں کے علاوہ Platlets بھی ہوتے ہیں۔

پلیٹلٹس کا لفظ دراصل پلیٹ سے ماخوذ ہے۔ یہ جسم کے پولیس مین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جسم کے کسی حصے پر جب کٹ لگتاہے۔ خون نکلنے لگتاہے۔ یہ خون کے یہ محافظ اس جگہ میں آکر پلیٹ کی طرح جمع ہو جاتے ہیں ۔ دماغ کو سگنلز بھیجتے ہیں کہ مزید پلیٹلٹس ادھر آجائیں اور یوں سارے جمع ہو کر خون بہنے سے روکتے ہیں۔ ایک نارمل آدمی کے خون میں ان کی مقدار ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔

آج کل ڈینگی کا مرض عام ہے۔ ڈینگی میں بھی وہ آخری سٹیج ہوتی ہے جب ان کی مقدار چند ہزار رہ جائے۔ اس اسٹیج پر Bleeding شروع ہو جاتی ہے جس سے بندہ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس سال اب تک ڈینگی سے 52 اموات اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا ڈینگی ٹیسٹ نیگٹو آیا ہے تاہم ان میں پلیٹلٹس میں کمی کی دوسری وجوہات میں کوئی اور وائرل انفیکشن مثلاََ ہیپا ٹائٹس بی اور سی بھی ہوسکتاہے۔

خون کے خطر ناک امراض بلڈ کینسراور لیو کیمیا میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی بیماریاں جن میں جسم کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے مثلاََ ایڈز ، SLE اور جوڑوں کے مرض میں بھی پلیٹلٹس کم ہو جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی ادویات لینے سے بھی ایک دَم پلیٹلٹس گرسکتے ہیں ۔ پلیٹلٹس گرنا شروع ہوجائیں تو وہ ایک دَم مزید گرتے ہیں ۔ جسم کی قوت مدافعت میں کمی آجاتی ہے۔ ذرا سے انفیکشن سے حالت خراب ہو جاتی ہے۔ وائرل کے علاوہ مختلف قسم کے بیکٹیریا سے بھی پلیٹلٹس کی کمی ہو جاتی ہے۔

پلیٹلٹس گرنے کی ایک مشہور وجہ ITP ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام غیر فعال ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی مقدار بتدریج کم ہورہی ہے۔ مختلف قسم کی کینسر کی بیماری میں استعمال ہونے والی ادویات، مرگی کی بیماری کی ادویات اور ہیپارین Heparain لینے سے بھی ان کی مقدار گر جاتی ہے۔ خون میں جب پلیٹلٹس کی رفتار گرتی ہے تو جسم میں کمزوری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے انسان ڈاؤن ہوجاتا ہے۔ جسم  میں شدید کمزوری، جوڑوں میں درد ہوتاہے۔ منہ، مسوڑھوں اور ناک سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں سوجن ہو جاتی ہے۔ Bleeding زیادہ ہونے کی وجہ سے شاک میں جانے کی وجہ سے موت بھی ہوسکتی ہے۔ جسم پر سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جسم پر کسی نے چاقو سے زخم لگائے ہوئے ہیں۔ کٹ لگنے سے جسم کے مختلف حصوں سے خون رستا ہوا محسوس ہوتاہے۔ جسم پہ ذرا سا کٹ لگ جائے تو خون بہنا بند نہیں ہوتا۔

مرض کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ CBC، ہیپاٹائٹس B اور C ، ٹوٹل باڈی ایکین۔  بون میروسیمئر اور PET سکین کروائے جاتے ہیں جن سے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بیماری میں تلی بھی  بڑھ جاتی ہے۔ وٹامن B/2 اور B9 کی کمی کی وجہ سے بھی پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ پلیٹلٹس کم ہونے کا اچانک پتہ چلتا ہے۔ ان میں بتدریج کمی ہوتی رہتی ہے لیکن جب تک بیماری سے بندہ ادھ موا نہیں ہو جاتا، اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اس کے بعد تشخیص کرنے سے اس کمی کی وجہ کا پتہ چلتا ہے لیکن جسم کے مختلف حصوں سے Bleeding  اس بات کی نشا ندہی کرتی ہے کہ بیماری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جسم کے مختلف حصوں سے Bleeding ہو جانا میڈیکل ایمرجنسی ہے۔

فوراً ڈاکٹر اور ہسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔فوری طور پر پلیٹلٹس کی کمی کو میگا پلیٹلٹ کٹس لگا کر پورا کیا جاتا ہے مگر ان کے لگانے کے باوجود پلیٹلٹس اور خون کے سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ہے۔ میگا کٹس کے علاوہ جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیےImmumoglobulin کی  ڈرپس لگائی جاتی ہیں۔ اگر خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کسی بیماری کی وجہ سے نہ گررہی  ہو جیسا کہ ITP کی بیماری  میں ہوتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ خود ہی نارمل مقدار میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اگر کسی دوا کی وجہ سے کمی ہو رہی ہو تو فوری طور پر اس دوا کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ کیا گیا کہ ڈینگی وائرس سے متاثر مریضوں میں ڈینگی بخار میں جب پلیٹلٹس کی مقدار گرتی ہے تو پیپتا کے پتوں کا جوس استعمال کرنے سے فوری طور پر ان کی مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈینگی بخار کے ہزاروں مریضوں کو پیپتا کے پتوں کا جوس دیا گیا جسے لینے کے بعد ان کے پلیٹلٹس کی تعداد دو تین دن میں نارمل ہوگئی۔ ڈینگی کے علاوہ ITP کے مریضوں میں بھی پپیتا کا شربت کامیابی سے استعمال کیا گیا اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس B اورC میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ ان مریضوں میں پپیتا کے پتوں کا جوس کامیابی سے استعمال کیاگیا۔

اگر کچھ بن نہ پڑتے تو پھر پلیٹلٹس کی میگا کٹس لگاتے ہیں اور اس سے بھی فرق نہ پڑے تو پھر جسم کے مدافعاتی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ImmunoGlobulin کی ڈرپس لگاتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ سٹیرائیڈ دوائیں بھی دیتے ہیں جن سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر پلیٹلٹس کی مقدار میں کمی ہوتی رہے تو اور کوئی علاج کار گر نہ ہو تو پھرآپریشن کرکے تلی کو نکال دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پلیٹلٹس کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر سٹیرائیڈ دوائیں بھی کارگر نہ ہوں تو آپ کے مدافعانی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے بعض دوائیں بھی دی جاتی ہیں جن سے بعض صورتوں میں افاقہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس طرح کی دواؤں کی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ شفاء من جانب اللہ ہے۔ اللہ چاہے توپپیتا کے پتوںکے جوس سے بھی ITP اور پلیٹلٹس کم ہونے کی دوسری وجوہات کو ختم کر سکتا ہے جیسا کہ ہم نے مشاہدہ اور تجربہ کیا کہ پپیتا کے پتوں کا جوس لینے سے بہت سے ڈینگی کے مریض شفایاب ہوئے اور ان کے پلیٹلٹس بھی نارمل مقدار میں آگئے۔ آج کل بھی ڈینگی مریضوں میں شربتِ پپیتا کا استعمال کامیابی سے جاری ہے اور اس سے ڈینگی کے ہزاروں مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔

The post پلیٹلٹس (Platelets) کیا ہیں اور کیوں گرتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

فالج سے بچاؤ، علاج اور بحالی کے لیے کیا کریں؟

$
0
0

فالج ایک ایسا مرض ہے جو چلتے پھرتے انسانی جسم کو مفلوج کرکے روزمرہ کے معمولات کو ادا کرنے سے قاصر کردیتا ہے۔ اِس مرض میں شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر فالج کا حملہ ہوتا ہے۔

طبی اصطلاح میں فالج کا شمار نان کمیونی کیبل ڈزیزز (Non communicable diseases) یعنی غیر متعدی امراض میں کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایسے امراض کی شرح تقریباً چالیس فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔ یہ بیماری ایک جانب تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہی ہے دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔اس بناء پر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اس بیماری سے آگاہی، علاج اور تدارک کی کوششوں کے سلسلے میں29اکتوبر کو ’عالمی سٹروک ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو پاکستان میں منانے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں عمومی طور پر فالج کو ایک ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں، حالانکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔

موجودہ دور میں طب کے شعبے نے جہاں دیگر حوالوں سے علاج کی نئی منزلیں دریافت کی ہیں، وہیں فالج کے علاج میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فالج سے نہ صرف حفاظتی تدابیر اختیار کر کے محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ اس کا انتہائی مؤثر علاج بھی ہمارے ہاں دستیاب ہے۔

اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ فالج کے علاج معالجے کی سہولیات کس قدر عوام کو میسر ہیں۔ اس معاملے میں حکومتی سطح پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو فالج کا معیاری اور سستا علاج ہر بڑے ہسپتال میں میسر آسکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دل کے دورے کی طرح بدقسمتی سے فالج کے دورے کو میڈیکل ایمرجنسی کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جا تا۔ اکثر افراد اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فالج کے بعد فوری طور پر علاج معالجے سے مریض کی بحالی، موت سے حفاظت یا مستقل معذوری کے امکانات کو خاصا کم کیا جا سکتا ہے۔

فالج کے ماہر ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ایک مثالوں کے علاوہ سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں کہیں بھی فالج کے مریضوں کی تشخیص، علاج اور بحالی کے لیے یونٹس قائم نہیں ہیں۔ تھرامبولائسز یعنی کلاٹ (CLOT) بسٹنگ دوا جو کہ فالج کے علاج کی عالمی طو رپر مروجہ دوائی ہے، جو جمے ہوئے خون کی روانی بحال کرنے میں نہایت معاون ہے، وہ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں تاحال رجسٹرڈ ہی نہیں ہو سکی۔ فالج کے مریض کو دیکھنے والے طبی عملے میں تربیت کا شدید فقدان ہے۔

بطور ڈاکٹر میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک میں فالج کی بیماری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہے۔ عوام میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی، ملک میں فالج سے بچاؤ اور علاج کے لیے مناسب سہولیات کا نہ ہونا، تربیت یافتہ طبی عملے کا نہ ہونا اور مضمرات جاننے کے باوجود تمباکونوشی، گٹکا، نسوار وغیرہ کا استعمال اس کی نمایاں وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ مشینی دور میں جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ چکنائی والی اشیاء کا استعمال بھی اس بیماری کی وجوہات میں شامل ہے۔

فالج کی شرح میں اضافے کو روکنے کے لیے ذیل میں 12نکاتی ایجنڈا ہوناچاہئے۔ اسے فالج سے بچاؤ اور اس کے علاج کا منشور بھی کہا جا سکتا ہے:

1۔ فالج کے آثار و علامات کے بارے میں مقامی زبانوں میں آگاہی مہمات۔

2۔ فالج کو بطور طبی ایمرجنسی تمام ہسپتالوں میں نافذ کرنا۔

3۔ تمام Tertiary careہسپتالوں میں فالج کئیر یونٹ کا قیام ۔

4۔ تمام یونٹس میں معیاری طبی ساز و سامان ،تربیت یافتہ طبی سٹاف کی فراہمی اور معیار کو برقرار رکھنے کے طریقہ کار کا موجود ہونا۔

5۔ تھرامبو لائسز ، کلاٹ بسٹنگ دوا کی رجسٹریشن ۔

6۔ فالج کے دورے کی صورت میں مریض کو ایمرجنسی رسپانس سہولت۔

7۔ تربیت یافتہ سٹروک اسپیشلسٹس (Stroke Specialists)کی تعداد میں اضافے کی حکمت عملی۔

8۔ فالج کے مریضوں کے لیے سی ٹی سکین سے آراستہ ایمبولینس، ٹیلی میڈیسن کی سہولت اور عملے کی تربیت کے جامع پروگرام۔

9۔ فالج کے مریضوں کی بحالی کے لیے قلیل المدت و طویل المدت پروگرام اور گھر پر علاج و بحالی کے لیے تربیت یافتہ طبی عملے کی سہولت۔

10۔ فالج کا سبب بننے والے عوامل بشمول تمباکونوشی، حقہ، بیڑی، شیشہ، گٹکا، نسوار بجار، پان ، مشری اور گھنڈی وغیرہ پر مکمل پابندی اور عمل درآمد۔

11۔ فالج کے مریضوں کی نگہداشت و نگرانی کے لیے حکومتی سطح پر ماہرین کی معاونت و مشاورت سے روڈ میپ ۔

12۔ مریضوں کا قومی سطح پر ریکارڈ مرتب اعدادوشمار جمع کرنے ، ان مریضوں کے فالج کی طبی قسم، عوامل اور وجوہات کو جاننے کے لیے قومی فالج ڈیٹا بیس رجسٹری کا قیام۔

درج بالا اقدامات کے ذریعے فالج کے مرض سے بچاؤ ، معیاری علاج اور مریضوں کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اندازے کے مطابق 10فیصد سے بھی کم مریض فالج کے دو گھنٹوں کے اندر ہسپتال پہنچتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔جبکہ فالج ہونے کی صورت میں ہر گزرتا لمحہ مریض کے لیے تکلیف اور معذوری کے امکانات کو بڑھاتا رہتا ہے۔

اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فالج کے شدید حملے میں ہر ایک منٹ میں دماغ کے 2ملین خلیات مر جاتے ہیں۔اس لیے جہاں ایک طرف فالج سے بچاؤ ، دورے کی صورت میں فوری علاج اور بحالی سے متعلق ہر فرد کو آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے وہیں حکومت کو چاہیے کہ فالج کو ایک فوری طبی ایمرجنسی (ہنگامی حالت) قرار دے کر تمام بڑے ہسپتالوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ فالج کے علاج کے لیے تمام مطلوبہ سہولیات و طبی سازو سامان کی دستیابی یقینی بنائیں۔اس ضمن میں سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ تمام بڑے ہسپتال ،جنہیں Tertiary careہسپتال کہا جاتا ہے، میں لازمی طور پر فالج کئیر یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تاکہ فالج کے نتیجے میں اموات و معذوری کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔

اس کے علاوہ جس مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے وہ تربیت یافتہ سٹروک اسپیشلسٹس (Stroke Specialists)کی کمی پر قابو پانا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں Stroke Specialists کی تعداد 2درجن بھی نہیں ہے اور وہ بھی صرف دو تین شہروں میں نجی ہسپتالوں میں ہی دستیاب ہیں۔دوسری جانب ماہرین دماغ و اعصاب یعنی نیورولوجسٹ کو دیکھا جائے تو 22کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں وہ بھی صرف 200کے لگ بھگ ہیں۔

ماہرین ڈاکٹرز کی اس کمی سے بہرحال فالج کے علاج میں دقت ضرور ہے ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق فالج کے کم از کم 35فیصد مریض جبکہ چھوٹے فالج (جسے TIA کہتے ہیں) کے 50فیصد سے زائد مریض بروقت تشخیص سے محروم رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً فالج کے مرض میںمبتلا مریضوں کی مشکلات و طبی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورتحال میں PMDC اس بات کو یقینی بنائے کہ شعبہ نیورولوجی کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری رکھنے والے نیورولوجسٹ کو کم از کم ایک سال کے لیے فالج یعنی سٹروک فیلو شپ میں تربیت کے لیے پبلک سیکٹر نیورولوجی ڈیپاٹمنٹس میںرکھا جائے۔

اس کے علاوہ فالج کے علاج معالجے کے لیے کامیاب پروگرام ایمبولینس میں سی ٹی سکین اور ٹیلی میڈیسن کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سٹاف کی مناسب تربیت سے بھی مشروط ہے۔تاکہ وہ مریضوں کی علامات کی بنیاد پر فوری طبی سہولیات کے لیے ٹھیک ہسپتال لے کر جا سکیں۔مزید برآں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد مریضوں کی جلد بحالی کے لیے بہتر معاونت ،مناسب دیکھ بھال ، ضروری طبی سازو سامان کی دستیابی اور مسلسل خیال رکھنے جیسے اقدامات کے ذریعے ان افراد کو معاشرے کا سود مند حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

قومی فالج ڈیٹا بیس رجسٹری کے قیام کی تجویز فالج کے مریضوں کے لیے قومی سطح پر اعدادوشمار جمع کرنے ، ان مریضوں کے فالج کی طبی قسم، عوامل اور وجوہات کو جاننے کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہوگی۔ اس کے ذریعے فالج کی بیماری کی وجوہات و دیگر عوامل پر قومی صحت پالیسی میں اقدامات تجویز کیے جا سکیں گے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قومی ٹاسک فورس تشکیل دے جس میں ماہرین طب کو بھی شامل کیا جائے۔ اس ٹاسک فورس کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ ملک میں نیشنل سٹروک رجسٹری کا قیام عمل میں لائے۔

انسانی معذوری کا سب سے بڑا سبب بننے والی یہ بیماری فالج ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کی شرح میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر ہی اقدامات کافی نہیں بلکہ لوگوں کا اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا بھی بہت ضروری ہے۔فالج کے حوالے سے آگہی، علاج اور تدارک کے لیے عام لوگوں میں شعور بیدار کرکے ان امراض میں اضافے کی شرح کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں بڑے پیمانے کی آگاہی مہمات کی بدولت شہریوں میں ان جان لیوا بیماریوں (فالج /دل کا دورہ) سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر نے انہیں کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ان آگاہی مہمات کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر فالج کا بروقت و مناسب علاج کیا جائے تو نہ صرف جانیں محفوظ ہوں گی بلکہ مستقل معذوری سے بچاؤو دیکھ بھال کے اضافی اخراجات کی بھی بچت ہو گی۔ چونکہ فالج کے علاج کا خرچہ اقتصادی بوجھ سے منسلک ہے لہٰذا معاشی بوجھ کی بھی کمی ہو گی۔

(ڈاکٹر عبدالمالک، ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر امراض دماغ و اعصاب ہیں)

The post فالج سے بچاؤ، علاج اور بحالی کے لیے کیا کریں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

فیس بک نے طبی پرہیز اور مختلف ٹیسٹ کا فیچر پیش کردیا

$
0
0

سان فرانسسكو: فیس بک نے اپنے صارفین کو صحت کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور مختلف ٹیسٹ کی جانب راغب کرنے سے متعلق ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے۔

صحت کےلیے پرہیزی تدابیر یعنی ’پری وینٹیو ہیلتھ‘ نامی یہ فیچر ابھی صرف امریکا میں ہی پیش کیا گیا ہے۔ شاید اس میں عمر اور جنس کے پیشِ نظر مشورے دیئے جائیں گے۔ خاص طور پر دل کی صحت، کینسر اسکریننگ اور ٹیسٹ پر زیادہ زور دیا گیا ہے جس میں کولیسٹرول ٹیسٹ اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ ساتھ ہی فلو اور سردی سے بچنے کے حفاظتی ٹیکوں کا مشورہ دیا جائے گا۔

فیس بک نے اس ضمن میں امریکن کینسر سوسائٹی، امریکی تنظیم برائے قلب اور ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے مراکز سے رابطہ کرکے ان کے مشورے سے یہ فیچر بنایا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک ہیلتھ کیئر کے سربراہ ڈاکٹر فریڈی ابنوسی نے کہا کہ امریکا میں امراضِ قلب اور کینسر کو پہلی اور دوسری قاتل بیماریاں کہا جاتا ہے۔ موسمیاتی امراض میں فلو سرِفہرست ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کےلیے معلومات کو آسان اور صارف دوست بنایا جائے۔

ڈاکٹر فریڈی نے کہا کہ جب جب وہ اس نئے ٹول پر غور کرتے ہیں انہیں اپنے والد یاد آتے ہیں جو بلڈ پریشر کے طویل عارضے کے شکار ہیں۔ لیکن اب وہ اپنے بلڈ پریشر اور امراضِ قلب پر گہری نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن احتیاط کرتے ہیں۔ یہ سب ڈاکٹر فریڈی کی ان کوششوں کی وجہ سے ہوا ہے جب وہ اپنے بار بار اپنے والد کو فون کرکے احتیاط و پرہیز کی نصیحت کرتے رہے۔ اب فریڈی چاہتے ہیں کہ فیس بک بھی کروڑوں اربوں افراد کے لیے ایسا ہی کوئی کردار ادا کرے۔

فیس بک کا یہ فیچر آپ اپنے دوستوں اور اہلِ خانہ سے بھی شیئر کرسکیں گے۔ اس فیچر کی پشت پر موجود ماہرین آپ کی عمر اور مرض کے لحاظ سے مفید مشورے بھی دیں گے۔ تاہم ان معلومات کو صرف صارف ہی دیکھ سکے گا اور طبی ٹیسٹ کی سفارشات بھی اسے ہی بھیجی جائیں گی۔ البتہ، اگر وہ چاہے تو یہ معلومات آگے دوستوں کو بھیج سکتا ہے۔

اس ٹول میں سرکاری اسپتالوں اور شفاخانوں کے پتے بھی دیئے جائیں گے تاکہ ہر شخص کم خرچ جگہوں سے اپنے ٹیسٹ کرواسکے اور صحت مند رہ سکے کیونکہ امریکا میں بھی ہر شخص کو صحت سے متعلق انشورنس کی سہولت حاصل نہیں۔

اس سے قبل فیس بک خون کا عطیہ دینے اور ویکسین کی حوصلہ افزائی کے کئی ٹولز اور فیچر متعارف کرواچکا ہے۔

The post فیس بک نے طبی پرہیز اور مختلف ٹیسٹ کا فیچر پیش کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.

سندھ میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کی وبا تشویش ناک قرار

$
0
0

کراچی: قارئین کو یاد ہوگا کہ حال ہی میں سندھ میں ایک سنگین قسم کے ٹائیفائیڈ کے آثار ملے تھے جو بالخصوص صوبے کے بچوں کو تیزی سے متاثر کررہا ہے۔ اب ماہرین نے اس پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایکس ڈی آرٹائیفائیڈ بخار کا سندھ میں تیزی سے پھیلاؤ باعثِ تشویش ہے۔ دنیا میں دو کروڑ سے زیادہ افراد ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے دو سے چھ لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے۔ ایشیاء میں پاکستان اور بھارت مرض سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہیں، کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں 18 تا 30 نومبر سے ٹائیفائیڈ بخار کے خلاف کونجوگیٹ ویکسین (ٹی سی وی) مہم چلائی جائے گی جس میں 9 ماہ سے 15 سال کے بچوں کو ٹائیفائیڈ کی ویکسین پلائی جائی گی۔

یہ بات محکمہ صحت سندھ کے ڈاکٹر خالد زبیری نے بدھ کو ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی)، جامعہ کراچی کے زیر اہتمام پروفیسر سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں صحت سے متلعق آگاہی سیمینار میں اپنے خطاب کے دوران کہی۔

لیکچر کا انعقاد شعبہ صحت حکومت سندھ، ڈاکٹر پنجوانی سینٹر اور ورچؤل ایجوکیشنل پروگرام برائے پاکستان کے باہمی تعاون سے ہوا۔ اس موقع پر ای پی آئی شعبہ صحت سندھ کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہور احمد بلوچ اور ای پی آئی کے صوبائی سی فور ڈی کنسلٹنٹ سنیل راجہ نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر خالد زبیری نے کہا اب تک دس ہزار سے زیادہ افراد سندھ میں ٹائیفائیڈ کا شکار ہوچکے ہیں۔ سال رواں میں اگست کے مہینے میں سندھ میں چار ہزار میں کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ تقریباً تین ہزار کیسز صرف کراچی سے تھے جس کی وجہ غیر معیاری غذا اور آلودہ پانی کے استعمال کو قرار دیا گیا، یہ بخار سیلمانولا ٹائفی جراثیم سے پھیلتا ہے۔

انھوں نے کہا صحت و صفائی اور جراثیم سے پاک پانی کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس انفیکشن پر قابو پایا جاسکے۔

ڈاکٹر ظہور احمد بلوچ نے کہا  کہ حیدر آباد اور کراچی میں ٹائیفائیڈ کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے اس بخار کے خلاف مہم چلائی جائے گی اس مہم کے تحت ایک کروڑ بچوں کو ویکسین پلائی جائے گی جس میں پچاس لاکھ کراچی سے ہیں کیوں کہ اس مرض میں اینٹی بائیوٹکس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔

سنیل راجہ نے کہا کہ نجوگیٹ ویکسین مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے، ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ ملک سے مہلک امراض کے خاتمے کے لیے اپنا سماجی کردار ادا کرے۔

The post سندھ میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کی وبا تشویش ناک قرار appeared first on ایکسپریس اردو.


روزانہ ایک ایواکاڈو کولیسٹرول کم کرنے کا بہترین نسخہ

$
0
0

پینسلوانیہ: مگرناشپتی یا ایواکاڈو اب پاکستان میں بھی دستیاب ہے اور اس کا باقاعدہ استعمال صحت کے لیے مضر کولیسٹرول ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اگرچہ اس مطالعے میں لوگوں کی کم تعداد نے حصہ لیا ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی نے 21 سے 71 سال کے 45 ایسے شرکا کو شامل کیا جو موٹاپے کی جانب مائل تھے اور ان کا وزن بڑھا ہوا تھا۔

ان تمام شرکا کو دو ہفتے تک خاص غذائی چارٹ دیا گیا جو امریکی اندازِ خوراک (ڈائٹ) کے لحاظ سے مرتب کیا گیا تھا۔ اس کےبعد ماہرین نے اٹکل سے (رینڈملی) تین غذائی چارٹ مزید پانچ ہفتے تک شامل کئے۔

غذائی پلان میں کم چکنائی والی غذا، درمیانی درجے کی چکنائی والی غذا اور ایک ایواکاڈو اور تیسرے پلان میں درمیانے درجے والی چکنائی بغیر ایواکاڈو کے کھلائی گئی۔ لیکن اس تیسری قسم کی غذا میں اضافی طور پر صحت بخش چکنائیاں دی گئیں جن کی کچھ مقدار مونو سیچیوریٹڈ فیٹی ایسڈز کی صورت میں مگرناشپتی میں موجود ہوتی ہے۔

پانچ ہفتوں بعد نتیجہ برآمد ہوا کہ جن افراد کو ایواکاڈو دیا گیا تھا ان میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی مقدار پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی اور ماہرین اس کولیسٹرول کو ہی دل و جاں کی دشمن چکنائی تصور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایواکاڈو یا مگرناشپتی والی غذائیں کھانے کے بعد بھی شرکا ایل ڈی ایل کے آکسیڈائزڈ ذرات کم کم پائے گئے ۔

جن افراد نے ایواکاڈو والی غذا کھائی تھی کافی عرصے بعد ان کے جسم میں لیوٹائن نامی اینٹی آکسیڈنٹ کی اچھی مقدار برقرار رہی جو اس کے دیگر بہترین فوائد کو بیان کرتی ہے۔

ایکسپریس میں مگرناشپتی کے دیگر بہت سے فوائد سامنے آچکے ہیں اور اسی بنا پر اب ماہرین ایواکاڈو کو سپر فوڈ قرار دے رہے ہیں۔

The post روزانہ ایک ایواکاڈو کولیسٹرول کم کرنے کا بہترین نسخہ appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹی بی کی فوری اور کم خرچ تشخیص والا ٹیسٹ تیار

$
0
0

میساچیوسٹس: طبّی ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے تپِ دق (ٹی بی) کی تشخیص کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ وضع کرلیا جو فوری تشخیص کے ساتھ ساتھ کم خرچ بھی ہے جبکہ اس میں درستی کی شرح کسی بھی موجودہ ٹی بی ٹیسٹ سے بہتر بتائی جارہی ہے۔

ماہرین کی اس عالمی ٹیم کی قیادت ڈاکٹر رشدی احمد کر رہے تھے جو بنگلا دیش سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل براڈ انسٹی ٹیوٹ، امریکا سے وابستہ ہیں۔

ریسرچ جرنل ’’سائنس ٹرانس لیشنل میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس ٹیسٹ میں انسانی خون میں چار ایسے مخصوص پروٹین تلاش کیے جاتے ہیں جن کی موجودگی ٹی بی کا پتا دیتی ہے۔ پروٹین کی شناخت کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک الگورتھم بنایا گیا ہے جو صرف ایک گھنٹے میں نہ صرف ٹی بی کا سراغ لگا لیتا ہے بلکہ اس میں درستی کی شرح بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اب تک ٹی بی کی تشخیص کے جتنے بھی ٹیسٹ موجود ہیں، وہ سب کے سب اوّل تو بہت سست رفتار ہیں جن کے نتائج ملنے میں تین سے چار دن لگ جاتے ہیں؛ جبکہ ان میں درست نتائج کی شرح بھی قدرے کم ہے۔ ان سے موازنہ کیا جائے تو ٹی بی کا نیا ٹیسٹ واقعتاً بہت تیز رفتار ہے اور نتائج بھی بہت درست دیتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹی بی کا شمار دنیا کی 10 سب سے زیادہ ہلاکت خیز بیماریوں میں کیا جاتا ہے۔ 2018ء میں ایک کروڑ لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہوئے، جن میں سے 15 لاکھ موت کے منہ میں چلے گئے۔

The post ٹی بی کی فوری اور کم خرچ تشخیص والا ٹیسٹ تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا شور بلڈ پریشر میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے؟

$
0
0

بیجنگ: آج کی تیزرفتار دنیا میں بلڈ پریشر کا ’خاموش قاتل‘ مرض تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ اب ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شورشرابا بلڈ پریشر میں بڑھا سکتا ہے۔

پوری دنیا میں 60 کروڑ لوگ ایسی جگہ پر کام کرتے ہیں جہاں شور اور آواز کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی جگہوں میں ایئرپورٹ کےرن وے اور ترقی پذیر ممالک کے کئی کارخانے بھی شامل ہیں۔ صرف امریکا میں ہی شور والی جگہوں پر کام کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ ساتھ سماعت میں کمی اور بہرے پن کے لاتعداد کیس سامنے آئے ہیں۔

اب ماہرین نے چینی شہر چینگ ڈو میں اوسطاً 40 سال کی عمر کے ایسے 21 ہزار سے زائد افراد کا مطالعہ کیا ہے جو مجبوراً بہت شور والی جگہوں پر کام کررہے تھے۔ یہ تحقیقات پبلک لائبریری آف سائنس کے جریدے پی ایل او ایس ون میں شائع ہوئی ہیں۔

لیکن یاد رہے کہ یہ مطالعہ بہت طویل عرصے تک جاری رہا اور اس دوران تمام کارکنوں میں سماعت کے ٹیسٹ اور بلڈ پریشر ٹیسٹ ساتھ ساتھ کئے گئے۔ سب سے پہلے معلوم ہوا کہ جس مزدور نے شور والی جگہہ پر جتنے سال گزارے تھے اس کی سماعت اسی قدر متاثر ہوئی۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کم درجے اور بلند درجے کی ثقلِ سماعت والے افراد میں بلڈ پریشر بڑھنے کا خطرہ 34 فیصد سے 281 فیصد زیادہ تھا۔

اس طرح پہلے مرحلے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شور والے ماحول میں اگر زیادہ وقت گزارا جائے تو بلڈ پریشر بڑھ جانے کا امکان بھی زیادہ ہوجاتا ہے خواہ وہ خاتون ہو یا مرد یہ کیفیت دونوں میں ہی ظاہر ہوتی ہے۔

تاہم ناقدین نے اس مطالعے میں بعض خامیوں کی نشاندہی بھی کی ہے مثلاً ہزاروں شرکا میں کولیسٹرول ، بی ایم آئی اور سگریٹ نوشی کا ڈپریشن وغیرہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسی لیے اس مطالعے کو بہتر بنانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت بھی ہے۔

The post کیا شور بلڈ پریشر میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

جلد کی خارش کی وجہ صرف الرجی نہیں ذہنی مرض بھی ہوسکتا ہے، تحقیق

$
0
0

سویڈن: طبی ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ جلد کی خارش کی وجہ کسی چیز سے الرجی ہوجانا یا ایگزیما جیسی بیماری ہی نہیں بلکہ اس کی ایک وجہ ذہنی مرض بھی ہوسکتا ہے جس کا علاج کیے بغیر خارش سے نجات ناممکن ہے۔

سائنسی جریدے ’جرنل آف انویسٹی گیٹیو ڈرماٹولوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جلد کی خارش کی وجوہات میں الرجی، ایگزیما یا psoriasis کا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس خارش کی وجہ وہ مرض بھی ہوسکتا ہے جس کی جانب سے آپ کا ’ذہن‘ بھی نہ جائے۔

سویڈن کی یونیورسٹی سے منسلک لیکچرار اور ماہر امراض جلد فلورینس جے ڈلگارڈ نے برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس سمیت 13 یورپی ممالک کے مریضوں کا ڈیٹا جمع کیا جو مختلف جلدی امراض میں مبتلا تھے اور اس سروے میں مریضوں کے معاشی حالات اور ذہنی صحت سے متعلق بھی سوالات کیے گئے تھے۔

محققین مریضوں کے ڈیٹا کی سہ ماہی کی بنیاد پر تجدید کرتے گئے، 3 برس بعد جلد کی خارش سے چھٹکارا حاصل کرنے والے مریضوں میں سے 56 فیصد ’اینٹی ہسٹامین‘ یعنی الرجی ختم کرنے والی دوا کے بغیر ہی صحت یاب ہوگئے۔ ان مریضوں کا خارش کے بجائے ڈپریشن اور اینزائیٹی جیسی ذہنی امراض کا علاج کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر فلورینس کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران حاصل ہونے والے اعداد شمار سے واضح ہوگیا کہ ان مریضوں کو جلد کھجانے کی وجہ سے ذہنی سکون ملتا تھا۔ اس طرز عمل نے ہمیں خارش کا ذہنی مرض سے تعلق ہونے کی جانب متوجہ کیا اورجیسے جیسے ہم نے مریضوں کا ڈپریشن اور اینگزائیٹی کم کیا ویسے ویسے بغیر اینٹی الرجی دیئے مرضوں میں جلد کی خارش بھی کم ہوتی گئی۔

The post جلد کی خارش کی وجہ صرف الرجی نہیں ذہنی مرض بھی ہوسکتا ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

دماغ فاسد مادوں کو نیند کے دوران صاف کرتا رہتا ہے

$
0
0

بوسٹن: پہلی مرتبہ انسانوں پر تحقیق کے بعد ہمارے سامنے یہ بات آئی ہے کہ دماغ کے اندر صفائی کا ایک اہم نظام ہوتا ہے جو دورانِ نیند دماغ کی جھاڑو لگاتا رہتا ہے۔

دماغ میں ایک طرح کا مائع ’سیریبرواسپائنل فلوئیڈ‘ ہوتا ہے جو دماغ کی جھاڑو کا کام کرتا ہے اور جاگتے دوران دماغ میں بننے والے فاسد مادّوں کو نیند میں صاف کرکے دماغ سے نکال باہر کرتا ہے۔

اس عمل میں خود دماغ کے اندر مختلف امنیاتی نظام بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور سوتے ہوئے دماغ کی مرمت کرتے رہتے ہیں۔ اسی بنا پر گہری نیند بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس سے دماغ تروتازہ رہتا ہے اور اس سے دماغ کی صفائی کا عمل جاری رہتا ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ دماغ اور حرام مغز میں ایک مائع موجود ہوتا ہے جسے سیربرواسپائنل فلوئیڈ کہا جاتا ہے۔ یہ مائع برقی لہروں کی طرح اندر اور باہر آتا رہتا ہے اور دماغ میں جمع ہونے والا وہ کوڑا کرکٹ صاف کرتا رہتا ہے جو استحالہ (میٹابولزم) کے عمل میں پیدا ہوتا رہتا ہے۔

اس سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ دماغی خلیات یا نیورون برقی رو کے ذریعے آپس میں رابطہ کرتے ہیں لیکن دماغ میں عین یہی برقی سرگرمی اسی مائع کی سرگرمی بھی ہوتی ہے۔

اس مطالعے میں 23 سے 33 سال کے 13 رضاکاروں پر نیند کے دوران تجربات کیے گئے اور ان کے دماغوں کی اسکیننگ کی گئی۔ اس کےلیے نیند کے دوران تمام افراد کو ای ای جی ٹوپیاں پہنائی گئی تھیں۔

یہ غالباً دنیا میں انسانی دماغی مائع پر پہلی تفصیلی تحقیق ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ مائع دماغی لہروں کی عین مطابقت میں ہوتا ہے اور دماغ سے مضر پروٹین کو ختم کرتا رہتا ہے۔ اگردماغ میں مضر پروٹین جمع ہوجائیں تو وہ نیورون کے درمیان رابطوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس تحقیق کا دائرہ مزید بڑھاتے ہوئے الزائیمر اور دیگر امراض پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی کیونکہ اس بیماری بھی دماغ میں زہریلے پروٹین جمع ہونا شروع ہوجاتےہیں۔ نیند کے دوران کئی نیورون سوجاتے ہیں اور دماغ کو آکسیجن کی ضرورت کم ہوتی ہے۔ ایسے میں خون دماغ سے نکلنا شروع ہوجاتا ہے اور سیریبرو اسپائنل مائع اندر جگہ بناتا ہے۔ ایک جانب تو یہ مائع دماغ میں دباؤ کو برقرار رکھتا ہے اور دوم دماغ کی صفائی بھی کرتا رہتا ہے۔

The post دماغ فاسد مادوں کو نیند کے دوران صاف کرتا رہتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

طالبہ کے دماغ کی سرجری فیس بک پر براہ راست نشر

$
0
0

ٹیکساس: امریکا میں دماغی امراض سے متعلق عوام میں شعور اور آگہی پیدا کرنے کے لیے 25 سالہ طالبہ کے دماغ کے آپریشن کو فیس بک پر براہ راست دکھایا گیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس میں 25 سالہ آکیوپیشنل تھراپسٹ جیننا شاردٹ کے دماغ کی شریانوں میں جمنے والے خون کے لوتھڑوں کو نکالنے کیلیے سرجری کی گئی۔ جس سے انہیں بولنے میں دقت کا سامنا تھا۔

آپریشن سے قبل مریضہ نے سرجری کے عمل کو فیس بک پر لائیو دکھانے کی فرمائش کرکے ڈاکٹرز کو حیران کردیا۔ طالبہ کا کہنا تھا کہ لوگوں میں دماغی امراض سے متعلق آگاہی کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔

میتھوڈسٹ ڈیلاس میڈیکل سینٹر میں مریضہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دماغ کی سرجری کا عمل براہ راست فیس بک پر نشر کیا گیا جسے لاکھوں فیس بک صارفین نے براہ راست دیکھا۔

صارفین نے دماغ کی سرجری کے عمل کو براہ راست دکھانے کے عمل کو سراہتے ہوئے لکھا کہ اس سے آپریشن سے متعلق ذہن میں موجود بہت سے خدشات کا خاتمہ ہوا اور اس مرض میں مبتلا افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

The post طالبہ کے دماغ کی سرجری فیس بک پر براہ راست نشر appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں کا ہیپاٹائٹس سے متاثر ہونے کا خدشہ

$
0
0

 اسلام آباد:  وزارت صحت نے ڈیڑھ کروڑپاکستانیوں کا ہیپاٹائٹس سے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

چیئر مین خالد حسین کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا 2020 ء سے ہیپاٹائٹس اسکریننگ شروع ہو گی، پانچ سالہ پروگرام کے دوران  14 کروڑلوگوں کی سکریننگ کی جائے گی، پولیو کیسزکی مختلف وجوہات ہیں۔خیبرپختونخوا میں لاکھوں والدین قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں۔

رمیش لعل نے کہا میرا حادثہ ہوا توپولی کلینک اسپتال آیا، ایمرجنسی میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا ،عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہو گا؟کمیٹی نے اس پررپورٹ طلب جبکہ پی ایم ڈی کی تحلیل پراجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔

The post ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں کا ہیپاٹائٹس سے متاثر ہونے کا خدشہ appeared first on ایکسپریس اردو.


ناشپاتی کے بہترین فوائد جو کئی امراض سے بچاتے ہیں

$
0
0

 لندن: بزرگ کہتے ہیں کہ ہر موسم کا پھل اور سبزی ضرور کھائیں کیونکہ اس سے ہرقسم کی توانائی اور بیماریوں سے تحفظ ملتا ہے۔ اسی زمرے میں ناشپاتی بھی کسی سے کم نہیں جو اپنے زبردست خواص کے باوجود اب تک نظر انداز کی جاتی رہی ہے۔

اپنی غذائیت کی وجہ سے مغرب میں ناشپاتی کو توانائی کا پاور ہاؤس کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ذائقے کے ساتھ ساتھ ان میں ہر طرح کے ضروری غذائی اجزا بھی شامل ہیں۔ ذیل میں ناشپاتی کے اہم فائدے پیش کئے جارہے ہیں۔

غذائیت سے بھرپور

دنیا بھر میں ناشپاتی کی سینکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں اور ان میں وٹامن سی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ امریکی غذائیت کے ڈیٹابیس میں ماہرین نے پوٹاشیئم، وٹامن کے، تانبے، میگنیشیئم اور بی اقسام کے تمام وٹامن کے لیے ناشپاتی کو سرِ فہرست تکھا ہے۔ اسی لیے ناشپاتی خرد غذائی اجزا یعنی مائیکرونیوٹریئنٹس کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔

بھوگ بھگائے اور شوگر سے بچائے

سیب اور ناشپاتی میں ریشے دار (فائبر) اجزا پائے جاتے ہیں اور اس کی بنا پر وہ خون میں شکر کی مقدار کو معمول پر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناشپتی کھانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس مرض کا خطرہ بھی ٹل سکتا ہے۔ اب ناشپاتی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اسے کھانے سے انسان سیر ہوجاتا ہے اور بھوک نہیں لگتی۔ اسی بنا پر ناشپاتی بسیار خوری سے نجات دلاتی ہے۔

فائٹونیوٹریئنٹس اور ناشپاتی

ناشپاتی میں فائٹو نیوٹریئنٹس کی بہتات ہوتی ہے جن میں بہت سے مفید فلے وینوئڈز شامل ہیں۔ طب میں فلے وینوئڈز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پورے جسمانی مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں اور کئی اقسام کے کینسر سے بچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بدن میں فری ریڈیکلز کی افزائش کو روک سکتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ یہ تمام اجزا دل کے امراض، ذیابیطس، اندرونی جلن اور کینسر وغیرہ کو روکتے ہیں۔

ناشپاتی وزن گھٹائے

ایک درمیانے درجے کی ناشپاتی میں صرف 100 کیلوریز پائی جاتی ہیں۔ اس میں موجود فائبر کافی دیر تک بھوک کو دبائے رکھتی ہے۔ ناشپاتی میں بعض ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو وزن کو بڑھنے نہیں دیتے اور کم کیلوریز چکنائی جمع نہیں ہونے دیتی۔

ایک تجربہ ہی کرکے دیکھ لیجئے کہ دوپہر کے کھانے میں ناشپاتی استعمال کیجئے تو اول آپ کم کھائیں گے اور دوم دوسری مرتبہ بھوک بھی دیر سے لگے گی۔ اپنے انہی خواص کی بنا پر ناشپاتی کو تمام پھلوں میں ایک اہم درجہ حاصل ہے۔

The post ناشپاتی کے بہترین فوائد جو کئی امراض سے بچاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں میں دوسرے نمبر پر

$
0
0

کراچی  : پاکستان میں ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے، ایک اندازے کے مطابق ملک میں 80 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ افراد اس مرض کے شکار ہیں۔

یہ بات ملکی و غیر ملکی ماہرین نے منگل کو ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) جامعہ کراچی کے زیرِ اہتمام بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ کے موضوع پر جاری 4 روزہ ساتویں بین الاقوامی سمپوزیم کم ٹریننگ کورس کے دوسرے روز اپنے خطاب کے دوران کہی۔ چار نومبر کو شروع ہونے والا یہ سمپوزیم سات نومبر تک جاری رہے گا۔

عالمی سطح پر ہیپاٹائٹس سی سے ہر سال تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، دنیا میں ہیپاٹائٹس بی سے مرنے والوں کی تعداد 6 لاکھ جبکہ 35 کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔

ماہرین نے یہ بھی کہا کہ قدرتی طور پر ادرک سرطان کے خلاف نہایت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ روایتی طب میں ادرک کو قے، بد ہضمی، پٹھوں اور جوڑوں کے درد اور زکام وغیرہ میں کامیابی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہالینڈ سب سے زیادہ ادرک برآمد کرنے والا ملک ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بڑے پیمانے پر ادرک درآمد کی جاتی ہے۔

اس سمپوزیم میں 35 ممالک کے 100 سے زائد سائنسدان اور محقق شرکت کررہے ہیں جبکہ پاکستان سے چھ سو سے زیادہ سائنسدان شرکت کررہے ہیں۔

انھوں نے کہا ہالینڈ سب سے زیادہ ادرک برآمد کرنے والا ملک ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بڑے پیمانے پر ادرک درآمد کی جاتی ہے۔

جرمن سائنسدان ڈاکٹر برٹرام فلیمگ نے ہیپاٹائٹس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں یرقان نہ صرف قدیم ہے بلکہ بہت عام ہے، پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے مریض کثیر تعداد میں موجود ہیں، ہیپاٹائٹس بی وائرس 1936ء میں تشخیص ہوا تھا جس پر باروچ بلوم برگ کو نوبل پرائز ملا جبکہ ہیپاٹائٹس ڈی وائرس 1977ء می دریافت کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر سال ہیپاٹائٹس اے سے چودہ لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے دس سے تیس ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کا بروقت علاج ممکن ہوتا ہے لیکن اس کے وائرس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں جبکہ ہیپاٹائٹس سی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔

ڈاکٹر پنجوانی سینٹر کی پروفیسر ڈاکٹر درخشاں جبین حلیم نے کہا کہ دائمی درد اور ذہنی دباؤ کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے اور یہ تعلق تیزی کے ساتھ تشخیص ہورہا ہے، ان دونوں کا ایک ساتھ علاج کرنا زیادہ سود مند ہے۔

بین الاقوامی سمپوزیم میں گزشتہ دو روز کے دوران متعدد ملکی و غیر ملکی ماہرین بشمول برطانوی اسکالرڈاکٹر مارک سی فیلڈ، اطالوی سائنسداں  ڈاکٹر لوسیانہ دینی، آسٹریلین ماہر ڈاکٹر بیری این نولر اور برازیلین ڈاکٹر  بارٹیرا روسی کے لیکچر ہوئے جس میں طلبہ و طالبات نے انہتائی دلچسپی کا اظہار کیا۔

The post پاکستان ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں میں دوسرے نمبر پر appeared first on ایکسپریس اردو.

خسرہ جسم کا دفاعی نظام کمزور کرکے مزید امراض کی وجہ بن سکتا ہے

$
0
0

ہالینڈ: ہالینڈ میں کئے گئے دو اہم مطالعات سے معلوم ہوا ہےکہ بچوں میں خسرہ کی بیماری ان پر طویل اثرات مرتب کرتی ہے یہاں تک کہ ان کا فطری امنیاتی نظام کمزور ہوکر دیگر بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

یہ ایک پریشان کن خبر ہے کیونکہ یورپ اور افریقہ میں 2006 کے بعد سے خسرے کے واقعات میں کئ گنا بڑھے ہیں۔ صرف 2017 میں ہی پوری دنیا میں خسرے کے 70 لاکھ مزید کیس سامنے آئے ہیں۔ لیکن 2018میں ان کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے ۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس کی وجہ ویکسین سے بیزاری کی اس حالیہ لہر کو قرار دیا ہے جو ایشیا سے لے کر یورپ تک جاری ہے۔ تاہم غریب ممالک میں ویکسین کی رسائی اور نقل و حمل کے اپنے مسائل بھی موجود ہیں۔

2015 میں ایک سائنسداں ڈاکٹر مائیکل مینا نے نے ایک سروے کےبعد کہا تھا کہ جو بچے خسرے کے شکار ہوتے ہیں وہ آگے چل کر دیگر کئی امراض کے شکار ہوتے ہیں اوران میں سے نصف تعداد کسی اور بیماری کے انفیکشن کی شکار ہوکر مرجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2017 میں ایک لاکھ بچوں کی اموات خسرے یا اس کے بعد کسی اور مرض میں مبتلا ہونے سے واقع ہوئی ہیں۔ لیکن ماہرین کے خیال میں اس کی شرح بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ خسرے بچے کے جسم میں ان خلیات کو ختم کردیتے ہیں جو مختلف امراض کے جراثیم کے ردِ عمل میں ان سے لڑنے کی اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا ۔

پروفیسر مائیکل نے ہالینڈ میں 77 بچوں کو منتخب کیا جنہوں نے خسرے کے خلاف ٹیکے نہیں لگوائے تھے۔ کئی ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ یہ بچے اپنے جسم میں خسرے سے قبل کئی امراض کے خلاف اینٹی باڈیز بنارہے تھے لیکن خسرے میں مبتلا ہونے کے بعد ان میں اینٹی باڈیز کا کوٹہ ختم ہوگیا جس کی شرح 11 سے 74 فیصد تھی یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی دفاعی نظام 74 فیصد کمزور ہوچکا تھا۔

ماہرین کے مطابق اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ان بچوں کو دوبارہ خسرے کی ویکسین دی جائے تاکہ امنیاتی نظام پیدا ہوسکے۔

یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کے ایک اور سائنسداں پروفیسر کولِن رسل نے ایسی ہی کیفیت میں مبتلا 20 بچوں کے ڈی این اے  کا جائزہ لیا۔ ان کے جسم میں امنیاتی خلیات بے حس اور بے کار بیٹھے تھے اور کسی بھی بیماری سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔

اس اہم تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خسرہ جیسا مرض بچوں کو کئی امراض کا شکار کرسکتا ہے اسی لیے اس مرض کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

The post خسرہ جسم کا دفاعی نظام کمزور کرکے مزید امراض کی وجہ بن سکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

ملک میں ٹائپ ٹو شوگر کے مریضوں کیلیے نئی دوائیں متعارف

$
0
0

کراچی: پاکستان میں ٹائپ ٹو شوگرکے مریضوں کیلیے نئی دوائیں متعارف کرادی گئیں۔

سر سید میڈیکل کالج کے پروفیسر آف میڈیسن پروفیسر زمان شیخ نے پریس کانفرنس کے بعد ایکسپریس سے بات چیت میں کہا ہے کہ پاکستان میں ٹائپ ٹو شوگرکے مریضوں کیلیے نئی دوائیں متعارف کرادی گئیں ہیں، پہلی دواسے ہفتے میں ایک انجکشن لگاکرپورے ہفتے شوگرکوکنٹرول کیاجاسکتاہے ،دوسری متعارف نئی دوا شوگرکے ساتھ بلڈ پریشراور موٹا پے کوکنٹرول کریگی ،یہ نئی دواہارٹ فیلرکے مریضوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے، یہ دوائیں اب پاکستان میں دستیاب ہیں جبکہ اس سے قبل ہرکھانے سے پہلے انہیلرانسولین بھی دنیا میں متعارف کرادی گئی ہے جس سے شوگرکنٹرول کی جارہی ہے۔

ان کاکہناتھاکہ اس وقت دنیا بھر میں شوگرکا مرض وبائی صورت اختیارکررہا ہے، پاکستان میںکل آبادی کا 26 فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے شوگر کے مریضوںکواپنی شوگر چیک کرنے کیلیے ایک ڈیوائیس بھی متعارف کرائی گئی ہے جس کو گلوکومیٹر کہاجاتا ہے اس گلوکومیٹر میں بغیر سوئی لگائے شوگرچیک کرسکتے ہیں، یہ میٹر جسم کی کھال پر میں چسپاں کیاجاتا ہے جس میں ایک مخصوص چیپ جسم سے پیوسط کردی جاتی ہے اور ایک کارڈکے ذریعے جب چاہیں کارڈ ٹیچ کرکے اپنی شوگرکسی بھی وقت چیک کرسکتے ہیں۔

 

The post ملک میں ٹائپ ٹو شوگر کے مریضوں کیلیے نئی دوائیں متعارف appeared first on ایکسپریس اردو.

نبض کیسے امراض کا پتہ دیتی ہے؟

$
0
0

پاکستان میں مختلف طریقہ ہائے علاج رائج ہیں۔ ہرطریقہ علاج  میں تشخیص کے الگ پیرامیٹرز ہیں۔ طب میں تشخیص کے اہم ذرائع نبض وقارورہ  ہیں۔اگرچہ اس کے علاوہ بھی تشخیص کے کچھ ذرائع ہیں لیکن وہ ثانوی ہیں۔ نبض کے بارے میں اکابرین فن کے اقوال قابل غور ہیں۔

بقراط کا قول’’ نبض ایک خاموشی اعلانچی ہے اور باطنی حالات کو بہ آواز بلند بتاتی ہے لیکن جو حکماء  اس پر دسترس نہ رکھتے ہوں ان کے لیے گونگی ہے‘‘۔ جالینوس کا قول ہے ’’نبض بیماری کی پیچیدگیوں کو طبیب کے سامنے رکھ دیتی ہے‘‘۔ رازی کا قول ہے ’’ نبض ایک ایسا آلہ ہے جس سے جسم کے تمام حالات کا علم ہو جاتاہے اور جسم کے تمام مفرد اعضاء کے حالات بتلاتی ہے۔ افلاطون کا قول ہے ’’نبض کبھی خطا نہ کرنے والا پیغامبر ہے‘‘۔

مختلف لوگوں کی نبض مختلف ہوتی ہے۔ ہم نبض کی موٹائی، پتلا پن، سستی، تیزی، نرمی وسختی، بلندی اور پستی، تنگی و کشادگی ہی کو بھانپتے ہیں۔ یہ مختلف صورتیں ہی نبض کی زبان ہیں۔ مثال کے طورپر جس مریض کی نبض سخت ہوگی، بلند ہوگی یعنی ہاتھ رکھتے ہی انگلیوں کو چھونے لگے گی، رفتار میں تیزی ہو گی، اگر اسے دبانے کی کوشش کی جائے گی تو انگلیوں کو اْوپر کی طرف اْٹھائے گی۔ ایسی نبض جسم میں خشکی کے غلبہ کا اظہار کرے گی۔ مزاج دریافت کرنے کابہترین ذریعہ نبض اور قارورہ ہی ہیں۔

نبض کے بانیوں میں شیخ الرئیس بوعلی سینا، ذکریا اور رازی جیسی عظیم شخصیات ہیں انہوں نے دینی فریضہ سمجھ کر اس فن میں تحقیقات کیں۔ ان کی خدمات کو عالم انسانیت قیامت تک فراموش نہیں کر سکتا۔ انہی کی تحقیقات پر آج ایلوپیتھی اور سرجری کا بلندو بالا ایوان کھڑا نظرآتاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طب اسلامی ماں اور باقی سب طریقہ ہائے علاج اس کی اولاد ہیں۔تاریخ میں امراض کی تشخیص کے بارے بھی بہت سے آلات ایجاد ہوئے لیکن متروک ہوتے رہے۔اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ بھی نئے سے نئے دریافت ہو رہے ہیں۔

نبض سے تشخیص کا عمل آج بھی اسی طرح زندہ اور مقبول عام ہے۔ اگر نبض کے ذریعے تشخیص کا ذریعہ ناقص ہوتا تو اب تک یہ کب کامتروک ہو چکا ہوتا۔ یہ توعام سی بات ہے کہ چیزیں خشکی سے سخت ہوتی ہیں، تن جاتی ہیں اور ان میں سکڑاؤ اور تیزی آجاتی ہے۔ نبض نے ہمیں یہ بتایا کہ مریض کوخشکی نے بیمار کر رکھاہے، خشکی سے خون میں کیا تبدیلی آتی ہے، خون گاڑھا ہوجاتا ہے، اس میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔ شریانیں تنگ ہوجاتی ہیں۔

سینے میں جلن اور درد ہونے لگتا ہے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے، اسی مزاج میں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ اس مزاج میں خشکی سے بواسیر ہوتی ہے۔جوڑوں کا شدید درد ہوتاہے۔  اسی طرح صفراوی اور گرمی کی نبض اور رطوبات و بلغم کی زیادتی کی نبض کے پیرامیٹرز مخصوص ہیں جو مرض کی تشخیص کابہت جلد، مو ثر اور بہترین ذریعہ ہیں۔ ہماری سائنس میں خشکی کاعلاج گرمی پیدا کرنا ہے۔ اب ہم جب خشکی کے مریض کو گرم ادویہ اور اغذیہ تجویز کردیں گے تو اس کے سرسے لے کر پاؤں تک کی تمام تکلیف دہ بیماریا ں اور علامات رفع ہوجائیں گی۔ گرمی سے گاڑھا خون پتلا ہوجائے گا۔ تنگ شریانیں کشادہ ہوناشروع ہوجائیں گی۔

دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ طبیب کے پاس مریض آتاہے، اسے بخار ہے، سردی لگ رہی ہے، سردرد ہے، چکر آرہے ہیں، اسے زکام لگا ہوا ہے، فلو کا شکار ہے، قے باربار آ رہی ہے۔ اسہال لگے ہوئے ہیں ہیضہ کا شکار ہے، بے چینی سے لوٹ پوٹ ہو رہاہے تو یہ ساری کی ساری علامات جسم میں رطوبت کی زیادتی ، اعصابی ودماغی سوزش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس میں نبض کشادہ ہوگی، نرم ہوگی، دبانے سے دب جائے گی، لمبائی میں چھوٹی ہوگی، دبانے سے نیچے جا کر ملے گی، وجود میں موٹی ہوگی، اس حالت میں ہم رطوبات اور اعصابی سوزش کو ختم کرنے کیلیے لونگ، دارچینی اور جلوتری کا سفوف دیں گے۔

لونگ دار چینی کا جوشاندہ دیں گے، سردی نہیں لگے گی، سردرد بھی ختم ہوجائیگا، بخار بھی جاتا رہے گا، الٹیاں بھی رک جائیں گی، اسہال بھی رک جائیں گے، چکر بھی نہیں آئیں گے، ہیضہ ختم ہو جائے گا، یعنی ایک ہی دوائی سے سر سے لے کر پاؤں تک کی تکلیف دہ علامات رک جائیں گی۔میرے ایک دوست ڈاکٹر  ہرجمعہ کو مجھے ملنے آتے۔ ایک روز نہ آئے، تین دن بعد آئے۔ میں نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔کہنے لگے: ہمارا ایک عزیز بچہ اسہال میں مبتلا ہے، پانچ دن سے زیر علاج ہے۔ اسہال نہیں رک رہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحبکو تین پڑیاں دیں۔

انھوں نے ایک پڑیادی تو اسہال رک گئے۔ بچے کو گھر لے آئے اور باقی پڑیاں بھی کھلادیں۔پچیس سال قبل ڈاکٹر جاوید اقبال ، ماہر امراض قلب، کے بیٹے کے معدے میں درد شروع ہوا۔ ڈاکٹروں نے سارے ٹیسٹ کئے جو نارمل تھے۔ معدہ کے سارے ڈاکٹروں نے مل کر کوشش کی مگر پیٹ درد نہ رکا۔ انہوں نے ایک بزرگ سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے فرمایا کہ صبح لے آؤ، قارورہ ساتھ لانا، ہمارے حکیم کو دکھانا۔

ڈاکٹر صاحب صبح کے وقت اسے میرے پاس لے آئے۔ میں نے قارورہ دیکھا جس میں سرخی غالب تھی جوخشکی وتیزابت کی نشاندہی ہے۔ نبض دیکھی اور دوائی بنانے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ آپ نے کیا تشخیص کی؟ میں نے کہا: معدے کے مسکولر ٹشوز میں ذرا سا سکڑاؤ ہے اس لیے دوران خون میں رکاوٹ سے درد ہو رہا ہے۔ان کے بیٹے نے دوائی کھائی تو شام تک اس کا درد رک گیا ہے۔

چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک 20 سالہ لڑکی پر  بے ہوشی طاری ہو گئی، مکمل جسم ساکت ہوگیا۔ پندرہ دن اسے DHQ ہسپتال فیصل آباد میں رکھا گیا، ٹیسٹ نارمل تھے۔ ڈاکٹر صاحبان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں۔ پندرہ دن بعد یہ کہہ کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا کہ ہمیںکوئی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ لڑکی کو اس وقت بھی غذا کی نالیاں لگی ہوئی تھیں، ڈاکٹروں نے انہی کے ذریعے غذا فراہم کرنے کی ہدایت کی ۔ ایک طبیب نے مجھے اس بچی کے بارے میں بتایا۔میں نے مریضہ کی نبض کا بغور  مشاہدہ کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس بچی کو ہسٹریا کا اچانک اٹیک ہوا ہے یا کوئی صدمہ پہنچا ہے جس سے دماغ میں خون کی ترسیل وسپلائی میں کمی آگئی۔ اب دماغ کو خون حسب ضرورت نہیں مل رہا۔

میں نے اسے محرک دماغ ادویہ دیں اور اغذیہ بتائیں، پرہیز بتایا اور بھیج دیا۔ دس دن گزرے تو بچی ہوش میں آگئی۔ اگلے پندرہ دنوں میں اس کے بازو، ٹانگوں اور جسم میں حرکت آگئی۔پھر دو ماہ بعد میرے مطب میں چل کر آئی۔ نبض سے تشخیص کی تعریف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں لیبارٹری ٹیسٹ بالکل مسترد کررہا ہوں۔میں خود زیادہ تر مریضوں کو حسب ضرورت لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا کہتا ہوں بالخصوص سیمن ٹیسٹ، عورت کے بانجھ پن میں ان کے ہارمونز ٹیسٹ وغیرہ۔ طب علم الابدان، علم التشخیص اور علم العلاج کا خزانہ ہے۔ ایلوپیتھی میں بھی کچھ خوبیاں ہیں جن کی بدولت وہ زندہ ہے۔ اس لیے کسی بھی طریقہ علاج پہ بے جا تنقید کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔

طب میں قارورہ سے تشخیص کا ذریعہ آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ امام بخاری بیمار ہوئے، ان کا قارورہ طبیب کے پاس لایا گیا۔ طبیب نے قارورہ دیکھ کر حیرت انگیز انکشاف کیا کہ یہ جس مریض کا قارورہ ہے اس نے اتنے سال سے سالن نہیں کھایا۔ جب امام بخاری کو بتایا گیا تو انہوں نے تصدیق کی۔’’جب  میں نے یہ حدیث پڑھی کہ مومن کا ان چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز پر کوئی حق نہیں، رہنے کیلیے مکان، تن ڈھانپنے کیلیے لباس اور کھانے کے لیے خشک روٹی اور پانی۔ اس حدیث میں سالن کا ذکر نہیں۔ اس حدیث کو جاننے کے بعد میں نے سالن نہیں کھایا‘‘۔

پانی ، حرارت اور ہو اہی زندگی اور نشوونما کی روح رواں ہیں۔ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کی صحت کا دارومدار بھی حرارت، پانی اور ہوا پر ہے۔ ان کا اعتدال صحت ہے اور کمی بیشی مرض ہے۔ نبض کے ذریعہ مزاج معلوم کیا جاتاہے۔ جسم کے موسم کے بگڑجانے کا نام مرض ہے۔ انسانی بدن کے موسم کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ ہم نبض کے ذریعے جسم کا موسم معلوم کرتے ہیں اور ادویہ سے جسم کا موسم نارمل کردیتے ہیں، یوں جسم  تن درست ہوجاتاہے۔ الغرضیکہ نبض دل کی حرکات، بدنی حرارت اور مزاج کی کیفیات بیان کر کے ایک ماہر طبیب کو امراض کی تشخیص میں خاطر خواہ معاونت فراہم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔

The post نبض کیسے امراض کا پتہ دیتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4399 articles
Browse latest View live




Latest Images