Quantcast
Channel: ایکسپریس اردو »صحت
Viewing all 4399 articles
Browse latest View live

چقندر کا جوس دل کے مریضوں کے لیے اکسیر قرار

$
0
0

 واشنگٹن: ماہرین طب نے کہا ہے کہ اگر آپ ذیابیطس کے شکار نہیں تو چقندر کا رس نہ صرف بلڈ پریشر قابو میں رکھتا ہے بلکہ یہ دل کے پٹھوں کو فوری طور پر طاقت فراہم کرتا ہے۔

کارڈیک فیلیئر نامی جرنل میں شائع ایک تحقیقی رپورٹ میں انڈیانا یونیورسٹی کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ہارٹ فیل ہونے کے بعد زندہ بچ جانے والے مریضوں میں بھی چقندر کا رس بہت مفید ثابت ہوا ہے، دل کے دورے کے بعد دل کمزور ہوجاتا ہے اور پورے جسم میں خون پمپ نہیں کرپاتا جس سے طرح طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں، اس صورتحال میں چقندر کا جوس ایک نعمت کے طور پر دل کو تندرست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ہارٹ فیل کے عمل میں دل کی قوت اور کارکردگی ڈرامائی طور پر شدید متاثر ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں دل ری ایکٹو آکسیجن بناتا ہے اور نائٹرک آکسائیڈ  کی پیداوار کم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں دل کے سکڑنے اور پھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس سے مریض کے ہاتھ اور پیروں میں سوجن، غنودگی اور دیگر عوارض جنم لیتے ہیں۔

چقندر میں موجود نائٹرک آکسائیڈ دل کے افعال کو منظم رکھتا ہے اور دل کے پٹھوں اور عضلات کو قوت دیتا ہے۔ اس سے قبل ماہرین نے سائیکلسٹ اور دوڑنے والے کھلاڑیوں پر چقندر کے رس کے تجربات کے بعد کہا تھا کہ اس سے دل مضبوط ہوتا ہے اور ان کی صلاحیت بتدریج بہتر ہوتی ہے۔

The post چقندر کا جوس دل کے مریضوں کے لیے اکسیر قرار appeared first on ایکسپریس اردو.


انوکھا انسانی عضو

$
0
0

ہماری جلد انسانی جسم کے اہم ترین اعضا میں سے ایک ہے۔یہ عضو بظاہر اپنی جگہ سے سرکتا یا چلتا نظر نہیں آتا مگر یہ بہت کچھ ایسا کرتا ہے جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

جی ہاں انسانی جلد کے بارے میں درج ذیل دلچسپ حقائق آپ کو دنگ کرکے رکھ دیں گے۔

٭اگر آپ جسم پر موجود جلد کو کسی طرح اتار کر چادر کی طرح پھیلا دیں تو یہ16.1 سے 21.5 اسکوائر فٹ تک کے حصے کو گھیر لے گی۔

٭یہ انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو ہے جو مجموعی جسمانی وزن کے 15 فیصد حصے کے برابر ہوتا ہے۔

٭جلد میں پایا جانے والا میلانن نامی ہارمون یا مادہ جلد اور آنکھوں کی رنگت کنٹرول کرتا ہے۔

٭انسانی جلد ہر 28 دن بعد خود کو نیا بناتی ہے۔

٭ہمارے گھر میں پائی جانے والی مٹی کا بڑا حصہ درحقیقت مردہ جلدی خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔

٭جسم میں پائے جانے والا ایک پروٹین، کیراٹین آپ کی جلد کو آب روک یا واٹر پروف بناتا ہے۔

٭ہماری جلد سورج کی روشنی میں جسم کے لیے خود وٹامن ڈی تیار کرتی ہے۔

 

The post انوکھا انسانی عضو appeared first on ایکسپریس اردو.

دماغ کو بہتر بنانے والی چند غذائیں

$
0
0

کچھ غذائیں دماغی افعال کو بہتر بنا کر عمر بڑھنے کے ساتھ ذہنی تنزلی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، ان ہی غذاؤں کا تعارف درج ذیل ہے۔

اخروٹ

یہ میوہ الفا لائنولینک ایسڈ سے بھرپور ہے۔ یہ جزو دوران خون کو بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے دماغ تک آکسیجن کی فراہمی موثر انداز سے ہوتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے یادداشت بہتر ہوتی ہے جبکہ سیکھنے کی صلاحیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

زیتون کا تیل

زیتون کا تیل بہترین اجزاء کا مرکب ہے جو دماغ کی عمر بڑھنے کا عمل سست کرتا ہے۔ یہ طویل مدتی بنیادوں پر دماغی صحت کا تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے دیگر فوائد الگ ہیں۔

بیریاں

اسٹرابری، بلیو بیری یا کوئی بھی بیری ہو، ان کا استعمال یادداشت اور توجہ جیسی صلاحیتوں میں تنزلی کا عمل سست کرتا ہے۔ یوں بڑھاپے میں بھی یادداشت متاثر نہیں ہوتی جبکہ کسی کام کے دوران بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔

کافی

اس میں پایا جانے والا جزو کیفین دماغی حسیات کو بہتر بناتا ہے نیز اینٹی آکسیڈینٹس دماغی صحت مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ دنیا کا یہ مقبول ترین گرم مشروب مایوسی یا ڈپریشن کے خاتمے کےلیے بھی مفید ہے۔

پالک

اس میں لیوٹین نامی اینٹی آکسیڈینٹ بڑی مقدار میں ملتا ہے جو دماغی تنزلی سے تحفظ دیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین پالک اور اس جیسی سبز پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتی ہیں، ان میں دماغی تنزلی کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔

ڈارک چاکلیٹ

اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرپور ڈارک چاکلیٹ پورے جسم کےلیے صحت بخش ہے مگر اس میں شامل کیفین دماغی تیزی کےلیے بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ چاکلیٹ فلیویونوئیڈز نامی کیمیکلز سے بھی بھرپور ہوتی ہے جو دوران خون کے ساتھ ساتھ دماغی صحت بھی بہتر بناتے ہیں۔ یہ کیمیکلز کولیسٹرول کنٹرول کرتے ہیں اور بلڈ پریشر بھی قابو میں رکھتے ہیں۔

پانی

water-good-for-brain-1522696820.jpg (600×400)

جب کوئی فرد پیاسا ہو تو اس کے دماغی ٹشوز بھی سکڑ جاتے ہیں۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پیاس دماغی افعال پر اثر انداز ہوتی ہے۔ درحقیقت پانی کی طلب مختصر مدت کی یادداشت، توجہ مرکوز کرنے اور فیصلہ سازی جیسی دماغی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لہذا جسم میں پانی کی کمی ہونے نہ دیجیے۔

مچھلی

fish-omega-3-good-for-brain-1522696818.jpg (600×400)

یہ غذا دماغ تیز کرنے میں مددگار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں شامل اومیگا تھری فیٹی ایسڈز (اومیگا تھری پروٹین) خاص طور پر سارڈین اور سامن مچھلیوں میں تو ان کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو ڈیمنشیا جیسے دماغی مرض کا خطرہ کم کرکے توجہ مرکوز کرنے اور یادداشت وغیرہ بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

انڈہ

یہ کولائن نامی ایک نیوٹریشن سے بھرپور ہوتا ہے جو جسم میں ایک دماغی جزو، ایسٹیلکولین کی مقدار بڑھا دیتا ہے جو یادداشت کو بہتر بناتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی زردی کا استعمال بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ ناشتے میں پروٹین سے بھرپور غذا جیسے انڈوں کا استعمال مجموعی دماغی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے جبکہ اس میں شامل ایسٹیلکولین آپ کو چیزیں بھولنے کی عادت سے بھی نجات دلاتا ہے۔

لہسن

اس کا استعمال دماغی کینسر کی کچھ اقسام سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکن کینسر سوسائٹی کی تحقیق کے مطابق لہسن میں موجود اجزا ایسے خلیات کا خاتمہ کرنے کا کام کرتے ہیں جو دماغی رسولی کا باعث بنتے ہیں۔

دالیں

دالوں کا استعمال بھی آپ کا دماغ تیز بناتا ہے۔ دالوں میں فلوٹین نامی وٹامن بی کی ایک قسم پائی جاتی ہے جو دماغی طاقت بڑھاتی ہے۔ یہ جزو امائنو ایسڈ کی مقدار بھی کم کرتا ہے جو دماغی افعال کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ ان کا استعمال موٹاپے سے بچاؤ میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جس سے بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب اور فالج وغیرہ کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

(تحریر: ایاز گیلانی)

The post دماغ کو بہتر بنانے والی چند غذائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کینسر لاحق کرنے والے جین پر حملہ کرنے والی کامیاب دوا

$
0
0

مشی گن: امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کینسر کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی نئی دوا ’Bromo domain  Inhibitor‘  انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ہے اور کینسر کا سبب بننے والے جین پر حملہ کر کے جسم میں کینسر کے مالیکیول کو پھیلنے سے روک دیتی ہے۔

مشی گن یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پھیپھڑوں اور پستان کے کینسر کا باعث بننے والے جین کے خلاف ایک دوا نہایت کارگر ثابت ہوئی ہے جس سے پھیپھڑوں، پستان اور موٹاپے کے باعث ہونے والے کینسر کی مختلف اقسام کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے پھیپھڑوں اور پستان کے کینسر میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لیے دواؤں کی خصوصی قسم Bromodomain Inhibitor  کو کامیابی سے استعمال کیا ہے یہ کینسر کے مرض میں استعمال ہونے والی ایک نئی دوا ہے جو کینسر کا سبب بننے والے جین پر حملہ آور ہوتی ہے اور کینسر کے پھیلنے کے عمل کو روک دیتی ہے۔

کینسر سے متعلق سائنسی جریدے Cancer Prevention  میں شائع ہونے والے دو الگ الگ مقالوں میں سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ موٹاپے کے باعث ہونے والے پھیپھڑوں اور پستان کے کینسر کے علاج میں BET Inhibitor کافی کارگر ثابت ہوئی ہیں اور 10 ہزار مریضوں کے ڈیٹا سے ثابت ہوا ہے کہ اس دوا سے 35 فیصد سے زیادہ مریضوں میں کینسر کا پھیلاؤ رک گیا۔

پروفیسر جیمی برنارڈ کا کہنا ہے کہ 50 فیصد سے زائد مریضوں میں پائے جانے والے جین c-Myc  پر یہ دوا I-BET-762  اثر انداز ہوئی اور اس جین کو کینسر زدہ ہونے سے محفوظ رکھا۔ c-Myc  جسم میں کینسر کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ یہی جین c-Myc  دراصل جسم میں موجود چربی کے خلیات میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی کیمیائی ترکیب اور اثرات کے باعث کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ موٹاپے کے مریضوں میں کینسر ہونے کا سبب یہی جین ہوتے ہیں اس لیے اس جین پر حملہ آور Bromodomain Inhibitor دوا کینسر کے مرض میں کارگر ثابت ہوئی ہے۔

The post کینسر لاحق کرنے والے جین پر حملہ کرنے والی کامیاب دوا appeared first on ایکسپریس اردو.

شہری گرمی میں باسی کھانوں سے گریز اور گھر کے مشروبات پئیں، ماہرین طب

$
0
0

کراچی: کراچی میں گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے دھوپ میںپسینے خارج ہونے سے جسم کے نمکیات ضایع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گرمی کے موسم میں جسم کا درجہ حررات بڑھ جاتا ہے ایسی صورت میں زیادہ کھانے سے  ڈائریا ہوسکتا ہے گرمی کے دوران فریج میں رکھے باسی کھانوں اور کھانے پینے کی اشیا سے اجتناب کریںگرمی کے موسم میں گوشت زیادہ کھانے سے بیمار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

ہری سبزیاں، سلاد، لیموں، دہی گرم موسم میں مفید ہوتے ہیں شدید گرمی کے دوران جسم میں پانی کی کمی سے ہیٹ اسٹروک ہوسکتا ہے ہیٹ اسٹروک میں تیز بخار بھی ہوجاتا ہے جبکہ پانی کی کمی سے ڈی ہائیڈریشن یعنی جسم میں نمکیات کی شدیدکمی واقع ہوجاتی ہے۔

شدید گرمی میں پیٹ کے انفیکشن سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے باسی کھانا کھانے اور بازار کی تلی ہوئی مرغن اشیا کھانے سے  پیٹ کا انفیکشن ہوسکتا ہے تیز مرچ والے اسپائسی کھانوں سے گریز کیا جائے ، تلی ہوئی اور مرغن کھانوں سے طبیعت خراب ہوسکتی ہے شہری شدید گرمی میں سڑکوں پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیا نہ کھائیں گرمی میں ٹھیلوں پر فروخت ہونے والے کٹے ہوئے پھل آلودہ ہوجاتے ہیں جن سے ڈائریا ہوسکتا ہے۔

گرمی میں ڈائریا اور گیسٹرو کے دوران اسہال اور قے کی شکایات عام ہوجاتی ہے بچوں کوبھی مضر صحت اشیا سے پرہیز کرائیں گرمی کے دوران لوڈ شیڈنگ سے اکثر فریج بند ہوجاتے ہیں اور ان میں رکھے کھانے باسی ہوجاتے ہیں لہذا فریج میں رکھے پرانے باسی کھانے سے گریز کیا جائے اور ہر کھانے کے وقت تازہ کھانا پکایا جائے گرمیوں میں لیموں اور روح افزا کا فرحت بخش شربت اور شکنج بین کا شربت اور گھر کی بنی کچی لسی پینا مفید ہوتا ہے۔

The post شہری گرمی میں باسی کھانوں سے گریز اور گھر کے مشروبات پئیں، ماہرین طب appeared first on ایکسپریس اردو.

معدے کی تیزابیت ختم کرنے والی دواؤں کا مسلسل استعمال کینسر کا سبب

$
0
0

 لندن: سائنس دانوں نے معدے کے کینسر کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ کو دریافت کر لیا ہے۔

برطانیہ کی بین الااقوامی جامعہ ’یونیورسٹی کالج لندن‘ (UCL)اور ہانگ گانگ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیقی ٹیم نے معدے کے کینسر کی وجوہات کا تعین کرنے کےلیے 63 ہزار 397 افراد پر مطالعہ کیا گیا۔ یہ تمام افراد معدے کی تیزابیت کے مرض میں مبتلا تھے اور ایچ پائلورک انفیکشن کے علاج کے لیے PPI اور دو مختلف اینٹی بایوٹک لے رہے تھے۔
ساڑھے سات سال تک جاری رہنے والے مطالعے سے پتہ چلا کہ تیزابیت لے علاج کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا Proton Pump Inhibitor کو تین سال مسلسل کھانے والے مریضوں میں معدے کا کینسر ہونے کی شرح دو گنا تھی اور 153 مریض ایچ پائلوری کی تھراپی کے خاتمے کے باوجود PPI استعمال کرنے والے افراد معدے کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔
تحقیق سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے ثابت ہوا کہ معدے کی تیزابیت میں مبتلا مریضوں کو ایچ پائلوری کورس مکمل ہونے کے بعد پروٹن پمپ انہیبیٹر PPI کے استعمال کو بھی روک دینا چاہیے اور غیر ضروری طور پر ادویات کو مسلسل استعمال نہیں کرنا چاہیے اسی طرح تیزابیت کو ختم کرنے والی ادویات کو روزانہ کی بنیاد پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنے ضروری ہے کہ معدے کی تیزابیت اور سینے کے جلن کے مرض میں استعمال ہونے والی یہ دوا جسے طبی اصطلاح میں Proton Pump Inhibitor کہا جاتا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ترقی پزیر ممالک میں بھی بغیر ڈاکٹری نسخے کے میڈیکل اسٹورز پر فروخت کی جاتی ہیں، ان ممالک میں ان ادویات کو ’کاؤنٹر سیل‘ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے جو کہ عالمی ادارہ برائے صحت کے مروجہ اصولوں اور ضوابط کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔

The post معدے کی تیزابیت ختم کرنے والی دواؤں کا مسلسل استعمال کینسر کا سبب appeared first on ایکسپریس اردو.

پاستا، میکرونی اور اسپیگٹی سے وزن بڑھتا نہیں کم ہوتا ہے، نئی تحقیق

$
0
0

ٹورنٹو: پاستا، میکرونی اور اسپیگٹی کے شوقین افراد کے لیے اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ یہ غذائیں وزن بڑھاتی نہیں بلکہ کم کرتی ہیں۔

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاستا، میکرونی اور اسپیگٹی وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ہفتے میں تین بار یہ اطالوی غذائیں کھانے سے 3 ماہ کے دوران وزن میں آدھا کلو کمی آتی ہے۔

ٹورنٹو کے مائیکل اسپتال میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ان غذاؤں میں گلے سیمک انڈیکس(جی آئی) دیگر کاربو ہائیڈریٹس کے برعکس کم ہوتا ہے  جو کہ  خون میں اچانک  شکر(شوگر) کی مقدار نہ بڑھنے کی وجہ  نہیں بنتا۔

یہ بھی پڑھیں:  دنیا بھر کی چیونٹیوں اور انسانوں کا وزن برابر ہے، دلچسپ تحقیق میں دعویٰ

سابقہ تحقیق میں محققین نے تجویز کیا تھا کہ گلے سیمک انڈیکس(جی آئی) والی غذائیں زیادہ اطمینان بخش ہوتی ہیں اسی وجہ سے لوگوں کو بھوک  دیر سے لگتی ہے۔

تازہ تحقیق کے مصنف ڈاکٹرجان کا کہنا ہے کہ ہم تسلی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ  پاستا وزن بڑھانے میں انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تاہم ضروری ہے کہ اس کا استعمال ٹھیک انداز میں کیا جائے۔

ڈاکٹر جان کا کہنا ہے کہ تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پاستان وزن  بڑھانے یا جسم میں موٹاپا  بڑھانے میں حصے دار نہیں بنتا، خدشات کے برعکس پاستا شاید صحت مند غذا کا حصہ بن جائے جیسا کہ کم گلے سیمک انڈیکس (جی آئی) والی غذائی اشیاء ہیں۔

The post پاستا، میکرونی اور اسپیگٹی سے وزن بڑھتا نہیں کم ہوتا ہے، نئی تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

مرگی، ایک دماغی مرض

$
0
0

مرگی (Epilepsy) کے بارے میں ہمارے معاشرے میں کئی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مرگی کے مریض پر جن یا بھوت کا سایہ ہوتا ہے۔ اس پر جن ’آتا‘ ہے تو یہ حالت ہوجاتی ہے ( حالت سے مراد دورے کا پڑنا ہے )۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان افراد کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ نیز یہ افراد زندگی میں کوئی قابل ذکر کام کرنے یا نام کمانے کے قابل نہیں ہوتے۔

مرگی کے مرض کا شعور رکھنے والے لوگ اسے لاعلاج سمجھتے ہیں کہ موت کے ساتھ ہی مریض کی اس مرض سے جان چُھوٹتی ہے۔ یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ مرگی کے مریض نہ تو شادی کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی باپ یا ماں بن سکتے ہیں۔ یہ تمام غلط تصورات ہیں۔

مرگی ایک دماغی بیماری ہے جیسے دوسری دماغی بیماریاں مثلاً فالج وغیرہ ہوتی ہیں۔ یہ دما غ میں برقی انتشار پیدا ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ ہر انسان کے دماغ میں برقی کرنٹ کارفرما ہوتا ہے۔ اسی کرنٹ کے ذریعے دماغ کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے منسلک رہ کر اپنا فعل انجام دیتا ہے۔ بعض انسانوں کے دماغ میں کسی خاص وجہ سے دماغی کرنٹ کی پیداوار کا نظام وقفے وقفے سے بگڑ جاتا ہے، اس کا نتیجہ مرگی کے دورے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

علامات

مرگی کے دورے کی علامات میں مریض کا بے ہوش ہونا ، پیشاب خطا ہوجانا ، زبان کا دانتوں کے بیچ میں آجانا ، ہاتھ پاؤں کا مڑ جانا یا اکڑ جانا، آنکھوں کی پتلیوں کا اوپر چڑھ جانا ، منہ کا سختی سے بند ہوجانا شامل ہیں۔ ان سب علامات کا دورانیہ ایک سے دو منٹ کا ہوتا ہے اور اگر کسی مریض میں پانچ منٹ سے زیادہ یہ علامات برقرار رہے تو اسے فوراً اسپتال لے جانا چاہیے۔ یہ تمام علامات عموماً بڑی مرگی میں پائی جاتی ہیں ۔ جیسے ہم عام طور پرGeneralize and Focal Eplipsyکہتے ہیں۔

دوسری جانب چھوٹی مرگی جوکہ بچوں میں پائی جاتی ہے ، اس میں بچے کوئی بھی کام کرتے کرتے اچانک دس سے پندرہ سیکنڈ کے لیے گم صم یا خاموش ہوجاتے ہیں ۔ جسے ہم عام طور پر Blank Seizuresیا Absenceکہتے ہیں ۔ کچھ مریض اچانک کھڑے کھڑے نیچے گر جاتے ہیں، اسے Atonic Seizures  کہا جاتا ہے۔ اس میں سر میں چوٹ پر چوٹ لگنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مریضوں کو ایک خاص قسم کا ہیلمنٹ پہنایا جاتا ہے تا کہ مریض کو سر پر چوٹ لگنے سے بچایا جائے ۔

اسباب

یوں تو مرگی کا مرض دماغ میں برقی کرنٹ کی زیادتی کے باعث ہوتا ہے، مگر اس کی کئی اور وجوہ بھی ہوتی ہیں، جیساکہ خون میں شکر کا کم ہوجانا ، نمکیات کی کمی کا ہوجانا، کیلشیم کی سطح کا گرجانا، دماغ کی رسولی، دماغ کا انفیکشن جیسے کہ دماغ کی ٹی بی اور ملیریا وغیرہ، دماغ کا فالج ، سر کی چوٹ وغیرہ۔ پاکستا ن میں عام طور پر مرگی کی بڑی وجہ سرکی چوٹ، دماغ کا فالج ، دماغ کا ملیریا ( Cerebral Malaria) ہے ۔

پانچ سال کے بچوں میں اکثرو بیشتر بخار کے ساتھ ساتھ مرگی کے بھی جھٹکے پڑتے ہیں جسے ہم Febrile Seizure کہتے ہیں ۔ کچھ خواتین میں ماہواری کی وجہ سے ہارمون کا نظام غیرمتوازن ہوتا ہے جوکبھی کبھار مرگی کے جھٹکوں کا سبب بنتا ہے۔ اسے Cataminal Epilepsyکہا جاتا ہے ۔ حاملہ خواتین میں خون گاڑھا ہونے کی وجہ سے دما غ کی شریا نوں میں جم جاتا ہے ، اس کیفیت کو Caverneous Venous Thrombosis کہا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین کو بلڈ پر یشر بڑھ جانے، جسم کے سوج جانے اور پیشاب میں پروٹین بڑھ جانے کی وجہ سے بھی مرگی کے دورے پڑسکتے ہیں۔ اس کیفیت کو clampsiaکہتے ہیں ۔

تشخیص

مرگی کے مریضوں کے کچھ خاص ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ دماغ کی پٹی جس کو ہم عام طور پر EEGکہتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ دما غ کا MRIیا CT Scan، Blood Sugar ، Calcicum، Electrolytes اور اگر دماغ کے انفیکشن کا شک ہو تو ریڑھ کی ہڈی کا پانی (Lumbar Puncture) نکالا جاتا ہے ۔

احتیاط

مرگی کے مریض کو جھٹکے لگتے ہوئے دیکھیں تو سب سے پہلے اُس کو پیٹ کے بل لٹادیں تاکہ سانس کی نالی میں کوئی چیز نہ جاسکے ، اگر مریض نے چُست لباس پہنا ہوا ہے تو اس کے بٹن وغیرہ کھول کر ڈھیلا کردیں۔ مریض کے منھ میں کچھ نہ ڈالیں نہ اسے دبوچیں۔ اگر جھٹکوں یعنی دورے کا دورانیہ پانچ منٹ سے بڑھ جائے تو فوراً ایمبولینس بلاکر مریض کو جلد از جلد اسپتال پہنچائیں ۔ کچھ چیزیں مرگی کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں جیسے کہ رات کو دیر سے سونا، ذہنی دباؤ ، گرم موسم ، الکوحل کا استعمال ، ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ۔

علاج

مرگی کا مرض ادویہ کے استعمال سے 70فی صد تک ختم کیا جاسکتا ہے اور بقیہ 30فی صد کو کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔ مرگی کے مریضوں کو کچھ پرانی ادویہ مثلاً Sodium Valporate، Carbamazpine  ،Phenobarbitone، وغیرہ اور کچھ نئی ادویہ مثلاً Levitericetam، Lamotrigineوغیرہ دی جاتی ہیں۔ کچھ دوسرے طریقے سے بھی مرگی کا علاج کیا جاتا ہے مثلاً ایک خاص قسم کی خوراک جس کو Ketogenic Diet کہا جاتا ہے، دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ Vagal Nerve Stimulation  اور Epilepsy  Surgery  جیسے طریقے بھی مرگی کے علاج میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ مرگی قابل علاج مرض ہے لہٰذا مرگی کا مریض معاشرے میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتا ہے ۔ اور باقاعدگی سے دوائیاں لینے سے یہ مرض ختم ہوسکتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ ایسے مشہور لوگوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے مرگی جیسے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود نام کمایامثلاً شنہشاہ سکندر اعظم ، سائنس داں نیوٹن ، نوبیل انعام شروع کرنے والے الفرڈ نوبیل ، دنیائے کرکٹ کے مایہ ناز کرکٹر جونٹی رہوڈز اور ٹونی گریگ،  سابق امریکی خاتون اول ہلیری کلنٹن اور پاکستان کے سب سے محترم سماجی کارکن مرحوم مولانا عبدالستار ایدھی صاحب وغیرہ۔

The post مرگی، ایک دماغی مرض appeared first on ایکسپریس اردو.


دہی کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر اورامراضِ قلب سے بچانے میں مددگار

$
0
0

 واشنگٹن: ماہرین نے ایک بہت بڑے سروے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ دہی کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر اور دل کے امراض سے بچاتا ہے۔ 

ہائی بلڈ پریشر، فالج اور امراضِ قلب کی بڑی وجہ ہے، اسی بنا پر اس کیفیت کو ’خاموش قاتل‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب آبادی ہائی بلڈ پریشر کی شکار ہے تاہم  دہی کا استعمال اس مرض کو قابو میں رکھتا ہے اور یوں دل کے متعدد امراض کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔

اس ضمن میں نرسز ہیلتھ اسٹڈی کی گئی جس میں 30 سے 35 برس کی 55 ہزار ایسی خواتین کو شامل کیا گیا جنہیں بلند فشارِ خون کا عارضہ لاحق تھا جب کہ ساتھ ہی 40 سے 75 سال کے 18 ہزار مردوں کو بھی شامل کیا گیا اور کئی سال تک ان ہزاروں مردوزن کا جائزہ لیا گیا۔

1980 سے شروع کیے گئے اس سروے میں شرکا سے مختلف وقفوں میں 61 سوالات کیے گئے۔ اس دوران شرکا سے فالج، دل کے امراض اور دیگر کیفیات کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ ان میں سے جنہوں نے دہی کا باقاعدہ استعمال کیا تھا ان میں دل کے دورے کا خطرہ 30 فیصد تک کم دیکھا گیا جب کہ خواتین میں یہ شرح 19 فیصد تھی۔

اس سروے میں 3 ہزار 300 خواتین اور 2 ہزار 148 مردوں کو دل، قلبی رگوں یا فالج وغیرہ کا حملہ ہوا۔ سروے کے پورے عرصے میں جنہوں نے ہفتے میں دو مرتبہ دہی کھایا تھا ان میں یہ خطرات 20 فیصد تک کم دیکھے گئے۔ ماہرین کے مطابق اس اہم مطالعے سے دہی کی افادیت سامنے آئی ہے۔

تحقیقی ٹیم کے اہم رکن جسٹن بیونڈیا کا کہنا ہے کہ اس سے قبل قیاس کیا جاتا رہا تھا کہ دہی بلڈ پریشر معمول پر رکھتا ہے تاہم اب ہزاروں افراد پر کئے گئے 30 سالہ مطالعے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دہی جسم پر مفید اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ بلڈ پریشر میں مبتلا افراد پر دہی کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بلڈ پریشر میں دہی کا استعمال بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

The post دہی کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر اورامراضِ قلب سے بچانے میں مددگار appeared first on ایکسپریس اردو.

صحت مند زندگی کیلیے کم کھائیں اور زیادہ واک کریں، ماہرین

$
0
0

کراچی: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ صحت مند زندگی کواپنانے کیلیے کم کھائیں اورزیادہ واک کریں کیونکہ پاکستان میں ذیابیطیس کا مرض ہولناک صورت اختیار کررہا ہے۔

صنوفی کی بین الاقوامی ذیابیطس کانفرنس میں عالمی ماہرینِ ذیابیطس نے خطاب اور پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان میں اس وقت اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد75لاکھ سے بھی تجاوزکرگئی ہے، ذیابیطیس کے مرض کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ اس مرض کی پیچیدگیوں سے امراض قلب، گردے اورا ٓنکھوں کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

صنوفی پاکستان کی جانب سے منعقدہ ذیابیطس کانفرنس میں ذیابیطس ایسو سی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر اے صمد شیرا نے پریس کانفرنس اور طبی ماہرین کے پینل کے مختلف سوالوں کے جواب میں کہاکہ صحت مند طرزِ زندگی کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذیابیطس کے باقاعدگی سے ٹیسٹ کرائیں خصوصاً ان افرادکیلیے جن میں اس مرض کا شکار ہونے کی ظاہری طبی علامات موجود ہوں۔

عالمی ماہرینِ ذیابیطس نے انٹر نیشنل ڈایابیٹز فیڈریشن کی ہدایت ‘کم کھائیں ، زیادہ چلیں ‘ کو اپنانے پر بھی زور دیا،انھوں نے کہاکہ آئی ڈی ایف ڈائبٹیز ایٹلس کے 2017 میں شائع کردہ آٹھویں ایڈیشن کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 75 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح کو پالیسی سازوں، ذیابیطس کے مریضوں، ابتدائی طبی امداد دینے والے عملے، ڈاکٹروں، ذرائع ابلاغ اور مختلف ماہرینِ امراض کی مشترکہ کاوشوں سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

پانچویں انٹرنیشنل ڈائبٹیز کانفرنس کا انعقاد صنوفی پاکستان اور ڈائبٹیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اشتراک سے کیا گیاجس میں صدر انٹر نیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن پروفیسر نام ہان چو نے ذیابیطس کا مقابلہ کرنے کے لیے طبی تعلیم کو اہم ترین ہتھیار قرار دیا۔

پروفیسر ماسیمو مسّی بینڈیٹی صدر اور سائنٹفک ڈائریکٹر، حب فار انٹرنیشنل ہیلتھ ریسرچ اٹلی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آج ذیابیطس کے شکار لوگوں میں اولمپکس کے کئی گولڈ میڈلسٹ بھی شامل ہیں، ہائی پو گلسمیا یعنی خون میں شوگر کی کم مقدارکا خوف لوگوں کے رویوں پر اثر اندا ز ہوکر منفی نتائج کی وجہ بن رہا ہے۔

ڈاکٹر ڈاریو راہیلیک، صدر کرو شیا کی سوسائٹی فار ڈائبٹیز اینڈ میٹابولک ڈیزیزز نے کہا کہ علاج میں تاخیر دل کے امراض اورکئی طبی پیچیدگیوںکا سبب بن سکتی ہے اور ذیابیطس کے مریضوں میں دل کے امراض سب سے زیادہ اموات کا سبب ہیں۔

صنوفی پاکستان کے جنرل منیجر اور منیجنگ ڈائریکٹر عاصم جمال نے کہا کہ ذیابیطس کے میدان میں صنوفی کا تجربہ سو سال کا ہے، صنوفی نہ صرف اپنی پیش کردہ مربوط دوائیں بلکہ صنوفی انٹرنیشنل ڈائبٹیز کانفرنس کی طرز پر طبی و تدریسی تقریبات، سائنسی ورکشاپس اور کانفرنسوں کا انعقاد کر کے ذیابیطس کے علاج کو بہتربنانے کے عزم پر قائم ہے، مذکورہ کانفرنس5سال سے منعقد کی جارہی ہے۔

 

The post صحت مند زندگی کیلیے کم کھائیں اور زیادہ واک کریں، ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.

آنکھوں کے لاعلاج مرض کیلئے زندہ خلیات کا پیوند تیار

$
0
0

لاس اینجلس: امریکی ماہرین نے بینائی چھیننے والے لاعلاج مرض ’میکیولر ڈی جنریشن‘ کے متاثرین کی آنکھوں میں زندہ خلیات سے بنے پیوند لگا کر نظر کو بہتر بنانے میں اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ بصارت میں شدید کمی کی ایک وجہ میکیولر ڈی جنریشن ہے جس میں آنکھ کے پردے (ریٹینا) میں دھیرے دھیرے خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس عمل کو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً 60 سال کی عمرکے بعد میکیولر ڈی جنریشن کا مرض کئی افراد کو لاحق ہوجاتا ہے۔

اب ماہرین نے چار عمر رسیدہ افراد کی آنکھ میں خاص حیاتیاتی پیوند لگا کر ان کی نظر کو بہتر بنانے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ ان مریضوں میں ایک 69 سالہ خاتون بھی شامل ہیں جو پہلے نظر کے ٹیسٹ کے چارٹ پر صرف 7 حروف پڑھ سکتی تھیں لیکن اس پیوند کاری کے بعد اب 24 حروف پڑھ لیتی ہیں۔

لاس اینجلس میں واقع یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے پروفیسر عامر کاشانی اور ان کے ساتھیوں نے پولیمر سے بنی 6 ملی میٹر چوڑی اور 4 ملی میٹر لمبی چپ بنائی اور اس پر ریٹینا کے صحت مند خلیات لگائے۔ اس کے بعد چار مریضوں کی ایک ایک آنکھ کی پشت پر یہ پیوند لگایا گیا جبکہ دوسری آنکھ کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا۔

ماہرین کے مطابق ایک جانب تو یہ حیاتیاتی پیوند نظر کو بہتر بناتا ہے تو دوسری جانب آنکھوں میں خشک میکیولر ڈی جنریشن کا علاج کرتا ہے جو اس مرض کی سب سے عام قسم ہے اور بصارت کھونے والے 90 فیصد افراد اسی کے شکار ہوتے ہیں۔

اسی طرح کے پیوند، نمی والی میکیولر ڈی جنریشن کےلیے تیار کیے جاچکے ہیں۔ اس کیفیت میں خون کی نالیاں ریٹینا کے ایپی تھیلیئل خلیات پر حملہ آور ہوکر انہیں تباہ کردیتی ہیں۔

پروفیسر عامر کاشانی کہتے ہیں کہ پیوند کاری کے ایک سال بعد جب تمام مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو پیوند والی آنکھ مستحکم اور ٹھیک تھی جبکہ جس آنکھ پر پیوند نہیں لگا اس کی بصارت مزید خراب ہوتی گئی۔ اب اگلے مرحلے میں یہ پیوند مزید مریضوں کو لگایا جائے گا۔

The post آنکھوں کے لاعلاج مرض کیلئے زندہ خلیات کا پیوند تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

ایک پاؤں پر کھڑے رہنے کے حیرت انگیز فوائد

$
0
0

نیویارک: جسمانی ورزش کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ دس سے پندرہ منٹ تک ایک پاؤں پر کھڑے رہنے سے نہ صرف جسم کے جوڑ مضبوط ہوتے ہیں بلکہ توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اسکول کے زمانے میں اساتذہ کی جانب سے کان پکڑ کر ایک ٹانگ پر کھڑے رہنے کی سزا دی جاتی تھی اور مرغا بنایا جانا بھی ایک عام سزا ہوا کرتی تھی، اسی طرح تاخیر سے اسکول آنے پر میدان میں دوڑ لگوانا یا اُٹھک بیٹھک کروانا بھی طالب علموں کو دی جانے والی عام سزائیں تھیں لیکن اس کے حیرت انگیز سائنسی فوائد بھی ہیں۔

گو کہ اساتذہ یہ سزائیں نظم وضبط کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے دیا کرتے تھے لیکن جسمانی ورزش کے ماہرین اور فزیو لوجسٹ کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں جسمانی مضبوطی اور صحت کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ بالخصوص ایک ٹانگ پر کھڑے رہنا جسم کے جوڑوں کی مضبوطی اور توازن کو برقرار رکھنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ایک عمدہ مشق ہے۔

کسرت کے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ دن میں 15 منٹ کے لیے ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر دونوں ہاتھوں کو طیارے کے پَر کی طرح دائیں و بائیں جانب پھیلا کر آنکھیں بند کرلیں اور ہر بیس سیکنڈ بعد پاؤں تبدیل کرتے رہیں اس طرح آپ کا جسم توازن کرنا سیکھ جائے گا اور جسم کے پٹھے اور ہڈیوں کے جوڑ مضبوط ہوجائیں گے۔

امریکا میں فٹنس سینٹر چلانے والے ماہر جسمانی ورزش والکر کا کہنا ہے کہ ایک پاؤں پر کھڑے رہنے میں دشواری کا سامنا ہو تو اپنے دونوں ہاتھوں سے کانوں کو پکڑ لیں اس طرح جسم کا توازن برقرار رہے گا اور آپ فرش پر نہیں گریں گے اسی طرح جب توازن برقرار ہو جائے تو دوبارہ ہاتھوں کو پھیلالیں اس دوران نارمل طریقے سے سانس لیتے رہیں۔

The post ایک پاؤں پر کھڑے رہنے کے حیرت انگیز فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.

بوڑھے افراد کے دماغوں میں بھی نوجوانوں کی طرح نئے خلیات بنتے ہیں، تحقیق

$
0
0

 واشنگٹن: ماہرین نے یہ زبردست خبر دی ہے کہ بوڑھے افراد کے دماغ میں بھی نئے خلیات عین اسی طرح بنتے ہیں جیسے  کہ نوجوانوں میں جنم لیتے ہیں۔

اس سے قبل ماہرین کہتے رہے ہیں کہ 40 سال کے بعد سے دماغی زوال شروع ہوجاتا ہے اور بڑھاپے میں نئے اعصابی خلیات پیدا نہیں ہوتے تاہم نئی تحقیق نے اس خیال کو ہمیشہ کے لیے مسترد کردیا ہے۔ یہ تحقیق ’سیل‘ نامی تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمر رسیدہ دماغوں میں بھی جوانوں کی طرح نئے خلیات بنتے رہتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر اعصابیات ڈاکٹر مورا بولڈرینی کہتے ہیں کہ مجھے اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں یہ کہا جاتا رہا تھا کہ ایک عمر تک انسانی دماغ نئے سیلز بنانا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اب بوڑھے چوہوں پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں نئے خلیات بنتے ہیں، جبکہ اگلے مرحلے میں جب انسانوں کو نوٹ کیا گیا تو ان میں بھی عین یہی نتائج برآمد ہوئے، اس تحقیق میں پوری انسانی زندگی میں دماغی خلیات کی پیداوار کو بھی مدِنظر رکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر مورا بولڈرینی اور ان کے ساتھیوں نے صحت مند افراد کے جسم سے نکالے ہوئے ایسے 28 بھیجوں کا معائنہ کیا جو 14 سے لے کر 79 سال تک کے افراد کے تھے۔ یہ دماغ قبل ازمرگ وصیت میں عطیہ کیے گئے تھے۔ ان افراد کو کوئی دماغی یا بڑی بیماری لاحق نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی قسم کا نشہ کرتے تھے کیونکہ منشیات دماغ پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

ماہرین نے تمام دماغوں کے ہپوکیمپس کو کھول کر دیکھا اور اس کی قاشیں بنا کر اس میں بننے والے نئے خلیات کو خردبین سے دیکھا۔  اس کے بعد کمپیوٹر سافٹ ویئر کے ذریعے دماغ میں بننے والے نئے خلیات کو شمار کیا گیا۔ سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بوڑے دماغ مکمل طور پر نہیں بدلتے بلکہ وہ جوان دماغوں کی طرح نئے خلیات بناتے ہیں لیکن ان میں خون کی نالیاں کم کم بنتی ہیں جبکہ جوان دماغوں  کے مقابلے میں ان میں خلیاتی کنکشنز جلدی نہیں بنتے۔

اس نئی تحقیق کے بعد سے برسوں پرانا ایک مفروضہ ختم ہوگیا ہے کہ بڑھاپے میں انسانی دماغ میں نئے خلیات نہیں بنتے۔

The post بوڑھے افراد کے دماغوں میں بھی نوجوانوں کی طرح نئے خلیات بنتے ہیں، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’عالمی یوم صحت‘ منایا جا رہا ہے

$
0
0

نیویارک: ہر سال کی طرح اس سال بھی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے آج 7 اپریل کو دنیا بھر میں ’عالمی دن برائے صحت‘  منایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے عالمی صحت (World Health Organization) کی جانب سے ہر سال 7 اپریل کو یوم صحت منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن کو ایک خاص عنوان سے منایا جاتا ہے جس کا مقصد صحت کے پیچیدہ مسائل سے آگاہی فراہم کرنا اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے ’عالمی یوم صحت‘ پہلی بار 1948 میں منایا گیا جس کے بعد ہر سال 7 اپریل کو یہ دن منایا جا رہا ہے۔

اس سال عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے یوم صحت کو یونیورسل ہیلتھ کوریج (Universal Health Coverage) کے عنوان کے نام سے منایا جا رہا ہے جس کا مقصد  صحت کی سہولت ہر ایک شخص تک ہر ایک جگہ فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ’صحت سب کے لیے‘ کے عنوان سے سمینار منعقد کیے جارہے ہیں۔

دنیا کو اس وقت ٹی بی، ذیابیطس، امراض قلب، بلند فشار خون اور ہیپاٹائٹس کے علاوہ مختلف وائرل امراض جیسے چکن گونیا وغیرہ کا سامنا ہے جس کے سدباب کے لیے عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے حکومتوں اور بااثر افراد تک رسائی حاصل کی جاتی ہے اور انہیں صحت کے شعبے میں کام کرنے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔

دنیا کی بیشتر آبادی اس وقت صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی بنیادی وجہ صاف پانی کی عدم دستیابی، رہائش کی کم جگہ کا میسر ہونا، آلودہ ماحول اور آگاہی کا فقدان ہے جس کے لیے حکومت اور سماجی تنظیموں کو بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے اسی وجہ سے ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن نے اس سال یوم صحت کو صحت سب کے لیے کے عنوان سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

The post پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’عالمی یوم صحت‘ منایا جا رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

کھانوں کا اہم جز لہسن متعدد فوائد کا حامل

$
0
0

لہسن بیشتر کھانوں کا جزو ہوتا ہے مگر یہ کھانے پکانے کے علاوہ دیگر فوائد بھی رکھتا ہے یہ جان کر یقیناً ہم اپنی خوراک میں لہسن کا مزید اضافہ کردیں گے۔

کیل مہاسوں کا خاتمہ

یہ کیل مہاسے دور کرنے والی ادویات کا مرکزی جزو تو نہیں مگر لہسن قدرتی علاج ضرور ہے۔ اس میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس بیکٹریا ختم کرتے ہیں۔ لہسن کی پوتھی کیل مہاسے پر رگڑنا بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

نزلہ زکام کی روک تھام

اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہونے کے باعث آپ کی غذا میں لہسن کی شمولیت جسم کے دفاعی نظام کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار ہوجائیں تو دل مضبوط کرکے لہسن کی چائے پی لیں۔ اسے بنانے کے لیے لہسن پیس کر پانی میں کچھ منٹ تک ابالیں، اس کے بعد چھان کر پی لیں۔ اس میں تھوڑا سا شہد یا ادرک بھی ذائقہ بہتر کرنے کے لیے شامل کرلیں۔

وزن کنٹرول کریں

لہسن جسمانی وزن کنٹرول کرنے میں مددگار ہے۔ لہسن سے بھرپور غذا سے چربی کے ذخیرے اور وزن میں کمی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے لہسن کو روزانہ اپنی غذا کا حصہ بنائیے۔

بال اگائیے

لہسن بال گرنے کے مسئلے کو ختم کرسکتا ہے۔ وجہ اس میں شامل ایک جز الیسین کی بھرپور مقدار ہے۔ یہ سلفر کمپاؤنڈ پیاز میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق یہ بالوں کے گرنے کی روک تھام کے لیے موثر ہے۔ لہسن کاٹ لیں اور اس کی پوتھیوں کو سر پر ملیں۔ آپ تیل میں بھی لہسن شامل کرکے مساج کے ذریعے یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

مچھر دور بھگائیے

ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ لہسن کے پیسٹ کو اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مل لیتے ہیں انہیں مچھروں کا ڈر نہیں رہتا۔ اس کے لیے آپ لہسن کے تیل، پیٹرولیم جیل اور موم کو ملا کر ایک سلوشن بنالیں جو مچھروں سے تحفظ دینے والا قدرتی نسخہ ثابت ہوگا۔

ہونٹوں پر زخم سے نجات

شدید ٹھنڈ میں ہونٹوں کا پھٹ جانا یا زخمی ہوجانا کافی عام ہے۔ اس کے علاج کے لیے پسے ہوئے لہسن کو کچھ دیر تک متاثرہ جگہ پر لگائے رکھیں۔ اس میں شامل قدرتی سوجن کش خصوصیات درد اور سوجن کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

لہسن قدرتی گلیو بھی

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ لہسن کاٹنے کے بعد انگلیاں کس طرح چپکنے لگتی ہیں ؟ اس کی یہ قدرتی خوبی اسے شیشے کے معمولی کریک ٹھیک کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے لیے لہسن کو پیس لیں اور اس کے عرق کو کریک پر رگڑیں اور اوپر نیچے کے حصے کو صاف کردیں۔

پودوں کو تحفظ فراہم کرے

باغات میں پائے جانے والے کیڑے لہسن کو پسند نہیں کرتے۔ اس کی مدد سے ایک قدرتی پیسٹی سائیڈ دوا تیار کرلیں ۔ لہسن، منرل آئل، پانی اور لیکوئیڈ صابن کو ایک اسپرے بوتل میں آپس میں ملالیں اور پودوں پر چھڑک دیں۔

خارش سے نجات

لہسن سوجن دور کرنے والے اجزا سے بھرپور ہے۔ اسی لیے یہ اچانک ہونے والی خارش سے نجات دے سکتا ہے۔ لہسن کے تیل کی کچھ مقدار متاثرہ جگہ پر استعمال کریں تو وہاں خارش ختم ہوجائے گی۔

لکڑی کے ریشے نکالیے

ادرک کا ایک ٹکڑا متاثرہ جگہ کے اوپر رکھ کر اسے بینڈیج یا ٹیپ سے کور کرلیں۔ اگر پاؤں میں پھانس چبھی ہے تو جرابوں کو چڑھا لیں ، رات بھر آرام کریں اور صبح اسے ہٹا دیں۔ پھانس کے ساتھ ساتھ درد اور سوجن بھی ختم ہوجائے گی۔

The post کھانوں کا اہم جز لہسن متعدد فوائد کا حامل appeared first on ایکسپریس اردو.


تمہیں کینسر ہے۔۔۔

$
0
0

چند روز پہلے دفتر کی ایک ساتھی نے جلد چھٹی کی اجازت چاہی جس کی وجہ انہوں نے اپنی کسی قریبی دوست کو چھاتی کا سرطان ہونا اور عیادت کے لئے ان کے گھر جانا بتائی۔ اگلے روز جب رفیقِ کار سے ملاقات ہوئی تو اُن کی دوست کی طبیعت کے بارے میں دریافت کرنے پر جو حقائق سامنے آئے وہ یقیناً ہمارے معاشرے میں کینسر کی آگہی اور اُن تمام سماجی اور ثقافتی رویوں کا اظہار کر رہے ہیں جن میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔

جس خاتون کی عیادت کرنے کے لئے میری ساتھی ان کے گھر گئیں وہ گھر میں ہونے کے باوجود اُن سے نہ ملیں۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ ساتھی نے بتایا کہ اُنھوں نے گھر والوں کے طرزعمل سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ مریضہ اور اُس کے لواحقین بیماری کی نوعیت کو چھپانا چاہ رہے تھے۔ اس لئے وہ خودکسی سے نہیں ملتی اور اُس کے گھر والے بھی ایسا ہی چاہتے تھے۔ مزید جاننے پر پتا چلا کہ مریضہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی اچھے سکول میں پڑھاتی ہیں۔ لیکن اپنے مرض کے بارے میں آگہی کی کمی کے باعث اُس کی سنگینی کا بروقت اندازہ نہ کر سکیں۔ اور ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اپنا مسئلہ کسی سے شئیر بھی نہیں کیا حتیٰ کہ شوہر سے بھی یہ بات انھوں نے چھپائی۔

جب طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو گھر والوں نے زور دینا شروع کیا کہ ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔ تشخیص کے مراحل سے ہوتے ہوئے جب یہ بات سامنے آئی کہ اُنھیں چھاتی کا کینسر ہے اور وہ بھی ابتدائی درجات سے آگے بڑھ چکا ہے اور فوری علاج کی ضرورت ہے۔ تو خاتون نے ڈاکٹری علاج کروانے سے انکار کردیا۔ اس تمام صورتحال کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ خاتون کا شوہر اب اُسے اپنے گھر لے کر جانے سے کترا رہا ہے اور لڑکی کو اُس کے ماںباپ کے گھر چھوڑا ہوا ہے۔

یہ ساری تفصیل جان کر احساس ہوا کہ ہم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی کئی ایک باتوں میں اب بھی جہالت کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری جہالت ہی ہے کہ ہم اپنے جسم اور اس کے افعال میں ہونے والی کسی بھی غیر معمول تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم اکثر ایسی چیزوں کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرتے۔ ڈاکٹر کے پاس جانے میں عموماً دیر کر دیتے ہیں اور ڈاکٹری علاج کو اپنی سب سے آخری ترجیح پر رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ٹوٹکوں اور عطائیوں کے چکر میں پڑے رہتے ہیں(جو کینسر کے مرض میں توکسی بھی طرح گوارا نہیں کیا جا سکتا ) اور اگر خدانخواستہ کوئی سنگین بیماری جیسا کہ کینسر تشخیص ہو جائے تو ہم مریض کو سماجی طور پر تنہا کر دیتے ہیں اور اپنے رویوں سے کینسر کے مرض کا سن کر یعنی’’ تمہیں کینسر ہے‘‘ اس جملے کے خوف سے پہلے ہی آدھے مرے ہوئے مریض کو پورا ماردیتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔

جبکہ لوگوں کو کینسر جیسے مرض سے بچائو کے بارے میں آگاہی کی فراہمی، سرطان کے علاج و معالجے کی سہولیات کی دستیابی، کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال کے انتظامات اور ان سب کے بارے میں موثر منصوبہ بندی پر مبنی پالیسیوں کی تیاری اور اطلاق تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس رخ کو اجاگر کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ بہتری کی تدابیر ہو سکیں اور7 اپریل کو دنیا بھر میں صحت کے منائے جانے والے عالمی دن جس کے لئے اِمسال ’’صحت کی سہولیات کی عالمگیر رسائی۔۔۔ سب کے لئے ہر جگہ‘‘ کا عنوان(Theme) اور ’’ صحت سب کے لئے‘‘ کا نعرہ (Slogan) تجویز کیا گیا ہے ۔ اس کی مناسبت سے ملک میں کینسر جیسے نظر انداز ہونے والے شعبے کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔

ماہرین کے مطابق کینسر سے بچائو اور علاج کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کینسر کے اعدادوشمار کے مختلف پہلوئوں کے اندراج کا مربوط نظام واضع کیا جائے جسے کینسر رجسٹری کہا جاتا ہے۔ افسوس اب تک ہمارے پاس قومی سطح پر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کی مدد سے ملک میں کینسر کے مرض کی حقیقی صورتحال معلوم ہو سکے اور کینسر کی جامع پالیسیاں مرتب کی جا سکیں۔

اگر چہ وفاقی وزارت ہیلتھ سروسز، ریگو لیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کو یہ ذمہ داری تفویض کی ہے کہ وہ ملک کے نمایاں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ڈیٹا پر مبنی کینسر رجسٹری قائم کرے۔ کونسل کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق اب تک 8 ہسپتال جن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی، سول ہسپتال کراچی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی، نشتر ہسپتال ملتان، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، بولان ہسپتال کوئٹہ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاوراور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی راولپنڈی سہ ماہی بنیادوں پر کونسل کو مئی2015 سے اعداد وشمار بھیج رہے ہیں لیکن یہ اعداد وشمار پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں۔ اس لئے کینسر کے نئے کیسز اور اموات اور دیگر پہلوئوں کے حتمی اعداد وشمار بتانا مشکل ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے کینسر کے نئے کیسز، اموات اورPrevalence کے حوالے سے دنیا کے184 ممالک کے تخمینوں (Estimates) پر مبنی اعداد وشمار2012 میں جاری کئے تھے۔ جن کے مطابق مذکورہ سال پاکستان میں ایک لاکھ 48 ہزار افراد کینسر کا شکار ہوئے۔ ان تخمینوں کے تجزیہ کے مطابق کینسر کے نئے کیسز کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر تھا ۔ملک میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ کینسر کا شکار ہوئیں جوکہ کینسر کے تمام نئے مریضوں کے 57 فیصد حصہ پر مشتمل تھیں ۔2012 میں ملک میں 84 ہزار 5 سو90 خواتین کے نئے کیسز سامنے آئے یوں خو اتین کا نئے کیسز کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں وطنِ عزیز 15 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ مردوں کی اس تناظر میں درجہ بندی میں ہمارا 21 واں نمبر تھا اور ملک میں63 ہزار 4 سو 51 مرد کینسر کا شکار ہوئے۔

اس کے علاوہ 2012 میں پاکستان دنیا بھر میں کینسر کی اموات کی 13 ویں بڑی تعدادکا شکار بنا۔ اور ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو 13 اموات کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔ خواتین کی اموات کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق 52 فیصد کینسر اموات کا حصہ خواتین مریضوں پر مشتمل تھا۔ اور خواتین کی اموات کی تعداد کے حوالے سے ملک دنیا بھر میں12 ویں نمبر پر تھا ۔ جبکہ مردوں کی اموات کے حوالے سے ہماری رینکنگ 19 ویں بنتی تھی۔ اور 48 ہزار 4 سو49 مرد حضرات کی موت کینسر کی وجہ سے ہوئیں ۔

ملک میں کینسر کی شکار خواتین کی زیادہ تر تعداد چھاتی کے سرطان (Breast Cancer) میں مبتلا ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 2012 میں ملک میں 34 ہزار 30 خواتین اس مرض کا شکار ہوئیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں 12 ویں سب سے زیادہ بڑی تعداد تھی ۔ جبکہ اسی سال 16 ہزار 2 سو 32 خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور یہ دنیا میں چھاتی کے سرطان کے باعث مرنے والی خواتین کی 8 ویں بڑی تعداد تھی۔

مردوں کی زیادہ تر تعداد ہونٹوں اور منہ کے کینسر(Lip, oral cavity ) کا شکار ہوتی ہے۔ 2012 میں ملک میں 7 ہزار68 مرد اس نوعیت کے کینسر کا شکار بنے جو دنیا بھر میں اس طرح کے کینسر میں مبتلا افراد کی چھٹی بڑی تعداد تھی۔ جبکہ مرد حضرات کی اس کینسر کے باعث مرنے کی ملکی تعداد4 ہزار 46 تھی۔ جو دنیا بھر میں ہونٹ اور منہ کے کینسر کے باعث مردوں کی اموات کی پانچویں بڑی تعداد تھی۔ لیکن پاکستان میں مردوں میں کینسر کی سب سے زیادہ تعداد پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث ہوتی ہے جن کی تعداد2012 میں 5 ہزار97 تھی اور اس طرح کے کینسر میں مرد حضرات کی اموات کی یہ تعداد دنیا بھر میں 29 ویں سب سے زیادہ تعداد تھی ۔

پاکستان میں نیشنل کینسر پروگرام کا آغاز 1994 میں ہوا لیکن بہت ہی کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ یہ پروگرام صحت کے دیگر پروگراموں کی طرح اتنا فعال اور موثر نہیں رہا ۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کا فقدان، آگاہی کی کمی اور سب سے بڑھ کر کینسر کے مستند اعداد وشمار کی کمی اس پروگرام کی افادیت پر بہت سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان جوایکس چیف سرجن علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال لاہور ہیں۔

کینسر کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنے کو سب سے زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’مستند اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہمارے یہاں کون سے کینسر کی شدت زیادہ ہے۔ دیگر ممالک میں انھیں بہت تفصیلی پتا ہو تا ہے کہ کون سا کینسر کتنے لوگوں کو ہے ،کتنے لوگوں کو ہوتا ہے ،کس عمر میں ہوتا ہے ، کس قسم کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی کینسر رجسٹری بنانی چاہئے تاکہ جو بھی کینسر کی تشخیص ہو اُس کی انٹری اس میں ہو جس طرح ہمارے پاس نادرا کا ادارہ ہے اس طرح کینسر کا بھی نیشنل ادارہ ہونا چاہئے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ پنجاب میں کون کون سے کینسر ہیں۔ خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں کون سے ہیں۔

عورتوں کے کینسر کون سے ہیں ، بچوں کے کون سے ہیں تاکہ ہم کسی بھی کینسر کی تشخیص اور علاج فاسٹ ٹریک پر کر سکیں۔ یہ اعدادوشمار کینسر کے شعبہ میںہونے والی تحقیق میں بھی بہت معاونت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نئے نئے کینسر بن رہے ہیں، نئے نئے مسئلے سامنے آرہے ہیں۔ ہمیں ان کا علاج بھی دریافت کرنا ہے۔ کینسر کے علاج کے حوالے سے کچھ چیزیں خوش آئند ہیں۔ اب بہت سے کینسرز کا علاج ہو سکتا ہے۔ سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور دوسری سہولیات جو پہلے خال خال ہوتی تھیں اب عام ہسپتالوں میں موجود ہیں اور ہم بہت سارے کینسرز کی تشخیص بر وقت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم کوشش کریں تو۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم تمام کینسرز کے مریضوں کا علاج کر سکیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے آئی ہسپتال ہیں جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کینسر کے لئے بہت سارے ادارے کام کر رہے ہوں۔ کیونکہ این جی اوز کی توجہ کینسر کی طرف نہیں ہے۔ ادارے یہ سوچتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے لیکن اگر ہم مل جل کر کام کریں تو یہ احسن طریقے سے ہو سکتا ہے۔ حکومت عام طور پر ان چیزوں کی طرف توجہ دیتی ہے جس پر لوگوں کا اصرار ہو اُن کی ڈیمانڈ ہو۔ اور اگر ہم لوگوں کو آگاہی دیں کہ ان کے کینسر کے علاج میں کیا خامیاں ہیں،کیا کمی ہے تو ہمیں امید ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں گے۔

اب نیا الیکشن ہونے والا ہے، نئے عوامی نمائندے آئیں گے تو سوشل میڈیا کو اور ڈاکٹرز کو بھرپور لابی کرنا چاہئے کہ وہ اس کو منشور میں شامل کریں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کینسر کی سروسز فراہم کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو جامع کینسر کے ہسپتال کا درجہ دیا جائے۔ اس کے لئے انسانی وسائل کی تربیت کی جائے۔ انفراسٹرکچر بنایا جائے اور اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے ایک مسئلہ کو بھی پیش نذر رکھنا ضروری ہے کہ کینسر کی Specialty میں بہت سے لوگ آنے کو ترجیح نہیں دیتے۔

لوگ سرجن بنانا چاہتے ہیں فزیشن بنانا چاہتے ہیں لیکن اس طرف نہیں آنا چاہتے۔ میں اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ آپ میں کتنے کینسر کے سرجن بننا چاہتے ہیں؟ تو اُنھیں کینسر کے سرجن اور فزیشن کا کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا۔ ہمارے یہاں بہت کم ڈاکٹر کینسر کا علاج کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں نوجوان ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کے لئے رول ماڈل بنانے ہوں گے۔ اس لئے کینسر کے سرجنز اور فزیشنز کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ایوارڈ ز دیں کیونکہ نوجوان ذہن ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان نے درست کہا کہ ہمیں کینسر کے علاج کی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ افرادی قوت خصوصاً کینسر کے ماہرین کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر فائونڈیشن کی ویب سائٹ مو جود معلومات بھی اس بات کی توثیق کر رہی ہیں۔ جن کے مطابق 2015 تک ملک میںکینسر کی تمام علاج گاہوں میں دستیاب بستر کی تعداد صرف1200 اور کینسر ماہرین کی تعداد محض 84 تھی۔ یہ صورتحال واقعی کسی المیہ سے کم نہیں کہ جس ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہو وہاں کینسر کے علاج کی سہولیات کی اتنی قلت! تو پھر کیسے کسی مریض کے علاج کا حق ہم پوری طرح ادا کر پائیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر ، سربراہ شعبہ کینسر، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور اور میو ہسپتال انکا لوجی وارڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ پاکستان میں کینسر ٹریٹمنٹ کی تقریباً تمام سہولیات میسر ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کینسر کے مریض بہت زیادہ ہیں اور سہولیات کم ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر مریض ایسی اسٹیج پر آتے ہیں جن کی اسٹیج 4ہوتی ہے۔ ان کو مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے ان کو بیڈز کی ضرورت ہے داخلہ کی ضرورت ہے۔ ادویات کی ضرورت ہے۔

ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ جو مریض ہر جگہ سے Refuse ہو کرآتا ہے ہمیں اللہ پاک نے اُس کی خدمت کیلئے چنا ہوا ہے۔ لیکن ہماری Limitations ہیں کہ ہم اگر دن رات بھی کام کریں تو ہمارے پاس بیڈ تو وہی 60 یا 70 ہیںجن کے اوپر ہروقت کوئی نا کوئی مریض موجود ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے علاوہ مریض آنا شروع ہوجائیں۔ جن کو داخلے کی ضرورت ہے یا جن کو علاج کی ضرورت ہے تو ہم اُن کی مدد نہیں کر سکتے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مزید ایسے سنٹر بنائے جائیں جن میں ایسے مریض جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اُن کو وہاں خدمات مہیا کی جائیں۔

اس میں ایک مسئلہ ضرور آسکتا ہے کہ ہمارے پاس انسانی وسائل کی کمی یعنی انکالوجسٹس کی کمی ہے جوکہ ہر سینٹر پر موجود ہوں لیکن اس وقت حکومتی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اچھے ماہر کینسر اسپیشلسٹ تیار کئے جائیں جو اس کمی کو پورا کر سکیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے چار پانچ سال میں حالات بہت اچھے ہوں گے۔ اُس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے، ماہر کینسر اسپیشلسٹ موجود نہیںہے اس لئے ہم نیا کینسر سینٹر نہیں بناسکتے۔ اُس وقت شاید ہمارے پاس کینسر اسپیشلسٹ زیادہ ہوں گے اور سینٹرز کم ہوں گے۔ اگر ہم ایسی حکمت عملی بنائیںکہ کینسر سینٹر بنانے کے لئے ہم آج سے کام شروع کردیں اور اس میں کوئی دو تین سال لگتے ہیں تو ہمارے پاس اتنی ورک فورس موجود ہوگی جو ہم کھپا سکیں اور اگر ہم انھیں ملازمتیں مہیا نہیں کر سکیں گے تو یہ باہر چلے جائیں گے کیونکہ مارکیٹ اوپن ہے تو پھر ہمیں ماہر کینسر اسپیشلسٹ کی کمی رہے گی۔

یہاں ایک بات میں بتا تا چلوں کہ حکومتِ پنجاب اور ہماری ہسپتال انتظامیہ کا شکریہ کہ یہاں پر80 فیصد سے زائد مریضوں کو مہنگی ادویات جو اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہے میو ہسپتال میں مفت ملتی ہیں اور لاہور میں ا س وقت ایسا کوئی بھی سینٹر نہیں ہے جو کینسر کی ادویات مفت فراہم کرے اورہمارے پاس بہت ساری ادویات فری ہیں۔ اس وجہ سے بھی ہمارے پاس بہت اضافی بوجھ آجاتا ہے۔ لیکن 100 فری ادویات کا ہم بھی دعویٰ نہیں کر سکتے۔ مریض کو سر جری اور کیمو کے بعد بعض ادویات طویل عرصہ تک کھانا پڑتی ہیں۔ ان ادویات کے حوالے سے حکومت پنجاب نے کچھ اقدامات کئے ہیں جس میں انھوں نے کچھ فارما سو ٹیکل کے ساتھ مل کر ایسی دوائیاں متعارف کروائی ہیں جو مریض دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کھاتا ہے اُسے وہ مفت ملیں۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔

لیکن یہ ابھی کینسر کے مریضوں کا 20 سے30 فیصد حصہ کور کر رہا ہے کیونکہ بہت سی میڈیسن اور چیزیں جو Follow-up کے طور پر ضروری ہیں وہ اس پروگرام میں کور نہیں ہو رہیں۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ کینسر پر تحقیق کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر کہتے ہیں کہ’’ قومی سطح پر کسی حد تک تحقیق ہو رہی ہے۔ اور انشاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ ہم کہہ سکیں گے کہ کینسر کسی بھی اسٹیج پر قابلِ علاج ہے۔ لیکن ابھی ہم اس مرحلے سے بہت دور ہیں۔ پاکستان میں ہم بد قسمتی سے نئی ادویات کی تیاری اور اس طرح کی چیزوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔کینسر کے اندر جینیٹک لیول پر تو کچھ ریسرچ ہو رہی ہے لیکن وہ بھی زیادہ تر نجی انسٹی ٹیوشنز میں ہورہی ہے۔ لیکن ادویات کے حوالے سے اور علاج کی نئی حکمت عملی کے حوالے سے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جہاں پر ہم یہ Develop کرسکیں۔‘‘

کینسر دنیا میںاموات کی دوسری بڑی وجہ ہے اور 2015 میں اس بیماری نے 8.8 ملین جانیں لیں۔ یعنی ہر 6 میں سے ایک موت اس کے باعث ہوئی۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ کینسر کے آخری مراحل میں اس کی تشخیص اور علاج کی صورتحال عام ہے۔ جبکہ اگر کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ہو جائے تو موثر علاج کے ذریعے کینسر کے مریض کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ علاج کے اخراجات کم ہوتے ہیں اورمریض کی حالت اور زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ہے پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد چیمہ کا جو سرجیکل انکالوجی سوسائٹی آف پاکستان کے فائونڈننگ چیئرمین ہیں۔

وہ کینسر کی آسان الفاظ میں یوں وضاحت کرتے ہیں کہ’’ ہمارے جسم کے خلیے ایک پروگرام کے تحت بڑھتے بڑھتے ایک ٹائم پر جاکر رک جاتے ہیں۔ یہ جینٹک پروگرامنگ ہے۔ اگر اس میں گڑبڑ ہو جائے اور وہ خلیہ بڑھنا بند ہی نہ کریں اور تقسیم در تقسیم ہوتے جاتے ہیں اور آخر کار اپنے میزبان کی جس کے یہاں وہ نشوونما پا رہے ہوتے ہیں اُس کی جان لے لیتے ہیں۔ کیونکہ میزبان کے سارے ریسورسز پر قبضہ کرلیتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کینسر سے متعلق آگاہی کو سب سے ضروری قرار دیا اور کہا کہ جین کے ذریعے کینسر صرف 10 فیصد لوگوں کو ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ ماحول اور ہمارا طرز زندگی ہے۔

اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بارے میں آگاہی دینے سے مرض سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ کینسر ٹریٹمنٹ کے لئے ضروری ہے کہ جامع کینسر سینٹر بنائے جائیں جہاں ایک چھت کے نیچے کینسر کی تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں یعنی سرجری، کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی وغیرہ سب ہونی چاہئے۔ اور ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لئے ایسا ایک جامع سنٹر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مریض جو پہلے ہی پریشان ہوتا ہے ایسے میں ہمارے ہاں اُسے فٹ بال بنا دیا جاتا ہے۔ سرجری یہاں سے ہوگی۔ کیمو وہاں سے ہوگی ۔ ریڈیشن کسی اور جگہ سے ہوگی جس سے مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

کینسر کے مریض کی Palliative care کے حوالے سے صورتحال کو بہت مایوس کن قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے ’’ کینسر کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے ایک Curative طریقہ علاج ہے اس میں آپ کا ہدف کینسر کو Cure کرنا ہے جو کچھ مریضوں میں ممکن ہوتا ہے اور کچھ میں ممکن نہیں ہوتا۔ جن لوگوں میں کینسر Cure ممکن نہیں ہوتی اُن کی Palliation کی جاتی ہے۔ یہ treatment to relieve ہے یعنی مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر کی جائے۔ اگر وہ الٹی کر رہا ہے تو اُس کی الٹی کا بندوبست کیا جائے۔ اگر درد ہو رہی ہے تو درد کو رفع کیا جائے۔

اگر یرقان ہوا ہے تو اُس کا بندوبست کریں۔ اگر قبض ہے تو اُس کو ختم کیا جائے۔ مریض سے خون نکل رہا ہے۔ پس نکل رہی ہے۔ بدبو آرہی ہے ان سب کو ٹھیک کیا جائے۔اس سے نا صرف مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر ہوگی بلکہ اُس کے اردگرد جو Care giver اُن کی بھی کوالٹی آف لائف بہتر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایڈوانس اسٹیج میں بعض اوقات کینسر اتنا پھیل چکا ہو تا ہے کہ گھر والے مریض سے دور رہتے ہیں کہ بد بو بہت آتی ہے۔ اُسے کھانا دینے سے کتراتے ہیں۔ اس لئے centre Palliative care بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی فیلڈ ہے جسے پاکستان میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘ کینسر میں جدید علاج کی سہولت کے حوالے سے اُ نھوں نے بتایا کہ لاہور میں ہم نے ایک ایڈوانس کینسر آپریشن شروع کیا ہے جو پیٹ میں پھیلی ہوئی کینسر کی ایسی ٹریٹمنٹ ہے جس میں ہم ہیٹ کر کے کیمو تھراپی براہ راست پیٹ میں دیتے ہیں۔ یہ ایک نیا طریقہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال میں آیا ہے اور ہم نے پاکستان میںاس کا پہلا سینٹر لاہور میں بنایا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں کینسر کی تمام اقسام میں مجموعی طور پر چھاتی کے کینسر کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے جو نئے کینسر کیسزکے 23 فیصد کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کینسر سے اموات کے حوالے سے بھی چھاتی کے سرطان کے شکار افراد کا تناسب سب سے زیادہ 16.1 فیصد ہے۔ جبکہ پانچ سال سے تشخیص شدہ کینسر (5-year prevalence )کے حیات مریضوں کے سب سے زیادہ تناسب کا تعلق بھی چھاتی کے کینسر کے شکار مریضوں کا ہے جو 34.8 فیصد ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگہی/ علم کی سطح کو جانچنے کے لئے کئے گئے تقریباً تمام مطالعات میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کو اس حوالے سے کافی علم Sufficient Knowledge نہیں ہے اکثر خواتین نے کبھی چھاتی کی سکریننگ نہیں کرائی یا کبھی خود جائزہ نہیں لیا ۔

اس کے علاوہ وہ چھاتی میں سوجن/ رسولی کو تلاش یا اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اپریل 2018 کے شمارے میں چھپنے والے ایک تحقیقی مقالہ’’ اویرنیس، نالج اینڈ اٹیچیوڈ ٹو ورڈز بریسٹ کینسر، بریسٹ سکریننگ اینڈ ڈیٹکشن ٹیکنیکس امنگ وومن ان پاکستان‘‘ کے مطابق ’’ پاکستانی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں علم کی کمی ہے جو ایک خطرناک علامت ہے۔ چھاتی کا کینسر اب بھی شرم، رازداری اور شرمندگی کے پردوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ اور پاکستانی ثقافتی ترتیب میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری ایک حساس حیثیت کی حامل ہے‘‘۔ یعنی قدامت پسند سماجی اور ثقافتی عقائد لوگوں کو عام طور پر چھاتی کے کینسر کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ موضوع معاشرے میں ممنوع Taboo سمجھا جاتا ہے اور نتیجے میں پاکستانی خواتین کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جن کی بہت بڑی تعداد کو مرض کے بارے میںآگاہی، ابتدائی تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کر کے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ہم ہر سبق بہت دیر سے حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

کینسر چیمپئینز
عبداللہ اسد ( لاہور)، مریم رانی( اسلام آباد)، عطاالرحمان( رحیم یار خان) اور چنگیزی خان (پشاور) ۔ یہ چاروں اُن بے شمار لوگوں میں سے ہیں جو کینسر کے مرض کو علاج کے بعد شکست دے چکے ہیں ۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بناء پر کینسر کے علاج میں مزید بہتری کے لئے جن اقدامات کی نشاندہی کی وہ کچھ یوںہیں۔
٭ انمول ہسپتال جیسے سینٹر پورے پاکستان میں ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کم سے کم معاشی بو جھ کے ساتھ اُن کے اپنے علاقوں میں مل سکیں۔
٭ تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں حتیٰ کہ ادویات اور رہنمائی بھی ایک ہی جگہ سے ملنی چاہئے۔ ادویات کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے علاوہ ان کی قیمتوں کو عام آدمی کی دسترس میں رکھا جائے۔اور مستحقین کو یہ مفت فراہم کی جائیں۔
٭ بیت المال کے نظام کو ٹھیک اور بہتر کیا جائے۔

کینسر کی علامات اور خطرے کے عوامل
ماہرین کے مطابق کینسرکی مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک رسولی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یا اس میں جسم کے کسی حصہ سے خون آنا ۔ یا وزن کاکم ہونا۔ یا یرقان ہونا ۔ طویل عرصہ تک کھانسی کا رہنا ۔ منہ اور زبان کا السر جو طویل عرصہ تک ٹھیک نہ ہو۔ رات کو بہت زیادہ پسینہ آنا ۔ ہاضمہ کی خرابی۔ پاخانے یا پیشاب میں خون کا آنا۔ نگلنے میں دشواری ہونا۔ مسلسل اپھارہ۔ بھوک کی کمی۔ نئے تل ظاہر ہونا۔ مسلسل سر درد ۔ ہڈیو ں میں شدید دردہونا وغیرہ نمایاں ہیں۔
ماہرین کے مطابق کینسر کے خطرے کے بنیادی طور پر تین عوامل ہیں۔ جینیاتی، ماحولیاتی اور طرزِزندگی
5 سے 10 فیصد تک کینسرجین کی وجہ سے لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنے جینز نہیں بدل سکتے لیکن اپنے ماحول اور اپنی طرز زندگی کو بہتر بناکر 30 سے 50 فیصد کینسر کے امکان کو کم کرسکتے ہے۔ مثلاً ہر قسم کے تمباکو سے دور رہیں( پاکستان میں تمباکو کا بالواسطہ اور بلاواسطہ استعمال مردوں میں50 فیصد اور خواتین میں 30 فیصد کینسر کا باعث بنتا ہے)۔ صحت مند وزن پر آ جائیں اور پھر اس پر قائم رہیں۔ باقاعدہ جسمانی ورزش کے ساتھ حرکت کرتے رہیں۔ بہت سے پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ صحت مند کھانا کھائیں۔ شراب نوشی سے اجتناب کریں۔ اپنی جلد کی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو، اپنی خاندانی تاریخ اور اپنے خطرات کو جانیں۔ باقاعدہ معائنے کروائیں اور سرطان کے سکریننگ ٹیسٹ کروائیں۔ اس کے علاوہ اپنے اردگرد کی فضاء کو آلودگی سے بچائیں خصوصاً گھروں میں ٹھوس ایندھن کے استعمال سے ہونے والے دھواں سے بچیں۔ بالائے بنفشی تابکاری اثرات سے بچیں۔ اور ایسے انفیکشنزکی ویکسینیشن یا علاج کروائیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں یعنی ہیپاٹائیٹس اور جنسی طور پر منتقل ہونے والا HPV انفیکشن۔

ایک مریضہ بچی کے والد کے مشاہدات
مدثر امین جن کی بیٹی جو اب پانچ سال کی ہے اُسے تین سال کی عمر میں خون کا کینسر (Accute Lymphobatic Lukemia) تشخیص ہو ا۔ بچی کا علاج اب مکمل ہو چکا ہے اور وہ پانچ سال تک Follow-up پر ہے۔ بیٹی کے کینسر کی تشخیص اور علاج کے سلسلے میں اپنے تجربات و مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں۔ ’’ اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو کینسر کے علاج کی سہولیات نا کافی ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نا کافی ہونے کی وجہ سے یہ سہولیات حاصل کرنا عام آدمی کیلئے بہت مشکل ہے اور مالی طور پر اس کا حصول نا ممکنات میں سے ہے۔ جب تک کہ اسے Subsidize یا مفت مہیا نہ کیا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ علاج کیلئے سب سے مشکل بات اُس جگہ تک رسائی ہے جہاں کینسر کے علاج کی سہولیات موجود ہیں اور اگر کسی طور آپ کی رسائی ہو بھی جائے تو ہسپتال کے قواعد بھی عام آدمی اور مریض کیلئے علاج کے حصول کو مشکل بنا دیتے ہیں۔

علاج شروع ہونے کے بعد مریض اور کسی دیکھ بھال کرنے والے کو کچھ عرصہ اُسی جگہ رہنا پڑتا ہے جہاں اُس کا علاج ہو رہا ہو۔ اور بہت سے مریضوں اور اُن کے لواحقین کو اس ضمن میں بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ جہاں تک مریض کی دیکھ بھال کا تعلق ہے تو یہ انتہائی احتیاط برتنے کا معاملہ ہے کیونکہ کینسر میں دی جانے والی ادویات کی وجہ سے مریض کو کئی طرح کے عوارض لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور انتہائی نگہداشت سے کچھ حد تک ان عوارض کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کینسر کا مرض خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات نا کافی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت اور مخیر حضرات کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے ضروری قدم کینسر کے علاج کی سہولیات مہیا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ان سہولیات تک آسان رسائی کو بھی ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ مرض کی روک تھام کیلئے لوگوں میں شعور کیلئے بھی حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

ایک مریض کی کہانی
خرم بابر لاہور کے رہائشی ہیں جنہیں24 دسمبر 1994 کو خون کا کینسر تشخیص ہوا۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ اپنی کہانی بتاتے ہیں۔ ’’ جب مجھے کینسر کی تشخیص ہوئی تو اُس وقت نہ مجھے اتنی آگہی تھی کہ یہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی میرے والدین کو پتا تھا کہ اس کے خلاف کس طرح لڑنا ہے اور کونسی جگہ سے اس کا علاج ہوتا ہے۔ میرے سکول والوں نے سکول کی لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کو اس کام کی ذمہ داری سونپی کے خرم کو علاج گاہ مہیا کی جائے تاکہ اس کا علاج ممکن ہوسکے۔ کئی ایک نامی گرامی ڈاکٹرز سے چیک اپ کے بعد میرا علاج شوکت خانم ہسپتال میں شروع ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال میںپہلے دن جب میں گیا تو اُس کا ماحول کسی وی آئی پی لائونج سے کم نہیں تھا جس میں آئے ہوئے ہر مہمان کیلئے جوس، چائے اور بسکٹ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا جو k. بالکل مفت تھے۔علاج کی وجہ سے جب میرے بال اترنا شروع ہوئے تو محلے داروں، کلاس فیلوز اور خاندان والوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ سکول کے بچے مجھ سے دور بھاگتے تھے کہ شاید اس کو کوئی اچھوتی بیماری لگ گئی ہے۔ اور کہیں یہ ہمیں بھی نہ لگ جائے۔ کافی بچوں نے میری وجہ سے سکول تبدیل کرلیا۔ خاندان کے لوگ میرے ماں باپ کو آکر دلاسہ دیتے کہ اس کی جتنی خدمت کرسکتے ہیں کر لیں کیونکہ اس کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔

محلے دار ہمارے گھر نہیں آتے ہمارے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اور ان سب سے مجھے آج بھی لڑنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ 1996 میں مجھے دوبارہ کینسر نے پکڑ لیا اور بہت تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑا۔مجھے تب محسوس ہوا کہ میں واقعی مر جائوں گا مگر مجھے میرے ماں باپ اور بہن نے حوصلہ دیا اور پھر میں ٹھیک ہوا۔ 2002 میں رضاکارانہ طور پر میں نے شوکت خانم ہسپتال میں کام شروع کیا اور تب ایک مہمان کی صورت میں ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو مجھے پتا چلاکہ شوکت خانم کے علاوہ بھی ہسپتال ہیں جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے۔

آخر کار مختلف ہسپتالوں کا دورہ کیا اور وہاں مریضوں کے ساتھ اُن کے لواحقین کے ساتھ بیٹھا چیزوں کو دیکھا اور پھر کینسر فائٹنگ فرینڈز نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم میں وہ لوگ شامل ہیں جو کینسر کے مرض کا علاج کر واکے اُسے شکست دے چکے ہیں اور کینسر چمپیئن ہیں۔اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے گھر میں کوئی نہ کوئی کینسر مریض تھا یا ہے۔ہم اب تک کینسر مریضوں کی فلاح و بہبود کے بلڈڈونیشنز ، ادویات اور کھانے کا اہتمام کرنے جسے امور کے ساتھ ساتھ مریضوں اور اُن کے لواحقین کو علاج کے حوالے سے راہنمائی اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ کینسر کے بارے میں آگاہی اورکینسر سے صحت یابی حاصل کرنے والے افراد کو دوبارہ معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ یہ سہولیات نا کافی ہیں۔اور جو ہیں بھی تو وہ صرف ملک کے بڑے شہروںمیں ہی دستیاب ہیں۔ سرکاری سہولیات صرف مریضوں کی محدود تعداد کو مل پاتی ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں کینسر کا علاج عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ غریب آدمی بیت المال کے فارم لیکر اپنے بچے کے علاج اور ادویات کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ کبھی پیسے نہیں تو کبھی ادویات شارٹ اور کبھی روایتی سستی۔ بیت المال بروقت کیسز کو نہیں نمٹاتا اس نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ اُن کا کہنا تھا کہ کینسرکی آگاہی کے لئے سرکاری سطح پر فنڈ مختص ہونے چاہئے اور مہمیں چلائی جائیں۔ سستے و اعلیٰ تشخیصی اور علاج کے مراکز قائم کئے جائیں اور کینسر کی Follow-up ادویات کو سستا اور ان کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنا یا جائے۔ اس کے علاوہ کینسر کے مریضوں اور ان کے لواحقین کی Counseling اور رہنمائی کیلئے ہسپتالوں میں Patient care officers تعینات کئے جائیں۔‘‘

The post تمہیں کینسر ہے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.

ٹیلی میڈیسن سے نومولود بچوں میں نابینا پن کی تشخیص ممکن

$
0
0

اوریگون: پوری دنیا میں ٹیلی میڈیسن یعنی جدید آلات کے ذریعے، دور رہنے والے مریضوں کی تشخیص وعلاج پر بہت کام ہوا ہے۔ اب اس ضمن میں تازہ خبر یہ ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو نابینا کرنے والے ایک مرض کی درست شناخت ٹیلی میڈیسن کے ذریعے کی گئی اور اس کے نتائج عین وہی ہیں جس طرح بچے کو سامنے دیکھتے ہوئے معالجین کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) اوپتھیلمولوجی میں اس کے نتائج شائع ہوئے ہیں جن میں مریض کے سامنے رہتے ہوئے اور دور رہتے ہوئے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے معائنے کے نتائج کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔

اس طرح دیہات اور دور دراز علاقوں میں ایسے بچوں کا بروقت معائنہ کیا جاسکتا ہے جو بڑے اسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس طرح افرادی قوت کی کمی کے شکار ان علاقوں میں ’ریٹینوپیتھی پریمیچیورٹی‘ یا آر او پی  کا بروقت علاج کرکے عمر بھر کے نابینا پن سے بچانا ممکن ہوگا۔

پاکستان ہو یا دیگر ترقی پذیر ممالک، وہاں دور دراز علاقوں میں موجود آبادی ٹیلی میڈیسن سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ پاکستان میں اس ضمن میں بہت کام ہوا ہے لیکن اس کے عملی اطلاق کی رفتار سست ہے۔ اس ضمن میں پورٹ لینڈ میں واقع ایلک چلڈرن آئی ہاسپٹل سے وابستہ ڈاکٹر مائیکل ایف چیانگ اور ان کے ساتھیوں یہ سروے کیا ہے۔

ڈاکٹر مائیکل کا کہنا تھا: ’تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی اور وسائل تک عدم رسائی کی وجہ سے غریب علاقوں کے بچے نابینا ہورہے ہیں اور یہ رحجان ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جو بہت افسوسناک ہے۔ اب اس طریقے سے یہ مسئلہ حل کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘

نومولود بچوں میں رینٹیوپیتھی سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے ریٹینا میں خون کی ناقص نالیاں بنتی ہیں اور یوں وہ دھیرے دھیرے مکمل نابینا ہوجاتے ہیں۔ امریکا میں ہر سال 400 سے 600 بچے اس سے متاثر ہوکر مکمل طور پر اندھے ہورہے ہیں۔ اس طرح خود تیسری دنیا اور دیگر غریب ممالک میں اس مرض کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عام طور پر ماہرین بچے کی آنکھ کی پتلی کو ڈراپس کے ذریعے پھیلا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تیز روشنی کی شعاع آنکھ میں ڈال کر اسے عدسے کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کام مہارت مانگتا ہے اور پسماندہ علاقوں میں اس کے ماہر نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

دوسرے طریقے میں خاص آلات کے ذریعے بچے کی آنکھ کی تصاویر لی گئیں اور 281 بچوں کا معائنہ سات اسپتالوں کے ماہرین نے کیا۔ پہلے ڈاکٹروں نے خود بچے کے پاس بیٹھ کر اس کا جائزہ لیا اور دوسرے مرحلے میں ٹیلی میڈیسن سے اسے دیکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں تشخیص میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔

ٹیلی میڈیسن میں مریض کا موبائل آلات کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کی رپورٹ بڑے شہروں میں موجود ڈاکٹروں کو دی جاتی ہے جسے دیکھ کر وہ تشخیص وعلاج تجویز کرتے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں ٹیلی میڈیسن کو درست انداز میں استعمال کرکے لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

The post ٹیلی میڈیسن سے نومولود بچوں میں نابینا پن کی تشخیص ممکن appeared first on ایکسپریس اردو.

شکر کا ’میٹھا مرہم‘ اینٹی بایوٹکس کا نعم البدل

$
0
0

 لندن: زمبابوے میں زخموں کو بھرنے کے لیے شکر کا استعمال کرنے کی کامیاب تحقیق نے اینٹی بایوٹکس کا متبادل پیش کردیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں نرسنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے زمبابوے کے شہری موزز مرانڈو زخم بھرنے کے لیے اینٹی بایوٹکس کے بجائے چینی کا استعمال کر رہے ہیں جس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں جس پر برطانیہ کی وولور ہیمپٹن یونیورسٹی کی جانب سے انہیں ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔

مرانڈو نے لیبارٹری میں شکر سے زخم بھرنے کے طریقے کا مشاہدہ بھی کیا جس سے پتا چلا کہ زخم میں لگائے گئے شکر کے ذرات زخم کی نمی کو جذب کر کے انہیں خشک کردیتے ہیں جب کہ شکر کے ذرات زخموں تک جراثیم کو پہنچنے سے بھی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی بدولت زخم فوری طور پر مندمل ہو جاتے ہیں۔

موزز مرانڈو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور علاج کے پیسے نہ ہونے پر ان کے والدین زخموں پر نمک لگا دیا کرتے تھے جس سے مرانڈو کو تکلیف ہوتی تھی تاہم جب مرانڈو کے پیسے ہوتے تو وہ زخم پر شکر رکھ دیا کرتے تھے جس سے زخم جلدی بھر جاتے تھے۔ اپنے بچپن کے انہی تجربات کو مرانڈو نے پیشہ ورانہ زندگی میں آزمایا اور حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کی۔

شکر سے زخم کا علاج نیا نسخہ نہیں بہت سے ممالک میں اسے کامیاب دیسی علاج تصور کیا جاتا ہے اسی طرح  امریکا کی الی نوا یونیورسٹی میں مویشیوں کی ڈاکٹر میرن میکمائیکل 2002ء سے شکر سے زخم بھرنے کے عمل کا مشاہدہ کر رہی ہیں جب کہ برطانوی سائنس دان شیلا میک نیل بھی شکر کے طبی اثرات پر کام کررہی ہیں۔

طبی ماہرین اور فارمالوجسٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک دیسی علاج ہے جس کے سائنسی شواہد ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ طریقہ علاج کارگر ثابت ہوتا ہے تو اینٹی بایوٹکس کے مالی بوجھ ، سائیڈ ایفیکٹس اور جراثیم کی دوا کے خلاف بڑھتی ہوئی مدافعت کے سدباب کے لیے بہترین اور ارزاں طریقہ ثابت ہوگا لیکن ابھی اس پر بہت سا کام ہونا باقی ہے۔

The post شکر کا ’میٹھا مرہم‘ اینٹی بایوٹکس کا نعم البدل appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے، ڈاکٹر باری

$
0
0

 کراچی: صحت مند پاکستان اور صحت کی سہولتیں سب کے لیے یہ انڈس اسپتال کا وژن ہے آبادی کے لحاظ سے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا غیر معمولی دباؤ بڑھ گیا جب کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

انڈس اسپتال کے سی ای او پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے ایکسپریس سے بات چیت میں کہا کہ ملک میں مختلف امراض ہولناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں انڈس اسپتال کے تحت ملک بھر میں صحت کا نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے تاکہ ہرغریب عوام کو صحت کی تمام سہولتیں فراہم کی جاسکیں ملک بھر میں پرائمری ہیلتھ کئیر کلینکس ، موبائل کلینکس ، محفوظ اورصحت مند خون کی فراہمی، تپ دق کے خاتمے سمیت دیگر وائرل وانفیکشن امراض کے لیے انڈس اسپتال کے پاس مکمل نیٹ ورک موجود ہے اور مختلف امراض کے ماہرین بھی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 10سال قبل 150بستروں پر مشتمل اسپتال شروع کیا تھا تاہم مریضوں کے دباؤ کے پیش نظر اسپتال میں اب 300 بستر مختص کردیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود مریضوں کے غیر معمولی دباؤکی وجہ سے مریضوں کو داخل نہیں کرپاتے۔

ڈاکٹر عبدالباری خان نے بتایا کہ اسپتال میں یومیہ 2 ہزار مریضوں کی اوپی ڈی ہوتی ہے ان میں سے150مریض ایسے ہوتے ہیں جنھیں اسپتال میں داخل کیا جائے لیکن انڈس اسپتال میں یومیہ 30 بسترخالی ہوتے ہیں لہٰذا اسپتال انتظامیہ مریضوںکو ترجیحی بنیاد پر داخل کرتی ہے جہاں بلامعاوضہ علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتال میں مریضوںکی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انھیں خوارک کی فراہمی سے لے کر دوائیں تک بلا معاوضہ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، پروفیسر عبدالباری خاں نے کہاکہ اسپتال انتظامیہ نے ملک بھرمیں فیملی میڈیسن کے شعبے کو مضبوط کرنے کیلیے ٹرک پر موبائل کلینکس بنائے ہیں جو دیہی علاقوں میں جاکر صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کررہے ہیں مختلف اضلاع میں ابتدائی طورپر 10موبائل کلینکس قائم کیے ہیں ،اسپتال میں امراض نسواں کا مکمل شعبہ بھی قائم کردیاگیا ہے۔

جہاں 24 گھنٹے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ٹی بی کے خاتمے کیلیے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے اشتراک سے ایک منصوبہ بھی شروع کردیاگیا جو مختلف سرکاری اسپتالوں میں موبائل کلینکس کے طورپر کام کررہے ہیں پہلی بار اسپتال میں پیدائشی طورپر سماعت سے محروم بچوں کے کان میں کوکلیئرامپلانٹ بھی شروع کیاگیا اور اب تک50 بچوں کو بلامعاوضہ امپلانٹ نصب کیے گئے نجی اسپتالوں میں سماعت سے محروم بچے کے ایک امپلانٹ  پر25لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں جبکہ انڈس اسپتال میں بلامعاوضہ لگائے جارہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ برطانیہ کے ایک این جی او کے تعاون سے اسپتال میں یہ کام شروع کیاگیا ہے جبکہ معذور افراد کی بحالی کے لیے مصنوعی اعضا بھی تیار کیے جارہے ہیں اس حوالے سے اسپتال میں باقاعدہ شعبہ بھی قائم کردیاگیا ہے اسپتال میں گزشتہ سال امراض قلب کے2500 مریضوں کی انجیوگرافی جبکہ1500مریضوںکومفت انجیوپلاسٹی بھی کی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی کی 2 کروڑ آبادی والے شہر میں یہ پہلا اسپتال ہے جہاں تمام امراض کا علاج مکمل طور پر مفت کیا جارہا ہے انھوں نے بتایا کہ اسپتال کو چلانے کیلیے سالانہ 5ارب روپے درکار ہوتے ہیں ایک ارب روپے حکومت سندھ گرانٹ فراہم کرتی ہے۔

The post پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے، ڈاکٹر باری appeared first on ایکسپریس اردو.

صفائی کے لیے استعمال ہونے والے ’ وائپس‘ فوڈ الرجی کا سبب

$
0
0

نیویارک: شیر خوار بچوں کی صفائی ستھرائی کے لیے صابن کے بجائے وائپس کا استعمال عام ہے تاہم نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ’گیلے وائپس‘ بچوں میں ’فوڈ الرجی‘ کا باعث بنتے ہیں۔

سائنسی جریدے جرنل آف الرجی اینڈ کلینیکل امینولوجی میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں پروفیسر جان کوک ملز کا کہنا ہے کہ الرجی کی سب سے تکلیف دہ اور پیچیدہ قسم ’فوڈ الرجی‘ کا باعث جنیاتی فیکٹر کے علاوہ بھیگے ہوئے وائپس کا استعمال ہے جو جلد سے خشک نہیں ہو پاتے اور جلد کی جذب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ جلد کے جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہونے سے فوڈ الرجی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

نومولود کی نمو کے لیے روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی کا عمل نہایت ضروری ہے جس کے لیے عمومی طور والدین ’ کیمیکل میں بھیگے ہوئے وائپس‘ استعمال کرتے ہیں۔ وائپس کی تیاری میں کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جب کہ وائپس کو گیلا رکھنے والے کیمیکل میں صابن بھی شامل ہو تا ہے جسے بچوں کی جلد سے خشک نہیں کیا جائے تو جلد کے مسام بند ہوجاتے ہیں اور جلد جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور جلد کی جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہو جانے سے ’فوڈ الرجی‘ کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

wipes 2

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن شیر خوار بچوں کی جلد میں  جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے وہ بالغ ہونے کے بعد فوڈ الرجی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 1997ء سے 2007ء تک کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں 4 سے 6 فیصد بچے فوڈ الرجی کا شکار ہیں جن میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ بچوں میں وائپس کا استعمال ہے۔

The post صفائی کے لیے استعمال ہونے والے ’ وائپس‘ فوڈ الرجی کا سبب appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4399 articles
Browse latest View live




Latest Images