Quantcast
Channel: ایکسپریس اردو »صحت
Viewing all 4399 articles
Browse latest View live

طبی ماہرین نے مایوسی اور بے چینی کو موروثی بیماری قرار دے دیا

$
0
0

واشنگٹن: طبی ماہرین نے مایوسی کو موروثی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اداسی، بے چینی اور ڈپریشن میں مبتلا افراد کی اولادیں بھی ان ہی امراض کا شکار ہوسکتی ہیں۔

طبی ماہرین کی جانب سے تحقیق کے لیے 600  بندروں کے خاندانی سلسلوں کو مطالعہ کیا گیا جس میں بندروں میں بے چینی اور مایوسی سے وابستہ رویوں اور دماغی عکس نگاری (امیجنگ) کے درمیان تعلق دیکھا گیا جس سے ثابت ہوا کہ بندر اور انسان دونوں ہی میں ڈپریشن اور مایوسی کے جین اپنی نسل میں منتقل کرتے ہیں جن کا انکشاف والدین اور بچوں کے دماغی اسکین سے ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق دماغی اسکین سے ثابت ہوا کہ دماغی سرکٹ میں غیرمعمولی سرگرمی ڈپریشن کی وجہ ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوسکتی ہے۔ اس اہم تحقیق کے بعد ماہرین کے خیال ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا افراد کے بچوں کےعلاج میں اہم پیش رفت حاصل ہوسکے گی اور مستقبل میں اس اہم مرض سے بچاؤ کا راستہ ہموار ہوگا۔

واضح رہےکہ دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان شدید ڈپریشن کی وجہ سے معمولاتِ زندگی انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں اور یہ مرض انہیں خودکشی کی جانب بھی دھکیل سکتے ہیں۔

The post طبی ماہرین نے مایوسی اور بے چینی کو موروثی بیماری قرار دے دیا appeared first on ایکسپریس اردو.


دانت موتی کی طرح سفید اورچمکدار بنانے کے 6 آسان طریقے

$
0
0

لندن: کہتے ہیں ایک خوبصورت مسکراہٹ انسان کے چہرے کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ کردیتی ہےاورمسکراہٹ کو دلکش بنانے میں سفید اور چمکدار دانت بنیادی کردار ادا کرتے ہیں تاہم دانتوں کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت دانتوں کو درکار توجہ دینے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے دانتوں کی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں،ماہرین نے دانتوں کی صفائی کے لئے چند اہم تجاویز دی ہیں جن پر عمل کرکے دانتوں کی صحت کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

برش کرنے کا صحیح طریقہ:

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 3 میں سے ایک فرد صبح دانتوں میں برش نہیں کرتا جبکہ اکثریت غلط طریقے سے برش کرتی ہے جس کی وجہ سے منہ کی خاطر خواہ صفائی نہیں ہوپاتی۔ ماہرین کے مطابق اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دانتوں کی صفائی کے لیے استعمال کیا جانے والا برش ذیادہ پرانا نہ ہو اور ہر 3 ماہ بعد برش تبدیل کرلیا جائے جبکہ دانت صاف کرتے ہوئے برش کو اوپر نیچے رگڑنے کے بجائے 45 ڈگری کے زاویے میں سیدھا کیا جائے اور دانتوں کے تمام حصوں پر برش کیا جائے اس طرح دانتوں میں موجود بیکٹیریا کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

چیونگم زیادہ دیر چبانے سے پرہیز:

چیونگم کھانے سے منہ کا ذائقہ وقتی طور پرخوشگوار ہوجاتا ہے تاہم زیادہ دیر تک چیونگم چبانا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چیونگم 10 منٹ سے زیادہ چبانا ٹھیک نہیں اور ذائقہ ختم ہوجانے کے بعد اسے پھینک دینا چاہیئے کیونکہ یہ دانتوں کی صحت کے لئے بالکل بھی ٹھیک نہیں کیونکہ دانتوں کی ساخت چیزوں کو توڑنے کے لئے بنائی گئی ہے جبکہ چیونگم لچکدار ہوتی ہے اور زیادہ چبانے کی وجہ سے دانتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوسکتی ہے۔چیونگم چبانے کے دوران ہمارا معدہ ایک قسم کا تیزاب پیدا کرنا شروع کردیتا ہے جو کہ غذا کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے تاہم جب غذا معدے میں نہیں جاتی تو اس کے مضر اثرات معدے کے السر کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔

اسٹرابری اور میٹھے سوڈے کا استعمال:
دانتوں کو چمکدار بنانے کے لئے قدرتی طریقے سب سے بہترین اور کارآمد ہوتے ہیں،اسٹرابری اور میٹھا سوڈا اس حوالے سے بہترین نتائج کے حامل ہیں۔ماہرین نے یہاں ایک نہیات کارآمد ٹوٹکا بتایا ہے ۔ 8 عدد اسٹرابری  اور آدھا چمچ میٹھا سوڈا لے کر ان کا پیسٹ بنا لیں اور روئی کا ٹکڑا لے کر دانتوں پر اچھی طرح ملیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کے دانت چمکدار ہوجائیں گے بلکہ سگریٹ ،چائے اور کافی کی وجہ سے دانتوں پر بننے والے دھبے بھی ختم کیے جاسکتے ہیں،اسٹرابری میں پائے جانے والے خاص اجزا دانتوں کو چمکدار بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ناشتے کے بعد دانتوں کی صفائی:

لوگوں کی اکثریت صبح سویرے کچھ بھی کھانے یا پینے سے پہلے برش کرنا پسند کرتی ہے اور یہ صحت کے لئے بھی مفید ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ کھانے یا پینے کے بعد برش کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب آپ نے میٹھی چیزیں کھائیں ہوں۔اس طرح دانت نہ صرف کیڑا لگنے سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی مضبوطی بھی برقرار رہتی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ رات کو سونے سے قبل سب سے آخری کام دانتوں کی صفائی ہونا چاہیئے اور اس کے بعد کچھ بھی کھانے یا پینے سے(سوائے پانی کے) پرہیز کرنا چاہیئے ۔اس طرح رات بھر دانت بیکٹیریا لگنے سے محفوظ رہتے ہیں اور دانتوں کا انیمل یا اوپری پرت بھی محفوظ رہتی ہے۔

زبان کی صفائی:
صاف اورمہکتی سانس کے لیئے زبان کا صاف ہونا انتہائی ضروری ہے جبکہ لوگوں کی اکثریت زبان کی صفائی کا خیال ہی نہیں رکھتی،زبان پر برش کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس پر بیکٹریا بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں اور انہی چھپے ہوئے بیکٹیریا کی وجہ سے منہ سے بدبو بھی آنے لگتی ہے۔ دانتوں کی صفائی کے دوران زبان پر بھی برش کرنے سے اس مسئلے سے کافی حد تک نجات پائی جاسکتی ہے جبکہ زبان کی صفائی کے  خصوصی طور پر بنایا گیا آلہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دانتوں میں خلا ل کرنا:
ماہرین دانتوں میں خلا ل کرنے کے عمل کو بھی صحت کے لئے بہترین عمل قرار دیتے ہیں اور اس سے نہ صرف دانتوں کی بہتر طریقے سے صفائی ہوجاتی ہے بلکہ اس سے حیرت انگیز طور پردل کے امراض کے بچاؤ میں بھی مدد ملتی ہے۔دانتوں میں خلال کرنے سے غذا کے پھنسے ہوئے ٹکڑے  جو کہ بیکٹیریا کی افزائش میں مددگار ثابت ہوتے ہیں نکل جاتے ہیں۔برٹش ڈینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر نائجل کارٹر کا کہنا ہے کہ خلال کرنا دانتوں کی صحت مندانہ روٹین کا ایک اہم حصہ ہے اور دانتوں کو برش کرنے سے قبل دن میں کم از کم ایک مرتبہ خلال کرنا ضروری ہے۔ تاہم دانتوں کے درمیان خلا کی صفائی کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور اس کے لیے دانتوں کے لیے خلال کرنے والا مناسب آلہ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ کسی غیر معیاری چیز سے یا پھر تیزی سے دانتوں میں خلال کرنے سے مسوڑھوں کے عضلات کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ اگر ان باتوں پر عمل کرلیا جائے تو دانتوں کو صاف اور کیڑا لگنے سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے تاہم اس کے ساتھ ضروری ہے کہ میٹھی چیزوں کے استعمال میں اعتدال کا رویہ اپنایا جائے۔

 

The post دانت موتی کی طرح سفید اورچمکدار بنانے کے 6 آسان طریقے appeared first on ایکسپریس اردو.

مسلسل ٹریفک کے شورمیں رہنے سے دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں

$
0
0

لندن: برطانوی ریسرچ ماہرین نے پتہ چلایا ہے کہ مسلسل ٹریفک کے شور میں زندگی گزارنے سے دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اس مقصد سے سائنسدانوں نے لندن میں 2003 سے 2010 تک روڈ ٹریفک کے شور اور ایسے دل کے مریضوں کے اعداد و شمار جمع کیے جو پرشور آبادیوں سے آکر اسپتالوں میں داخل ہوئے تھے۔ایسے مریضوں میں موت سے ہمکنار ہونے کا تناسب دوسروں کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ تھا۔ یہ تناسب 25 سے 74 سال تک کی عمر کے مریضوں میں پانچ فیصد جب کہ 75 سال سے بڑی عمر کے مریضوں میں 9 فیصد تھا۔

یہ اسٹڈی یورپین ہارٹ جرنل میں شایع ہوئی ہے جس میں عمر، جنس، سماجی اقتصادی عناصر، لسانی حیثیت، سگریٹ نوشی اور فضائی آلودگی کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ پرشور محلوں اور پڑوسوں کے شور کا موازنہ ہم کسی پرہجوم ریسٹورینٹ سے کرسکتے ہیں تاہم کئی برسوں تک مسلسل ایسے شور و غل میں زندگی گزارنا موت کو قریب تر کردیتا ہے۔

The post مسلسل ٹریفک کے شورمیں رہنے سے دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

انسانی جسم میں اضافی ڈی این اے کینسر سے بچاتے ہیں، امریکی ماہرین

$
0
0

بوقت ضروت کسی بڑی مشکل سے بچنے کے لئے جس طرح ہم گاڑی میں اضافی ٹائر رکھتے ہیں اسی طرح ہمارے جسم میں بھی اضافی ڈی این اے موجود ہوتے ہیں جو وقت پڑنے پر ہمیں مختلف امراض سے بچاتے ہیں۔

امریکن کیمیکل سوسائٹی کے مطابق جس طرح کار کا اضافی ٹائر مشکل میں کام آتا ہے اسی طرح ہمارے ڈی این اے میں ایک اہم عنصر گونائن (جی) اگرچہ فالتو نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہمیں بہت سے کینسرسے بچاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہمارے ڈی این اے میں کئی طرح کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے جس سے ڈی این اے تباہ ہوتا ہے جو کئی طرح کے کینسر کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایک عام نقصان تو یہ ہے کہ آکسیڈیٹو اسٹریس سے جینیاتی مادہ تباہ ہوجاتا ہے جس میں ڈی این اے کے چار اہم اجزا ایڈینائن ، گوانائن، سائٹوسائن اور تھایامائن میں سے ایک گوانائن بری طرح متاثر ہوتا ہے اسی لیے کینسر سے بچاؤ کے لیے ڈی این اے کا درست رہنا ضروری ہے۔

ماہرین نے تجزیہ کرکے بتایا کہ گوانائن نامی ڈی این اے بیس ہمارے جسم میں اضافی طور پر موجود ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح کی فیکٹری سیٹنگ کی طرح کینسرے سے ہمیں بچاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ہمارے جینوم میں ڈی این اے کی اضافی مقدار نہ ہو تو بدن بہت سے اقسام کے کینسر کا شکار ہوسکتا ہے۔

The post انسانی جسم میں اضافی ڈی این اے کینسر سے بچاتے ہیں، امریکی ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.

وہ غذائیں جو رکھیں آپ کو خوش اور موڈ بنائیں بہتر

$
0
0

لندن:  اگر خوشی کا تعلق دل سے ہے تو اس کا تعلق دماغ سے بھی ہوتا ہے، دماغی افعال اور بعض کیمیکل ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہمیں خوشگوار احساس دلاتے ہیں۔

بیریاں:

اسٹرابری، رسبری اور بلوبیریوں کے جادوئی فائدے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان میں ویلپروئک ایسڈ موجود ہوتا ہے جو موڈ کو بہتر بناتا ہے۔ اس میں موجود بعض فلے وینوئڈز جسمانی جلن کو کم کرتے ہیں جوڈپریشن کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

کیلے:

کیلوں میں پوٹاشیم موجود ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ اس میں ٹریپٹوفان ہوتا ہے جو دماغی افعال کو بہتر بناتے ہیں اور موڈ کو اچھا کرتے ہیں ۔ اس میں وٹامن بی فولیٹ بھی پایا جاتا ہے جس کی کمی موڈ کو برا کرتی ہے۔

ڈارک چاکلیٹ:

ڈارک چاکلیٹ میں اینٹی آکسیڈنٹس کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے ۔ اس میں تناؤ کم کرنے والا ایک ہارمون کارٹیسول بھی پایا جاتا ہے۔

سامن مچھلی:

سامن (salmon) مچھلی میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز پایاجاتا ہے جو ڈپریشن کو کم کرتا ہے۔ اس کی صحتمند چکنائیاں بالوں کو مضبوط اور چمکدار بناتی ہیں۔

ہلدی:

برصغیر پاک و ہند میں ہلدی کا استعمال عام ہے۔ اس میں کرکیومن نامی ایک عنصر انسانی احساس کو خوشگوار بناتا ہے۔

سبزچائے:

جاپانی ماہرین کے مطابق روزانہ تین سے چار کپ سبز چائے پینے سے مایوسی اور ڈپریشن کے آثار بڑی حد تک ختم ہوجاتے ہیں۔

سیب کھائیں اور اداسی بھگائیں:

روزانہ ایک سیب جہاں آپ کو ڈاکٹر سے دور رکھتا ہے تو وہیں توانائی اور مسرت کا احساس بھی دلاتا ہے۔ لہٰذا سیب کھایئے اور اداسی بھگائیے۔

پالک:

پوپائے کارٹون پالک کھاکر توانائی حاصل کرتا تھا لیکن اس میں موجود فولک ایسڈ یاسیت کو کم کرتا ہے اور چہرے کو بھی صاف و خوبصورت رکھتا ہے۔

پھلیاں:

امریکا میں محکمہ زراعت کی تحقیق کے مطابق پھلیوں میں موجود میگنیشیئم آپ کو خاص توانائی فراہم کرتا ہے اور آپ کے ہر احساس کو خوشگوار بناتا ہے۔

اخروٹ:

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس کے مطابق اخروٹ دماغ کو بہتر رکھتا ہے اور ساتھ ہی اس میں وٹامن، معدنیات اور الفالائنولینک ایسڈ ہوتے ہیں جو دماغ میں خاص کیمکل کا اخراج کرتے ہیں اور آپ پرسکون رہتے ہیں۔

نارنگی:

نارنگیوں میں موجود وٹامن سی جلد کی خشکی کو دور کرنے کے علاوہ دماغی افعال اور یادداشت کو بہتر بناتے ہیں۔ اگر دو ماہ تک ایک گلاس اورنج جوس پیا جائے تو اس سے بہت سے دماغی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

The post وہ غذائیں جو رکھیں آپ کو خوش اور موڈ بنائیں بہتر appeared first on ایکسپریس اردو.

آنکھوں کے ذریعے انسان میں مہلک امراض کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، ماہرین

$
0
0

لندن: آنکھوں کو جسم کی کھڑکی کہا جاسکتا ہے اور شاعروں نے آنکھوں کو احساسات کا جھروکہ کہا ہے لیکن اب ڈاکٹروں کا اصرار ہے کہ آنکھوں کی رنگت، بناوٹ اور مختلف کیفیات سے مختلف امراض کا پتا بھی لگایا جاسکتا یا مستقبل کے امراض کا اندازکیا جاسکتا ہے جن میں کئی امراض جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں جب کہ ان میں امراض میں ذیابیطس کا مرض بہت پہلے ہی آنکھوں میں اپنا عکس نمایاں کردیتا ہے۔

سرخ آنکھیں:

آنکھوں کی مسلسل سرخی بڑھتے ہوئے بلڈ پریشر کی وجہ بھی ہوسکتی ہے جب کہ آنکھیں مسلسل سرخ رہیں تو اس کی وجہ ایک وائرس بھی ہوسکتا ہے۔ ہماری آنکھوں میں خون کی باریک رگیں ہوتی ہیں جو بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں مزید نمایاں ہوجاتی ہیں اس لیے آنکھوں کی غیرمعمولی سرخی کو نظر انداز نہ کیجئے۔

آنکھوں میں پیلے دھبے:

آنکھوں میں پیلاہٹ کے دھبے چکنائی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی وجہ بھی ہوسکتے ہیں۔

پتلی کے گرد سفید حلقہ:

آنکھ کی پتلی کے گرد عموماً گہری رنگت کی آؤٹ لائن ہوتی ہے جسے پتلی کا حلقہ (آئرس رِنگ) کہا جاتا ہے اگر یہ حلقہ سفید ہے تو یہ خون میں کولیسٹرول کی بلند سطح کو بھی ظاہر کرتا ہے اسی طرح پپوٹوں پر چربی کے مجموعے بھی کولیسٹرول کی بلند سطح اور امراضِ قلب کو ظاہر کرتے ہیں۔

پپوٹوں کی زرد رنگت:

اگر پپوٹوں کی رنگت پیلی ہو تو یہ جسم میں خون کی کمی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کا علاج صرف فولاد سے بھرپور غذاؤں کا استعمال ہے۔

باہر کو نکلے ہوئے آنکھوں کے ڈیلے:

ماہرین کے مطابق آنکھوں کے اُبھرتے ہوئے ڈیلوں کا تھائیرائڈ غدود سے تعلق ہوسکتا ہے۔ تھائیرائڈ غدود سے خارج ہونے والے ہارمون آنکھوں پر  اثرانداز ہوتے ہیں ۔ تھائیرائڈ غدود ہمارے گلے کے نچلے حصے کی جانب موجود ہوتے ہیں اس سے بے ضرر امراض سے لے کر سرطان کے مرض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

پلکوں کا ڈھلکنا:

ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں کی پلکوں کا نیچے کی جانب ڈھلک جانے کا عمل فالج (اسٹروک) اور بیلز پالسی کو ظاہر کرتا ہے اگر بولنے میں دقت ہو، چہرے کا حصہ بہت دیر تک سن رہتا ہو تو یہ فالج کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ بعض ماہرین اسے دماغی رسولی کا پیش خیمہ بھی قرار دیتے ہیں۔

 آنکھوں میں مسلسل پیلا ہٹ:

آنکھوں میں پیلا پن متاثرہ جگر کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے ان میں جگر پر ورم ، ہیپا ٹائٹس اور جگر کے دیگر امراض شامل ہیں۔ آنکھوں کی پیلی رنگت ایک کیمیکل بلیروبن کی وجہ سے ہوسکتی ہے جو خون میں ہیموگلوبن کی شکستگی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔

The post آنکھوں کے ذریعے انسان میں مہلک امراض کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.

سورج مکھی کے بیج میں کئی بیماریوں کا علاج موجود ہے، ماہرین 

$
0
0

نیویارک: ڈاکٹروں کے مطابق سورج مکھی کے بیج جادوئی خواص رکھتے ہیں اور صحت پر اس کے مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ ان میں جلد، دل، کینسر، مایوسی اور کئی امراض کا علاج موجود ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ناشتے میں سورج مکھی کے بیج کو شامل کرکے صبح کے اس اہم کھانے کو توانائی بھری غذا میں تبدیل کیا جاسکتا ہے کیونکہ سورج مکھی کے بیجوں میں وٹامن ای سے لے کر اینٹی آکسیڈنٹس اجزا موجود ہوتے ہیں اور اگر نصف کپ سورج مکھی کے بیج کھائے جائیں تو اس میں اس میں 6 گرام پروٹین، 4 گرام فائبر اور وہ تمام ضروری اجزا شامل ہیں جو زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

سورج مکھی کے بیجوں میں موجود وٹامن ای جلد کو خوبصورت رکھنے کے ساتھ ساتھ  جسمانی جلن کی شدت کو کم کرتا ہے جب کہ دوسری جانب یہ دل کو مضبوط کرتا ہے  کیونکہ اس میں مفید ریشہ (فائبر) موجود ہوتا ہے، بیج میںموجود سیلینیئم بدن میں کینسر کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ سورج مکھی کے بیج شکستہ ڈی این اے کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ بدن کو زہریلے مرکبات سے بچاتےہیں اس کے علاوہ سورج مکھی کے بیجوں میں موجود میگنیشیئم موڈ کو بہتر کرکے اداسی اور مایوسی کو بھگاتےہیں۔

The post سورج مکھی کے بیج میں کئی بیماریوں کا علاج موجود ہے، ماہرین  appeared first on ایکسپریس اردو.

لاکھوں جاپانی عجیب بیماری کا شکار

$
0
0

ٹوکیو: جاپان میں خودساختہ سماجی تنہائی کا شکار افراد کی تعداد حیرت انگیز حد تک بڑھ گئی ہے جو اس وقت جاپانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔

تقریباً 10 لاکھ جاپانی نوجوان اس وقت’’ہیکوکوموری‘‘ (Hikikomori) نامی بیماری جس میں انسان اپنے خاندان ، دوستوں اور ماحول سے قطع تعلقی اختیارکرلیتا ہے اورخود کو کمرے میں بند کر لیتا ہے اس بیماری کے شکار  نوجوانوں نے خود کو کمروں میں بند کررکھا ہے، دن کو سوتے اور رات بھر جاگتے رہتے ہیں،اس دوران وہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے  یا پھر ٹیلی ویڑن دیکھتے ہیں۔ حیران کن طور پرایسے نوجوان کی بڑی تعداد ٹی وی یا انٹرنیٹ پر آن لائن مزاحیہ پروگرام دیکھتی ہے۔ خود کو سالوں تک کمروں میں بند رکھنے سے ان کی صحت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس بیماری کا شکار10 لاکھ جاپانیوں میں اکثریت مردوں کی ہے جن کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ کوشو یونیورسٹی کے ڈاکٹر تکاہیرو کاتو کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں اگرکوئی نوجوان خود کو کمرے میں بند کرتا ہے تو اس کے اہلخانہ اسے باہر نکلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس میں اس کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں لیکن جاپانی ایسا نہیں کرتے۔

The post لاکھوں جاپانی عجیب بیماری کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.


چہروں پر کیل مہاسوں اور آدھے سر کے درد سے نجات کیلیے آسان گھریلو نسخے

$
0
0

لندن: عام طور پر بہت سے لوگوں کو چہرے پر کیل مہاسے اور آدھے سر کے درد کا سامنا رہتا ہے جس کے لیے مختلف دواؤں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان مسائل پرگھریلو نسخوں کے ذریعے بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

چہرے پر کالی اور سفید کیلیں:

چہرے پر سے کیلوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بیکنگ (کھانے کا)  سوڈا لیں اور اس میں اتنی ہی مقدار ٹوتھ پیسٹ شامل کیجئے اور پھر 2 حصے پانی ملائیں، ایک پلیٹ میں اس کا مکسچر بنالیں اور کسی برش سے چہرے کے متاثرہ حصوں پر لگائیں۔ اس نسخے کو رات کے اوقات میں استعمال کرنے سے فائدہ ہوگا اور آپ کو کچھ دنوں میں ہی کیلوں سے نجات مل جائے گی۔

مائیگرین کا علاج پانی سے:

مائیگرین یا آدھے سر کا درد کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اب تک اس کا باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہوسکا ۔ مائیگرین کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں  لیکن اسے دور کرنے کے لیے اس ٹوٹکے کے مطابق ہاتھوں اور خصوصاً پیروں کو گرم پانی میں ڈبوکر گردن کے پچھلے حصے پر برف سے سکائی کی جائے تو اس طرح اضافی خون سر کی طرف آتا ہے کیونکہ گرم پانی کی وجہ سے پیروں اور ہاتھوں کا خون بھی اوپر کی طرف دوڑتا ہے۔

پاؤں کی اینٹھن سے نجات:

پاؤں کی عام تکلیف اور اینٹھن میں گٹے پڑجاتے ہیں اور عموماً پاؤں کے تلے کے درمیان یہ درد شدید ہوتا ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہےکہ پانی کی چھوٹی بوتل میں پانی بھر کر اس میں برف جمائیں اور جب بھی پاؤں کے تلووں میں درد ہو اس بوتل کو پاؤں کے نیچے رکھ کر بیلن کی طرح پیروں کو گھمائیے اس سے تھوڑی دیر میں درد اور جلن سے نجات مل جائے گی۔

 جلد میں پھانس چبھ جائے:

جلد میں لکڑی کے ٹکڑے اور پھانس چبھ جائے تو بعض اوقات اسے نکالنے کے لیے سخت کوشش درکار ہوتی ہے لیکن اسے نکالنے کے لیے بیکنگ سوڈا اور پانی سے مدد لیجئے۔ پانی میں بیکنگ سوڈا گھولیے اور اسے دھیرے دھیرے پھانس کی جگہ پر ڈالیے چند منٹوں بعد اسے نکالنے کی کوشش کیجئے تو پھانس نکل آئے گی۔

The post چہروں پر کیل مہاسوں اور آدھے سر کے درد سے نجات کیلیے آسان گھریلو نسخے appeared first on ایکسپریس اردو.

ہلدی!کینسرکش اوردیگربیماریوں کے خلاف ڈیفنس فورس

$
0
0

ہلدی ہمارے ہاں کچن کا لازمی حصہ تصور کی جاتی ہے لیکن ہم میں سے کم ہی لوگ اس کے طبی خواص سے واقف ہوں گے۔ ہلدی جان لیوا مرض کینسر کے مریضوں میں قوت مدافعت ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ کینسر کے خلیوں کو خودکشی پر مجبور کردیتی ہے۔

ہلدی صحت کے لئے انتہائی مفید ہےجوجسم میں کیمیکلز یا خلیوں کی زیادتی سے نکل آنے والے خطرناک پھوڑے میلانوما کے خلاف بھی مزاحمت پیدا کرتی ہے۔ ہلدی اپنے مخصوص خواص کے باعث انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف بھرپور دفاعی فوج کاکام کرتی ہے۔ خاص طور پر زخموں کے خلاف مدافعت رکھنے کی خوبی کے باعث یہ کینسر کے مرض میں بھی بھرپور مزاحمت کرتی ہے اور کینسر کے خلئے اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔

ابتدائی طورپرکینسر کے جراثیم جب جسم انسانی میں داخل ہوتے ہیں تو ہلدی کی موجودگی انہیں اپنی قوت مدافعت کے ذریعے تباہ کر ڈالتی ہے۔ کینسر پنپ ہی تب سکتا ہے جب ہلدی کی مقدار جسم میں ایک خاص تناسب سے کم ہو ۔ پرانے زمانے کی بوڑھی خواتین سالن پکاتے وقت ہلدی کا بھرپور استعمال کیا کرتی تھیں اور کینسر جیسے موذی مرض کا کو پھلنے پھولنے کا موقع کم ہی ملتا تھا مگر آج کل لائف اسٹائل اور غذائوں میں تبدیلی کی وجہ سے کینسر کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔

آج دنیا میں پائے جانے والے عام کینسر کے امراض ،پھپھڑوں کے کینسر، چھاتی کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر وغیرہ میں سب کے لئے ہلدی بہت کارگر ہے ۔ہلدی کے زیادہ استعمال کے باعث ہی امریکہ کی نسبت ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں کینسر کی امراض10گنا کم ہیں، غرضیکہ یہ کینسر کے جراثیم کے انسانی جسم میں داخلہ کے بعد بھی اینٹی بائیوٹک کا کردارادا کرتی ہے اور کینسر کی Toxicity کو ختم کرنے میں ممدو معاون ہوتی ہے۔

ہلدی کو اپنی غذا کا لازم حصہ بنائیں کیونکہ یہ کینسر سمیت لا تعداد بیماریوں کے خلاف ڈھال ثابت ہو گی اور ہلدی کے طبی خواص کی بنا پر متعدد امراض کا علاج آپ کا جسم خود ہی کر لے گا اور آپ کو ڈاکٹر کی ضرورت بھی کم ہی پڑے گی۔

The post ہلدی!کینسرکش اوردیگربیماریوں کے خلاف ڈیفنس فورس appeared first on ایکسپریس اردو.

آپ کی جسمانی وضع اور صحت

$
0
0

استحالہ یا میٹابولزم کیا ہے؟ آسان زبان میں آپ یوں سمجھ لیجئے کہ استحالہ ان تمام افعال کا مجموعہ ہے جو آپ کے بدن میں ہر دم جاری رہتے ہیں اور آپ کے جسم کو زندہ رہنے کے لئے توانائی فراہم کرتے ہیں ۔آپ کے جسم میں پہنچنے والی غذا کا توانائی میں تبدیل ہونا بھی استحالے کا ایک حصہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس تمام عمل کے دوران خلیے بھی شریک رہتے ہیں۔

بعض لوگوں کے خلئے اس عمل کو تیزی سے انجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نظام استحالہ تیز ہے ۔ ایسے لوگ عام طور پر دبلے پتلے ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ خوب کھاتے ہیں لیکن پھر بھی موٹے نہیں ہوتے۔اس کے مقابلے میں جو لوگ موٹے ہوتے ہیں عموماً ان کا نظام استحالہ سست ہوتا ہے ،دراصل ہوتا یہ ہے کہ ان کا جسم غذا کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لئے زیادہ وقت لیتا ہے اور جو غذا توانائی میں تبدیل نہیں ہوپاتی، وہ چربی کی صورت میں جسم میں جمع ہو جاتی ہے، یہی موٹاپا ہے۔

ورزش یا بستر:

آپ کا جثہ یا جسمانی بناوٹ کیسی ہے۔ اس کا زیادہ تر انحصار آپ کے طرز زندگی پر ہوتا ہے۔ آپ زندگی پھرتیلے اور چاق و چوبند رہتے ہوئے گزارتے ہیں یا سست روی سے زندگی بسر کرتے ہیں، مثال کے طور پر بعض نوجوان صبح سویرے اٹھتے ہیں، ورزش کرتے ہیں، دن بھر فعال رہتے ہیں، جبکہ اس کے برخلاف بعض نوجوان دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں اوردن بھر کرسی پر بیٹھے،صوفے یا بستر پر پڑے رہتے ہیں۔

جو نوجوان ورزش کرتے ہیں انہیں بستر پر پڑے رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ جو نوجوان ورزش نہیں کرتے انہیں زیادہ غذا کی ضرورت نہیں ہوتی۔چنانچہ کاہل اور سست نوجوان جب زیادہ غذا کھاتے ہیں توا ن کی غذا سے توانائی بننے کے بجائے یہ غذا چربی کی صورت میں جسم میں جمع ہو جاتی ہے، لہٰذا اگر آپ کا وزن زیادہ ہے اور وزن کم کرناچاہتے ہیں تو ورزش کیجئے اور بہت زیادہ نہ کھایئے۔

لیکن خدارا ،وزن کے معاملے میں بہت زیادہ حساس نہ ہوں بعض نوجوان خصوصاً لڑکیاں اپنا وزن کم کرنے اور خود کو ’’سلم‘‘ (دبلا)رکھنے کے لئے غذا کی مقدارانتہائی کم کردیتی ہیں بلکہ دوائوں کا استعمال بھی شروع کردیتی ہیں، وزن کم کرنے کے سلسلے میں یہ رویہ نہ صرف مضرصحت ہے بلکہ خطرناک ہے، خصوصاً لڑکیاں ازدواجی زندگی میں اس کا نقصان اٹھاتی ہیں۔

چلئے اگرآپ صحت مند نہیں ہیں تو صحت کے اصولوں پر عمل کیجئے اور خوبصورت نظرآنے کی فکر میں پریشان نہ ہوں ۔ یہ بات جان لیجئے کہ ابھی آپ نوجوان ہیں، یہ آپ کی بڑھوتری کی عمر ہے ، ابھی آپ کے وزن میں کمی بیشی ہوسکتی ہے ،آپ کے وزن میں کہیں بیس بر س کی عمر کے بعد جاکر ٹھہرائو آئے گا اس لئے وزن میں کمی بیشی کے بارے میں پریشان ہو کر اور کوئی اقدام کر کے اپنی صحت کو خطرے میں نہ ڈالیے۔ صحت خود اپنی جگہ ایک حسن ہے۔

The post آپ کی جسمانی وضع اور صحت appeared first on ایکسپریس اردو.

کھانے میں زیادتی اور بے اعتدالی امراض کو دعوت

$
0
0

ہرانسان میں ہمیشہ تندرست ،توانا،صحت مند اور چاق و چوبند رہنے کی خواہش موجود ہوتی ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ زندگی کے کسی بھی حصے میں اسے بیماریوں کاسامنا کرنا پڑے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں جیسے کسی ایک پسندیدہ غذا کو کثرت سے استعمال کرنا اور یہی کمزوریاں اسے مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ان امراض میں مبتلا ہونے کی دوسری بڑی وجہ کم علمی بھی ہے۔

تمام لوگ اس بات کا صحیح شعورو ادراک نہیں رکھتے کہ کون سی چیز یا شے ان کے لئے فائدہ مند ہے اور کون سی غذائیں انہیں نقصان پہنچاسکتی ہیں، لہٰذا وہ ایسی اشیاء کااس وقت تک بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کے مضراثرات ان کی صحت پر اثر انداز نہیں ہو جاتے۔

حکیم بقراط کا قول ہے کہ ’’بیماری کوئی بجلی نہیں جو کسی پرآسمان سے اچانک ٹوٹ پڑتی ہو بلکہ یہ آپ کی ان چھوٹی چھوٹی زیادتیوں اور بے اعتدالیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جو آپ روزمرہ کی زندگی میں کرتے رہتے ہیں‘‘۔ کیا یہ اچھی بات نہیں کہ بیماری کی نوبت ہی نہ آئے، لیکن اس کے لئے آپ کو اپنی ان عادات پر قابو پانا ہوگا جن کے باعث آپ کو مختلف تکالیف اور امراض کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

لہٰذا اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسی خوراک سے حتی الامکان دریغ کیا جائے جو آپ کے جسم کو راس نہیں آتی یا جنہیں کھانے کے بعد آپ کا معدہ مشکل کاشکار ہو جاتا ہے۔ خوراک کے ماہرین نے اس ضمن میں تحقیق کرنے کے بعد چند ایسے اصول متعارف کرائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر آپ تاحیات صحت مند رہ سکتے ہیں بلکہ اس سے طبی عمر میں بھی اضافہ ہوگا۔

آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ کھانا سادہ اور زود ہضم ہو ۔ بہت زیادہ مرغن غذا نہ صرف جسم میں فاضل چربی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں بلکہ اس سے دیگر امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں، چونکہ یہ مصالحوں سے بھری ہوتی ہیں اس لئے نظام انہضام کو متاثر کرتی ہیں اور طبیعت پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ بھوک خواہ کتنی ہی تیز اور شدید کیوں نہ ہو، کھانا ہمیشہ چبا چبا کر کھاناچاہئے تاکہ ہر لقمے میں لعاب دہن بقدر ضرورت شامل ہو سکے۔

آہستہ کھانے سے کھانا نہ صرف طبیعت اور جسم کو فرحت بخشتا ہے بلکہ آسانی کے ساتھ جزوبدن بھی بن جاتا ہے ۔آپ اگر آہستہ کھانے کی وجہ سے سب لوگوں کے بعد دسترخوان سے اٹھتے ہیں تو یہ آپ کے لئے نہایت ہی اچھا ہے۔ اسی طرح کھانے کے اختتام پر ذرا سی بھوک رکھنابھی ضروری ہے اور کھانے کے دوران دو تین گھونٹ سے زیادہ پانی نہیں پیناچاہئے۔پھلوں میں امرود، تربوز، کھجور، گرم میوہ جات ہمیشہ تھوڑی مقدارمیں کھائیں۔

بیشک یہ چیزیں اپنے اندرافادیت و غذائیت کے خزانے رکھتی ہیں لیکن ان کا ایک ہی وقت میں زیادہ استعمال اکثر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح مچھلی،گوشت کے کباب ، میوئوں کا بنا ہوا حلوہ، زیادہ گھی والے پکوان، مٹھائیاں اور گھی میں تلی ہوئی ہر قسم کی غذائیں ہمیشہ کم مقدارمیں کھائیں۔ ویسے بھی ان اشیاء کا کثرت سے استعمال ان کے مخصوص ذائقے کی انفرادیت اور افادیت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈہ، مچھلی، گوشت ، سالن کی صورت میں بھی کم کھائیں۔ان چیزوں کا کثرت سے استعمال جسم میں غیر معمولی حرارت اور خون میں حدت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دل، جگر ، مثانے کی سوزش وحدت تنفس میں عدم توازن اور طبیعت میں اشتعال و ہیجان کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

بعض لوگ بازار کے کھانے کھانے کی عادت بنالیتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے بھی درست نہیں کیونکہ بازاری کھانے خالصتاً کاروباری نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر تیار کئے گئے ہوتے ہیں جس میں کوالٹی اور معیار کو سامنے نہیں رکھاجاتا اور دوسرا یہ کہ اس میں مصالحوں کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں۔ غرضیکہ حتی الامکان طورپر آپ بازاری کھانوں سے پرہیز کریں اور مجبوری کی صور ت میں محض دال یا سبزی کاانتخاب کریں ۔آپ کھانا گھرپر کھا رہے ہوں یا ہوٹل میں، ہمیشہ صاف برتن میں کھائیں۔ بہتر ہوگا کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں برتنوں کو صاف اور گرم پانی سے دھویاجائے۔

ہوٹلوںمیں برتنوں کو گندے پانی میں ہی دھو دیا جاتا ہے جس سے برتنوں میں جراثیم موجود رہتے ہیں جو ہیضہ، دستوں،الٹیوں اور دیگر معدے کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جسمانی توانائی قائم رکھنے کے لئے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانا ضروری ہے۔ یہ خیال سرے سے غلط ہے کیونکہ جب تک آپ کو بھوک نہیں لگتی آپ خواہ کھانے کا وقت ہوگیا ہو، مت کھائیں ۔ایسی صورت میں کھانا کبھی صحت کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا۔ بھوک نہ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ آ پ کے معدے میں موجود پہلی غذا ہضم نہیں ہوئی۔ اگر آپ اور کھائیں گے تو معدے پر بوجھ مزید بڑھ جائے گا، نتیجتاً آپ کو کٹھی ڈکاریں آئیں گے ، معدے میں تیزابیت بڑھ جائے گی۔

ہاضمے کی خرابی کی شکایت لاحق ہو جائے گی ،سینہ جلنے لگے گا ، غیر منطقی اور عجیب و غریب خواب آنے لگیں گے، لہٰذا کھانا ہمیشہ اس وقت کھائیں جب آپ کو واقعی بھوک محسوس ہو۔ غذا کے انتخاب میں ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کریں ۔ ایسی غذائیں جو آپ کو متعدد بار نقصان پہنچا چکی ہوں ان سے گریز کریں یا ان کے استعمال سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ہلکی پھلکی ورزش کو اپنا معمول بنائیے۔ خصوصا ایسے افراد جو سارا دن کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ صبح سویرے ڈیڑھ دو میل تک چہل قدمی کریں یا دن میں کسی بھی وقت ہلکی پھلکی ورزش ضرور کریں۔

The post کھانے میں زیادتی اور بے اعتدالی امراض کو دعوت appeared first on ایکسپریس اردو.

الرجی کا باعث بننے والی غذائیں

$
0
0

عام طورالرجی کا شکار لوگ موسم کی خرابی کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن ماہرین طب کا کہنا ہے کہ الرجی کی وجہ صرف موسم نہیں بلکہ کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کو کھانے سے الرجی ہوجاتی ہے ان میں چند ایسی غذائیں شامل ہیں جوعام طور پر شوق سے کھائی جاتی ہیں لیکن بہت سے لوگوں میں الرجی کا باعث بن جاتی ہیں۔

مونگ پھلی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی 0.4 فیصد سے لے کر 0.6 فیصد لوگوں کو متاثر کرتی ہے جس سے  ہونے والی الرجی غذائی نظام، جلدی اور دمہ جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔

سویا بین: سویا بین میں فیٹو ایسٹروجن اور فائبر کی کی بڑی مقدار میں موجودگی الرجی کا باعث بنتی ہے اور جو پیٹ میں گیس، منہ سوجن، پیٹ میں سوزش، پیٹ کا درد اور ہیضہ کا باعث بنتا ہے۔

سبزیاں: ماہر طب کے مطابق گاجر، پالک، گوبھی، پیاز، ادرک، پھول گوبھی، آلو اور کدو ایسی سبزیاں ہیں جو الرجی کا باعث بن سکتی ہیں ان سے جلد پر لال نشان، پیٹ کا درد اور گیس جیسی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

پھل: اسی طرح اسٹرابری، کیلا، مالٹا اور انگور بھی کچھ لوگوں میں الرجی کا باعث ہوسکتے ہیں کیوں کہ ان میں ترش پن ہوتا ہے اس لیے ان سے عام طو پر اٹوپک الرجی ہو سکتی ہے۔

گندم کا آٹا: گندم کا آٹا بھی کچھ لوگوں میں الرجی کی وجہ بن سکتا ہے اس سے سیلک یا شکم میں سوزش جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سیلک انسانی جسم میں موجود چھوٹی آنت کو متاثر کرتی ہے اور اس کو اہم غذائی اجزا کو جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے یہ الرجی جو اورگیہوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔

گائے کا دودھ: گائے کے دودھ میں پروٹین کیسین اور بٹا لیکٹو گلوبن نامی الرجی عناصر موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں میں گردے کی تکلیف ہوسکتی ہے اس سے دیگر الرجی ری ایکشن میں پیٹ کا درد اور پیچس ہوسکتے ہیں۔

انڈے: کچھ لوگوں میں انڈے کھانے سے الرجی ری ایکشن ہوجاتا ہے جس سے جلدی بیماری کوٹا نیوس ہوسکتی ہے۔

مچھلی اور گوشت: مچھلی اور گوشت کھانے سے انفیکشن اورٹیکیریا، آنتوں کا درد اور کچھ کیسز میں دمہ جیسی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔

کولڈ ڈرنکس اور جوسز: کولڈ ڈرنکس اور جوسز کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا الرجی کا باعث بن سکتے ہیں جس سے پیٹ کا درد اور گیس جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔  ڈاکٹرز کا کہنا ہے جن لوگوں کو ان غذاؤں سے الرجی ہوتی ہے وہ ان کے استعمال سے گریز کریں۔

The post الرجی کا باعث بننے والی غذائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

سگریٹ نوشی کرنے والوں میں دماغی امراض کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، رپورٹ

$
0
0

لندن: بین الاقوامی شہرت یافتہ جریدے لینسٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سگریٹ نہ پینے والے افراد کے مقابلے میں سگریٹ پینے والے افراد میں دماغی اورذہنی امراض سے متاثرہونے کا خطرہ تین گنا ذیادہ ہوسکتا ہے۔

کنگزکالج کے ماہرین نے تقریباً 61 مطالعوں اورسروے کا جائزہ لیتے ہوئے سگریٹ پینے والے 15 ہزار افراد کا سگریٹ نہ پینے والے 2 لاکھ 73 ہزار افراد سے باہمی موازنہ کیا ۔ یہ سروے اور مطالعے  1980 سے 2014 کے درمیان کیے گئے تھے جس سے معلوم ہوا کہ دماغی اور ذہنی مرض میں مبتلا 57 فیصد افراد سگریٹ نوش تھے جب کہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ روزانہ سگریٹ پینے والے افراد میں تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں دماغی بیماریاں بہت پہلے ہی پیدا ہوگئی تھیں۔

تجزیے کے بعد ماہرین اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد دراصل سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں اوہام، وسوسوں اورغیر حقیقی خیالی تجربات کا زیادہ شکار ہوسکتے ہیں اس لیے تمباکو نوشی شیزوفرینیا کی ان بنیادی علامات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کے مقابلے میں سگریٹ نوش افراد میں پاگل پن کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

اس مطالعے کے بعد ماہرین کا اصرار ہے کہ دماغی اور ذہنی امراض کے علاج میں سگریٹ نوشی کو ایک اہم عنصر قرار دینا چاہیے،سگریٹ میں موجود زہریلا نکوٹین دماغ پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

The post سگریٹ نوشی کرنے والوں میں دماغی امراض کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

پراسرار مرض میں مبتلا خاتون ہنستے ہنستے بے ہوش ہوجاتی ہے

$
0
0

شیفلڈ: ٹریسی ہیئرنگ کی عمر 44 سال ہے اور وہ مزاحیہ فلمیں اور جذباتی پروگرام نہیں دیکھتیں کیونکہ ہنسی، غمی اور غصے کی کیفیات میں ان کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں جس کے باعث وہ بے ہوش ہوجاتی ہیں۔

ٹریسی کو کیٹاپلیکسی کا مرض لاحق ہے اور انہوں نے 2003 سے اب تک کوئی کامیڈی فلم نہیں دیکھی ہے۔ اس مرض میں جذبات کی شدت سے ان کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ زور سے ہنستے ہوئے ان کی گردن کمزور پڑنے لگتی ہے اور ہاتھ پاؤں پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور ان دھڑ دائیں طرف سے کچھ دیر کے لیے ناکارہ ہوجاتا ہے اور کئی دفعہ وہ بے ہوش ہوجاتی ہیں اور یہ واقعہ سال میں ایک دو مرتبہ لازمی ہوتا ہے۔ دوستوں کی محفل میں بھی وہ لوگوں سے لطیفے سنانے سے منع کرتی ہیں۔

کیٹاپلیکسی کا پہلا دورہ انہیں 32 سال کی عمر میں پڑا تھا اور تمام احتیاط کے باوجود بھی وہ کبھی کبھی اس کیفیت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس مرض میں وقتی دورے کے دوران ان کا جبڑا لٹک جاتا ہے، پاؤں ڈگمگاتے ہیں، سر ڈھلک جاتا ہے اور بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور یہ کیفیت چند سیکنڈوں سے کئی منٹوں تک رہتی ہے۔

The post پراسرار مرض میں مبتلا خاتون ہنستے ہنستے بے ہوش ہوجاتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


کراچی کے بلڈ بینکوں میں “او”اور “بی”گروپ کا خون نایاب، سیکڑوں مریضوں کی زندگیاں داؤ پرلگ گئیں

$
0
0

 کراچی: شہر کے بلڈ بینکوں میں او اور بی گروپ کا خون نہ ہونے کے باعث تھیلیسمیا کے 400 کے قریب بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں تھیلیسیمیا کے 400 بچوں کو فوری طور پر او اور بی گروپ کے خون کی ضرورت ہے تاہم جب ان بچوں کے اہل خانہ نے شہر کے متعدد بلڈ بینکوں سے رابطہ کیا پتہ چلا کہ کسی بھی بلڈ بینک میں او اور بی گروپ کا خون موجود نہیں ہے جس کے باعث ان بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے علم یہ بات نہیں ہے تاہم بلڈ بینک میں خون نہ ہونے کی وجوہات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت اور بلڈ بینک انتظامیہ کی جانب سے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خون عطیہ کریں تاکہ ان مریضوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔

The post کراچی کے بلڈ بینکوں میں “او” اور “بی” گروپ کا خون نایاب، سیکڑوں مریضوں کی زندگیاں داؤ پرلگ گئیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ذیابیطس کے مریض کے لیے تکلیف دہ انجکشن سے نجات کیلیے انسولین پیچ تیار

$
0
0

نارتھ کیرولینا: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا اور اس کے ایک ذیلی تحقیقی ادارے نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انسولین پیچ تیار کیا ہے جو بہت جلد انسولین کے تکلیف دہ انجکشن کی جگہ لے سکے گا۔

ڈپارٹمنٹ آف بائیومیڈیکل انجینیئرنگ کے پروفیسر کے مطابق جسم پر چپکنے والے پیچ کے ذریعے خود کار انداز میں مریضوں کے جسم میں انسولین پہنچانا ممکن ہوگا یہ اسمارٹ پیچ خون میں انسولین کی کمی کو نوٹ کرتے ہوئے ازخود انسولین خارج کرکے اسے خون میں شامل کردیتا ہے اور ساتھ ہی یہ طریقہ خون میں شکر کی مقدار بار بار ٹیسٹ کرنے سے نجات دلاتا ہے بلکہ انجیکشن کے تکلیف دہ عمل کو بھی ختم کرتا ہے۔

اس کے لیے پیچ میں لگ بھگ 100 باریک ترین سوئیاں لگائی گئی ہیں، ہر سوئی میں انسولین ہے اور کچھ اینزائم بھی ہیں جو خون میں شکر کی مقدار کو نوٹ کرتے رہتے ہیں اور جوں ہی خون میں شکر کی مقدار کم ہوتی ہے وہ انسولین خارج کردیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ فی الحال یہ پیچ صرف 9 گھنٹے کے لیے ہی کارآمد ہے اور اس کے بعد دوسرا نیا پیوند لگانا پڑتا ہے لیکن بہت جلد ایسا پیچ تیار کرلیا جرئاے گا جو کئی دنوں تک کار آمد رہ سکے گا۔

 

The post ذیابیطس کے مریض کے لیے تکلیف دہ انجکشن سے نجات کیلیے انسولین پیچ تیار appeared first on ایکسپریس اردو.

ناریل کا تیل استعمال کیجیے اورصحت وخوبصورتی ساتھ ساتھ پائیں

$
0
0

عام طور پر ناریل کے تیل کو بالوں کے لئے مفید قراردیا جاتا ہے تاہم برصغیر پاک و ہند کے کئی علاقوں میں اسے کھانے اور مالش کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے،لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس کے کئی فوائد سے لاعلم ہیں۔

کیل مہاسوں کے لئے مفید:

ناریل کا تیل جہاں مختلف اقسام کے وٹامنز اور منرلزسے بھرپور ہوتا ہے وہیں اس میں اینٹی بیکٹیریل اوراینٹی فنگل اجزا شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا باقاعدہ استعمال کیل مہاسوں کو بننے سے روکتا ہے۔

سن اسکرین:

ناریل کا تیل قدرتی سن اسکرین کا کام کرتا ہے اس کا استعمال سورج کی تمازت سے آپ کے رنگ و روپ کو گہنانے نہیں دیتا۔

قدرتی موئسچرائزر:

ناریل کا تیل قدرتی موئسچرائزر ہے اس کا استعمال خشکی کا خاتمہ کرکے  جلد کو نرم اور ملائم بناتا ہے اور جلدی خارش کا خاتمہ کرتا ہے.

آنکھوں کے حلقے اورجھریوں کا خاتمہ:

ناریلی کے تیل کی ہلکے ہاتھ سے باقاعدہ مالش سے آنکھوں کے گرد موجود سیاہ ہلکے اور جھریون کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔

 

 

The post ناریل کا تیل استعمال کیجیے اورصحت وخوبصورتی ساتھ ساتھ پائیں appeared first on ایکسپریس اردو.

ورزش سے درمیانی عمر کے مردوں میں ہڈیوں کی کمزوری کا خاتمہ ممکن، ماہرین

$
0
0

میسوری، امریکہ: وزن اُٹھانے اور رسی کودنے سے بڈیوں کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے اور درمیانی عمر کے مردوں اس عمل سے ہڈیوں کی بریدگی کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے،

مردوں میں عمر رسیدگی کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کا بھربھراپن پیدا ہوتا ہے اور ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن کم ازکم 6 ماہ تک وزن اٹھانے کی بعض مشقیں کرنے والے ادھیڑ عمر کے افراد میں ہڈیوں کی کمزوری اور ان کے ختم ہونے کے واضح آثار دیکھے گئے۔

بون نامی تحقیق جرنل میں شائع ہونی والی ایک رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے درمیانی عمر کے مردوں کو جب 6 ماہ تک رسی کودنے اور ہلکا وزن اٹھانے کی مشقیں کرائی گئیں تو نہ صرف ان کی ہڈیاں ٹھوس رہیں بلکہ ان میں ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی رک گئی۔

وزن اٹھانے کا مقصد مطالعے میں شامل افراد کی پٹھوں میں تبدیلی کا جائزہ لینا تھا لیکن اس کے بہت مثبت اثرات ہڈیوں پر بھی پڑے اور ان میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھی گئی اور یہاں تک کہ ہڈیوں کی کمزوری کی بعض علامات بالکل غائب ہوگئیں۔ اس سرگرمی میں شامل تمام افراد کو ہفتے میں 60 سے 120 منٹ تک ورزشیں کرائی گئی تھیں اور انہیں وٹامن ڈی اور کیلشیئم بھی دی گئی تھی، ماہرین کے مطابق یہ ورزشیں گھر میں بھی کی جاسکتی ہیں۔

The post ورزش سے درمیانی عمر کے مردوں میں ہڈیوں کی کمزوری کا خاتمہ ممکن، ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.

بچوں میں ڈپریشن کی علامات اور اسباب

$
0
0

دنیا بھر میں انسانوں کو لاحق ہونے والے ذہنی امراض میں ڈپریشن سب سے زیادہ عام بیماری ہے۔ ڈپریشن یعنی یاسیت اور افسردگی کا شکار بڑے ہی نہیں بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری پر طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلوغت سے پہلے ڈپریشن کا ایک فی صد خدشہ پایا جاتا ہے جب کہ بلوغت کے بعد یہ بڑھ کر تین فی صد ہو جاتا ہے۔

زندگی کے ابتدائی سال میں بچے اپنے ماحول اور معاملات کو پوری طرح سمجھنے اور اپنی کیفیات یا مسائل کو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے، لیکن کسی بھی ناخوش گوار واقعے، تلخ تجربے اور غیرمعمولی بات کا ان پر گہرا اثر ہوسکتا ہے۔ اس عمر میں بچوں کو خاص طور پر والدین کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

بچوں میں ڈپریشن کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری پر طبی تحقیق بتاتی ہے کہ والدین ڈپریشن کا شکار ہوں تو بچوں میں بھی یہ مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ زندگی کی سختیاں اور مشکلات، منفی واقعات، کوئی بڑا جذباتی دھچکا اور صدمہ مثلاً والدین کی موت اور زندگی میں پیش آنے والا کوئی الم ناک حادثہ بھی ڈپریشن کی وجہ بن سکتا ہے۔ لڑکیوں کو خصوصاً بلوغت کے بعد یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔

گھر کا ماحول بچوں کی ذہنی حالت اور کیفیات پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ گھر میں لڑائی جھگڑے اور تلخ کلامی یا ماں باپ کا اپنے بچوں کو بات بات پر مارنا، تحقیر کرنا اور مسلسل حوصلہ شکنی بھی اس بیماری کا سبب بنتی ہے۔ Cortisol نامی ایک ہارمون میں بگاڑ کو بھی بچوں میں ڈپریشن کا سبب بتایا جاتا ہے۔ والدین کے علاوہ دوستوں اور اساتذہ کا منفی رویہ بھی کم عمری میں انسان کو افسردگی اور یاسیت کا شکار بنا سکتا ہے۔

ڈپریشن کی واضح علامتوں میں مزاج میں تبدیلی سرِفہرست ہے۔ افسردہ اور اداس نظر آنے کے ساتھ بچہ معمولی معمولی باتوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر بچے کھیل کود، ٹی وی پر من پسند پروگرامز دیکھنے یا کمپیوٹر پر گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں، لیکن ڈیریشن کی وجہ سے ہر کام سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔

تفریح کے علاوہ ان کی تعلیم پر بھی مزاج میں تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ ایسا بچہ شدید احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔ پڑھائی میں انہماک کم ہوجاتا ہے۔ ڈپریشن کی وجہ سے خود اعتمادی جاتی رہتی ہے۔ شدید ڈپریشن کا شکار بعض بچے خود کُشی کرنے سے متعلق خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہیے۔

ڈپریشن کا مرض جسمانی تبدیلیوں کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایسے بچے کم زوری محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ اور معمولی نوعیت کے کام انجام دینے کے بعد بھی تھکاوٹ کی شکایت کرتے ہیں۔ وہ روزانہ نہانے، کپڑے تبدیل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے۔ اسی طرح دوستوں اور گھر والوں سے بھی الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ ان کی نیند اور بھوک بھی متأثر ہوتی ہے۔ بعض بچے خود کو جسمانی نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔

مثلاً مزاج کے خلاف ہونے والی کسی بات پر شدید غصّے کا اظہار کرنے کے ساتھ اپنا سَر دیوار پر مارتے ہیں۔ بلوغت کے بعد عموماً اداسی سے زیادہ مزاج میں غصہ دیکھا جاتا ہے۔ بچہ نشہ آور اشیا کا استعمال بھی شروع کرسکتا ہے۔ اس مرض کی ایک قسم Masked Depression کہلاتی ہے، جس میں بچہ اداس اور چڑچڑاہٹ کا اظہار تو نہیں کرتا، لیکن پیٹ اور سَر میں درد کی شکایت کرنے لگتا ہے۔ کھانے پینے کی طرف رغبت نہیں رہتی جب کہ سوتے ہوئے اس کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔

ایک طبی جائزے کے مطابق کم عمری میں ڈپریشن علاج کروانے والوں میں سے 58 فی صد کو جوانی میں بھی یہ مرض تشخیص کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کروانے کے باوجود بڑے ہونے پر کوئی بھی فرد دوبارہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ڈپریشن کے علاج کے لیے طبی ماہرین بچے کے گھر کا ماحول سمجھتے ہیں اور اس کی زندگی سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے گھر کا ماحول بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیتے ہیں اور والدین کو مسائل میں کمی لانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کی ہمت بڑھائی جائے اور ہر معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

اگر بچوں کے والدین ڈپریشن کا شکار ہیں تو ان کا علاج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے علاج میں ان کے اساتذہ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ بچہ اسکول میں اپنے کسی ساتھی طالبِ علم کے تنگ کرنے یا استاد کے نامناسب رویے سے بھی دبائو کا شکار ہو سکتا ہے۔

نفسیاتی الجھنیں دور کرنے کے لیے سائیکو تھراپی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس میں ماہرِ نفسیات بچے سے گفتگو کر کے اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دوائوں سے بھی علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شدید نوعیت کے ڈپریشن کی صورت میں دوائوں کے ساتھ ڈاکٹر سائیکو تھراپی سے بھی مدد لیتے ہیں۔

The post بچوں میں ڈپریشن کی علامات اور اسباب appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4399 articles
Browse latest View live




Latest Images